Blog
Books
Search Hadith

وؤیت الہٰی کس کس طریقے سے ہو گی ؟

Chapter: Affirming that the believers will see their Lord, Glorious is he and most high, in the hereafter

9 Hadiths Found
عبد اللہ بن قیس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا : ’’دو جنتیں چاندی کی ہیں ، ان کے برتن بھی اور جو کچھ ان میں ہے ( وہ بھی ۔ ) اور دو جنتیں سونے کی ہیں 8 ان کے برتن بھی اور جو کچھ ان میں ہے ۔ جنت عدن میں لوگوں کے اور ان کے رب کی رؤیت کے درمیان اس کے چہرے پر عظمت و کبریائی کی جو چادر ہے اس چادر کے سوا کوئی چیز نہیں ہو گی ۔ ‘ ‘

Abdullah b. Qais transmitted on the authority of his father (Abu Musa Ash'ari) that the Apostle ( ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وسلم ‌ ) said: There would be two gardens (in Paradise) the vessels and contents of which would be of silver, and two gardens whose vessels and contents would be of gold. The only thing intervening to hinder the people from looking at their Lord will be the mantle of Grandeur over His face in the Garden of Eden.

Haidth Number: 448
عبد الرحمن بن مہدی نے کہا : ہمیں حماد بن سلمہ نے ثابت بنانی سے حدیث بیان کی ، انہوں نے عبد الرحمن بن ابی لیلیٰ سے ، انہوں نے حضرت صہیب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے اور انہوں نے نبی ﷺ سے روایت کی ، آپ نے فرمایا : ’’جب جنت والے جنت میں داخل ہو جائیں گے ، ( اس وقت ) اللہ تبارک وتعالیٰ فرمائے گا تمہیں کوئی چیز چاہیے جو تمہیں مزید عطا کروں ؟ وہ جواب دیں گے : کیا تو نے ہمارے چہرے روشن نہیں کیے ! کیا تو نے ہمیں جنت میں داخل نہیں کیا اور دوزخ سے نجات نہیں دی؟ ‘ ‘ آپ ﷺ نے فرمایا : ’’ چنانچہ اس پر اللہ تعالیٰ پردہ اٹھا دے گا تو انہیں کوئی چیز ایسی عطا نہیں ہو گی جو انہیں اپنے رب عز وجل کے دیدار سے زیادہ محبوب ہو ۔ ‘ ‘

Suhaib reported the Apostle ( ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وسلم ‌ ) saying: When those deserving of Paradise would enter Paradise, the Blessed and the Exalted would ask: Do you wish Me to give you anything more? They would say: Hast Thou not brightened our faces? Hast Thou not made us enter Paradise and saved us from Fire? He (the narrator) said: He (God) would lift the veil, and of things given to them nothing would he dearer to them than the sight of their Lord, the Mighty and the Glorious.

Haidth Number: 449
( عبد الرحمن بن مہدی کےبجائے ) یزید بن ہارون نے حماد بن سلمہ سے اسی سند کے ساتھ حدیث بیان کی ۔ اس میں یہ اضافہ ہے : پھر آپ نے یہ آیت پڑھی : ﴿لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا الْحُسْنَى وَزِيَادَةٌ ﴾ ’’جن لوگوں نے بھلائی کی ان کے لیے خوبصورت ( جزا ) اور مزید ( دیدار الہٰی ) ہے ۔ ‘ ‘

Hammad b. Salama narrated it on the same authority and added: He then recited the verse: Those who do good will have the best reward and even more (x. 26)

Haidth Number: 450

حَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَزِيدَ اللَّيْثِيِّ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ، أَخْبَرَهُ أَنَّ نَاسًا قَالُوا لِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَا رَسُولَ اللهِ [ص:164]، هَلْ نَرَى رَبَّنَا يَوْمَ الْقِيَامَةِ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «هَلْ تُضَارُّونَ فِي رُؤْيَةِ الْقَمَرِ لَيْلَةَ الْبَدْرِ؟» قَالُوا: لَا يَا رَسُولَ اللهِ، قَالَ: «هَلْ تُضَارُّونَ فِي الشَّمْسِ لَيْسَ دُونَهَا سَحَابٌ؟» قَالُوا: لَا يَا رَسُولَ اللهِ، قَالَ: فَإِنَّكُمْ تَرَوْنَهُ، كَذَلِكَ يَجْمَعُ اللهُ النَّاسَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَيَقُولُ: مَنْ كَانَ يَعْبُدُ شَيْئًا فَلْيَتَّبِعْهُ، فَيَتَّبِعُ مَنْ كَانَ يَعْبُدُ الشَّمْسَ الشَّمْسَ، وَيَتَّبِعُ مَنْ كَانَ يَعْبُدُ الْقَمَرَ الْقَمَرَ، وَيَتَّبِعُ مَنْ كَانَ يَعْبُدُ الطَّوَاغِيتَ الطَّوَاغِيتَ، وَتَبْقَى هَذِهِ الْأُمَّةُ فِيهَا مُنَافِقُوهَا، فَيَأْتِيهِمُ اللهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى فِي صُورَةٍ غَيْرِ صُورَتِهِ الَّتِي يَعْرِفُونَ، فَيَقُولُ: أَنَا رَبُّكُمْ، فَيَقُولُونَ: نَعُوذُ بِاللهِ مِنْكَ، هَذَا مَكَانُنَا حَتَّى يَأْتِيَنَا رَبُّنَا، فَإِذَا جَاءَ رَبُّنَا عَرَفْنَاهُ، فَيَأْتِيهِمُ اللهُ تَعَالَى فِي صُورَتِهِ الَّتِي يَعْرِفُونَ، فَيَقُولُ: أَنَا رَبُّكُمْ، فَيَقُولُونَ: أَنْتَ رَبُّنَا فَيَتَّبِعُونَهُ وَيُضْرَبُ الصِّرَاطُ بَيْنَ ظَهْرَيْ جَهَنَّمَ، فَأَكُونُ أَنَا وَأُمَّتِي أَوَّلَ مَنْ يُجِيزُ، وَلَا يَتَكَلَّمُ [ص:165] يَوْمَئِذٍ إِلَّا الرُّسُلُ، وَدَعْوَى الرُّسُلِ يَوْمَئِذٍ: اللهُمَّ سَلِّمْ، سَلِّمْ، وَفِي جَهَنَّمَ كَلَالِيبُ مِثْلُ شَوْكِ السَّعْدَانِ، هَلْ رَأَيْتُمُ السَّعْدَانَ؟ قَالُوا: نَعَمْ يَا رَسُولَ اللهِ قَالَ: فَإِنَّهَا مِثْلُ شَوْكِ السَّعْدَانِ غَيْرَ أَنَّهُ لَا يَعْلَمُ مَا قَدْرُ عِظَمِهَا إِلَّا اللهُ، تَخْطَفُ النَّاسَ بِأَعْمَالِهِمْ، فَمِنْهُمُ الْمُؤْمِنُ بَقِيَ بِعَمَلِهِ، وَمِنْهُمُ الْمُجَازَى حَتَّى يُنَجَّى، حَتَّى إِذَا فَرَغَ اللهُ مِنَ الْقَضَاءِ بَيْنَ الْعِبَادِ، وَأَرَادَ أَنْ يُخْرِجَ بِرَحْمَتِهِ مَنْ أَرَادَ مِنْ أَهْلِ النَّارِ، أَمَرَ الْمَلَائِكَةَ أَنْ يُخْرِجُوا مِنَ النَّارِ مِنْ كَانَ لَا يُشْرِكُ بِاللهِ شَيْئًا مِمَّنْ أَرَادَ اللهُ تَعَالَى أَنْ يَرْحَمَهُ مِمَّنْ يَقُولُ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ، فَيَعْرِفُونَهُمْ فِي النَّارِ، يَعْرِفُونَهُمْ بِأَثَرِ السُّجُودِ، تَأْكُلُ النَّارُ مِنَ ابْنِ آدَمَ إِلَّا أَثَرَ السُّجُودِ، حَرَّمَ اللهُ عَلَى النَّارِ أَنْ تَأْكُلَ أَثَرَ السُّجُودِ، فَيُخْرَجُونَ مِنَ النَّارِ وَقَدِ امْتَحَشُوا، فَيُصَبُّ عَلَيْهِمْ مَاءُ الْحَيَاةِ، فَيَنْبُتُونَ مِنْهُ كَمَا تَنْبُتُ الْحِبَّةُ فِي حَمِيلِ السَّيْلِ، ثُمَّ يَفْرُغُ اللهُ تَعَالَى مِنَ الْقَضَاءِ بَيْنَ الْعِبَادِ، وَيَبْقَى رَجُلٌ مُقْبِلٌ بِوَجْهِهِ عَلَى النَّارِ وَهُوَ آخِرُ أَهْلِ الْجَنَّةِ دُخُولًا الْجَنَّةَ، فَيَقُولُ: أَيْ رَبِّ، اصْرِفْ وَجْهِي عَنِ النَّارِ، فَإِنَّهُ قَدْ قَشَبَنِي رِيحُهَا، وَأَحْرَقَنِي ذَكَاؤُهَا، فَيَدْعُو اللهَ [ص:166] مَا شَاءَ اللهُ أَنْ يَدْعُوَهُ، ثُمَّ يَقُولُ اللهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى: هَلْ عَسَيْتَ إِنْ فَعَلْتُ ذَلِكَ بِكَ أَنْ تَسْأَلَ غَيْرَهُ؟ فَيَقُولُ: لَا أَسْأَلُكَ غَيْرَهُ، وَيُعْطِي رَبَّهُ مِنْ عُهُودٍ وَمَوَاثِيقَ مَا شَاءَ اللهُ، فَيَصْرِفُ اللهُ وَجْهَهُ عَنِ النَّارِ، فَإِذَا أَقْبَلَ عَلَى الْجَنَّةِ وَرَآهَا سَكَتَ مَا شَاءَ اللهُ أَنْ يَسْكُتَ، ثُمَّ يَقُولُ: أَيْ رَبِّ، قَدِّمْنِي إِلَى بَابُِ الْجَنَّةِ، فَيَقُولُ اللهُ لَهُ: أَلَيْسَ قَدْ أَعْطَيْتَ عُهُودَكَ وَمَوَاثِيقَكَ لَا تَسْأَلُنِي غَيْرَ الَّذِي أَعْطَيْتُكَ، وَيْلَكَ يَا ابْنَ آدَمَ، مَا أَغْدَرَكَ فَيَقُولُ: أَيْ رَبِّ، يَدْعُو اللهَ حَتَّى يَقُولَ لَهُ: فَهَلْ عَسَيْتَ إِنْ أَعْطَيْتُكَ ذَلِكَ أَنْ تَسْأَلَ غَيْرَهُ؟ فَيَقُولُ: لَا وَعِزَّتِكَ، فَيُعْطِي رَبَّهُ مَا شَاءَ اللهُ مِنْ عُهُودٍ وَمَوَاثِيقَ، فَيُقَدِّمُهُ إِلَى بَابُِ الْجَنَّةِ، فَإِذَا قَامَ عَلَى بَابُِ الْجَنَّةِ انْفَهَقَتْ لَهُ الْجَنَّةُ، فَرَأَى مَا فِيهَا مِنَ الْخَيْرِ وَالسُّرُورِ، فَيَسْكُتُ مَا شَاءَ اللهُ أَنْ يَسْكُتَ، ثُمَّ يَقُولُ: أَيْ رَبِّ، أَدْخِلْنِي الْجَنَّةَ، فَيَقُولُ اللهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى لَهُ: أَلَيْسَ قَدْ أَعْطَيْتَ عُهُودَكَ وَمَوَاثِيقَكَ أَنْ لَا تَسْأَلَ غَيْرَ مَا أُعْطِيتَ؟، وَيْلَكَ يَا ابْنَ آدَمَ، مَا أَغْدَرَكَ، فَيَقُولُ: أَيْ رَبِّ، لَا أَكُونُ أَشْقَى خَلْقِكَ، فَلَا يَزَالُ يَدْعُو اللهَ حَتَّى يَضْحَكَ اللهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى مِنْهُ، فَإِذَا ضَحِكَ اللهُ مِنْهُ قَالَ: ادْخُلْ الْجَنَّةَ، فَإِذَا دَخَلَهَا قَالَ اللهُ لَهُ: تَمَنَّهْ، فَيَسْأَلُ رَبَّهُ وَيَتَمَنَّى حَتَّى إِنَّ اللهَ لَيُذَكِّرُهُ مِنْ كَذَا وَكَذَا، حَتَّى إِذَا انْقَطَعَتْ بِهِ الْأَمَانِيُّ، قَالَ اللهُ تَعَالَى: ذَلِكَ لَكَ وَمِثْلُهُ مَعَهُ ، قَالَ عَطَاءُ بْنُ يَزِيدَ، وَأَبُو سَعِيدٍ الْخُدْرِيُّ، مَعَ أَبِي هُرَيْرَةَ لَا يَرُدُّ عَلَيْهِ مِنْ حَدِيثِهِ شَيْئًا، حَتَّى إِذَا حَدَّثَ أَبُو هُرَيْرَةَ أَنَّ اللهَ قَالَ لِذَلِكَ الرَّجُلِ: «وَمِثْلُهُ مَعَهُ»، قَالَ أَبُو سَعِيدٍ: «وَعَشْرَةُ أَمْثَالِهِ مَعَهُ»، يَا أَبَا هُرَيْرَةَ، قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: مَا حَفِظْتُ إِلَّا قَوْلَهُ: «ذَلِكَ لَكَ وَمِثْلُهُ مَعَهُ»، قَالَ أَبُو سَعِيدٍ: أَشْهَدُ أَنِّي حَفِظْتُ مِنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَوْلَهُ: «ذَلِكَ لَكَ وَعَشْرَةُ أَمْثَالِهِ»، قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: وَذَلِكَ الرَّجُلُ آخِرُ أَهْلِ الْجَنَّةِ دُخُولًا الْجَنَّةَ.

یعقوب بن ابراہیم نے حدیث بیان کی ، کہا : میرے والد نے ہمیں ابن شہاب زہری سے حدیث سنائی ، انہوں نے عطاء بن یزید لیثی سے روایت کی کہ ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ نے انہیں بتایا : کچھ لوگوں نے رسو ل اللہ ﷺ سے عرض کی کہ اللہ کے رسول ! کیا ہم قیامت کے دن اپنے رب کو دیکھیں گے ؟ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’کیا تمہیں پورے چاند کی رات کو چاند دیکھنے میں کوئی دقت محسوس ہوتی ہے ؟ ‘ ‘ لوگوں نے کہا : نہیں ، اے اللہ کے رسول! آپ نے فرمایا : ’’ جب بادل حائل نہ ہوں تو کیا سورج دیکھنے میں تمہیں کوئی دقت محسوس ہوتی ہے ؟ ‘ ‘ صحابہ نے عرض کی : نہیں ، اے اللہ کے رسول ! آپ نے فرمایا : ’’ تم اسے ( اللہ ) اسی طرح دیکھو گے ، اللہ تعالیٰ قیامت کےدن تمام لوگوں کو جمع کرے گا ، پھر فرمائے گا : جو شخص جس چیز کی عبادت کرتا تھا اسی کے پیچھے چلا جائے ، چنانچہ جوسورج کی پوجا کرتا تھا وہ سورج کے پیچھے چلا جائے گا ، جو چاند کی پرستش کرتا تھا وہ ا س کے پیچھے چلا جائے گااور جو طاغوتوں ( شیطانوں ، بتوں وغیرہ ) کی پوجا کرتا تھا وہ طاغوتی کے پیچھے چلا جائے گا اور صرف یہ امت ، اپنے منافقوں سمیت ، باقی رہ جائے گی ۔ اس پر اللہ تبارک وتعالیٰ ان کے پاس اپنی اس صورت میں آئے گا جس کو وہ پہچان سکتےہوں گے ، پھر فرمائے گا : میں تمہارارب ہوں ۔ وہ کہیں گے : ہم تجھ سے اللہ کی پناہ چاہتے ہیں ، ہم اسی جگہ ٹھہرے رہیں گے یہاں تک کہ ہمارارب ہمارے پاس آ جائے ، جب ہمارا رب آئے گا ہم اسے پہچان لیں گے ۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ ان کے پاس اس صورت میں آئے گا جس میں وہ اس کو پہچانتے ہوں گے اور فرمائے گا : میں تمہارا پروردگار ہوں ۔ وہ کہیں گے ، تو ( ہی ) ہمارا رب ہے اور اس کے ساتھ ہو جائیں گے ، پھر ( پل ) صراط جہنم کے درمیانی حصے پر رکھ دیا جائے گاتو میں اور امت سب سے پہلے ہوں گے جو اس سے گزریں گے ۔ اس دن رسولوں کے سوا کوئی بول نہ سکے گا ۔ اور رسولوں کو پکار ( بھی ) اس دن یہی ہو گی : اے اللہ ! سلامت رکھ ، سلامت رکھ ۔ اور دوزخ میں سعدان کے کانٹوں کی طرح مڑے ہوئے سروں والے آنکڑے ہوں گے ، کیا تم نے سعدان دیکھا ہے ؟ ‘ ‘ صحابہ نے جواب دیا : جی ہاں ، اے اللہ کے رسول !آپ نے فرمایا : ’’وہ ( آنکڑے ) سعدان کے کانٹوں کی طرح کے ہوں گے لیکن وہ کتنے بڑے ہوں گے اس کو اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا ، وہ لوگ کو ان کے اعمال کا بدلہ چکانا ہوگا ۔ یہاں تک کہ جب اللہ تعالیٰ بندوں کے درمیان فیصلے سے فارغ ہو جائے گا اور ارادہ فرمائے گا کہ اپنی رحمت سے ، جن دوزخیوں کو چاہتا ہے ، آگ سے نکالے تو وہ فرشتوں کو حکم دے گا کہ ان لوگوں میں سے جو اللہ کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہیں ٹھہراتے تھے ، لا الہ الا اللہ کہنے والوں میں سے جن پر اللہ تعالیٰ رحمت کرنا چاہے گا انہیں آگ سے نکال لیں ۔ فرشتے ان کو آگ میں پہچان لیں گے ۔ وہ ا نہیں سجدوں کے نشان سے پہچانیں گے ۔ آگ سجدے کے نشانات کے سوا ، آدم کے بیٹے ( کی ہر چیز ) کو کھا جائے گی ۔ ( کیونکہ ) اللہ تعالیٰ نے آگ پر سجدے کے نشانات کو کھانا حرام کر دیا ہے ، چنانچہ وہ اس حال میں آگ سے نکالے جائیں گےکہ جل کر کوئلہ بن گئے ہوں گے ، ان پر آپ حیات ڈالا جائے گا تو وہ اس کے ذریعے سے اس طرح اگ آئیں گے ، جیسے سیلاب کی لائی ہوئی مٹی میں گھاس کا بیج پھوٹ کر اگ آتا ہے ۔ پھر اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے درمیان فیصلے سے فارغ ہو جائے گا ۔ بس ایک شخص باقی ہو گا ، جس نے آگ کی طرف منہ کیا ہو ا ہو گا ، یہی آدمی ، تمام اہل جنت میں سے ، جنت میں داخل ہونے والا آخری شخص ہو گا ۔ وہ عرض کرے گا : میرا باپ ! میرا چہرہ آگ سے پھیر دے کیونکہ اس کی بدبونے میری سانسوں میں زہر بھر دیا ہے اور اس کی تپش نے مجھے جلا ڈالا ہے ، چنانچہ جب تک اللہ کو منظور ہو گا ، وہ اللہ کو پکارتا رہے گاپھر اللہ تبارک و تعالیٰ فرمائے گا : کیا ایسا ہو گا کہ اگر میں تمہارے ساتھ یہ ( حسن سلوک ) کر دوں تو تم کچھ اور مانگنا شروع کر دو گے؟وہ عرض کرے گا : میں تجھ سے اور کچھ نہیں مانگوں گا ۔ وہ اپنے رب عز وجل کو جو عہد و پیمان وہ ( لینا ) چاہے گا ، دے گا ، تو اللہ اس کا چہرہ دوزخ سے پھیر دے گاجب وہ جنت کی طرف رخ کرے گا اور اسے دیکھا گا تو جتنی دیر اللہ چاہے گا کہ وہ چپ رہے ( اتنی دیر ) چپ رہے گا ، پھر کہے گا : میرا رب! مجھے جنت کے دروازے تک آگے کر دے ، اللہ تعالیٰ اس سے کہے گا : کیا تم نے عہد و پیمان نہیں دیے تھے کہ جو کچھ میں نے تمہیں عطاکر دیا ہے اس کےسوا مجھ سے کچھ اور نہیں مانگو گے؟ تجھ پر ا فسوس ہے ! آدم کے بیٹے ! تم کس قدر عہد شکن ہو ! وہ کہے گا : اے میرے رب ! اور اللہ سے دعا کرتا رہے گا حتی کہ اللہ اس سے کہے گا : کیا ایسا ہو گا کہ اگر میں نے تمہیں یہ عطا کر دیا تو اس کے بعد تو اور کچھ مانگنا شروع کر دے گا؟ وہ کہے گا : تیری عزت کی قسم ! ( اور کچھ ) نہیں ( مانگوں گا ۔ ) وہ اپنے رب کو ، جواللہ چاہے گا ، عہد و پیمان دے گا ، اس پر اللہ اسے جنت کے دروازے تک آگے کر دے گا ، پھرجب وہ جنت کے دروازے پر کھڑا ہو گا تو جنت اس کے سامنے کھل جائے گی ۔ اس میں جو خیر اور سرور ہے وہ اس کو ( اپنی آنکھوں سے ) دیکھے گا ۔ تو جب تک اللہ کو منظور ہو گا وہ خاموش رہے گا ، پھر کہے گا : میرے رب! مجھے جنت میں داخل کر دے ، تو اللہ تعالیٰ اس سے کہے گا ، کیا تو نے پختہ عہد و پیمان نہ کیے تھے کہ جو کچھ تجھے دے دیا گیا ہے اس کے سوا اور کچھ نہیں مانگے گا؟ ابن آدم تجھ پر افسوس! تو کتنا بڑا وعدہ شکن ہے ۔ وہ کہے گا : اے میرے رب ! میں تیری مخلوق کا سب سے زیادہ بدنصیب شخص نہ بنوں ، وہ اللہ تعالیٰ کو پکارتا رہے گا حتی کہ اللہ عزوجل اس پر ہنسے گا اور جب اللہ تعالیٰ ہنسے گا ( تو ) فرمائے گا : جنت میں داخل ہو جا ۔ جب وہ اس میں داخل ہو جائے گا تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا ، تمنا کر ! تو وہ اپنے رب سے مانگے گا اور تمنا کرے گا یہاں تک کہ اللہ اسے یاد دلائے گا ، فلاں چیز ( مانگ ) فلاں چیز ( مانگ ) حتی کہ جب اس کی تمام آرزوئیں ختم ہو جائیں گی تواللہ تعالیٰ فرمائے گا : یہ سب کچھ تیرا ہے اور اس کے ساتھ اتنا ہی اور بھی ۔ ‘ ‘ عطاء بن یزید نے کہا کہ ابو سعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ بھی ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ کے ساتھ موجود تھے ، انہوں نے ان کی کسی بات کی تردید نہ کی لیکن جب ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ نے یہ بیان کیا کہ اللہ تعالیٰ اس آدمی سے فرمائے گا : ’’ یہ سب کچھ تیرا ہوا اور اس کے ساتھ اتناہی اور بھی ‘ ‘ تو ابوسعید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ فرمانے لگے : ابو ہریرہ! اس کے ساتھ اس سے دس گنا ( اور بھی ) ، ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ نے کہا : مجھے تو آپ کا یہی فرمان یاد ہے : ’’یہ سب کچھ تیرا ہے اور اس کے ساتھ اتناہی اور بھی ۔ ‘ ‘ ابو سعید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ نے کہا : میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سن کر آپ کا یہ فرمان دیکھا ہے : ’’ یہ سب تیرا ہوا اور اس سے دس گنا اور بھی ۔ ‘ ‘ ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ نے کہا : یہ جنت میں داخل ہونے والا سب سے آخری شخص ہو گا

Abu Haraira reported: The people said to the Messenger of Allah ( ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وسلم ‌ ): Messenger of Allah, shall we see our Lord on the Day of Resurrection? The Messenger of Allah ( ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وسلم ‌ ) said: Do you feel any trouble in seeing the moon on the night when it is full? They said: Messenger of Allah, no. He (the Messenger) further said: Do you feel any trouble in seeing the sun, when there is no cloud over it? They said: Messenger of Allah. no. He (the Holy Prophet) said: Verily you would see Him like this (as you see the sun and the moon). God will gather people on the Day of Resurrection and say: Let every people follow what they worshipped. Those who worshipped the sun would follow the sun, and those who worshipped the moon would follow the moon, and those who worshipped the devils would follow the devils. This Ummah (of Islam) alone would be left behind and there would be hypocrites too amongst it. Allah would then come to them in a form other than His own Form, recognisable to them, and would say: I am your Lord. They would say: We take refuge with Allah from thee. We will stay here till our Lord comes to us. and when our Lord would come we would recognise Him. Subsequently Allah would come to them in His own Form, recognisable to them, and say: I am your Lord. They would say: Thou art our Lord. And they would follow Him, and a bridge would be set over the Hell; and I (the Holy Prophet) and my Ummah would be the first to pass over it; and none but the messengers would speak on that day, and the prayer of the messengers on that day would be: O Allah! grant safety, grant safety. In Hell, there would be long spits like the thorns of Sa'dan He (the Holy Prophet) said: Have you seen Sa'dan? They replied: Yes, Messenger of Allah. He said: Verily those (hooks) would be like the thorns of Sa'dan, but no one knows their size except Allah. These would seize people for their misdeeds. Some of them would escape for their (good) deeds, and some would be rewarded for their deeds till they get salvation. When Allah would finish judging His bondsmen and because of His mercy decide to take out of Hell such people as He pleases. He would command the angels to bring out those who had not associated anything with Allah; to whom Allah decided to show mercy. those who would say: There is no god but Allah. They (the angels) would recognise them in the Fire by the marks of prostration, for Hell-fire will devour everything (limb) of the sons of Adam except the marks of prostration. Allah has forbidden the fire to consume the marks of prostration. They will be taken out of the Fire having been burnt, and the water of life would be poured over them, and they will sprout as seed does In the silt carried by flood. Then Allah would finish judging amongst His bondsmen; but a man who will be the last to enter Paradise will remain facing Hell and will say: O my Lord I turn my face away from Hell, for its air has poisoned me ard its blaze has burnt me. He will then call to Allah as long as Allah would wish that he should call to Him. Then Allah, Blessed and Exalted, would say: If I did that, perhaps you would ask for more than that. He would say: I would not ask You more than this, and he would give his Lord covenants and agreements as Allah wished, and so He would turn his face away from the Fire When he turns towards the Paradise and sees it, he will remain silent as long as Allah wishes him to remain so. He will then say: O my Lord I bring me forward to the gate of the Paradise. Allah would say to him: Did you not give covenants and agreements that you would not ask for anything besides what I had given you. Woe to thee! O son of Adam, how treacherous you are! He would say: O my Lord! and would continue calling to Allah till He would say to him: If I grant you that, perhaps you will ask for more. He will reply: No, by Thy greatness, and he will give His Lord promises and covenants as Allah had wished. He would then bring him to the gate of the Paradise, and when he would stand at the gate of the Paradise, it would lay open before him. and he would see the bounty and the joy that there is in it. He would remain quiet as long as Allah would desire him to remain silent. He would then say: O my Lord, admit me to Paradise. Allah. Blessed and Exalted, would say: Did you not give covenants and agreements that you would not ask for anything more than what I had granted you? Woe to you! son of Adam, how treacherous you are! And he would say: O my Lord, I do not wish to be the most miserable of Thy creatures. He would continue calling upon Allah till Allah, Blessed and Exalted, would laugh. When Allah would laugh at him, He would say: Enter the Paradise. When he would enter, Allah would say: State your wish. He would express his wishes till Allah would remind him (the desire of) such and such (things). When his desires would be exhausted Allah would say: That is for thee and, besides it, the like of it also. 'Ata' b. Yazid said: Abu Sa'id al-Khudri was with Abu Huraira and be did not reject anything from the hadith narrated by him, but when Abu Huraira narrated: Allah said to that man; ind its like along with it, Abu Sa'id said: Ten like it along with it, O Abu Huraira. Abu Huraira said: I do not remember except the words: That is for you and a similar one along with it. Abu Sa'id said: I bear witness to the fact that I remembered from the Messenger of Allah ( ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وسلم ‌ ) his words: That is for thee and ten like it. Abu Huraira said: That man was the last of those deserving of Paradise to enter Paradise.

Haidth Number: 451
شعیب نے ابن شہاب زہری سے خبر دی ، انہوں نے کہا : عطاء اور سعید بن مسیب نے مجھے خبر دی کہ حضرت ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ نےان دونوں کو خبر دی کہ لوگوں نے نبی ﷺ سے عرض کی : اے اللہ کے رسول ! کیاہم قیامت کے دن اپنے رب کو دیکھیں گے؟. .....آگے ابراہیم بن سعد کی طرح حدیث بیان کی ۔

Abu Huraira reported: The people said to the Messenger of Allah ( ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وسلم ‌ ): Messenger of Allah I shall we see our Lord on the Day of Resurrection? The rest of the hadith was narrated according to the narration of Ibrahim b. Sa'd.

Haidth Number: 452
ہمام بن منبہ سے روایت ہے ، انہوں نے کہا : یہ احادیث ہیں جو حضرت ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ نے ہمیں رسول اللہ ﷺ سے ( سن کر ) بیان کیں ، پھر ( ہمام نے ) بہت سی احادیث بیان کیں ، ان میں یہ حدیث بھی تھی کہ رسو ل اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’تم میں سے کسی کی جنت میں کم از کم جگہ یہ ہو گی کہ اللہ تعالیٰ اس سے فرمائے گا : تمنا کر ۔ تو وہ تمنا کرے گا ، پھر تمنا کرے گا ، اللہ اس سے پوچھے گا : کیا تم تمنا کر چکے ؟ وہ کہے گا : ہاں ۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا : وہ سب کچھ تیرا ہوا جس کی تو نے تمنا کی اوراس کےساتھ اتناہی ( اور بھی ۔ ) ‘ ‘

Hammam b. Munabbih said: This is what Abu Huraira transmitted to us from the Messenger of Allah ( ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وسلم ‌ ), and he narrated many of them;- one of them was: The Messenger of Allah ( ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وسلم ‌ ) said: The lowest in rank among you in Paradise would be asked: Desire (whatever you like). And he would express his desire and again and again express a desire. tHe would be asked: Have you expressed your desire? He would say: Yes. Then He (Allah) would say: For thee is (granted) what thou desirest, and the like of it along with it.

Haidth Number: 453

وَحَدَّثَنِي سُوَيْدُ بْنُ سَعِيدٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي حَفْصُ بْنُ مَيْسَرَةَ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، أَنَّ نَاسًا فِي زَمَنِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالُوا: يَا رَسُولَ اللهِ، هَلْ نَرَى رَبَّنَا يَوْمَ الْقِيَامَةِ؟ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «نَعَمْ» قَالَ: «هَلْ تُضَارُّونَ فِي رُؤْيَةِ الشَّمْسِ بِالظَّهِيرَةِ صَحْوًا لَيْسَ مَعَهَا سَحَابٌ؟ وَهَلْ تُضَارُّونَ فِي رُؤْيَةِ الْقَمَرِ لَيْلَةَ الْبَدْرِ صَحْوًا لَيْسَ فِيهَا سَحَابٌ؟» قَالُوا: لَا يَا رَسُولَ اللهِ، قَالَ: مَا تُضَارُّونَ فِي رُؤْيَةِ اللهِ تَبَارَكَ وَتَعَالَى يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِلَّا كَمَا تُضَارُّونَ فِي رُؤْيَةِ أَحَدِهِمَا، إِذَا كَانَ يَوْمُ الْقِيَامَةِ أَذَّنَ مُؤَذِّنٌ لِيَتَّبِعْ كُلُّ أُمَّةٍ مَا كَانَتْ تَعْبُدُ، فَلَا يَبْقَى أَحَدٌ كَانَ يَعْبُدُ غَيْرَ اللهِ سُبْحَانَهُ مِنَ الْأَصْنَامِ وَالْأَنْصَابِ إِلَّا يَتَسَاقَطُونَ فِي النَّارِ، حَتَّى إِذَا لَمْ يَبْقَ إِلَّا مَنْ كَانَ يَعْبُدُ اللهَ [ص:168] مِنْ بَرٍّ وَفَاجِرٍ وَغُبَّرِ أَهْلِ الْكِتَابِ، فَيُدْعَى الْيَهُودُ، فَيُقَالُ لَهُمْ: مَا كُنْتُمْ تَعْبُدُونَ؟ قَالُوا: كُنَّا نَعْبُدُ عُزَيْرَ ابْنَ اللهِ، فَيُقَالُ: كَذَبْتُمْ مَا اتَّخَذَ اللهُ مِنْ صَاحِبَةٍ وَلَا وَلَدٍ، فَمَاذَا تَبْغُونَ؟ قَالُوا: عَطِشْنَا يَا رَبَّنَا، فَاسْقِنَا، فَيُشَارُ إِلَيْهِمْ أَلَا تَرِدُونَ؟ فَيُحْشَرُونَ إِلَى النَّارِ كَأَنَّهَا سَرَابٌ يَحْطِمُ بَعْضُهَا بَعْضًا، فَيَتَسَاقَطُونَ فِي النَّارِ، ثُمَّ يُدْعَى النَّصَارَى، فَيُقَالُ لَهُمْ: مَا كُنْتُمْ تَعْبُدُونَ؟ قَالُوا: كُنَّا نَعْبُدُ الْمَسِيحَ ابْنَ اللهِ، فَيُقَالُ لَهُمْ، كَذَبْتُمْ مَا اتَّخَذَ اللهُ مِنْ صَاحِبَةٍ وَلَا وَلَدٍ، فَيُقَالُ لَهُمْ: مَاذَا تَبْغُونَ؟ فَيَقُولُونَ: عَطِشْنَا يَا رَبَّنَا، فَاسْقِنَا، قَالَ: فَيُشَارُ إِلَيْهِمْ أَلَا تَرِدُونَ؟ فَيُحْشَرُونَ إِلَى جَهَنَّمَ كَأَنَّهَا سَرَابٌ يَحْطِمُ بَعْضُهَا بَعْضًا، فَيَتَسَاقَطُونَ فِي النَّارِ حَتَّى إِذَا لَمْ يَبْقَ إِلَّا مَنْ كَانَ يَعْبُدُ اللهَ تَعَالَى مِنْ بَرٍّ وَفَاجِرٍ أَتَاهُمْ رَبُّ الْعَالَمِينَ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى فِي أَدْنَى صُورَةٍ مِنَ الَّتِي رَأَوْهُ فِيهَا قَالَ: فَمَا تَنْتَظِرُونَ؟ تَتْبَعُ كُلُّ أُمَّةٍ مَا كَانَتْ تَعْبُدُ، قَالُوا: يَا رَبَّنَا، فَارَقْنَا النَّاسَ فِي الدُّنْيَا أَفْقَرَ مَا كُنَّا إِلَيْهِمْ، وَلَمْ نُصَاحِبْهُمْ، فَيَقُولُ: أَنَا رَبُّكُمْ، فَيَقُولُونَ: نَعُوذُ بِاللهِ مِنْكَ لَا نُشْرِكُ بِاللهِ شَيْئًا مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلَاثًا، حَتَّى إِنَّ بَعْضَهُمْ لَيَكَادُ أَنْ يَنْقَلِبَ، فَيَقُولُ: هَلْ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَهُ آيَةٌ فَتَعْرِفُونَهُ بِهَا؟ فَيَقُولُونَ: نَعَمْ، فَيُكْشَفُ عَنْ سَاقٍ فَلَا يَبْقَى مَنْ كَانَ يَسْجُدُ لِلَّهِ مِنْ تِلْقَاءِ نَفْسِهِ إِلَّا أَذِنَ اللهُ لَهُ بِالسُّجُودِ، وَلَا يَبْقَى مَنْ كَانَ يَسْجُدُ اتِّقَاءً وَرِيَاءً إِلَّا جَعَلَ اللهُ [ص:169] ظَهْرَهُ طَبَقَةً وَاحِدَةً، كُلَّمَا أَرَادَ أَنْ يَسْجُدَ خَرَّ عَلَى قَفَاهُ، ثُمَّ يَرْفَعُونَ رُءُوسَهُمْ وَقَدْ تَحَوَّلَ فِي صُورَتِهِ الَّتِي رَأَوْهُ فِيهَا أَوَّلَ مَرَّةٍ، فَقَالَ: أَنَا رَبُّكُمْ، فَيَقُولُونَ: أَنْتَ رَبُّنَا، ثُمَّ يُضْرَبُ الْجِسْرُ عَلَى جَهَنَّمَ، وَتَحِلُّ الشَّفَاعَةُ، وَيَقُولُونَ: اللهُمَّ سَلِّمْ، سَلِّمْ قِيلَ: يَا رَسُولَ اللهِ، وَمَا الْجِسْرُ؟ قَالَ: دَحْضٌ مَزِلَّةٌ، فِيهِ خَطَاطِيفُ وَكَلَالِيبُ وَحَسَكٌ تَكُونُ بِنَجْدٍ فِيهَا شُوَيْكَةٌ يُقَالُ لَهَا السَّعْدَانُ، فَيَمُرُّ الْمُؤْمِنُونَ كَطَرْفِ الْعَيْنِ، وَكَالْبَرْقِ، وَكَالرِّيحِ، وَكَالطَّيْرِ، وَكَأَجَاوِيدِ الْخَيْلِ وَالرِّكَابِ، فَنَاجٍ مُسَلَّمٌ، وَمَخْدُوشٌ مُرْسَلٌ، وَمَكْدُوسٌ فِي نَارِ جَهَنَّمَ، حَتَّى إِذَا خَلَصَ الْمُؤْمِنُونَ مِنَ النَّارِ، فَوَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، مَا مِنْكُمْ مِنْ أَحَدٍ بِأَشَدَّ مُنَاشَدَةً لِلَّهِ فِي اسْتِقْصَاءِ الْحَقِّ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ لِلَّهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ لِإِخْوَانِهِمُ الَّذِينَ فِي النَّارِ، يَقُولُونَ: رَبَّنَا كَانُوا يَصُومُونَ مَعَنَا وَيُصَلُّونَ وَيَحُجُّونَ، فَيُقَالُ لَهُمْ: أَخْرِجُوا مَنْ عَرَفْتُمْ، فَتُحَرَّمُ صُوَرُهُمْ عَلَى النَّارِ، فَيُخْرِجُونَ خَلْقًا كَثِيرًا قَدِ أَخَذَتِ النَّارُ إِلَى نِصْفِ سَاقَيْهِ، وَإِلَى رُكْبَتَيْهِ، ثُمَّ يَقُولُونَ: رَبَّنَا مَا بَقِيَ فِيهَا أَحَدٌ مِمَّنْ أَمَرْتَنَا بِهِ، فَيَقُولُ: ارْجِعُوا فَمَنْ وَجَدْتُمْ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالَ دِينَارٍ مِنْ خَيْرٍ [ص:170] فَأَخْرِجُوهُ، فَيُخْرِجُونَ خَلْقًا كَثِيرًا، ثُمَّ يَقُولُونَ: رَبَّنَا لَمْ نَذَرْ فِيهَا أَحَدًا مِمَّنْ أَمَرْتَنَا، ثُمَّ يَقُولُ: ارْجِعُوا فَمَنْ وَجَدْتُمْ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالَ نِصْفِ دِينَارٍ مِنْ خَيْرٍ فَأَخْرِجُوهُ، فَيُخْرِجُونَ خَلْقًا كَثِيرًا، ثُمَّ يَقُولُونَ: رَبَّنَا لَمْ نَذَرْ فِيهَا مِمَّنْ أَمَرْتَنَا أَحَدًا، ثُمَّ يَقُولُ: ارْجِعُوا فَمَنْ وَجَدْتُمْ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ مِنْ خَيْرٍ فَأَخْرِجُوهُ، فَيُخْرِجُونَ خَلْقًا كَثِيرًا ثُمَّ يَقُولُونَ: رَبَّنَا لَمْ نَذَرْ فِيهَا خَيْرًا ، وَكَانَ أَبُو سَعِيدٍ الْخُدْرِيُّ يَقُولُ: إِنْ لَمْ تُصَدِّقُونِي بِهَذَا الْحَدِيثِ فَاقْرَءُوا إِنْ شِئْتُمْ: {إِنَّ اللهَ لَا يَظْلِمُ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ وَإِنْ تَكُ حَسَنَةً يُضَاعِفْهَا وَيُؤْتِ مِنْ لَدُنْهُ أَجْرًا عَظِيمًا} [النساء: 40]، فَيَقُولُ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ: شَفَعَتِ الْمَلَائِكَةُ، وَشَفَعَ النَّبِيُّونَ، وَشَفَعَ الْمُؤْمِنُونَ، وَلَمْ يَبْقَ إِلَّا أَرْحَمُ الرَّاحِمِينَ، فَيَقْبِضُ قَبْضَةً مِنَ النَّارِ، فَيُخْرِجُ مِنْهَا قَوْمًا لَمْ يَعْمَلُوا خَيْرًا قَطُّ قَدْ عَادُوا حُمَمًا، فَيُلْقِيهِمْ فِي نَهَرٍ فِي أَفْوَاهِ الْجَنَّةِ يُقَالُ لَهُ: نَهَرُ الْحَيَاةِ، فَيَخْرُجُونَ كَمَا تَخْرُجُ الْحِبَّةُ فِي حَمِيلِ السَّيْلِ، أَلَا تَرَوْنَهَا تَكُونُ إِلَى الْحَجَرِ، أَوْ إِلَى الشَّجَرِ، مَا يَكُونُ إِلَى الشَّمْسِ أُصَيْفِرُ وَأُخَيْضِرُ، وَمَا يَكُونُ مِنْهَا إِلَى الظِّلِّ يَكُونُ أَبْيَضَ؟ فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللهِ، كَأَنَّكَ كُنْتَ تَرْعَى بِالْبَادِيَةِ، قَالَ: فَيَخْرُجُونَ كَاللُّؤْلُؤِ فِي رِقَابِهِمُ الْخَوَاتِمُ، يَعْرِفُهُمْ أَهْلُ الْجَنَّةِ هَؤُلَاءِ عُتَقَاءُ اللهِ الَّذِينَ أَدْخَلَهُمُ اللهُ الْجَنَّةَ بِغَيْرِ عَمَلٍ عَمِلُوهُ، وَلَا خَيْرٍ قَدَّمُوهُ، ثُمَّ يَقُولُ: ادْخُلُوا الْجَنَّةَ فَمَا رَأَيْتُمُوهُ فَهُوَ لَكُمْ، فَيَقُولُونَ: رَبَّنَا، أَعْطَيْتَنَا مَا لَمْ تُعْطِ أَحَدًا مِنَ الْعَالَمِينَ، فَيَقُولُ: لَكُمْ عِنْدِي أَفْضَلُ مِنْ هَذَا، فَيَقُولُونَ: يَا رَبَّنَا، أَيُّ شَيْءٍ أَفْضَلُ مِنْ هَذَا؟ فَيَقُولُ: رِضَايَ، فَلَا أَسْخَطُ عَلَيْكُمْ بَعْدَهُ أَبَدًا

حفص بن میسرہ نے زید بن اسلم سے ، انہوں نے عطاء بن یسار سے اور انہوں نے حضرت ابو سعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سےروایت کی کہ کچھ لوگوں نے رسول اللہ ﷺ کے عہد میں ( آپ سے ) عرض کی : اے اللہ کے رسول ! کیاہم قیامت کے دن اپنےرب کو دیکھیں گے؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’ہاں ۔ ‘ ‘ ( ہاں ) فرمایا : ’’ کیا دو پہر کے وقت صاف مطلع ہیں ، جب ابر نہ ہوں ، سورج کو دیکھتے ہوئے تمہیں کوئی زحمت ہوتی ہے ؟ اور کیا پورے چاند کی رات کو جب مطلع صاف ہو اور ابر نہ ہوں تو چاند کو دیکھنے میں کوئی تکلیف محسوس کرتے ہو ؟ ‘ ‘ صحابہ نے کہا : اللہ کےرسول نہیں ! فرمایا : ’’ قیامت کے روز اللہ تبارک و تعالیٰ کو دیکھنے میں اس سے زیادہ دقت نہ ہوگی جتنی ان دونوں میں سے کسی ایک کو دیکھنے میں ہوتی ہے ۔ جب قیامت کا دن ہو گا ، ایک اعلان کرنے والا یہ اعلان کرے گا : ہر امت اس کے پیچھے چلے جس کی وہ عبادت کیا کرتی تھی ۔ کوئی آدمی ایسا نہ بچے گا جو اللہ کے سوابتوں اور پتھروں کو پوجتا تھا مگر وہ آ گ میں جا گرے گا حتی کہ جب ان کے سوا جو اللہ کی عبادت کرتے تھے ، وہ نیک ہوں یا بد ، اور اہل کتاب کے بقیہ ( بعد کے دور ) لوگوں کےسوا کوئی نہ بچے گا تو یہود کو بلایا جائے گا او ران سے کہا جائے گا : تم کس کی عبادت کرتے تھے؟ وہ کہیں گے : ہم اللہ کے بیٹے عزیر کی عبادت کرتے تھے تو کہا جائے گا : تم نے جھوٹ بولا ، اللہ تعالیٰ نے نہ کوئی بوی بنائی نہ بیٹا ، تو ( اب ) کیا چاہتے ہو ؟کہیں گے : پروردگار ! ہمیں پیاس لگی ہے ہمیں پانی پلا ۔ تو ان کو اشارہ کیا جائے گاکہ تم پانی ( کے گھاٹ ) پر کیوں نہیں جاتے ؟ پھر ا نہیں اکٹھا کر کے آگ کی طرف ہانک دیا جائے گا ، وہ سراب کی طرح ہو گی ، اس کا ایک حصہ دوسرے حصے کو توڑ رہا ہو گا اوروہ سب ( ایک دوسرے کے پیچھے ) آگ میں گرتے چلے جائیں گے ، پھر نصاریٰ کو بلایا جائے گا او ران سے کہاجائے گا : تم کس کی عبادت کرتے تھے؟ وہ کہیں گے : ہم اللہ کے بیٹے مسیح کو پوجتے تھے ۔ ان سے کہا جائے گا : تم جھوٹ بولتے ہو ، اللہ نے نہ کوئی بیوی بنائی نہ کوئی بیٹا ، پھر ان سے کہا جائے گا! ( اب ) تم کیا چاہتے ہو؟ وہ کہیں گے : ہم پیاسے ہیں ہمارے پروردگار ! ہمیں پانی پلا ، آپ نے فرمایا : ان کواشارہ کیا جائے گا ، تم پانی ( کے گھاٹ ) پر کیوں نہیں جاتے ؟ پھر انہیں اکٹھا کر کے جہنم کی طرف ہانکا جائے گا ، وہ سراب کی طرح ہو گی ( اور ) اس کا ایک حصہ ( شدت اشتعال سے ) دوسرے کو توڑ رہا ہو گا ، وہ ( ایک دوسرے کے پیچھے ) آگ میں گرتے چلے جائیں گے ، حتی کہ جب ان کے سوا کوئی نہ بچے گا جو اللہ تعالیٰ ( ہی ) کی عبادت کرتے تھے ، نیک ہوں یا بد ، ( تو ) سب جہانوں کا رب سبحان و تعالیٰ ان کی دیکھی ہوئی صورت سے کم تر ( یا مختلف ) صورت میں آئے گا ( اور ) فرمائے گا : تم کس چیز کا انتظار کر رہے ہو ؟ ہر امت اس کے پیچھے جا رہی ہے جس کی وہ عبادت کرتی تھی ، وہ ( سامنے ظاہر ہونے والی صورت کے بجائے اپنے پروردگار کی طرف متوجہ ہو کر ) التجا کریں گے : اےہمارے رب ! ہم دنیا میں سب لوگوں سے ، جتنی شدید بھی ہمیں ان کی ضرورت تھی ، الگ ہو گئے ، ہم نے ان کاساتھ نہ دیا ۔ وہ کہے گا : میں تمہارا رب ہوں ، وہ کہیں گے : ہم تم سے اللہ کی پناہ میں آتے ہیں ، ہم اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے ( دو یا تین دفعہ یہی کہیں گے ) یہاں تک کہ ان میں بعض لوگ بدلنے کے قریب ہو ں گے تو وہ فرمائے گا : کیا تمہارے اور اس کے درمیان کوئی نشانی ( طے ) ہے جس سے تم اس کو پہچان سکو؟ وہ جواب دیں گے : ہاں !تو پنڈلی ظاہر کر دی جائے گی پھر کوئی ایسا شخص نہ بچے گا جو اپنے دل سے اللہ کو سجدہ کرتا تھا مگر اللہ اسے سجدے کی اجازت دے گا اور کوئی ایسا نہ بچے گا جو جان بچانے کےلیے یا دکھاوے کےلیے سجدہ کرتا تھامگر اللہ تعالیٰ اس کی پشت کو ایک ہی مہر بنادے گا ، جب بھی وہ سجدہ کرنا چاہے گا اپنی گدی کے بل گر پڑے گا ، پھر وہ ( سجدے سے ) اپنے سر اٹھائیں گے اور اللہ تعالیٰ اپنی اس صورت میں آ چکا ہو گا جس میں انہوں نے اس کو ( سب سے ) پہلی مرتبہ دیکھا تھا اور وہ فرمائے گا : میں تمہارا رب ہوں ۔ تووہ کہیں گے : ( ہاں ) تو ہی ہمارا رب ہے ، پھر جہنم پر پل دیا جائے گا اور سفارش کا دروازہ کھل جائے گا ، اور ( سب رسول ) کہہ رہے ہوں گے : اے اللہ ! سلامت رکھ ، سلامت رکھ ۔ ‘ ‘ پوچھا گیا : اے اللہ کے رسول ! جسر ( پل ) کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا : ’’ بہت پھسلنی ، ڈگمگا دینے والی جگہ ہے ، اس میں اچک لینےوالے آنکڑے اور کئی کئی نوکوں والے کنڈے ہیں اور اس میں کانٹے دار پودے ہیں جو نجد میں ہوتے ہیں جنہیں سعدان کہا جاتا ہے ۔ تو مومن آنکھ کی جھپک کی طرح اور بجلی کی طرح اور ہوا کی طرح اور پرندوں کی طرح اور تیز رفتار گھوڑوں اور سواریوں کی طرح گزر جائیں گے ، کوئی صحیح سالم نجات پانے والا ہو گا اور کوئی زخمی ہو کر چھوڑ دیا جانے والا اور کچھ جہنم کی آگ میں تہ بن تہ لگا دیے جانے والے ، یہاں تک کہ جب مومن آگ سے خلاصی پالیں گے تو اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں جان ہے ! تم میں سے کوئی پورا پورا حق وصول کرنے ( کے معاملے ) میں اس قدر اللہ سے منت اور آہ وزاری نہیں کرتا جس قدر قیامت کے دن مومن اپنے ان مسلمان بھائیوں کے بارے میں کریں گے جو آگ میں ہوں گے ۔ وہ کہیں گے : اے ہمارے رب !وہ ہمارے ساتھ روزے رکھتے ، نمازیں پڑھتے اورحج کرتے تھے ۔ تو ان سے کہا جائے گا : تم جن کو پہچانتے ہو انہیں نکال لو ، ان کی صورتیں آگ پر حرام کر دی گئی ہوں گی ۔ تو وہ بہت سے لوگوں کونکال لائیں گے جن کی آدھی پنڈلیوں تک یا گھٹنوں تک آگ پکڑ چکی ہوگی ، پھر وہ کہیں گے : ہمارے رب ! جنہیں نکالنے کا تو نے حکم دیا تھا ان میں سے کوئی دوزخ میں نہیں رہا ۔ تو وہ فرمائے گا : واپس جاؤ ، جس کےدل میں دینار بھر خیر ( ایمان ) پاؤ اس کو نکال لاؤ تو وہ بڑی خلقت کو نکال لائیں گے ، پھر کہیں گے : ہمارے رب! جنہیں نکالنے کا تو نے حکم دیا تھا ان میں سے کسی کو ہم دوزخ میں نہیں چھوڑا ۔ وہ پھر فرمائے گا : واپس جاؤ ، جس کے دل میں آدھے دینار کے برابر خیر پاؤ اس کو نکال لاؤ تو وہ ( پھرسے ) بڑی خلقت کو نکال لائیں گے ، پھر وہ کہیں گے ، ہمارے رب! جنہیں نکالنے کا تو نےحکم دیا تھا ہم نے ان میں کسی کو دوزخ میں نہیں چھوڑا ۔ وہ پھر فرمائے گا : واپس جاؤ ، جس کے دل میں ایک ذرے کے برابر خیر پاؤ اس کو نکال لاؤ تووہ کثیر خلقت کو نکال لائیں گے ، پھر وہ کہیں گے : ہمارے رب ! ہم نے اس میں کسی صاحب خیر کو نہیں چھوڑا ۔ ‘ ‘ ( ایمان ایک ذرے کے برابر بھی ہوسکتا ہے ۔ ) ابو سعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ کہا کرتے تھے : اگر تم اس حدیث میں میری تصدیق نہیں کرتے تو چاہو تو یہ آیت پڑھ لو : ’’بے شک اللہ ایک ذرہ برابر ظلم نہیں کرتا اور اگر کوئی نیکی ہو تواس کو بڑھاتا ہے او راپنی طرف سے اجر عظیم دیتا ہے ۔ ‘ ‘ ’’پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا : فرشتوں نے سفارش کی ، اب ارحم الراحمین کے سوا کوئی باقی نہیں رہا تو وہ آ ‎گ سے ایک مٹھی بھرے گا او رایسے لوگوں کو اس میں سے نکال لے گا جنہوں نے کبھی بھلائی کا کوئی کام نہیں کیا تھا اور وہ ( جل کر ) کوئلہ ہو چکے ہوں گے ، پھر وہ انہیں جنت کے دہانوں پر ( بہنے والی ) ایک نہر میں ڈال دے گا جس کو نہر حیات کہا جاتا ہے ، وہ اس طرح ( اگ کر ) نکل آئیں گے جس طرح ( گھاس کا ) چھوٹا سا بیج سیلاب کے خس و خاشاک میں پھوٹتا ہے ، کیا تم اسے دیکھتے نہیں ہو کہ کبھی وہ پتھر کے ساتھ لگا ہوتا ہے اور کبھی درخت کے ساتھ ، جوسورج کے رخ پر ہوتا ہے وہ زرد اور سبز ہوتا ہے اور جو سائے میں ہوتا ہے وہ سفید ہوتا ہے ؟ ‘ ‘ صحابہ نے کہا : اللہ کے رسول ! ایسا لگتا ہے کہ آپ جنگل میں جانور چرایا کرتے تھے؟ آپ نے فرمایا : ’’ تووہ لوگ ( نہرسے ) موتیوں کے مانند نکلیں گے ، ان کی گردنوں میں مہریں ہو ں گی ، اہل جنت ( بعد ازاں ) ان کو ( اس طرح ) پہچانیں گے کہ یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے آزاد کیے ہوئے ہیں ، جن کو اللہ تعالیٰ نے بغیر کسی عمل کے جو انہوں نے کیا ہو اور بغیر کسی نیکی کے جو انہوں نے آگے بھیجی ہو ، جنت میں داخل کیا ہے ۔ پھر وہ فرمائے گا : جنت میں داخل ہو جاؤ اور جو تمہیں نظر آئے وہ تمہارا ہے ، اس پر وہ کہیں گے : اےہمارے رب ! تو نے ہمیں وہ کچھ دیا ہے جو جہان والوں میں سےکسی کو نہیں دیا ۔ تو وہ فرمائے گا : تمہارے میرے پاس اس سے بڑھ کر کون سی چیز ( ہوسکتی ) ہے ؟ تو وہ فرمائے گا : میری رضا کہ اس کے بعد میں تم سے کبھی ناراض نہ ہوں گا ۔ ‘ ‘

Abu Sa'id al-Khudri reported: Some people during the lifetime of the Messenger of Allah ( ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وسلم ‌ ) said: Messenger of Allah! shall we see our Lord on the Day of Resurrection? The Messenger of Allah ( ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وسلم ‌ ) said: Yes, and added: Do you feel any trouble in seeing the sun at noon with no cloud over it, and do you feel trouble in seeing the moon (open) in the full moonlit night with no cloud over it? They said: No, Messenger of Allah! He (the Holy Prophet) said: You will not feel any trouble in seeing Allah on the Day of Resurrection any more than you do in seeing any one of them. When the Day of Resurrection comes a Mu'adhdhin (a proclaimer) would proclaim: Let every people follow what they used to worship. Then all who worshipped idols and stones besides Allah would fall into the Fire, till only the righteous and the vicious and some of the people of the Book who worshipped Allah are left. Then the Jews would be summoned, and it would be said to them: What did you worship? They will say: We worshipped 'Uzair, son of Allah. It would be said to them: You tell a lie; Allah had never had a spouse or a son. What do you want now? They would say: We feel thirsty, O our Lord! Quench our thirst. They would be directed (to a certain direction) and asked: Why don't you go there to drink water? Then they would be pushed towards the Fire (and they would find to their great dismay that) it was but a mirage (and the raging flames of fire) would be consuming one another, and they would fall into the Fire. Then the Christians would be summoned and it would be said to them: What did you worship? They would say: We worshipped Jesus, son of Allah. It would be said to them: You tell a lie; Allah did not take for Himself either a spouse or a son. Then it would be said to them: What do you want? They would say: Thirsty we are, O our Lord! Quench our thirst. They would be directed (to a certain direction) and asked: Why don't you go there to get water? But they would be pushed and gathered together towards the Hell, which was like a mirage to them, and the flames would consume one another. They would fall Into the Fire, till no one is left except he who worshipped Allah, be he pious or sinful. The Lord of the Universe, Glorified and Exalted, would come to them in a form recognisable to them and say; What are you looking for? Every people follow that which they worshipped. They would say: Our Lord, we kept ourselves separate from the people in the world, though we felt great need of them; we, however, did not associate ourselves with them. He would say: I am your Lord. They would say: We take refuge with Allah from thee and do not associate anything with Allah. They would repeat it twice or thrice, till some of them would be about to return. It would be said: Is there any sign between you and Him by which you will recognise Him? They would say: Yes. and the things would be laid bare. Those who used to prostrate themselves before God of their own accord would be permitted by God to prostrate themselves. But there would remain none who used to prostrate out of fear (of people) and ostentation but Allah would make his back as one piece, and whenever he would attempt to prostrate he would fall on his back. Then they would raise their heads and He would assume the Form in which they had seen Him the first time and would say: I am your Lord. They would say: Thou art our Lord. Then the bridge would be set up over the Hell and intercession would be allowed and they will say: O God, keep safe, keep safe. It was asked: Messenger of Allah, what is this bridge? He said: The void in which one Is likely to slip. There would be hooks, tongs, spits like the thorn that is found in Najd and is known as Sa'dan. The believers would then pass over within the twinkling of an eye, like lightning, like wind, like a bird, like the finest horses and camels. Some will escape and be safe, some will be lacerated and let go, and some will be pushed into the fire of Hell till the believers will find rescue from the Fire. By One in Whose hand is my life, there will be none among you more eager to claim a right than the believers on the Day of Resurrection for (saying their) brethren in the Fire who would say: O our Lord, they were fasting along with us, and praying and performing pilgrimage. It will be said to them: Take out those whom you recognise. Then their persons would be forbidden to the Fire; and they would take out a large number of people who had been overtaken by Fire up to the middle of the shank or up to the knees. They would then say: O our Lord I not one of those about whom Thou didst give us command remains in it. He will then say: Go back and bring out those in whose hearts you find good of the weight of a dinar Then they will take out a large number of people. Then they would say: O our Lord! we have not left anyone about whom You commanded us. He will then say: Go back and bring out those in whose hearts you find as much as half a dinar of good. Then they will take out a large number of people, and would say: O our Lord! not one of those about whom Thou commanded us we have left in it. Then He would say: Go back and in whose heart you find good to the weight of a particle bring him out. They would bring out a large number of people, and would then say: O our Lord, now we have not left anyone in it (Hell) having any good in him. Abu Sa'id Khudri said: If you don't testify me in this hadith, then recite if you like: Surely Allah wrongs not the weight of an atom; and if it is a good deed. He multiplies it and gives from Himself a great reward (al-Qur'an, iv. 40). Then Allah, Exalted and Great, would say: The angels have interceded, the apostles have interceded and the believers have interceded, and no one remains (to grant pardon) but the Most Merciful of the mercifuls. He will then take a handful from Fire and bring out from it people who never did any good and who had been turned into charcoal, and will cast them into a river called the river of life, on the outskirts of Paradise. They will come out as a seed comes cut from the silt carried by flood. You see it near the stone or near the tree. That which is exposed to the sun is yellowish or greenish and which is under the shade is white. They said: Messenger of Allah! it seems as if you had been tending a flock in the jungle. He (the Holy Prophet) said: They will come forth like pearls with seals on their necks. The inhabitants of Paradise would recognise them (and say): Those are who have been set free by the Compassionate One. Who has admitted them into Paradise without any (good) deed that they did or any good that they sent in advance Then He would say: Enter the Paradise; whatever you see in it is yours. They would say: O Lord, Thou hast bestowed upon us (favours) which Thou didst not bestow upon anyone else in the world. He would say: There is with Me (a favour) for you better than this. They would say: O our Lord! which thing is better than this? He would say: It is My pleasure. I will never be angry with you after this

Haidth Number: 454

قَالَ مُسْلِمٌ: قَرَأْتُ عَلَى عِيسَى بْنِ حَمَّادٍ زُغْبَةَ الْمِصْرِيِّ هَذَا الْحَدِيثَ فِي الشَّفَاعَةِ، وَقُلْتُ لَهُ: أُحَدِّثُ بِهَذَا الْحَدِيثِ عَنْكَ أَنَّكَ سَمِعْتَ مِنَ اللَّيْثِ بْنِ سَعْدٍ، فَقَالَ: نَعَمْ، قُلْتُ لِعِيسَى بْنِ حَمَّادٍ: أَخْبَرَكُمُ اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ خَالِدِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي هِلَالٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، أَنَّهُ قَالَ: قُلْنَا: يَا رَسُولَ اللهِ، أَنَرَى رَبَّنَا؟ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «هَلْ تُضَارُّونَ فِي رُؤْيَةِ الشَّمْسِ إِذَا كَانَ يَوْمٌ صَحْوٌ» قُلْنَا: لَا، وَسُقْتُ الْحَدِيثَ حَتَّى انْقَضَى آخِرُهُ وَهُوَ نَحْوُ حَدِيثِ حَفْصِ بْنِ مَيْسَرَةَ، وَزَادَ بَعْدَ قَوْلِهِ بِغَيْرِ عَمَلٍ عَمِلُوهُ، وَلَا قَدَمٍ قَدَّمُوهُ، فَيُقَالُ لَهُمْ: «لَكُمْ مَا رَأَيْتُمْ وَمِثْلُهُ مَعَهُ»، قَالَ أَبُو سَعِيدٍ: بَلَغَنِي أَنَّ الْجِسْرَ أَدَقُّ مِنَ الشَّعْرَةِ، وَأَحَدُّ مِنَ السَّيْفِ، وَليْسَ فِي حَدِيثِ اللَّيْثِ، فَيَقُولُونَ: رَبَّنَا أَعْطَيْتَنَا مَا لَمْ تُعْطِ أَحَدًا مِنَ الْعَالَمِينَ وَمَا بَعْدَهُ ، فَأَقَرَّ بِهِ عِيسَى بْنُ حَمَّادٍ،

امام مسلم نے کہا : میں نے شفاعت کے بارے میں یہ حدیث عیسیٰ بن حماد زغبہ مصری کے سامنے پڑھی اور ان سے کہا : ( کیا ) یہ حدیث میں آپ کے حوالے سے بیان کروں کہ آپ نے اسے لیث بن سعد سے سنا ہے ؟ انہوں نے کہا : ہاں! ( امام مسلم نےکہا : ) میں نے عیسیٰ بن حماد سے کہا : آپ کو لیث بن سعد نےخالدبن یزید سے خبر دی ، انہوں نے سعید بن ابی ہلال سے ، انہوں نے زید بن اسلم سے ، انہوں نے عطاء بن یسار سے ، انہوں نے ابو سعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے اور انہوں نے کہاکہ ہم نے عرض کی : اللہ کے رسول ! کیا ہم اپنے رب کو دیکھ سکیں گے؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’جب چمکتا ہوا بے ابر دن ہو تو کیا تمہیں سورج کو دیکھنے میں کوئی زحمت ہوتی ہے ؟ ‘ ‘ ہم نے کہا : نہیں ۔ ( امام مسلم نے کہا : ) میں حدیث پڑھتا گیا یہاں تک کہ وہ ختم ہوگئی اور ( سعید بن ابی ہلال کی ) یہ حدیث حفص بن میسرہ کی ( مذکورہ ) حدیث کی طرح ہے ۔ انہوں نے کیا اور بغیر کسی قدم کے جوانہوں نے آگے بڑھایا ‘ ‘ کے بعد یہ اضافہ کیا : ’’چنانچہ ان سے کہا جائے گا : تمہارے لیے وہ سب کچھ ہے جو تم نے دیکھا ہے اور اس کے ساتھ اتنا ہی اور ۔ ‘ ‘ ابو سعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ نے کہا : مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ پل بال سے زیادہ باریک اور تلوار کی ادھار سے زیادہ تیز ہو گا ۔ لیث کی روایت میں یہ الفاظ : ’’ تووہ کہیں گے : اے ہمارے رب ! تو نے ہمیں وہ کچھ دیا ہے جو جہان والوں میں سے کسی کو نہیں دیا ‘ ‘ اور اس کے بعد کے الفاظ نہیں ہیں ۔ چنانچہ عیسیٰ بن حماد نے اس کا اقرار کیا ( کہ انہوں نے اوپر بیان کی گئی سند کے ساتھ لیث سے یہ حدیث سنی ۔ )

It is narrated on the authority of Abu Sa'id al-Khudri: We said: Messenger of Allah, shall we see our Lord? The Messenger of Allah ( ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وسلم ‌ ) said: Do you feel any trouble in seeing the sun on a cloudless day? We said: No. And the remaining part of the hadith has been narrated to the end like the hadith transmitted by Hafs b. Maisara with the addition of these words: Without the deed that they did or any good that they had sent before. It would be said to them: For you is whatever you see (in it) and with it the like of it. Abu Sa'id said: I have come to know that the bridge would be thinner even than the hair and sharper than the sword; and in the hadith narrated by Laith these words are not found: They would say, O our Lord! Thou hast bestowed upon us (favours) which thou didst not bestow on anyone else in the world.

Haidth Number: 455
زید بن اسلم کے ایک اور شاگرد ہشام بن سعد نے بھی ان دونوں ( حفص اور سعید ) کی مذکورہ سندوں کے ساتھ حفص بن میسرہ جیسی حدیث ( : 454 ) آخرتک بیان کی اور کچھ کمی و زیادتی بھی کی ۔

Abu Bakr b. Abi Shaiba, Ja'far b. 'Aun, Hisham b. Sa'd, Zaid b. Aslam narrated the hadith as transmitted by Hafs b. Maisara, with certain additions and omissions.

Haidth Number: 456