Blog
Books
Search Hadith

اہل جنت میں سے جوشخص سب سے نچلے درجے ہو گا

Chapter: The Status of the Lowest people in paradise

19 Hadiths Found

حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَبِي بُكَيْرٍ، حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ سُهَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ، عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ أَبِي عَيَّاشٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: إِنَّ أَدْنَى أَهْلِ الْجَنَّةِ مَنْزِلَةً، رَجُلٌ صَرَفَ اللهُ وَجْهَهُ عَنِ النَّارِ قِبَلَ الْجَنَّةِ، وَمَثَّلَ لَهُ شَجَرَةً ذَاتَ ظِلٍّ، فَقَالَ: أَيْ رَبِّ، قَدِّمْنِي إِلَى هَذِهِ الشَّجَرَةِ أَكُونُ فِي ظِلِّهَا وَسَاقَ الْحَدِيثَ بِنَحْوِ حَدِيثِ ابْنِ مَسْعُودٍ، وَلَمْ يَذْكُرْ: فَيَقُولُ: «يَا ابْنَ آدَمَ مَا يَصْرِينِي مِنْكَ؟» إِلَى آخِرِ الْحَدِيثِ، وَزَادَ فِيهِ: وَيُذَكِّرُهُ اللهُ، سَلْ كَذَا وَكَذَا، فَإِذَا انْقَطَعَتْ بِهِ الْأَمَانِيُّ، قَالَ اللهُ: هُوَ لَكَ وَعَشَرَةُ أَمْثَالِهِ ، قَالَ: ثُمَّ يَدْخُلُ بَيْتَهُ، فَتَدْخُلُ عَلَيْهِ زَوْجَتَاهُ مِنَ الْحُورِ الْعِينِ، فَتَقُولَانِ: الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَحْيَاكَ لَنَا، وَأَحْيَانَا لَكَ ، قَالَ: فَيَقُولُ: مَا أُعْطِيَ أَحَدٌ مِثْلَ مَا أُعْطِيتُ

حضرت ابو سعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’اہل جنت میں سب سے کم درجے پر وہ آدمی ہوگا جس کے چہرے کو اللہ تعالیٰ دوزخ کی طرف سے ہٹا کر جنت کی طرف کر دے گا اور اس کو ایک سایہ دار درخت کی صورت دکھائی جائے گی ، وہ کہے گا : اے میرے رب! مجھے اس درخت کے قریب کر دے تاکہ میں اس کے سائے میں ہو جاؤں ..... ‘ ‘ آگے انہوں نے ابن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ کی طرح روایت بیان کی لیکن یہ الفاظ ذکر نہیں کیے : ’’اللہ تعالیٰ فرمائے گا : اے آدم کے بیٹے! کیا چیز ہے جو تجھے راضی کر کے ہمارے درمیان سوالات کا سلسلہ ختم کر دے..... ’’ البتہ انہوں نے اس میں یہ اضافہ کیا : ’’اور ا للہ تعالیٰ اسے یاد دلاتا جائے گا : فلاں چیز مانگ ، فلاں چیزطلب کر ۔ اور جب اس کی آرزوئیں ختم ہوجائیں گی تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا : یہ سب کچھ تمہارا ہے اور اس سے دس گناہ اور بھی ۔ ‘ ‘ آپﷺ نے فرمایا : ’’پھر وہ اپنے گھر میں داخل ہو گا اور خوبصورت آنکھوں والی حوروں میں اس کی دو بیویاں اس کے پاس آئیں گی اور کہیں گی : اللہ کی حمد جس نے تمہیں ہمارے لیے زندہ کیا اور ہمیں تمہارے لیے زندگی دی ۔ آپ نے فرمایا : تو وہ کہے گا : جو کچھ مجھے عنایت کیا گیا ہے ایسا کسی کو نہیں دیا گیا ۔ ‘ ‘

It is transmitted from Abu Sa'id al-Khudri that, verily, the Messenger of Allah ( ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وسلم ‌ ) said: Amongst the inhabitants of Paradise the lowest in rank will be the person whose face Allah would turn away from the Fire towards the Paradise, and make a shady tree appear before him. He would say: O my Lord! direct my steps to this tree so that I (should enjoy) its shade; and the rest of the hadith is like that narrated by Ibn Mas'ud, but he did not mention: He (Allah) would say: O son of Adam! what will bring an end to your making requests to Me to the end of the tradition. In it, he added: Allah will remind him: Ask such and such, and when his expectations would be realised, Allah would say: That is for you, and ten times as much. He said that he would then enter his house and his two wives with large and dark eyes would enter after him. They will say: Praise be to Allah, Who has created you for us and us for you. He will say: No one has been given the like of what I have been given.

Haidth Number: 464

حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عَمْرٍو الْأَشْعَثِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ مُطَرِّفٍ، وَابْنِ أَبْجَرَ، عَنِ الشَّعْبِيِّ قَالَ: سَمِعْتُ الْمُغِيرَةَ بْنَ شُعْبَةَ رِوَايَةً - إِنْ شَاءَ اللهُ - ح، وَحَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، حَدَّثَنَا مُطَرِّفُ بْنُ طَرِيفٍ، وَعَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ سَعِيدٍ، سَمِعَا الشَّعْبِيَّ، يُخْبِرُ عَنِ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ، قَالَ: سَمِعْتُهُ عَلَى الْمِنْبَرِ يَرْفَعُهُ إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: وَحَدَّثَنِي بِشْرُ بْنُ الْحَكَمِ - وَاللَّفْظُ لَهُ - حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، حَدَّثَنَا مُطَرِّفٌ، وَابْنُ أَبْجَرَ سَمِعَا الشَّعْبِيَّ، يَقُولُ: سَمِعْتُ الْمُغِيرَةَ بْنَ شُعْبَةَ، يُخْبِرُ بِهِ النَّاسَ عَلَى الْمِنْبَرِ - قَالَ سُفْيَانُ: رَفَعَهُ أَحَدُهُمَا، أُرَاهُ ابْنَ أَبْجَرَ - قَالَ: سَأَلَ مُوسَى رَبَّهُ، مَا أَدْنَى أَهْلِ الْجَنَّةِ مَنْزِلَةً، قَالَ: هُوَ رَجُلٌ يَجِيءُ بَعْدَ مَا أُدْخِلَ أَهْلُ الْجَنَّةِ الْجَنَّةَ، فَيُقَالُ لَهُ: ادْخُلِ الْجَنَّةَ، فَيَقُولُ: أَيْ رَبِّ، كَيْفَ وَقَدْ نَزَلَ النَّاسُ مَنَازِلَهُمْ، وَأَخَذُوا أَخَذَاتِهِمْ، فَيُقَالُ لَهُ: أَتَرْضَى أَنْ يَكُونَ لَكَ مِثْلُ مُلْكِ مَلِكٍ مِنْ مُلُوكِ الدُّنْيَا؟ فَيَقُولُ: رَضِيتُ رَبِّ، فَيَقُولُ: لَكَ ذَلِكَ، وَمِثْلُهُ وَمِثْلُهُ وَمِثْلُهُ وَمِثْلُهُ، فَقَالَ فِي الْخَامِسَةِ: رَضِيتُ رَبِّ، فَيَقُولُ: هَذَا لَكَ وَعَشَرَةُ أَمْثَالِهِ، وَلَكَ مَا اشْتَهَتْ نَفْسُكَ، وَلَذَّتْ عَيْنُكَ، فَيَقُولُ: رَضِيتُ رَبِّ، قَالَ: رَبِّ، فَأَعْلَاهُمْ مَنْزِلَةً؟ قَالَ: أُولَئِكَ الَّذِينَ أَرَدْتُ غَرَسْتُ كَرَامَتَهُمْ بِيَدِي، وَخَتَمْتُ عَلَيْهَا، فَلَمْ تَرَ عَيْنٌ، وَلَمْ تَسْمَعْ أُذُنٌ، وَلَمْ يَخْطُرْ عَلَى قَلْبِ بَشَرٍ ، قَالَ: وَمِصْدَاقُهُ فِي كِتَابِ اللهِ عَزَّ وَجَلَّ: {فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَا أُخْفِيَ لَهُمْ مِنْ قُرَّةِ أَعْيُنٍ} [السجدة: 17] الْآيَةَ.

ہمیں سعید بن عمر و اشعثی نے حدیث بیان سنائی ، کہا : ہمیں سفیان بن عیینہ نے حدیث سنائی ، انہوں نے مطرف اور ( عبد الملک ) ابن ابجر سے ، انہوں نے شعبی سے روایت کی ، کہا : میں نے مغیرہ بن شعبہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے ، انشاء ا للہ ( رسول اللہ ﷺ سے بیان کردہ ) روایت کے طور پر سنا ، نیز ابن ابی عمر نے سفیان سے ، انہوں نے مطرف اور عبدالملک بن سعید سے اور ان دونوں نے شعبی سے سن کر حدیث بیان کی ، انہوں نے مغیرہ بن شعبہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ کے حوالے سے خبر دی ، کہا : میں نے ان سے منبر پر سنا ، وہ اس بات کو رسول اللہ ﷺ کی طرف منسوب کر رہے تھے ، نیز بشر بن حکم نے مجھ سے بیان کیا ( روایت کے الفاظ انہیں کے ہیں ) سفیان بن عیینہ نے ہمیں حدیث بیان کی ، انہوں نے کہا : ہمیں مطرف اور ابن ابجر نے حدیث بیان کی ، ان دونوں نے شعبی سے سنا ، وہ کہہ رہے تھے : میں نے مغیرہ بن شعبہ سے سنا ، وہ منبر پر لوگوں کو ( یہ ) حدیث سنا رہے تھے ۔ سفیان نے کہا : ان دونوں ( استادوں ) میں سےایک ( میرا خیال ہے ابن ابجر ) نے اس روایت کو مرفوعاً ( جسے صحابی نے رسو ل اللہﷺ سے سنا ہو ) بیان کیا ، آپ نے فرمایا : ’’موسیٰ ‌علیہ ‌السلام ‌ نے رب تعالیٰ سے پوچھا : جنت میں سب سے کم درجے کا ( جنتی ) کون ہو گا؟اللہ تعالیٰ نے فرمایا : وہ ( ایسا ) آدمی ہو گا جو تمام اہل جنت کو جنت میں بھیج دیے جانے کے بعد آئے گا تو اس سے کہا جائے گا : جنت میں داخل ہو جا ، وہ کہے گا : میرے رب ! کیسے ؟ لوگ اپنی اپنی منزلوں میں قیام پذیر ہو چکے ہیں اور جولینا تھا سب کچھ لے چکے ہین ۔ تو اس سے کہا جائے گا : کیا تم اس پر راضی ہو جاؤ گے کہ تمہیں دنیا کے بادشاہوں میں سے کسی بادشاہ کے ملک کے برابر مل جائے؟ وہ کہے گا : میرے رب! میں راضی ہوں ، اللہ فرمائے گا : وہ ( ملک ) تمہاراہوا ، پھر اتنا اور ، پھر اتنا اور ، پھر اتنا اور ، پھر اتنا اور ، پھر اتنا اور ، پھر بار وہ آدمی ( بے اختیار ) کہے گا : میرے رب ! میں راضی ہوگیا ۔ اللہ عز وجل فرمائے گا : یہ ( سب بھی ) تیرا اور اس سے دس گنا مزید بھی تیرا ، اور وہ سب کچھ بھی تیرا جو تیرا دل چاہے اور جو تیری آنکھوں کو بھائے ۔ وہ کہے گا : اے میرے رب ! میں راضی ہوں ، پھر ( موسیٰ ‌علیہ ‌السلام ‌ نے ) کہا : پروردگار !تو وہ سب سے اونچے درجے کا ہے ؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : یہی لوگ ہیں جو میری مراد ہیں ، ان کی عزت و کرامت کو میں نے اپنے ہاتھوں سے کاشت کیا اور اس پر مہر لگا دی ( جس کے لیے چاہا محفوظ کر لیا ۔ ) ( عزت کا ) وہ ( مقام ) نہ کسی آنکھ نے دیکھا اور نہ کسی کان نے سنا اور نہ کسی انسان کے دل میں اس کا خیال تک گزرا ۔ فرمایا : اس کا مصداق اللہ عزوجل کی کتاب میں موجود ہے : ’’کوئی ذی روح نہین جانتا کہ ان کے لیے آنکھوں کی کسی ٹھنڈک چھپاکے رکھی گئی ہے ۔ ‘ ‘

The same hadith has been by AlMughirah bin Shu’bah attributing it to the Messenger of Allah ( ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وسلم ‌ ).

Haidth Number: 465
ہا : میں نے شعبی سے سنا ، انہوں نے کہا : میں نے مغیرہ بن شعبہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے سنا ، وہ منبر پر کہہ رہے تھے : بے شک موسیٰ ‌علیہ ‌السلام ‌ نے اللہ عز وجل سے اہل جنت میں سے سب سے کم حصہ پانے والے کے بارے میں پوچھا........ اور سابقہ حدیث کی طرح روایت ( سفیان کے بجائے ) عبیداللہ اشجعی نے عبدالملک ابن ابجر سے روایت کی ، انہوں نے ک بیان کی ۔

Sha'bi reported he had heard al-Mughira b. Shu'ba say on the pulpit that Moses (peace be upon him) had asked Allah, Exalted and Great, about the reward of the lowest of the inhabitants of Paradise, and the remaining part of hadith is the same (as narrated) above.

Haidth Number: 466

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللهِ بْنِ نُمَيْرٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ، عَنِ الْمَعْرُورِ بْنِ سُوَيْدٍ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنِّي لَأَعْلَمُ آخِرَ أَهْلِ الْجَنَّةِ دُخُولًا الْجَنَّةَ، وَآخِرَ أَهْلِ النَّارِ خُرُوجًا مِنْهَا، رَجُلٌ يُؤْتَى بِهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، فَيُقَالُ: اعْرِضُوا عَلَيْهِ صِغَارَ ذُنُوبِهِ، وَارْفَعُوا عَنْهُ كِبَارَهَا، فَتُعْرَضُ عَلَيْهِ صِغَارُ ذُنُوبِهِ، فَيُقَالُ: عَمِلْتَ يَوْمَ كَذَا وَكَذَا كَذَا وَكَذَا، وَعَمِلْتَ يَوْمَ كَذَا وَكَذَا كَذَا وَكَذَا، فَيَقُولُ: نَعَمْ، لَا يَسْتَطِيعُ أَنْ يُنْكِرَ وَهُوَ مُشْفِقٌ مِنْ كِبَارِ ذُنُوبِهِ أَنْ تُعْرَضَ عَلَيْهِ، فَيُقَالُ لَهُ: فَإِنَّ لَكَ مَكَانَ كُلِّ سَيِّئَةٍ حَسَنَةً، فَيَقُولُ: رَبِّ، قَدْ عَمِلْتُ أَشْيَاءَ لَا أَرَاهَا هَا هُنَا فَلَقَدْ رَأَيْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ضَحِكَ حَتَّى بَدَتْ نَوَاجِذُهُ،

محمد بن عبد اللہ بن نمیر نے ہمیں اپنے والد سے حدیث بیان کی ، کہا : ہمیں اعمش نے معرور بن سوید سے حدیث سنائی ، انہوں نے ابو ذر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے روایت کی ، انہوں نےکہا کہ رسو ل اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’ میں اہل جنت میں سے سب کے بعد جنت میں جانے والے اور اہل دوزخ میں سب سے آخر میں اس سے نکلنے والے کو جانتا ہوں ، وہ ایک آدمی ہے جسے قیامت کے دن لایا جائے گا اور کہا جائے گا : اس کے سامنے اس کے چھوٹے گنا ہ پیش کرو اور اس کے بڑے گناہ اٹھا رکھو ( ایک طرف ہٹادو ۔ ) تو اس کے چھوٹے گناہ اس کے سامنے لائے جائیں گے اور کہا جائے گا : فلاں فلاں دن تو نے فلاں فلاں کام کیے اور فلاں فلاں دن تو نے فلاں فلاں کام کیے ۔ وہ کہے گا : ہاں ، وہ انکار نہیں کر سکے گا اور وہ اپنے بڑے گناہوں کے پیش ہونے سے خوفزدہ ہوگا ، ( اس وقت ) اسے کہا جائے گا : تمہارے لیے ہر برائی کے عوض ایک نیکی ہے ۔ تو وہ کہے گا : اے میرے رب ! میں نے بہت سے ایسے ( برے ) کام کیے جنہیں میں یہاں نہیں دیکھ رہا ۔ ‘ ‘ میں ( ابو ذر ) نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ آپ ہنسے یہاں تک کہ آپ کے پچھلے دندان مبارک نمایاں ہو گئے ۔

Abu Dharr reported that Allah's Messenger ( ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وسلم ‌ ) said: I know the last of the inhabitants of Paradise to enter it and the last of the inhabitants of Hell to come out of it. He is a man who would be brought on the Day of Resurrection and it will be said: Present his minor sins to him, and withhold from him his serious sins. Then the minor sins would be placed before him, and it would be said: On such and such a day you did so and so and on such and such a day you did so and so. He would say: Yes. It will not be possible for him to deny, while he would be afraid lest serious sins should be presented before him. It would be said to him: In place of every evil deed you will have a good deed. He will say: My Lord! I have done things I do not see here. I indeed saw the Messenger of Allah laugh till his front teeth were exposed.

Haidth Number: 467
Haidth Number: 468

حَدَّثَنِي عُبَيْدُ اللهِ بْنُ سَعِيدٍ، وَإِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ، كِلَاهُمَا عَنْ رَوْحٍ، قَالَ عُبَيْدُ اللهِ: حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَةَ الْقَيْسِيُّ، حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبُو الزُّبَيْرِ، أَنَّهُ سَمِعَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللهِ، يُسْأَلُ عَنِ الْوُرُودِ، فَقَالَ: نَجِيءُ نَحْنُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ عَنْ كَذَا وَكَذَا، انْظُرْ أَيْ ذَلِكَ فَوْقَ النَّاسِ؟ قَالَ: فَتُدْعَى الْأُمَمُ بِأَوْثَانِهَا، وَمَا كَانَتْ تَعْبُدُ، الْأَوَّلُ فَالْأَوَّلُ، ثُمَّ يَأْتِينَا رَبُّنَا بَعْدَ ذَلِكَ، فَيَقُولُ: مَنْ تَنْظُرُونَ؟ فَيَقُولُونَ: نَنْظُرُ رَبَّنَا، فَيَقُولُ: أَنَا رَبُّكُمْ، فَيَقُولُونَ: حَتَّى نَنْظُرَ إِلَيْكَ، فَيَتَجَلَّى لَهُمْ يَضْحَكُ، قَالَ: فَيَنْطَلِقُ بِهِمْ وَيَتَّبِعُونَهُ، وَيُعْطَى كُلُّ إِنْسَانٍ مِنْهُمْ مُنَافِقًا، أَوْ مُؤْمِنًا نُورًا، ثُمَّ يَتَّبِعُونَهُ وَعَلَى جِسْرِ جَهَنَّمَ كَلَالِيبُ وَحَسَكٌ، تَأْخُذُ مَنْ شَاءَ اللهُ، ثُمَّ يُطْفَأُ نُورُ الْمُنَافِقِينَ، ثُمَّ يَنْجُو الْمُؤْمِنُونَ، فَتَنْجُو أَوَّلُ زُمْرَةٍ وُجُوهُهُمْ كَالْقَمَرِ لَيْلَةَ الْبَدْرِ سَبْعُونَ أَلْفًا لَا يُحَاسَبُونَ، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ كَأَضْوَأِ نَجْمٍ فِي السَّمَاءِ، ثُمَّ كَذَلِكَ ثُمَّ تَحِلُّ الشَّفَاعَةُ، وَيَشْفَعُونَ حَتَّى يَخْرُجَ مِنَ النَّارِ مِنْ قَالَ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَكَانَ فِي قَلْبِهِ مِنَ الْخَيْرِ مَا يَزِنُ شَعِيرَةً، فَيُجْعَلُونَ بِفِنَاءِ الْجَنَّةِ، وَيَجْعَلُ أَهْلُ الْجَنَّةِ يَرُشُّونَ عَلَيْهِمُ الْمَاءَ حَتَّى يَنْبُتُوا نَبَاتَ الشَّيْءِ فِي السَّيْلِ، وَيَذْهَبُ حُرَاقُهُ، ثُمَّ يَسْأَلُ حَتَّى تُجْعَلَ لَهُ الدُّنْيَا وَعَشَرَةُ أَمْثَالِهَا مَعَهَا

ابو زبیر نے بتایا کہ انہوں نے حضرت جابر بن عبد اللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے سنا ، ان سے ( جنت اور جہنم میں ) وارد ہونے کے بارے میں سوال کیا جا رہا تھا تو انہوں نے کہا : ہم قیامت کے دن فلاں فلاں ( سمت ) سے آئیں گے ( دیکھو ) ، یعنی اس سمت سے جو لوگوں کےاوپر ہے ۔ کہا : سب امتیں اپنے اپنے بتوں اور جن ( معبودوں ) کی بندگی کرتی تھیں ان کے ساتھ بلائی جائیں گی ، ایک کے بعد ایک ، پھر اس کے بعد ہمارا رب ہمارے پاس آئے گا اور پوچھے گا : تم کس کا انتظار کر رہے ہو ؟ تو وہ کہیں گے : ہم اپنے رب کے منتظر ہیں ۔ وہ فرمائے گا : میں تمہارا رب ہوں ۔ توسب کہیں گے : ( اس وقت ) جب ہم تمہیں دیکھ لیں ۔ تو وہ ہنستا ہوا ان کےسامنے جلوہ افروز ہو گا ۔ انہوں نے کہا : وہ انہیں لے کر جائے گااور وہ اس کے پیچھے ہوں گے ، ان میں ہر انسان کو ، منافق ہویا مومن ، ایک نور دیا جائے گا ، وہ اس نور کے پیچھے چلیں گے ۔ اور جہنم کے پل پر کئی نوکوں والے کنڈے اور لوہے کے سخت کانٹے ہوں گے اور جس کو اللہ تعالیٰ چاہے گا وہ اسے پکڑ لیں گے ، پھر منافقوں کا نور بجھا دیا جائے گا اور مومن نجات پائیں گے تو سب سے پہلا گروہ ( جو ) نجات پائے گا ، ان کے چہرے چودہویں کے چاند جیسے ہوں گے ( وہ ) ستر ہزار ہوں گے ، ان کا حساب نہیں کیا جائے گا ، پھر جو لوگ ان کے بعد ہوں گے ، ان کے چہرے آسمان کے سب سے زیادہ روشن ستارے کی طرح ہوں گے ، پھر اسی طرح ( درجہ بدرجہ ۔ ) اس کے بعد پھرشفاعت کا مرحلہ آئے گااور ( شفاعت کرنے والے ) شفاعت کریں گے حتی کہ ہر وہ شخص جس نے لا الہ الا اللہ کہا ہو گا اور جس کےدل میں جو کے وزن کے برابر بھی نیکی ( ایمان ) ہو گی ۔ ان کی جنت کے آگے کے میدان میں ڈال دیا جائے گا اور اہل جنت ان پر پانی چھڑکنا شروع کر دیں گے حتی کہ وہ اس طرح اگ آئیں گے جیسے کوئی چیز سیلاب میں اگ آتی ہے اور اس ( کے جسم ) کا جلا ہوا حصہ ختم ہو جائے گا ، پھر اس سے پوچھا جائے گا حتی کہ اس کو دنیا اور اس کے ساتھ اس سے دس گنا مزید عطا کر دیا جائے گا ۔

It is reported on the authority of Abu Zubair that he heard from Jabir b 'Abdullah, who was asked about the arrival (of people on the Day of Resurrection). He said. We would come on the Day of Resurrection like this, like this, and see. carefully. that which concerns elevated people . He (the narrator) said: Then the people would be summoned along with their idols whom they worshipped, one after another. Then our Lord would come to us and say: Whom are you waiting for? They would say: We are waiting for our Lord. He would say: I am your Lord. They would say: (We are not sure) till we gaze at Thee, and He would manifest Himself to them smilingly, and would go along with them and they would follow Him; and every person, whether a hypocrite or a believer, would be endowed with a light, and there would be spikes and hooks on the bridge of the Hell, which would catch hold of those whom Allah willed. Then the light of the hypocrites would be extinguished, and the believers would secure salvation. and the first group to achieve it would comprise seventy thousand men who would have the brightness of full moon on their faces, and they would not be called to account. Then the people immediately following them would have their faces as the brightest stars in the heaven. This is how (the groups would follow one after another). Then the stage of intercession would come, and they (who are permitted to intercede) would intercede, till he who had declared: There is no god but Allah and had in his heart virtue of the weight of a barley grain would come out of the Fire. They would be then brought in the courtyard of Paradise and the inhabitants of Paradise would begin to sprinkle water over them till they would sprout like the sprouting of a thing in flood water, and their burns would disappear. They would ask their Lord till they would be granted (the bounties) of the world and with it ten more besides it.

Haidth Number: 469
سفیان بن عیینہ نے عمر ( بن دینار ) سے روایت کی کہ انہوں نے حضرت جابر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے سنا ، وہ کہہ رہے تھے : انہوں نے اپنے دونوں کانٔن سے یہ بات نبی ﷺسنی ، آپ فرما رہے تھے : ’’ اللہ تعالیٰ کچھ لوگوں کو آگ سے نکال کر جنت میں داخل کرے گا ۔ ‘ ‘

Jabir reported that he had heard with his ears the Apostle ( ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وسلم ‌ ) saying: Allah will bring out people from the Fire and admit them into Paradise.

Haidth Number: 470
حماد بن زید نے کہا : میں نے عمر وبن دینارسے پوچھا : کیا آپ نے جابربن عبداللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ کو رسول اللہﷺ سے یہ حدیث بیان کرتے ہوئے سنا ہے کہ اللہ تعالیٰ کچھ لوگوں کو شفاعت کے ذریعے سے آگ میں سے نکالے گا؟ تو انہوں نے کہا : ہاں ۔

Hammad b. Zaid, reported: I said to 'Amr b. Dinar: Did you hear Jabir b. 'Abdullah narrating from the Messenger of Allah ( ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وسلم ‌ ) that Allah would bring out people from the Fire through intercession. He said: Yes.

Haidth Number: 471
قیس بن سلیم عنبری سے کہا : یزید الفقیر نے مجھے حدیث بیان کی کہ حضرت جابربن عبد اللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ نےحدیث سنائی ، انہوں نےکہا کہ رسو ل اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’بلاشبہ کچھ لوگ آگ میں سے نکالے جائیں گے ، وہ اپنے چہروں کے علاوہ ( پورے کے پورے ) اس میں جل چکے ہوں گے یہاں تک کہ وہ جنت میں داخل ہو جائیں گے ۔ ‘ ‘

Jabir b. 'Abdullah repotted: The Messenger of Allah ( ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وسلم ‌ ) said: Verily people would be brought out from the Fire, and they would be burnt except the exterior (surfaces, fronts) of their faces; and they would enter Paradise.

Haidth Number: 472

وَحَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ الشَّاعِرِ، حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُكَيْنٍ، حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ، يَعْنِي مُحَمَّدَ بْنَ أَبِي أَيُّوبَ، قَالَ: حَدَّثَنِي يَزِيدُ الْفَقِيرُ، قَالَ: كُنْتُ قَدْ شَغَفَنِي رَأْيٌ مِنْ رَأْيِ الْخَوَارِجِ، فَخَرَجْنَا فِي عِصَابَةٍ ذَوِي عَدَدٍ نُرِيدُ أَنْ نَحُجَّ، ثُمَّ نَخْرُجَ عَلَى النَّاسِ، قَالَ: فَمَرَرْنَا عَلَى الْمَدِينَةِ، فَإِذَا جَابِرُ بْنُ عَبْدِ اللهِ يُحَدِّثُ الْقَوْمَ، جَالِسٌ إِلَى سَارِيَةٍ، عَنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: فَإِذَا هُوَ قَدْ ذَكَرَ الْجَهَنَّمِيِّينَ، قَالَ: فَقُلْتُ لَهُ: يَا صَاحِبَ رَسُولِ اللهِ، مَا هَذَا الَّذِي تُحَدِّثُونَ؟ وَاللهُ يَقُولُ: {إِنَّكَ مَنْ تُدْخِلِ النَّارَ فَقَدْ أَخْزَيْتَهُ} [آل عمران: 192] وَ {كُلَّمَا أَرَادُوا أَنْ يَخْرُجُوا مِنْهَا أُعِيدُوا فِيهَا} [السجدة: 20]، فَمَا هَذَا الَّذِي تَقُولُونَ؟ قَالَ: فَقَالَ: «أَتَقْرَأُ الْقُرْآنَ؟» قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: «فَهَلْ سَمِعْتَ بِمَقَامِ مُحَمَّدٍ عَلَيْهِ السَّلَامُ - يَعْنِي الَّذِي يَبْعَثُهُ اللهُ فِيهِ -؟» قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: «فَإِنَّهُ مَقَامُ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَحْمُودُ الَّذِي يُخْرِجُ اللهُ بِهِ مَنْ يُخْرِجُ»، قَالَ: ثُمَّ نَعَتَ وَضْعَ الصِّرَاطِ، وَمَرَّ النَّاسِ عَلَيْهِ، - قَالَ: وَأَخَافُ أَنْ لَا أَكُونَ أَحْفَظُ ذَاكَ - قَالَ: غَيْرَ أَنَّهُ قَدْ زَعَمَ أَنَّ قَوْمًا يَخْرُجُونَ مِنَ النَّارِ بَعْدَ أَنْ يَكُونُوا فِيهَا، قَالَ: - يَعْنِي - فَيَخْرُجُونَ كَأَنَّهُمْ عِيدَانُ السَّمَاسِمِ، قَالَ: «فَيَدْخُلُونَ نَهَرًا مِنْ أَنْهَارِ الْجَنَّةِ، فَيَغْتَسِلُونَ فِيهِ، فَيَخْرُجُونَ كَأَنَّهُمُ الْقَرَاطِيسُ»، فَرَجَعْنَا قُلْنَا: وَيْحَكُمْ أَتُرَوْنَ الشَّيْخَ يَكْذِبُ عَلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَرَجَعْنَا فَلَا وَاللهِ مَا خَرَجَ مِنَّا غَيْرُ رَجُلٍ وَاحِدٍ، أَوْ كَمَا قَالَ: أَبُو نُعَيْمٍ

م ، یعنی محمد بن ابی ایوب نے کہا : مجھے یزید الفقیر نےحدیث سنائی ، انہوں نے کہا : کہ خارجیوں کے نظریات میں سے ایک بات میرے دل میں گھر کر گئی تھی ۔ ہم ایک جماعت میں نکلے جس کی اچھی خاصی تعداد تھی ۔ ہمارا ارادہ تھا کہ حج کریں اور پھر لوگوں کو خلاف خروج کریں ( جنگ کریں ۔ ) ہم مدینہ سے گزرے تو ہم نےدیکھا کہ حضرت جابر بن عبد اللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ ( ایک ستون کے پاس بیٹھے ) لوگوں کو رسول اللہﷺ کی احادیث سنا رہے ہیں ، انہوں نے اچانک «الجهميين» ( جہنم سے نکل کر جنت میں پہنچنے والے لوگوں ) کا تذکرہ کیا تو میں ان سے پوچھا : اے رسول اللہ کے ساتھی! یہ آپ کیا بیان کر رہے ہیں ؟ حالانکہ اللہ فرماتا ہے : ’’بے شک جس کو تو نے آگ میں داخل کر دیا اس کو رسوا کر دیا ۔ ‘ ‘ اور : ’’وہ جب بھی اس سے نکلنے کا ارادہ کریں گے ، اسی میں لوٹا دیے جائیں گے ۔ ‘ ‘ تویہ کیا بات ہے جو آپ کہہ رہے ہیں ؟ ( یزیدنے ) کہا : انہوں نے ( جواب میں ) کہا : کیا تم قرآن پڑھتے ہو؟ میں نے عرض کی : ہاں!انہوں نے کہا : کیا تم نے محمدﷺ کے مقام کے بارے میں سنا ہے ، یعنی وہ مقام جس پر قیامت کے دن آپ کومبعوث کیا جائے گا؟ میں نے کہا : ہاں! انہوں نے کہا : بے شک و ہ محمدﷺ کا مقام محمود ہے جس کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو جنہیں ( جہنم سے ) نکالنا ہو گا نکالے گا ، پھر انہو ں نے ( جہنم پر ) پل رکھے جانے اور اس پر سے لوگوں کے گزرنے کا منظر بیان کیا ۔ ( یزید نے ) کہا : مجھے ڈر ہے کہ میں اس کو پوری طرح یاد نہیں رکھ سکا ہوں ۔ سوائے اس کے کہ انہوں نے بتایا : کچھ لوگ جہنم میں چلے جانے کے بعد اس سے نکلیں گے ، یعنی انہوں نےکہا : وہ اس طرح نکلیں گے جیسے وہ ’’تلوں ‘ ‘ ( کےپودوں ) کی لکڑیاں ہوں ، وہ جنت کی نہروں میں سے ایک نہر میں داخل ہو ں گے اور اس میں نہائیں گے ، پھر اس میں سے ( کورے ) کاغذوں کی طرح ( ہوکر ) نکلیں گے ، پھر ( یہ حدیث سن کر ) ہم واپس آئے اورہم نے کہا : تم پر افسوس ! کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ یہ بوڑھا ( صحابی حضرت جابر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ ) رسول اللہ ﷺ پر جھوٹ باندھ رہا ہے ؟ اور ہم نے ( سابقہ رائے سے ) رجوع کر لیا ۔ اللہ کی قسم ! ہم میں سے ایک آدمی کے سوا کسی نے خروج نہ کیا ، یا جس طرح ( کے الفاظ میں ) ابو نعیم نے کہا ۔

Yazid al-Faqir said: This view of the Khawarij (i.e. those who commit major sins and would be eternally doomed to Hell) had obsessed me, and we set out in a large group intending to perform the Hajj and then going to the people (for the propagation of the views of the Khawarij). He (the narrator) said: We happened to past by Medina and found there Jabir b. 'Abdullah sitting near a column narrating to the people (the ahadith of) the Prophet ( ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وسلم ‌ ). When he mentioned the inhabitants of Hell, I said: O companion of the Messenger of Allah what is this that you narrate, whereas Allah says: Verily whomsoever Thou shall commit to the Fire, Thou indeed humiliateth him (al-Qur'an, iii. 192); and All those who endeavored to get out of that would be thrown back into it (al-Qur'an, xxxi i. 20)? So what is it that you say? He said: Have you read the Qur'an? I said: Yes. He said: Have you heard about the (exalted) position of Muhammad ( ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وسلم ‌ ), i.e. to which Allah would raise, him? I said: Yes. He said: Verily the position of Muhammad ( ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وسلم ‌ ) is that of great glory and that is by which Allah would bring out whomsoever He would wish to bring out. He then described the Path (the Bridge) and the passing of the people over it, and said: I am afraid I may not have remembered (other things) but this much is still in my memory that people would come out of the Hell after having gone into it, and he said: They would come out of it as if they were the wood of the ebony tree. He (the narrator said: They would enter a river, one or the rivers of Paradise, and would bathe in it, and then come out as if they were (white like) paper. We then turned back and said: Woe be upon you! How can this old man tell a lie against the Messenger of Allah ( ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وسلم ‌ )? We turned back (from the views of the Khawarij), and by God every one of us abandoned this (band of Khawarij) except one man. A similar statement has been made by Abu Nu'aim.

Haidth Number: 473
ابو عمران اور ثابت نے حضرت انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے روایت کی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’دوزخ سے چار آدمی نکلیں گے ، انہیں اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں پیش کیا جائے گا ۔ ان میں سے ایک متوجہ ہو گا اور کہے گا : اے میرے رب !جب تو نے مجھے اس سے نکال ہی دیا ہے تو اب دوبارہ اس میں نہ ڈالنا ، چنانچہ اللہ تعالیٰ اس کو جہنم سے نجات دے دے گا ۔ ‘ ‘

It is narrated on the authority of Anas b. Malik that the Messenger of Allah ( ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وسلم ‌ ) said: Four persons would be brought out from the Fire and would be presented to Allah. One of them would turn (towards the He) ) ) and say: O my Lord, when Thou hast brought me out from it, do not throw me back into it, and Allah would rescue him from it.

Haidth Number: 474

حَدَّثَنَا أَبُو كَامِلٍ فُضَيْلُ بْنُ حُسَيْنٍ الْجَحْدَرِيُّ، وَمُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ الْغُبَرِيُّ - وَاللَّفْظُ لِأَبِي كَامِلٍ - قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَجْمَعُ اللهُ النَّاسَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَيَهْتَمُّونَ لِذَلِكَ - وَقَالَ ابْنُ عُبَيْدٍ: فَيُلْهَمُونَ لِذَلِكَ - فَيَقُولُونَ: لَوْ اسْتَشْفَعْنَا عَلَى رَبِّنَا حَتَّى يُرِيحَنَا مِنْ مَكَانِنَا هَذَا، قَالَ: فَيَأْتُونَ آدَمَ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَيَقُولُونَ: أَنْتَ آدَمُ، أَبُو الْخَلْقِ، خَلَقَكَ اللهُ بِيَدِهِ، وَنَفَخَ فِيكَ مِنْ رُوحِهِ، وَأَمَرَ الْمَلَائِكَةَ فَسَجَدُوا لَكَ، اشْفَعْ لَنَا عِنْدَ رَبِّكَ حَتَّى يُرِيحَنَا مِنْ مَكَانِنَا هَذَا، فَيَقُولُ: لَسْتُ هُنَاكُمْ، فَيَذْكُرُ خَطِيئَتَهُ الَّتِي أَصَابَ، فَيَسْتَحْيِي رَبَّهُ مِنْهَا، وَلَكِنِ ائْتُوا نُوحًا أَوَّلَ رَسُولٍ بَعَثَهُ اللهُ ، قَالَ: فَيَأْتُونَ نُوحًا صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَيَقُولُ: لَسْتُ هُنَاكُمْ، فَيَذْكُرُ خَطِيئَتَهُ الَّتِي أَصَابَ، فَيَسْتَحْيِي رَبَّهُ مِنْهَا، وَلَكِنِ ائْتُوا إِبْرَاهِيمَ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الَّذِي اتَّخَذَهُ اللهُ خَلِيلًا، فَيَأْتُونَ إِبْرَاهِيمَ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَيَقُولُ: لَسْتُ هُنَاكُمْ، وَيَذْكُرُ خَطِيئَتَهُ الَّتِي أَصَابَ، فَيَسْتَحْيِي رَبَّهُ مِنْهَا، وَلَكِنِ ائْتُوا مُوسَى صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، الَّذِي كَلَّمَهُ اللهُ وَأَعْطَاهُ التَّوْرَاةَ، قَالَ: فَيَأْتُونَ مُوسَى عَلَيْهِ السَّلَامُ، فَيَقُولُ: لَسْتُ هُنَاكُمْ، وَيَذْكُرُ خَطِيئَتَهُ الَّتِي أَصَابَ، فَيَسْتَحْيِي رَبَّهُ مِنْهَا، وَلَكِنِ ائْتُوا عِيسَى رُوحَ اللهِ وَكَلِمَتَهُ، فَيَأْتُونَ عِيسَى رُوحَ اللهِ وَكَلِمَتَهُ، فَيَقُولُ: لَسْتُ هُنَاكُمْ، وَلَكِنِ ائْتُوا مُحَمَّدًا صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَبْدًا قَدْ غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ وَمَا تَأَخَّرَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: فَيَأْتُونِي فَأَسْتَأْذِنُ عَلَى رَبِّي، فَيُؤْذَنُ لِي، فَإِذَا أَنَا رَأَيْتُهُ وَقَعْتُ سَاجِدًا، فَيَدَعُنِي مَا شَاءَ اللهُ، فَيُقَالُ: يَا مُحَمَّدُ، ارْفَعْ رَأْسَكَ، قُلْ تُسْمَعْ، سَلْ تُعْطَهْ، اشْفَعْ تُشَفَّعْ، فَأَرْفَعُ رَأْسِي، فَأَحْمَدُ رَبِّي بِتَحْمِيدٍ يُعَلِّمُنِيهِ رَبِّي، ثُمَّ أَشْفَعُ فَيَحُدُّ لِي حَدًّا، فَأُخْرِجُهُمْ مِنَ النَّارِ، وَأُدْخِلُهُمُ الْجَنَّةَ، ثُمَّ أَعُودُ فَأَقَعُ سَاجِدًا، فَيَدَعُنِي مَا شَاءَ اللهُ أَنْ يَدَعَنِي، ثُمَّ يُقَالُ: ارْفَعْ يَا مُحَمَّدُ، قُلْ تُسْمَعْ، سَلْ تُعْطَهْ، اشْفَعْ تُشَفَّعْ، فَأَرْفَعُ رَأْسِي، فَأَحْمَدُ رَبِّي بِتَحْمِيدٍ يُعَلِّمُنِيهِ، ثُمَّ أَشْفَعُ فَيَحُدُّ لِي حَدًّا، فَأُخْرِجَهُمْ مِنَ النَّارِ وَأُدْخِلُهُمُ الْجَنَّةَ - قَالَ: فَلَا أَدْرِي فِي الثَّالِثَةِ أَوْ فِي الرَّابِعَةِ - قَالَ فَأَقُولُ: يَا رَبِّ، مَا بَقِيَ فِي النَّارِ إِلَّا مَنْ حَبَسَهُ الْقُرْآنُ، أَيْ وَجَبَ عَلَيْهِ الْخُلُودُ . قَالَ ابْنُ عُبَيْدٍ فِي رِوَايَتِهِ: قَالَ قَتَادَةُ: «أَيْ وَجَبَ عَلَيْهِ الْخُلُودُ».

ابو کامل فضیل بن حسین جحدری اور محمد بن عبید غبری نے کہا : ( الفاظ ابو کامل کے ہیں ) ہمیں ابو عوانہ نے قتادہ سےحدیث سنائی ، انہوں نے حضرت انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے روایت کی ، انہوں نےکہاکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’اللہ تعالیٰ قیامت کے دن لوگوں کو جمع کرے گا اور وہ اس بات پر فکر مند ہوں گے ( کہ اس دن کی سختیوں سے کیسے نجات پائی جائے؟ ) ( ابن عبید نے کہا : ان کے دل میں یہ بات ڈالی جائے گی ) او ر وہ کہیں گے : اگر ہم اپنے رب کے حضور کوئی سفارش لائیں تاکہ وہ ہمیں اس جگہ ( کی سختیوں ) سے راحت عطا کر دے ۔ آپ نے فرمایا : چنانچہ وہ آدم علیہ السلام کے پاس آئیں گے اورکہیں گے : آپ آدم ہیں ، تمام مخلوق کے والد ، اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنے ہاتھ سے پیدا کیا اور آپ میں اپنی روح پھونکی اور فرشتوں کو حکم دیا تو انہوں نے آپ کو سجدہ کیا ، آپ ہمارے لیے اپنے رب کے حضور سفارش فرمائیں کہ وہ ہمیں اس ( اذیت ناک ) جگہ سے راحت دے ۔ وہ جواب دیں گے : میں اس مقام پر نہیں ، پھر وہ اپنی غلطی کو ، جو ان سے ہو گئی تھی ، یاد کر کے اس کی وجہ سے اپنےرب سے شرمندگی محسوس کریں گے ، ( اور کہیں گے : ) لیکن تم نوح ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ کے پاس جاؤ ، وہ پہلے رسول ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے ( لوگوں کی طرف ) مبعوث فرمایا ، آپ نے فرمایا : تو اس پر لوگ نوح ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ کے پاس آئیں گے ۔ وہ کہیں گے : یہ میرا مقام نہیں اور وہ اپنی غلطی کو ، جس کا ارتکاب ان سے ہو گیا تھا ، یادکرکے اس پر اپنے رب کی شرمندگی محسوس کریں گے ، ( اور کہیں گے : ) لیکن تم ابراہیم علیہ السلام کے پاس جاؤ جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنا خلیل ( خالص دوست ) بنایا ہے ۔ وہ ابراہیم علیہ السلام کے پاس آئیں گے تو وہ کہیں گے : یہ میرا مقام نہیں ہے اور وہ اپنی غلطی کو یادکریں گےجو ان سے سرزد ہو گئی تھی اور اس پر اپنے رب سے شرمندہ ہوں گے ، ( اور کہیں گے : ) لیکن تم موسیٰ ‌علیہ ‌السلام ‌ کے پاس جاؤ جن سے اللہ تعالیٰ نےکلام کیا اور انہیں تورات عنایت کی ۔ لوگ موسیٰ ‌علیہ ‌السلام ‌ کی خدمت میں حاضر ہوں گے ، وہ کہیں گے کہ میں اس مقام پر نہیں اور اپنی غلطی کو ، جو ان سے ہو گئی تھی ، یاد کر کے اس پر اپنے رب سے شرمندگی محسوس کریں گے ( او رکہیں گے : ) لیکن تم روح اللہ اور اس کے کلمے عیسیٰ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ کے پاس جاؤ ۔ لوگ روح اللہ اور اس کے کلمے عیسیٰ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ کےپاس آئیں گے ۔ وہ ( بھی یہ ) کہیں گے : یہ میرا مقام نہیں ہے ، تم محمدﷺ کے پاس جاؤ ، وہ ایسے برگزیدہ عبد ( بندت ) ہیں جس کے اگلے پچھلے گناہ ( اگر ہوتے تو بھی ) معاف کیے جا چکے ۔ ‘ ‘ حضرت انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ نے کہا : رسو ل اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’ پھر وہ میرے پاس آئیں گے ، میں اپنے رب ( کے پاس حاضری ) کی اجازت چاہوں گا تو مجھے اجازت دی جائے گی ، اسے دیکھتے ہی میں سجدے میں گر جاؤں گا ، تو جب تک اللہ چاہے گا مجھے اس حالت ( سجدہ ) میں رہنے دے گا ۔ پھر کہا جائے گا : اے محمد! اپنا سر اٹھائیے ، کہیے : آپ کی بات سنی جائے گی ، مانگیے ، آپ کودیاجائے گا ، سفارش کیجیے ، آپ کی سفارش قبول کی جائے گی ۔ میں اپنا سر اٹھاؤں گا اور اپنے رب تعالیٰ کی ایسی حمد وستائش بیان کروں گا جو میرا رب عز وجل خود مجھے سکھائے گا ، پھر میں سفارش کروں گا ۔ وہ میرے لیے حد مقرر کر دے گا ، میں ( اس کے مطابق ) لوگوں کو آگ سے نکال کر جنت میں داخل کروں گا ، پھر میں واپس آکر سجدے میں گر جاؤں گا ۔ اللہ تعالیٰ جب تک چاہے گا مجھے اسی حالت میں رہنے دے گا ، پھر کہا جائے گا : اپنا سر اٹھائیے ، اے محمدﷺ!کہیے : آپ کی بات سنی جائے گی ، مانگیے ، آپ کو ملے گا ، سفارش کیجیے آپ کی سفارش قبول کی جائے گی ۔ میں اپنا سر اٹھاؤں گا اور اپنے رب کی وہ حمد کروں گا جومیرا رب مجھے سکھائے گا ، پھر میں سفارش کروں گا تووہ میرے لیے پھر ایک حد مقرر فرما دےگا ، میں ان کو دوزخ سے نکالوں گا اور جنت میں داخل کروں گا ۔ ‘ ‘ ( حضرت انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ نےکہا : مجھے یاد نہیں ، آپ نے تیسری یا چوتھی بار فرمایا ) پھر میں کہوں گا : ’’اےمیرے رب! آگ میں ان کے سوا اور کوئی باقی نہیں بچا جنہیں قرآن نے روک لیا ہے ، یعنی جن کا ( دوزخ میں ) ہمیشہ رہنا ( اللہ کی طرف سے ) لازمی ہو گیا ہے ۔ ‘ ‘ ابن عبید نےاپنی روایت میں کہا : قتادہ نے کہا : یعنی جس کا ہمیشہ رہنا لازمی ہو گیا ۔

Anas b Malik reported: The Messenger of Allah ( ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وسلم ‌ ) said: Allah would gather people on the Day of Resurrection and they would be concerned about it, and Ibn Ubaid said. They would get a Divine inspiration about it, and would say: If we could seek intercession with our Lord, we may be relieved from this predicament of ours. He (the Holy Prophet) said: They would come to Adam andsay, Thou art Adam, the father of mankind. Allah created thee with His own hand and breathed unto thee of His Spirit and commanded the angels and they prostrated before thee. So intercede for us with thy Lords, that He may relieve us from this position of ours. He would say: I am not in a position to do this, and would recall his error, and would fight shy of his Lord on account of that; go to Noah the first messenger (after me) sent by Allah. He (the Holy Prophet) said: So they would come to Noah (peace be upon him). He would say: I am not in a position to do that for you, and recall his fault which he had committed, and would fight shy of his Lord on account of that, (and would say): You better go to Ibrahim (peace be upon him) whom Allah took for a friend. They would come to Ibrahim (peace be upon him) and he would say: I am not in a position to do that for you, and would recall his fault that he had committed and would, therefore, fight shy of his Lord on that account (and would say): You better go to Moses (peace be upon him) with whom Allah conversed and con- ferred Torah upon him. He (the Holy Prophet) said: So they would come to Moses (peace be upon him) He would say: I am not in a position to do that for you, and would recall his fault that he had committed and would fight shy of his Lord on account of that (and would say): You better go to Jesus, the Spirit of Allah and His word He would say: I am not in a position to do that for you; you better go to Muhammad ( ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وسلم ‌ ), a servant whose former and later sins have been forgiven. He (the narrator) said: The Messenger or Allah ( ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وسلم ‌ ) observed: So they would come to me and I would ask the permission of my Lord and it would be granted to me, and when I would see Him, I would fall down in prostration, and He (Allah) would leave me thus as long as He would wish, and then it would be said: O Muhammad, raise your head, say and you would be heard; ask and it would be granted; intercede and intercession would be accepted. Then I would raise my head and extrol my Lord with the praise which my Lord would teach me. I shall then inter- cede, but a limit would be set for me I would bring them out from the Fire and make them enter Paradise (according to the limit). I shall return then ard fall down in pros- tration and Allah would leave me (in that position) as long as He would wish to leave me it would be said: Rise, O Muhammad, say and you would be heard; ask and it would be conferred; intercede and intercession would be granted. I would raise my head and extrol my Lord with praise that He would teach me. I would theft intercede and a limit would be set for me. I would bring them out of the Fire (of Hell) and make them enter Paradise. He (the narrator) said: I do not remember whether he (the Holy Prophet) said at tLe third time or at the fourth time: O my Lord, none has been left in the Fire, but thise restrained by the Holy Qur'an, i e. those who were eternally doomed. Ibn Ubaid said in a narration: Qatada observed: whose everlasting stay was imperative .

Haidth Number: 475
دوسری سند سے جس میں ( ابو عوانہ کے بجائے ) سعید نے قتادہ سے اور انہوں نے حضرت انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے روایت کی ، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’قیامت کے دن مومن جمع ہوں گے اور اس ( کی ہولناکیوں سے بچنے ) کی فکر میں مبتلا ہوں گے یا یہ بات ان کے دلوں میں ڈالی جائے گی ۔ ‘ ‘ .... ( آگے ) ابو عوانہ کی حدیث کےمانند ہے ، البتہ انہوں نے اس حدیث میں یہ کہا : ’’پھر میں چوتھی بار اللہ تعالیٰ کی خدمت میں حاضر ہوں گا ( یا چوتھی بار لوٹوں گا ) اور کہوں گا : اے میرے رب! ان کے سوا جنہیں قرآن ( کے فیصلے ) نے روک رکھاہے اور کوئی باقی نہیں بچا ۔ ‘ ‘

Anas reported: The Messenger of Allah ( ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وسلم ‌ ) said: The believers would gather on the Day of Resurrection, and they would be concerned about it, or would be made mindful of it (i. e. the trjuble for it), (and the remaining part of the hadith w, ) uld be narrated) like the one transmitted by Abu Uwana, and he said in the hadith: Then I would come for the fourth time, or I would return the fourth time, and would say: O my Lord, no one has been left but he whom the Holy Qur'an has restrained.

Haidth Number: 476
معاذ بن ہشام نے کہا : میرے والد نے مجھے قتادہ کے حوالے سے حدیث سنائی اور انہوں نے حضرت انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے روایت کی کہ اللہ کے نبی ﷺ نےفرمایا : ’’قیامت کے دن اللہ تعالیٰ مومنوں کو جمع کرے گا ، پھر اس ( دن کی پریشانی سے بچنے ) کے لیے ان کے دل میں یہ بات ڈالی جائے گی ۔ ‘ ‘ .... یہ حدیث بھی ان دونوں ( ابوعوانہ اور سعید ) کی حدیث کی طرح ہے ، چوتھی دفعہ کے بارے میں یہ کہا : ’’تو میں کہوں گا : اے میرے رب! آگ میں ان کے سوا اور کوئی باقی نہیں جسے قرآن ( کے فیصلے ) نے روک لیا ہے ، یعنی جس کے لیے ( آگ میں ) ہمیشہ رہنا واجب ہو گیا ہے ۔

Anas b. Malik reported: The Prophet of Allah (may peace be, upon him) said: Allah will gather the believers on the Day of Resurrection and they would be made mindful of it; and the rest (of the hadith) is like the one narrated above; and then he mentioned the fourth time: And I (the Holy Prophet) would say: O my Lord, no one is left in the Fire except he whom the Qur'an has restrained, i e. eternally doomed.

Haidth Number: 477

وَحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مِنْهَالٍ الضَّرِيرُ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي عَرُوبَةَ، وَهِشَامٌ صَاحِبُ الدَّسْتَوَائِيِّ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. ح وَحَدَّثَنِي أَبُو غَسَّانَ الْمِسْمَعِيُّ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، قَالَا: حَدَّثَنَا مُعَاذٌ وَهُوَ ابْنُ هِشَامٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ قَتَادَةَ، حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: يَخْرُجُ مِنَ النَّارِ مِنْ قَالَ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَكَانَ فِي قَلْبِهِ مِنَ الْخَيْرِ مَا يَزِنُ شَعِيرَةً، ثُمَّ يَخْرُجُ مِنَ النَّارِ مِنْ قَالَ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَكَانَ فِي قَلْبِهِ مِنَ الْخَيْرِ مَا يَزِنُ بُرَّةً، ثُمَّ يَخْرُجُ مِنَ النَّارِ مِنْ قَالَ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَكَانَ فِي قَلْبِهِ مِنَ الْخَيْرِ مَا يَزِنُ ذَرَّةً . زَادَ ابْنُ مِنْهَالٍ فِي رِوَايَتِهِ: قَالَ: يَزِيدُ، فَلَقِيتُ شُعْبَةَ فَحَدَّثْتُهُ بِالْحَدِيثِ، فَقَالَ شُعْبَةُ: حَدَّثَنَا بِهِ قَتَادَةُ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْحَدِيثِ، إِلَّا أَنَّ شُعْبَةَ جَعَلَ مَكَانَ الذَّرَّةِ ذُرَةً، قَالَ يَزِيدُ: صَحَّفَ فِيهَا أَبُو بِسْطَامَ

محمد بن منہال الضریر ( نابینا ) نے کہا : ہمیں یزید بن زریع نے حدیث سنائی ، انہوں نے کہا : ہمیں سعید بن ابی عروبہ اور دستوائی ( کپڑے ) والے ہشام نے قتادہ سے حدیث سنائی ، انہوں نے حضرت انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے روایت کی ، کہا : رسو ل اللہﷺ نے فرمایا .... ، اسی طرح ابوغسان مسمعی اور محمد بن مثنیٰ نےکہا : میرے والد نےمجھے قتادہ کے حوالے سے حدیث سنائی ، ( انہوں نے کہا : ) ہمیں انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ نےحدیث سنائی کہ نبی ﷺ نے فرمایا : ’’اس شخص کو آگ سے نکال لیا جائےگا جس نے لا اله الا الله کہا اور ا س کےدل میں ایک جوکے وزن کے برابر خیر ہوئی ، پھر ایسے شخص کو آگ سے نکالا جائے گا جس نے لا اله الا الله کہا اور اس کے دل میں گندم کے دانے کے برابر خیر ہوئی ، پھر اس کو آگ سے نکالا جائے گا جس نے لا اله الا الله کہا اور اس کےدل میں ایک ذرے کے برابر بھی خیر ہوئی ۔ ‘ ‘ ( گزشتہ متعدد احادیث سے وضاحت ہوتی ہے کہ خیر سے مراد ایمان ہے ۔ ) ابن منہال نے اپنی روایت میں اضافہ کیا کہ یزید نے کہا : میں شعبہ سے ملا اور انہیں یہ حدیث سنائی تو شعبہ نےکہا : ہمیں یہ حدیث قتادہ نے حضرت انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے ، انہوں نے نبی ﷺ سے سنائی ، البتہ شعبہ نے ’’ایک ذرے ‘ ‘ کے بجائے ’’مکئی کا دانہ ‘ ‘ کہا ۔ یزید نے کہا : اس لفظ میں ابو بسطام ( شعبہ ) سے تصحیف ( حروف میں اشتباہ کی وجہ سے غلطی ) ہو گئی ۔

Anas b. Malik reported: Verily the Apostle ( ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وسلم ‌ ) said: He who professed: There is no god but Allah, would be brought out of the Fire even though he has in his heart virtue equal to the weight of a barley grain. Then he who professed: There is no god but Allah, would come out of the Fire, even though he has in his heart virtue equal to the weight of a wheat grain. He would then bring out from the Fire he who professed: There is no god but Allah, even though he has in his heart virtue equal to the weight of an atom. Ibn Minhal has made an addition (of these words) in his narration: Yazid said: I met Shu'ba and narrated to him this hadith. Shu'ba said: Qatada transmitted to us this hadith from Anas b. Malik who heard it from the Messenger of Allah ( ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وسلم ‌ ) with this alteration that he substituted the word Zurra (grain) in place of Zarra (atom). Yazid said: Abu Bistam has made a change in it.

Haidth Number: 478

حَدَّثَنَا أَبُو الرَّبِيعِ الْعَتَكِيُّ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، حَدَّثَنَا مَعْبَدُ بْنُ هِلَالٍ الْعَنَزِيُّ، ح، وَحَدَّثَنَاهُ سَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ، وَاللَّفْظُ لَهُ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، حَدَّثَنَا مَعْبَدُ بْنُ هِلَالٍ الْعَنَزِيُّ، قَالَ: انْطَلَقْنَا إِلَى أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، وَتَشَفَّعْنَا بِثَابِتٍ فَانْتَهَيْنَا إِلَيْهِ وَهُوَ يُصَلِّي الضُّحَى، فَاسْتَأْذَنَ لَنَا ثَابِتٌ، فَدَخَلْنَا عَلَيْهِ وَأَجْلَسَ ثَابِتًا مَعَهُ عَلَى سَرِيرِهِ، فَقَالَ: لَهُ يَا أَبَا حَمْزَةَ، إِنَّ إِخْوَانَكَ مِنْ أَهْلِ الْبَصْرَةِ يَسْأَلُونَكَ أَنْ تُحَدِّثَهُمْ حَدِيثَ الشَّفَاعَةِ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: إِذَا كَانَ يَوْمُ الْقِيَامَةِ مَاجَ النَّاسُ بَعْضُهُمْ إِلَى بَعْضٍ، فَيَأْتُونَ آدَمَ فَيَقُولُونَ لَهُ: اشْفَعْ لِذُرِّيَّتِكَ، فَيَقُولُ: لَسْتُ لَهَا، وَلَكِنْ عَلَيْكُمْ بِإِبْرَاهِيمَ عَلَيْهِ السَّلَامُ، فَإِنَّهُ خَلِيلُ اللهِ، فَيَأْتُونَ إِبْرَاهِيمَ فَيَقُولُ: لَسْتُ لَهَا وَلَكِنْ عَلَيْكُمْ بِمُوسَى عَلَيْهِ السَّلَامُ، فَإِنَّهُ كَلِيمُ اللهِ، فَيُؤْتَى مُوسَى، فَيَقُولُ: لَسْتُ لَهَا، وَلَكِنْ عَلَيْكُمْ بِعِيسَى عَلَيْهِ السَّلَامُ [ص:183]، فَإِنَّهُ رُوحُ اللهِ وَكَلِمَتُهُ، فَيُؤتَى عِيسَى، فَيَقُولُ: لَسْتُ لَهَا، وَلَكِنْ عَلَيْكُمْ بِمُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأُوتَى، فَأَقُولُ: أَنَا لَهَا، فَأَنْطَلِقُ فَأَسْتَأْذِنُ عَلَى رَبِّي، فَيُؤْذَنُ لِي، فَأَقُومُ بَيْنَ يَدَيْهِ فَأَحْمَدُهُ بِمَحَامِدَ لَا أَقْدِرُ عَلَيْهِ الْآنَ، يُلْهِمُنِيهِ اللهُ، ثُمَّ أَخِرُّ لَهُ سَاجِدًا، فَيُقَالُ لِي: يَا مُحَمَّدُ، ارْفَعْ رَأْسَكَ، وَقُلْ: يُسْمَعْ لَكَ، وَسَلْ تُعْطَهْ، وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ، فَأَقُولُ: رَبِّ، أُمَّتِي أُمَّتِي، فَيُقَالُ: انْطَلِقْ، فَمَنْ كَانَ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالُ حَبَّةٍ مِنْ بُرَّةٍ، أَوْ شَعِيرَةٍ مِنْ إِيمَانٍ، فَأَخْرِجْهُ مِنْهَا، فَأَنْطَلِقُ فَأَفْعَلُ، ثُمَّ أَرْجِعُ إِلَى رَبِّي فَأَحْمَدُهُ بِتِلْكَ الْمَحَامِدِ، ثُمَّ أَخِرُّ لَهُ سَاجِدًا، فَيُقَالُ لِي: يَا مُحَمَّدُ، ارْفَعْ رَأْسَكَ، وَقُلْ يُسْمَعْ لَكَ، وَسَلْ تُعْطَهْ، وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ، فَأَقُولُ: أُمَّتِي أُمَّتِي، فَيُقَالُ لِي: انْطَلِقْ فَمَنْ كَانَ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالُ حَبَّةٍ مِنْ خَرْدَلٍ مِنْ إِيمَانٍ فَأَخْرِجْهُ مِنْهَا، فَأَنْطَلِقُ فَأَفْعَلُ، ثُمَّ أَعُودُ إِلَى رَبِّي فَأَحْمَدُهُ بِتِلْكَ الْمَحَامِدِ، ثُمَّ أَخِرُّ لَهُ سَاجِدًا، فَيُقَالُ لِي: يَا مُحَمَّدُ، ارْفَعْ رَأْسَكَ، وَقُلْ يُسْمَعْ لَكَ، وَسَلْ تُعْطَهْ، وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ، فَأَقُولُ: يَا رَبِّ، أُمَّتِي أُمَّتِي، فَيُقَالُ لِي: انْطَلِقْ فَمَنْ كَانَ فِي قَلْبِهِ أَدْنَى أَدْنَى أَدْنَى مِنْ مِثْقَالِ حَبَّةٍ مِنْ خَرْدَلٍ مِنْ إِيمَانٍ فَأَخْرِجْهُ مِنَ النَّارِ فَأَنْطَلِقُ فَأَفْعَلُ ، هَذَا حَدِيثُ أَنَسٍ الَّذِي أَنْبَأَنَا بِهِ، فَخَرَجْنَا مِنْ عِنْدِهِ، فَلَمَّا كُنَّا بِظَهْرِ الْجَبَّانِ، قُلْنَا: لَوْ مِلْنَا إِلَى الْحَسَنِ فَسَلَّمْنَا عَلَيْهِ وَهُوَ مُسْتَخْفٍ فِي دَارِ أَبِي خَلِيفَةَ، قَالَ: فَدَخَلْنَا عَلَيْهِ، فَسَلَّمْنَا عَلَيْهِ، فَقُلْنَا: يَا أَبَا سَعِيدٍ، جِئْنَا مِنْ عِنْدِ أَخِيكَ أَبِي حَمْزَةَ، فَلَمْ نَسْمَعْ مِثْلَ حَدِيثٍ حَدَّثَنَاهُ فِي الشَّفَاعَةِ، قَالَ: هِيَهِ، فَحَدَّثْنَاهُ الْحَدِيثَ، فَقَالَ: هِيَهِ قُلْنَا: مَا زَادَنَا، قَالَ: قَدْ حَدَّثَنَا بِهِ مُنْذُ عِشْرِينَ سَنَةً وَهُوَ يَوْمَئِذٍ جَمِيعٌ، وَلَقَدْ تَرَكَ شَيْئًا مَا أَدْرِي أَنَسِيَ الشَّيْخُ، أَوْ كَرِهَ أَنْ يُحَدِّثَكُمْ، فَتَتَّكِلُوا، قُلْنَا لَهُ: حَدِّثْنَا، فَضَحِكَ وَقَالَ: {خُلِقَ الْإِنْسَانُ مِنْ عَجَلٍ} [الأنبياء: 37]، مَا ذَكَرْتُ لَكُمْ هَذَا إِلَّا وَأَنَا أُرِيدُ أَنْ أُحَدِّثَكُمُوهُ، ثُمَّ أَرْجِعُ إِلَى رَبِّي فِي الرَّابِعَةِ، فَأَحْمَدُهُ بِتِلْكَ الْمَحَامِدِ، ثُمَّ أَخِرُّ لَهُ سَاجِدًا، فَيُقَالُ لِي: يَا مُحَمَّدُ، ارْفَعْ رَأْسَكَ، وَقُلْ يُسْمَعْ لَكَ، وَسَلْ تُعْطَ، وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ، فَأَقُولُ: يَا رَبِّ، ائْذَنْ لِي فِيمَنْ قَالَ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ، قَالَ: لَيْسَ ذَاكَ لَكَ - أَوْ قَالَ: لَيْسَ ذَاكَ إِلَيْكَ - وَلَكِنْ وَعِزَّتِي وَكِبْرِيَائِي وَعَظَمَتِي وَجِبْرِيَائِي، لَأُخْرِجَنَّ مَنْ قَالَ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ، ، قَالَ: فَأَشْهَدُ عَلَى الْحَسَنِ أَنَّهُ حَدَّثَنَا بِهِ، أَنَّهُ سَمِعَ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ أُرَاهُ قَالَ: قَبْلَ عِشْرِينَ سَنَةً وَهُوَ يَوْمِئِذٍ جَمِيعٌ

معبد بن ہلال عنزی نے کہا : ہم لوگ انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ کے پاس گئے اور ثابت ( البنانی ) کو اپنا سفارشی بنایا ( ان کے ذریعے سے ملاقات کی اجازت حاصل کی ۔ ) ہم ان کے ہاں پہنچے تو وہ چاشت کی نماز پڑھ رہے تھے ۔ ثابت نے ہمارے لیے ( اندر آنے کی ) اجازت لی ۔ ہم اندر ان کے سامنے حاضر ہوئے ۔ انہوں نے ثابت کو اپنے ساتھ اپنی چارپائی پر بٹھالیا ۔ ثابت نے ان سے کہا : اے ابوحمزہ! بصرہ کےباشندوں میں سے آپ کو ( یہ ) بھائی آپ سے درخواست کرتے ہیں کہ آپ انہیں شفاعت کی حدیث سنائیں ۔ حضرت انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ نے کہا : ہمیں حضرت محمدﷺ نے بتایا : ’’ جب قیامت کا دن ہو گا تولوگ موجوں کی طرح ایک دوسرے سے ٹکرا رہے ہوں گے ۔ وہ آدم علیہ السلام کے پاس آئیں گے اور ان سے عرض کریں گے : اپنی اولاد کے حق میں سفارش کیجیے ( کہ وہ میدان حشر کے مصائب اور جاں گسل انتظار سے نجات پائیں ۔ ) وہ کہیں گے : میں اس کے لیے نہیں ہوں ۔ لیکن تم ابراہیم علیہ السلام کا دامن تھام لو کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کے خلیل ( خالص دوست ) ہیں ۔ لوگ ابراہیم علیہ السلام کے پاس جائیں گے ۔ وہ جواب دیں گے : میں اس کے لیےنہیں ۔ لیکن تم موسیٰ علیہ السلام کے پاس پہنچ جاؤ وہ کلیم اللہ ہیں ( جن سے اللہ نے براہ راست کلام کیا ) تو موسیٰ علیہ السلام کے پاس حاضری ہو گی ۔ وہ فرمائیں گے : میں اس کے لیے نہیں ۔ لیکن تم عیسیٰ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ کےساتھ لگ جاؤ کیونکہ وہ اللہ کی روح اور اس کا کلمہ ہیں ۔ تو عیسیٰ ‌علیہ ‌السلام ‌ کے پاس آمد ہو گی ، وہ فرمائیں گے : میں اس کے لیے نہیں ۔ لیکن تم محمدﷺ کے پاس پہنچ جاؤ ، تو ( ان کی ) آمد میرے پاس ہو گی ۔ میں جواب دوں گا : اس ( کام ) کے لیے میں ہوں ۔ میں چل پڑوں گا اور اپنے رب کے سامنے حاضری کی اجازت چاہوں گا ، مجھے اجازت عطا کی جائے گی ، اس میں اس کے سامنے کھڑا ہوں گا اور تعریف کی ایسی باتوں کے ساتھ اس کی حمد کروں گا جس پر میں اب میں قادر نہیں ہوں ، اللہ تعالیٰ ہی یہ ( حمد ) میرے دل میں ڈالے گا ، پھر میں اس کے حضور سجدے میں گر جاؤں گا ، پھر مجھ سے کہا جائے گا : اے محمد! اپنا سراٹھائیں اور کہیں ، آپ کی بات سنی جائے گی ، مانگیں ، آپ کو دیا جائے گا اور سفارش کریں ، آپ کی سفارش قبول کی جائے گی ۔ میں عرض کروں گا : اے میرے رب ! میری امت ! ، میری امت! تو مجھ سے کہاجائے گا : جائیں جس کےدل میں گندم یا جو کے دانے کے برابر ایمان ہے اسے نکال لیں ، میں جاؤں گا اور ایسا کروں گا ، پھر میں اپنے رب تعالیٰ کے حضور لوٹ آؤں گا اور حمد کے انہی اسلوبوں سے اس کی تعریف بیان کروں گا ، پھر اس کے سامنے سجدے میں گر جاؤں گا تو مجھے کہا جائے گا : اے محمد! اپنا سر اٹھائیں اور کہیں ، آپ کی بات سنی جائے گی اور مانگیں ، آپ کو دیا جائے گا اور سفارش کریں ، آپ کی سفارش قبول ہو گی ۔ میں عرض کروں گا : اے میرے رب ! میری امت ! میری امت! مجھے کہا جائے گا : جائیں ، جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر ایمان ہو ، اسے نکال لیں ۔ تو میں جاؤں گا اور ایسا کروں گا ، پھراپنے رب کے حضور لوٹ آؤں گا اور اس جیسی تعریف سے اس کی حمد کروں گا ، پھر اس کے سامنے سجدے میں گر جاؤں گا ۔ تو مجھ سے کہا جائے گا : اے محمد ! ا پنا سر اٹھائیں ، کہیں ، آپ کی بات سنی جائے گی اور مانگیں ، آپ کو دیا جائے گا اور سفارش کریں ، آپ کی سفارش قبول ہو گی ۔ تو میں کہوں گا : اے میرے رب ! میری امت ! میری امت !تو مجھ سے کہا جائے گا : جائیں ، جس کے دل میں رائی کے دانے سے کم ، اس سے ( بھی ) کم ، اس سے ( اور بھی ) کم ایمان ہو اسے آگ سے نکال لیں تو میں جاؤں گا اور ایسا کروں گا ۔ ‘ ‘ یہ حضرت انس کی روایت ہے جو انہوں نے ہمیں بیان کی ۔ ( معبدی بن ہلال عنزی نے ) کہا : چنانچہ ہم ان کے ہاں سے نکل آئے ، جب ہم چٹیل میدان کے بالائی حصے پر پہنچے تو ہم نے کہا : ( کیا ہی اچھاہو ) اگر ہم حسن بصری کا رخ کریں اور انہیں سلام کرتے جائیں ۔ وہ ( حجاج بن یوسف کے ڈر سے ) ابو خلیفہ کے گھر میں چھپے ہوئے تھے ۔ انہوں نےکہا : جب ہم ان کے پاس پہنچے تو انہیں سلام کیا ۔ ہم نے کہا : جناب ابوسعید! ہم آپ کے بھائی ابو حمزہ ( حضرت انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ کی کنیت ہے ) کے پاس سے آرہے ہیں ۔ ہم نے کبھی اس جیسی حدیث نہیں سنی جو انہوں شفاعت کے بارے میں ہمیں سنائی ۔ حسن بصری نے کہا : لائیں سنائیں ۔ ہم نے انہیں حدیث سنائی تو انہوں نے کہا : آگے سنائیں ۔ ہم نے کہا : انہوں نےہمیں اس سے زیادہ نہیں سنایا ۔ انہوں ( حسن بصری ) نے کہا : ہمیں انہوں نے یہ حدیث بیس برس پہلے سنائی تھی ، اس وقت وہ پوری قوتوں کے مالک تھے ۔ انہوں نے کچھ حصہ چھوڑ دیا ہے ، معلوم نہیں ، شیخ بھول گئے یا انہوں نے تمہیں پوری حدیث سنانا پسند نہیں کیا کہ کہیں تم ( اس میں بیان کی ہوئی بات ہی پر ) بھروسا نہ کر لو ۔ ہم نےعرض کی : آپ ہمیں سنا دیں تو وہ ہنس پڑے اور کہا : انسان جلدباز پیدا کیاگیا ہے ، میں نے تمہارے سامنے اس بات کا تذکرہ اس کے سوا ( اور کسی وجہ سے ) نہیں کیا تھا مگر اس لیے کہ میں تمہیں یہ حدیث سنانا چاہتا تھا ۔ آپﷺ نے فرمایا : ’’پھر میں چوتھی بار اپنے رب کی طرف لوٹوں گا ، پھر انہی تعریفوں سے اس کی حمد بیان کروں گا ، پھر اس حضور سجدہ ریز ہو جاؤں گا تو مجھ سے کہا جائے گا : اے محمد! اپنا سر اٹھائیں اور کہیں ، آپ کی بات سنی جائے گی اور مانگیں ، آپ کو دیاجائے گااور سفارش کریں آپ کی سفارش قبول ہو گی ۔ تو میں عرض کروں گا : اے میرے رب ! مجھے ان کےبارے میں ( بھی ) اجازت دیجیے جنہوں نے ( صرف ) لا الہ الا اللہ کہا ۔ اللہ فرمائے گا : یہ آپ کے لیے نہیں لیکن میری عزت کی قسم ، میری کبریائی ، میری عظمت اور میری بڑائی کی قسم ! میں ان کو ( بھی ) جہنم سے نکال لوں گا جنہوں نے لا الہ الا اللہ کہا ۔ ‘ ‘ معبد کا بیان ہے : میں حسن بصری کے بارے میں گواہی دیتا ہوں کہ انہوں نے ہمیں بتایا کہ انہوں نے حضرت انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے یہ روایت سنی ۔ میرا خیال ہے ، انہوں نے کہا : بیس سال پہلے ، اور اس وقت ان کی صلاحتیں بھر پور تھیں ۔

Ma'bad b. Hilal al 'Anazi reported: We went to Anas b. Malik through Thabit and reached there (his house) while he was offering the forenoon prayer. Thabit sought permission for us and we entered, and he seated Thabit with him on his bedstead. He (Thabit) said to him (Anas b. Malik): O Abu Hamza (kunya of Anas b. Malik), your brothers from among the inhabitants of Basra ask you to narrate to them the hadith of intercession. He said: Muhammad ( ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وسلم ‌ ) narrated to us: When it would be the Day of Resurrection, some of the people would rush to one another in bewilderment. They would come to Adam and say: Intercede (with your Lord) for your progeny. He would say: I am not fit to do this, but go to Ibrabim (peace be upon him) for he is the Friend of Allah. They would come to Ibrahim, but he would say: I am not fit to do this, but go to Moses, for he is Allah's Interlocutor. They would come to Moses, but he would say: I am not fit to do this, but you should go to Jesus, for he is the Spirit of Allah and His word. They would come to Jesus, and he would say, I am not fit to do this; you better go to Muhammad ( ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وسلم ‌ ). They would come to me, and I would say: I am in a position to do that, I would go and ask the permission of my Lord and it would be granted to me. I would then stand before Him and would extol Him with praises which I am not able to do now, but with which Allah would inspire me, then I would fall in prostration and it would be said to me: O Muhammad, raise thy head, and say and it would be listened to; ask and it would be granted, intercede and it would be accepted. I shall say: My Lord, my people, my people It would be said: Go, and bring forth from it (Hell) him who has in his heart faith equal to the weight of a wheat grain or a barley seed. I would go and do that; then I would return to my Lord and extol Him with those praises (taught to me by Allah), then I would fall in prostration. It would be said to me: O Muhammad, raise your head, and say and it would be heard; ask and it would be granted; intercede and intercession would be accepted. So I would say: My people. my people. It would be said to me: Go and take out from it (Hell) him who has in his heart faith equal to the weight of a mustard seed. I would go and do that. I would again return to my Lord and extol Him with those praises. I would then fall in prostration. It would be said to me: O Muhammad, raisevour head: say, and you would be listened to; ask and it would be granted; intercede and intercession would be accepted. I would say: My Lord, my people, my people. It would be said to me: Go, and bring out of the Fire him who has in his heart as much faith as the smallest, smallest, smallest grain of mustard seed. I would go and do that. This is the hadith which Anas narrated to us. We went out of his (house) and when we reached the upper part of Jabban (graveyard) we said: Would that we meet Hasan and salute him and he was hiding in the house of Abu Khalifa. He (Ma'bad b. Hilal, the narrator) said: We went to him and greeted him and we said: O Abu Sa'id, we come from your brother Abu Hamza (kunya of Anas), and we have never heard a hadith like this relating to intercession, which he has narrated to us. He said: Narrate it, we narrated the hadith. He said: Narrate it (still further). We said: He did not (narrate it) before us more than this. He said: He (Anas) had narrated it to us twenty years back, when he was strong and healthy. He has in fact missed something. I cannot make out whether the old man has forgotten or he has (intentionally) avoided to narrate it to you lest you should rely (absolutely) upon it (and abandon doing good deeds). We said to him: Relate that to us, and he laughed and said: There is haste in the nature of man. I did not make mention of it to you but for the fact that I wanted to narrate that to you (and added that the Prophet said): I would then return to my Lord for the fourth time and extol Him with these praises. I would then fall in prostration. It would be said to me: O Muhammad, raise your head: say and it will be listened to; ask and it will be granted; intercede and intercession would be accepted. I would say: O my Lord, permit me regarding him who professed: There is no god but Allah. He (the Lord) would say: That is not for thee or that is not what lies with thee, but by My Honour, Glory, Greatness and Might, I would certainly take him out who professed it: There is no god but Allah. He (the narrator, Ma'bad) said: I hear testimony to the fact that the hadith transmitted to us-by Hasan was heard by him from Anas b. Malik and I can see that he reported it twenty years back, when he was hale and hearty.

Haidth Number: 479

حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَمُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللهِ بْنِ نُمَيْرٍ، وَاتَّفَقَا فِي سِيَاقِ الْحَدِيثِ إِلَّا مَا يَزِيدُ أَحَدُهُمَا مِنَ الْحَرْفِ بَعْدَ الْحَرْفِ قَالَا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ، حَدَّثَنَا أَبُو حَيَّانَ، عَنْ أَبِي زُرْعَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: أُتِيَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا بِلَحْمٍ، فَرُفِعَ إِلَيْهِ الذِّرَاعُ، وَكَانَتْ تُعْجِبُهُ فَنَهَسَ مِنْهَا نَهْسَةً فَقَالَ: أَنَا سَيِّدُ النَّاسِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، وَهَلْ تَدْرُونَ بِمَ ذَاكَ؟ يَجْمَعُ اللهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ الْأَوَّلِينَ وَالْآخِرِينَ فِي صَعِيدٍ وَاحِدٍ، فَيُسْمِعُهُمُ الدَّاعِي، وَيَنْفُذُهُمُ الْبَصَرُ، وَتَدْنُو الشَّمْسُ فَيَبْلُغُ النَّاسَ مِنَ الْغَمِّ وَالْكَرْبِ مَا لَا يُطِيقُونَ، وَمَا لَا يَحْتَمِلُونَ، فَيَقُولُ بَعْضُ النَّاسِ لِبَعْضٍ: أَلَا تَرَوْنَ مَا أَنْتُمْ فِيهِ؟ أَلَا تَرَوْنَ مَا قَدْ بَلَغَكُمْ؟ أَلَا تَنْظُرُونَ مَنْ يَشْفَعُ لَكُمْ إِلَى رَبِّكُمْ؟ فَيَقُولُ بَعْضُ النَّاسِ لِبَعْضٍ: ائْتُوا آدَمَ، فَيَأْتُونَ آدَمَ، فَيَقُولُونَ: يَا آدَمُ، أَنْتَ أَبُو الْبَشَرِ، خَلَقَكَ اللهُ بِيَدِهِ، وَنَفَخَ فِيكَ مِنْ رُوحِهِ، وَأَمَرَ الْمَلَائِكَةَ فَسَجَدُوا لَكَ، اشْفَعْ لَنَا إِلَى رَبِّكَ، أَلَا تَرَى إِلَى مَا نَحْنُ فِيهِ؟ أَلَا تَرَى إِلَى [ص:185] مَا قَدْ بَلَغَنَا؟ فَيَقُولُ آدَمُ: إِنَّ رَبِّي غَضِبَ الْيَوْمَ غَضَبًا لَمْ يَغْضَبْ قَبْلَهُ مِثْلَهُ، وَلَنْ يَغْضَبَ بَعْدَهُ مِثْلَهُ، وَإِنَّهُ نَهَانِي عَنِ الشَّجَرَةِ فَعَصَيْتُهُ نَفْسِي نَفْسِي، اذْهَبُوا إِلَى غَيْرِي، اذْهَبُوا إِلَى نُوحٍ، فَيَأْتُونَ نُوحًا، فَيَقُولُونَ: يَا نُوحُ، أَنْتَ أَوَّلُ الرُّسُلِ إِلَى الْأَرْضِ، وَسَمَّاكَ اللهُ عَبْدًا شَكُورًا، اشْفَعْ لَنَا إِلَى رَبِّكَ، أَلَا تَرَى مَا نَحْنُ فِيهِ؟ أَلَا تَرَى مَا قَدْ بَلَغَنَا؟ فَيَقُولُ لَهُمْ: إِنَّ رَبِّي قَدْ غَضِبَ الْيَوْمَ غَضَبًا لَمْ يَغْضَبْ قَبْلَهُ مِثْلَهُ، وَلَنْ يَغْضَبَ بَعْدَهُ مِثْلَهُ، وَإِنَّهُ قَدْ كَانَتْ لِي دَعْوَةٌ دَعَوْتُ بِهَا عَلَى قَوْمِي، نَفْسِي نَفْسِي، اذْهَبُوا إِلَى إِبْرَاهِيمَ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَيَأْتُونَ إِبْرَاهِيمَ، فَيَقُولُونَ: أَنْتَ نَبِيُّ اللهِ وَخَلِيلُهُ مِنْ أَهْلِ الْأَرْضِ، اشْفَعْ لَنَا إِلَى رَبِّكَ، أَلَا تَرَى إِلَى مَا نَحْنُ فِيهِ؟ أَلَا تَرَى إِلَى مَا قَدْ بَلَغَنَا؟ فَيَقُولُ لَهُمْ إِبْرَاهِيمُ: إِنَّ رَبِّي قَدْ غَضِبَ الْيَوْمَ غَضَبًا لَمْ يَغْضَبْ قَبْلَهُ مِثْلَهُ، وَلَا يَغْضَبُ بَعْدَهُ مِثْلَهُ، وَذَكَرَ كَذَبَاتِهِ، نَفْسِي نَفْسِي، اذْهَبُوا إِلَى غَيْرِي، اذْهَبُوا إِلَى مُوسَى، فَيَأْتُونَ مُوسَى صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَيَقُولُونَ: يَا مُوسَى، أَنْتَ رَسُولُ اللهِ فَضَّلَكَ اللهُ بِرِسَالَاتِهِ، وَبِتَكْلِيمِهِ عَلَى النَّاسِ، اشْفَعْ لَنَا إِلَى رَبِّكَ، أَلَا تَرَى إِلَى مَا نَحْنُ فِيهِ؟ أَلَا تَرَى مَا قَدْ بَلَغَنَا؟ فَيَقُولُ لَهُمْ مُوسَى صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ رَبِّي قَدْ غَضِبَ الْيَوْمَ غَضَبًا لَمْ يَغْضَبْ قَبْلَهُ مِثْلَهُ، وَلَنْ يَغْضَبَ بَعْدَهُ مِثْلَهُ، وَإِنِّي قَتَلْتُ نَفْسًا لَمْ أُومَرْ بِقَتْلِهَا، نَفْسِي نَفْسِي، اذْهَبُوا إِلَى عِيسَى صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَيَأْتُونَ عِيسَى، فَيَقُولُونَ: يَا عِيسَى أَنْتَ رَسُولُ اللهِ، وَكَلَّمْتَ النَّاسَ فِي الْمَهْدِ، وَكَلِمَةٌ مِنْهُ أَلْقَاهَا إِلَى مَرْيَمَ، وَرُوحٌ مِنْهُ، فَاشْفَعْ لَنَا إِلَى رَبِّكَ، أَلَا تَرَى مَا نَحْنُ فِيهِ؟ أَلَا تَرَى مَا قَدْ بَلَغَنَا؟ فَيَقُولُ لَهُمْ عِيسَى صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ رَبِّي قَدْ غَضِبَ الْيَوْمَ غَضَبًا لَمْ يَغْضَبْ قَبْلَهُ مِثْلَهُ، وَلَنْ يَغْضَبَ بَعْدَهُ مِثْلَهُ، وَلَمْ يَذْكُرْ لَهُ ذَنْبًا، نَفْسِي نَفْسِي، اذْهَبُوا إِلَى غَيْرِي، اذْهَبُوا إِلَى مُحَمَّدٍ، فَيَأْتُونِّي فَيَقُولُونَ: يَا مُحَمَّدُ، أَنْتَ رَسُولُ اللهِ، وَخَاتَمُ الْأَنْبِيَاءِ، وَغَفَرَ اللهُ لَكَ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ، وَمَا تَأَخَّرَ، اشْفَعْ لَنَا إِلَى رَبِّكَ، أَلَا تَرَى مَا نَحْنُ فِيهِ؟ أَلَا تَرَى مَا قَدْ بَلَغَنَا؟ فَأَنْطَلِقُ، فَآتِي تَحْتَ الْعَرْشِ، فَأَقَعُ سَاجِدًا لِرَبِّي، ثُمَّ يَفْتَحُ اللهُ عَلَيَّ وَيُلْهِمُنِي مِنْ مَحَامِدِهِ، وَحُسْنِ الثَّنَاءِ عَلَيْهِ شَيْئًا لَمْ يَفْتَحْهُ لِأَحَدٍ قَبْلِي، ثُمَّ يُقَالُ: يَا مُحَمَّدُ، ارْفَعْ رَأْسَكَ، سَلْ تُعْطَهْ، اشْفَعْ تُشَفَّعْ، فَأَرْفَعُ رَأْسِي، فَأَقُولُ: يَا رَبِّ، أُمَّتِي أُمَّتِي، فَيُقَالُ: يَا مُحَمَّدُ، أَدْخِلْ الْجَنَّةَ مِنْ أُمَّتِكَ مَنْ لَا حِسَابَ عَلَيْهِ مِنَ الْبَابُِ الْأَيْمَنِ مِنْ أَبْوَابِ الْجَنَّةِ، وَهُمْ شُرَكَاءُ النَّاسِ فِيمَا سِوَى ذَلِكَ مِنَ الْأَبْوَابِ، وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ، إِنَّ مَا بَيْنَ الْمِصْرَاعَيْنِ مِنْ مَصَارِيعِ الْجَنَّةِ لَكَمَا بَيْنَ مَكَّةَ وَهَجَرٍ، أَوْ كَمَا بَيْنَ مَكَّةَ وَبُصْرَى ،

ابو حیان نے ابو زرعہ سے اور انہوں نے حضرت ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے روایت کی ، انہوں نےکہا : ایک دن رسو ل اللہ ﷺ کی خدمت میں گوشت لایا گیا اور دستی اٹھا کر آپ کو پیش کی گئی کیونکہ آپ آپ کو مرغوب تھی ، آپ نے اپنےدندان مبارک سے ایک بار اس میں سے تناول کیا اور فرمایا : ’’ میں قیامت کے دن تمام انسانوں کا سردار ہوں گا ۔ کیا تم جانتے ہو یہ کیسے ہو گا؟ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن تمام اگلون اور پچھلوں کو ایک ہموار چٹیل میدان میں جمع کرے گا ۔ بلانے والا سب کو اپنی آواز سنائے گا اور ( اللہ کی ) نظر سب کے آر پار ( سب کو دیکھ رہی ) ہو گی ۔ سورج قریب ہو جائے گا اور لوگوں کو اس قدر غم اور کرب لاحق ہو گا جوان کی طاقت سے زیادہ اور ناقابل برداشت ہو گا ۔ لوگ ایک دوسرے کہیں گے : کیا دیکھتے نہیں تم کس حالت میں ہو ؟ کیا دیکھتے نہیں تم پر کیسی مصیبت آن پڑی ہے ؟ کیا تم کوئی ا یسا شخص تلاش نہیں کرتے جو تمہاری سفارش کردے؟ یعنی تمہارے رب کے حضور ۔ چنانچہ لوگ ایک دوسرے سے کہیں گے : آدم علیہ السلام کے پاس چلو تو وہ آدم علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوں گے اور عرض کریں گے : اے آدم ! آپ سب انسانوں کے والد ہیں ، اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنے ہاتھ سے بنایا اور آپ میں اپنی ( طرف سے ) روح پھونکی اور فرشتوں کو حکم دیا تو انہوں نے آپ کو سجدہ کیا ۔ آپ اپنے رب کے حضور ہماری سفارش فرمائیں ۔ آپ دیکھتے نہیں ہم کس حال میں ہیں ؟ کیا آپ دیکھتے نہیں ہم پر کیسی مصیبت آن پڑی ہے ؟ آدم علیہ السلام جواب دیں گے : میرا رب آج اتنے غصے میں ہے جتنے غصے میں اسے سے پہلے کبھی نہیں آیا اور نہ اس کے بعد کبھی آئے گا اور یقیناً اس نے مجھے ایک خاص درخت ( کےقریب جانے ) سے روکا تھا لیکن میں نے اس کی نافرمانی کی تھی ، مجھے اپنی جان کی فکر ہے ، مجھے اپنی جان بچانی ہے ۔ تم کسی اور کے پاس جاؤ ، نوح ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ کے پاس جاؤ ۔ لوگ نوح ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ کی خدمت میں حاضر ہوں گے اور عرض کریں گے : اے نوح! آپ ( اہل ) زمین کی طرف سے بھیجے گئے سب سے پہلے رسول ہیں اور ا للہ تعالیٰ نے آپ کو شکر گزار بندے کا نام دیا ہے ۔ آپ دیکھتے نہیں ہم کس حال میں ہیں ؟ آپ دیکھتے نہیں ہم پر کیا مصیبت آن پڑی ہے ؟ وہ انہیں جوا ب دیں گے : آج میرا رب اتنے غصے میں ہے جتنے غصے میں نہ وہ اس سے پہلے کبھی آیا نہ آیندہ کبھی آئے گا ۔ حقیقت یہ ہے کہ میرے لیے ایک دعا ( خاص کی گئی ) تھی وہ میں نے اپنی قوم کےخلاف مانگ لی ۔ ( آج تو ) میری اپنی جان ( پر بنی ) ہے ۔ مجھے اپنی جان ( کی فکر ) ہے ۔ تم ابراہیم علیہ السلام کے پاس جاؤ ، چنانچہ لوگ ابراہیم علیہ السلام کے پاس حاضر ہوں گے اور عرض گزار ہوں گے : آپ اللہ کے نبی اور اہل زمین میں سے اس کے خلیل ( صرف اس کے دوست ) ہیں ، اپنے رب کے حضور ہماری سفارش فرمائیں ، آپ دیکھتے نہیں ہم کس حال میں ہیں ؟ کیا آپ دیکھتے نہیں ہم پر کیا مصیبت آن پڑی ہے ؟ تو ابراہیم علیہ السلام ان سے کہیں گے : میرارب اس قدر غصے میں ہے کہ اس سے پہلے کبھی اتنے غصے میں نہیں آیا اور نہ آیندہ کبھی آئے گا اور اپنے ( تین ) جھوٹ یاد کریں گے ، ( اور کہیں ) مجھے اپنی جان کی فکر ہے ، مجھے تو اپنی جان کی بچانی ہے ۔ کسی اورکے پاس جاؤ ، موسیٰ ‌علیہ ‌السلام ‌ کے پاس جاؤ ۔ لوگ موسیٰ ‌علیہ ‌السلام ‌ کے خدمت میں حاضر ہوں گے اورعرض کریں گے : اے موسیٰ!آپ اللہ کےرسول ہیں ، اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنے پیغام اور اپنی ہم کلامی کے ذریعے سے فضیلت عطا کی ، اللہ کے حضور ہمارے لیے سفارش کیجیے ، آپ دیکھتے نہیں ہم کس حال میں ہیں ؟ آپ دیکھتے نہیں ہم پر کیا مصیبت آن پڑی ہے ؟ موسیٰ ‌علیہ ‌السلام ‌ ان سے کہیں گے : میرا ب آج اس قدر غصے میں ہے کہ نہ اس سے پہلے کبھی اس قدر غصے میں آیا اور نہ اس کے بعد آئے گا ۔ میں ایک جان کو قتل کر چکا ہوں جس کے قتل کا مجھے حکم نہ دیا گیا تھا ۔ میری جان ( کا کیا ہو گا ) میری جان ( کیسے بچے گی؟ ) عیسیٰ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ کے پا س جاؤ ۔ لوگ عیسیٰ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ کے پاس آئیں گے اور عرض کریں گے : اے عیسیٰ! آپ اللہ کا کلمہ ہیں جسے اس نے مریم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ کی طرف القاء کیا اور اس کی روح ہیں ، اس لیے آپ اپنے رب کے حضور ہماری سفارش فرمائیں ، آپ ہماری حالت نہیں دیکھتے جس میں ہم ہیں ؟ کیا آپ نہیں دیکھتے ہم پر کیسی مصیبت آن پڑی ہے ؟ تو عیسیٰ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ انہیں جواب دیں گے : میرا رب اتنے غصے میں ہے جتنے غصےمیں نہ وہ اس سے پہلے آیا اور نہ آیندہ کبھی آئے گا ، وہ اپنی کسی خطا کا ذکر نہیں کریں گے ، ( کہیں گے مجھے ) اپنی جان کی فکر ہے ، مجھے اپنی جان بچانی ہے ۔ میرے سوا کسی اور کے پاس جاؤ ، محمدﷺ کے پاس جاؤ ۔ لوگ میرے پاس ےئین گآ اور کہیں گے : اے محمد! آپ اللہ کے رسول اور آخری نبی ہیں ، اللہ تعالیٰ نے آپ کے اگلے پچھلے تمام گناہ ( اگر ہوتے تو بھی ) معاف کر دیے ، اپنے رب کےحضور ہماری سفارش فرمائیں ، آپ دیکھتے نہیں ہم کس حال میں ہیں ؟ آپ دیکھتے نہیں ہم کیا مصیبت آن پڑی ہے ؟ تو میں چل پڑوں گا اور عرش کے نیچے آؤں گا اور اپنے رب کے حضور سجدے میں گر جاؤں گا ، پھر اللہ تعالیٰ مجھ پر اپنی ایسی تعریفوں اوراپنی ایسی بہترین ثنا ( کے دروازے ) کھول دے گا اور انہیں میرے دل میں ڈالے گا جو مجھ سے پہلے کسی کے لیے نہیں کھولے گئے ، پھر ( اللہ ) فرمائےگا : اے محمد! اپنا سر اٹھائیے ، مانگیے ، آپ کو ملے گا ، سفارش کیجیے ، آپ کی سفارش قبول ہو گی ۔ تو میں سر اٹھاؤں گا اور عرض کروں گا : اےمیرے رب ! میری امت ! میری امت ! توکہا جائے گا : اے محمد! آپ کی امت کے جن لوگوں کا حساب و کتاب نہیں ان کو جنت کے دروازے میں سے دائیں دروازے سے داخل کر دیجیے اور وہ جنت کے باقی دروازوں میں ( بھی ) لوگوں کے ساتھ شریک ہیں ۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے ! جنت کے دو کواڑوں کے درمیان اتنا ( فاصلہ ) ہے جتنامکہ اور ( شہر بجر ) یا مکہ اور بصری کے درمیان ہے ۔ ‘ ‘

Abu Huraira reported: Meat was one day brought to the Messenger of Allah ( ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وسلم ‌ ) and a foreleg was offered to him, a part which he liked. He sliced with his teeth a piece out of it and said: I shall be the leader of mankind on the Day of Resurrection. Do you know why? Allah would gather in one plain the earlier and the later (of the human race) on the Day of Resurrection. Then the voice of the proclaimer would be heard by all of them and the eyesight would penetrate through all of them and the sun would come near. People would then experience a degree of anguish, anxiety and agony which they shall not be able to bear and they shall not be able to stand. Some people would say to the others: Don you see in which trouble you are? Don't you see what (misfortune) has overtaken you? Why don't you find one who should intercede for you with your Lord? Some would say to the others: Go to Adam. And they would go to Adam and say: O Adam, thou art the father of mankind. Allah created thee by His own Hand and breathed in thee of His spirit and ordered the angels to prostrate before thee. Intercede for us with thy Lord Don't you see in what (trouble) we are? Don't you see what (misfortune) has overtaken us? Adam would say: Verily, my Lord is angry, to an extent to which He had never been angry before nor would He be angry afterward. Verily, He forbade me (to go near) that tree and I disobeyed Him. I am concerned with my own self. Go to someone else; go to Noah. They would come to Noah and would say: O Noah, thou art the first of the Messengers (sent) on the earth (after Adam), and Allah named thee as a Grateful Servant, intercede for us with thy Lord. Don't you see in what (trouble) we are? Don't you see what (misfortune) has overtaken us? He would say: Verily, my Lord is angry today as He had never been angry before, and would never be angry afterwards. There had emanated a curse from me with which I cursed my people. I am concerned with only myself, I am concerned only with myself; you better go to Ibrahim (peace be upon him). They would go to Ibrahim and say: Thou art the apostle of Allah and His Friend amongst the inhabitants of the earth; intercede for us with thy Lord. Don't you see in which (trouble) we are? Don't you see what (misfortune) has overtaken us? Ibrahim would say to them: Verily, my Lord is today angry as He had never been angry before and would never be angry afterwards. and (Ibrahim) would mention his lies (and then say): I am concerned only with myself, I am concerned only with myself. You better go to someone else: go to Moses. They would come to Moses (peace be upon him) and say: O Moses, thou art Allah's messenger, Allah blessed thee with His messengership and His conversation amongst people. Intercede for us with thy Lord. Don't you see in what (trouble) we are? Don't you see what (misfortune) has overtaken us? Moses (peace be upon him) would say to them: Verily. my Lord is angry as He had never been angry before and would never be angry afterwards. I, in fact, killed a person whom I had not been ordered to kill. I am concerned with myself, I am concerned with myself. You better go to Jesus (peace be upon him). They would come to Jesus and would say: O Jesus, thou art the messenger of Allah and thou conversed with people in the cradle, (thou art) His Word which I-Ie sent down upon Mary. and (thou art) the Spirit from Him; so intercede for us with thy Lord. Don't you see (the trouble) in which we are? Don't you see (the misfortune) that has overtaken us? Jesus (peace be upon him) would say: Verily, my Lord is angry today as He had never been angry before or would ever be angry afterwards. He mentioned no sin of his. (He simply said: ) I am concerned with myself, I am concerned with myself; you go to someone else: better go to Muhammad ( ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وسلم ‌ ). They would come to me and say: O Mahammad, thou art the messenger of Allah and the last of the apostles. Allah has pardoned thee all thy previous and later sins. Intercede for us with thy Lord; don't you see in which (trouble) we are? Don't you see what (misfortune) has overtaken us? I shall then set off and come below the Throne and fall down prostrate before my Lord; then Allah would reveal to me and inspire me with some of His Praises and Glorifications which He had not revealed to anyone before me. He would then say: Muhammad, raise thy head; ask and it would be granted; intercede and intercession would be accepted I would then raise my head and say: O my Lord, my people, my people. It would be said: O Muhammad, bring in by the right gate of Paradise those of your people who would have no account to render. They would share with the people some other door besides this door. The Prophet then said: By Him in Whose Hand is the life of Muhammad, verify the distance between two door leaves of the Paradise is as great as between Mecca and Hajar, or as between Mecca and Busra.

Haidth Number: 480

وَحَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ عُمَارَةَ بْنِ الْقَعْقَاعِ، عَنْ أَبِي زُرْعَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: وُضِعَتْ بَيْنَ يَدَيْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَصْعَةٌ مِنْ ثَرِيدٍ وَلَحْمٍ، فَتَنَاوَلَ الذِّرَاعَ وَكَانَتْ أَحَبَّ الشَّاةِ إِلَيْهِ، فَنَهَسَ نَهْسَةً، فَقَالَ: «أَنَا سَيِّدُ النَّاسِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ»، ثُمَّ نَهَسَ أُخْرَى، فَقَالَ: «أَنَا سَيِّدُ النَّاسِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ»، فَلَمَّا رَأَى أَصْحَابَهُ لَا يَسْأَلُونَهُ قَالَ: «أَلَا تَقُولُونَ كَيْفَهْ؟» قَالُوا: كَيْفَهْ يَا رَسُولَ اللهِ؟ قَالَ: «يَقُومُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعَالَمِينَ» وَسَاقَ الْحَدِيثَ بِمَعْنَى حَدِيثِ أَبِي حَيَّانَ، عَنْ أَبِي زُرْعَةَ، وَزَادَ فِي قِصَّةِ إِبْرَاهِيمَ فَقَالَ: وَذَكَرَ قَوْلَهُ فِي الْكَوْكَبِ: ِ {هَذَا رَبِّي} [الأنعام: 76] وَقَوْلَهُ لِآلِهَتِهِمْ: {بَلْ فَعَلَهُ كَبِيرُهُمْ هَذَا} [الأنبياء: 63]، وَقَوْلَهُ: {إِنِّي سَقِيمٌ} [الصافات: 89]، قَالَ: وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ، إِنَّ مَا بَيْنَ الْمِصْرَاعَيْنِ مِنْ مَصَارِيعِ الْجَنَّةِ إِلَى عِضَادَتَيِ الْبَابُِ لَكَمَا بَيْنَ مَكَّةَ وَهَجَرٍ، أَوْ هَجَرٍ وَمَكَّةَ، قَالَ: لَا أَدْرِي أَيَّ ذَلِكَ قَالَ

ایک دوسرے سند سے ) عمارہ بن قعقاع نے ابو زرعہ سے ، انہوں نے حضرت ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے روایت کی ، انہوں نے کہا کہ رسو ل اللہﷺ کے سامنے ثرید اور گوشت کا پیالہ رکھا گیا ، آپ نے دستی اٹھائی ، آپ کو بکری ( کے گوشت ) میں سب سے زیادہ یہی حصہ پسند تھا ، آپ نےاس میں سے ایک بار اپنے داندان مبارک سے تناول کیا اور فرمایا : ’’میں قیامت کےدن تمام لوگوں کاسردار ہوں گا ۔ ‘ ‘ پھر دوبارہ تناول کیا اور فرمایا : ’’میں قیامت کے روز تمام انسانوں کا سردار ہوں گا ۔ ‘ ‘ جب آپ نے دیکھا کہ آپ کے ساتھی ( اس کے بارےمیں ) آپ سے کچھ نہیں پوچھ رہے تو آپ نے فرمایا : ’’ تم پوچھتے کیوں نہیں کہ یہ کیسے ہو گا؟ انہوں نے پوچھا : یہ کیسے ہو گا؟ اللہ کے رسول ! آپ نے فرمایا : ’’لوگ رب العالمین کے سامنےکھڑے ہو ں گے..... ‘ ‘ ( عمارہ نے بھی ) ابوزرعہ کے حوالے سے ابو حیان کی بیان کردہ حدیث کی طرح بیان کی اور ابراہیم علیہ السلام کے واقعے میں یہ اضافہ کیا : ( آپﷺ نے ) فرمایا : ابراہیم علیہ السلام نےستارے کے بارے میں اپنا قول : ’’یہ میرا رب ہے ‘ ‘ اور ان کے معبودوں کے بارے میں یہ کہنا : ’’ بلکہ یہ کام ان کے بڑے نے کیا ہے ‘ ‘ اور یہ کہنا : ’’میں بیمار ہوں ‘ ‘ یاد کیا ۔ ( رسول اللہ ﷺنے ) فرمایا : ’’اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمدﷺ کی جان ہے ! چوکھٹ کےدونوں بازؤں تک جنت کے کواڑوں میں سے ( ہر ) دو کواڑوں کے درمیان : اتنا فاصلہ ہے کہ جتنا مکہ اور ہجر کے درمیان ، یا ( فرمایا ) ہجر اور مکہ کےدرمیان ہے ۔

It is reported on the authority of Abu Huraira that there was placed before the Messenger of Allah a cup of soft bread, soup and meat. He took part of the foreleg which he liked most. He sliced (with his teeth) a slice (out of that) and said: I would be the leader of mankind on the Day of Resurrection. He then sliced (that meat) for the second time and said: I am the leader of mankind on the Day of Resurrection. When he saw that his companions did not ask him (about this assertion) he said: Why don't you say: How would that be? They said: How would be it, Messenger of Allah? He said: People would stand before the Lord of the worlds. And the rest of the hadith was narrated like the one transmitted by Abu Hayyan, on the authority of Abu Zur'a, and in the story of Ibrahim, this addition was made. He said and made mention of his words with regard to the star: This is my Lord. And his words with regard to their gods: But the big among them has done that. And his words: I am ailing. He (the Holy Prophet) said: By Him in Whose Hand is the life of Muhammad, the distance between two leaves of the door from their supporting frames is as the distance between Mecca and Hajar or Hajar and Mecca. I do not remember how he said it (whether Mecca and Hajar or Hajar and Mecca).

Haidth Number: 481

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ طَرِيفِ بْنِ خَلِيفَةَ الْبَجَلِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ، حَدَّثَنَا أَبُو مَالِكٍ الْأَشْجَعِيُّ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَأَبُو مَالِكٍ، عَنْ رِبْعِيٍّ، عَنْ حُذَيْفَةَ، قَالَا: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ [ص:187]: يَجْمَعُ اللهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى النَّاسَ، فَيَقُومُ الْمُؤْمِنُونَ حَتَّى تُزْلَفَ لَهُمُ الْجَنَّةُ، فَيَأْتُونَ آدَمَ، فَيَقُولُونَ: يَا أَبَانَا، اسْتَفْتِحْ لَنَا الْجَنَّةَ، فَيَقُولُ: وَهَلْ أَخْرَجَكُمْ مِنَ الْجَنَّةِ إِلَّا خَطِيئَةُ أَبِيكُمْ آدَمَ، لَسْتُ بِصَاحِبِ ذَلِكَ، اذْهَبُوا إِلَى ابْنِي إِبْرَاهِيمَ خَلِيلِ اللهِ ، قَالَ: فَيَقُولُ إِبْرَاهِيمُ: لَسْتُ بِصَاحِبِ ذَلِكَ، إِنَّمَا كُنْتُ خَلِيلًا مِنْ وَرَاءَ وَرَاءَ، اعْمِدُوا إِلَى مُوسَى صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الَّذِي كَلَّمَهُ اللهُ تَكْلِيمًا، فَيَأْتُونَ مُوسَى صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَيَقُولُ: لَسْتُ بِصَاحِبِ ذَلِكَ، اذْهَبُوا إِلَى عِيسَى كَلِمَةِ اللهِ وَرُوحِهِ، فَيَقُولُ عِيسَى صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَسْتُ بِصَاحِبِ ذَلِكَ، فَيَأْتُونَ مُحَمَّدًا صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَيَقُومُ فَيُؤْذَنُ لَهُ، وَتُرْسَلُ الْأَمَانَةُ وَالرَّحِمُ، فَتَقُومَانِ جَنَبَتَيِ الصِّرَاطِ يَمِينًا وَشِمَالًا، فَيَمُرُّ أَوَّلُكُمْ كَالْبَرْقِ قَالَ: قُلْتُ: بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي أَيُّ شَيْءٍ كَمَرِّ الْبَرْقِ؟ قَالَ: أَلَمْ تَرَوْا إِلَى الْبَرْقِ كَيْفَ يَمُرُّ وَيَرْجِعُ فِي طَرْفَةِ عَيْنٍ؟ ثُمَّ كَمَرِّ الرِّيحِ، ثُمَّ كَمَرِّ الطَّيْرِ، وَشَدِّ الرِّجَالِ، تَجْرِي بِهِمْ أَعْمَالُهُمْ وَنَبِيُّكُمْ قَائِمٌ عَلَى الصِّرَاطِ يَقُولُ: رَبِّ سَلِّمْ سَلِّمْ، حَتَّى تَعْجِزَ أَعْمَالُ الْعِبَادِ، حَتَّى يَجِيءَ الرَّجُلُ فَلَا يَسْتَطِيعُ السَّيْرَ إِلَّا زَحْفًا ، قَالَ: «وَفِي حَافَتَيِ الصِّرَاطِ كَلَالِيبُ مُعَلَّقَةٌ مَأْمُورَةٌ بِأَخْذِ مَنِ اُمِرَتْ بِهِ، فَمَخْدُوشٌ نَاجٍ، وَمَكْدُوسٌ فِي النَّارِ» وَالَّذِي نَفْسُ أَبِي هُرَيْرَةَ بِيَدِهِ إِنَّ قَعْرَ جَهَنَّمَ لَسَبْعُونَ خَرِيفًا

محمد بن فضیل نے کہا : ہمیں ابو مالک اشجعی نے حدیث سنائی ، انہوں نے ابو حازم سے اور انہوں نے حضرت ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے روایت کی ، نیز ابو مالک نے ربعی بن حراش سے اور انہوں نے حضرت حذیفہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے روایت کی ، ان دونوں نے کہاکہ رسو ل اللہ ﷺنے فرمایا : ’’ اللہ تبارک وتعالیٰ لوگوں کو جمع کرے گا تو مومن کھڑے ہو جائیں گے یہاں تک کہ جنت ان کے قریب کر دی جائے گی اور وہ آدم ‌علیہ ‌السلام ‌ کے پاس آکر عرض کریں گے : اے والد بزرگ ! ہمارے لیے جنت کا دروازہ کھلوائیے ۔ وہ جواب دیں گے : کیا جنت سے تمہیں نکالنے کا سبب تمہارے باپ آدم کی خطاکے علاوہ کوئی اور چیز بنی تھی! میں اس کام کا اہل نہیں ہوں ۔ میرے بیٹے ، اللہ کے خلیل ابراہیم علیہ السلام کے پاس جاؤ ۔ آپ نے فرمایا : ’’ابراہیم علیہ السلام کہیں گے : اس کام ( کو کرنے ) والا میں نہیں ہوں ، میں خلیل تھا ( مگر اولین شفاعت کے اس منصب سے ) پیچھے پیچھے ۔ تم موسیٰ ‌علیہ ‌السلام ‌ کا رخ کرو ، جن سے اللہ تعالیٰ نے کلام کیا ۔ لوگ موسیٰ ‌علیہ ‌السلام ‌ کے پاس آئیں گے ۔ وہ جواب دیں گے : اس کام ( کو کرنے ) والا میں نہیں ہوں ۔ اللہ تعالیٰ کی روح اور اس کے کلمے عیسیٰ ‌‌علیہ ‌السلام ‌ ‌ کے پاس جاؤ ۔ عیسیٰ ‌‌علیہ ‌السلام ‌ ‌ فرمائیں گے ، میں اس کام ( کو کرنے ) والا نہیں ہوں ۔ تو لوگ محمدﷺ کے پاس آئیں گے ۔ آپ اللہ کے سامنے قیام فرمائیں گے اور آپ کو ( شفاعت کی ) اجازت دی جائے گی ۔ امانت اور قرابت داری کو بھیجا جائے گا ، وہ پل صراط کی دونوں جانب دائیں اوربائیں کھڑی ہو جائیں گی ۔ تم میں سے اولین شخص بجلی کی طرح گزر جائے گا ۔ ‘ ‘ میں نے پوچھا : میرے ماں باپ آپ پر قربان! بجلی گزرنے کی طرح ’’کیا ہے ؟ ‘ ‘ آپ نے فرمایا : ’’تم نے کبھی بجلی کی طرف نہیں دیکھا ، کس طرح پلک جھپکنے میں گزرتی اور لوٹتی ہے ؟ پھر ہوا کے گزرنے کی طرح ( تیزی سے ) پھر پرندہ گزرنے اورآدمی کے دوڑنے کی طرح ، ان کے اعمال ان کو لے کر دوڑیں گے اور تمہارا نبی پل صراط پر کھڑا ہوا کہہ رہا ہو گا : اے میرے رب ! بچا بچا ( میری امت کے ہر گزرنے والے کو سلامتی سے گزار دے ۔ ) حتی کہ بندوں کے اعمال ان کو لے کر گزر نہ سکیں گے یہاں تک کہ ایسا آدمی آئے گاجس میں گھسٹ گھسٹ کر چلنے سے زیادہ کی استطاعت نہ ہوگی ۔ آپ نے فرمایا : ( پل ) صراط کے دونوں کناروں پر لوہے کے آنکڑے معلق ہو ں گے ، وہ اس بات پر مامور ہوں گےکہ جن لوگوں کے بارے میں حکم ہو ان کو پکڑ لیں ، اس طرح بعض زخمی ہو کر نجات پا جائیں گے اور بعض آگ میں دھکیل دیے جائیں گے ۔ ‘ ‘ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں ابو ہریرہ کی جان ہے! جہنم کی گہرائی ستر سال ( کی مسافت ) کے برابر ہے ۔

It is narrated on the authority of Abu Huraira and Hudhaifa that the Messenger of Allah ( ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وسلم ‌ ) said: Allah, the Blessed and Exalted, would gather people. The believers would stand till the Paradise would be brought near them. They would come to Adam and say: O our father, open for us the Paradise. He would say: What turned ye out from the Paradise was the sin of your father Adam. I am not in a position to do that; better go to my son Ibrahim, the Friend of Allah. He (the Holy Prophet) said: He (Ibrahim) would say: I am not in a position to do that. Verily I had been the Friend (of Allah) from beyond, beyond; you better approach Moses (peace be upon him) with whom Allah conversed. They would come to Moses (peace be upon him), but he would say: I am not in a position to do that; you better go to Jesus, the Word of Allah and His Spirit. Jesus (peace be upon him) would say: I am not in a position to do that. So they would come to Muhammad ( ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وسلم ‌ ). He would then be permitted (to open the door of Paradise). Trustworthiness and kinship would be despatched, and these would stand on the right and left of the Path and the first of you would pass with (the swiftness) of lightning. He (the narrator) said: I said, O thou who art far dearer to me than my father and my mother I which thing is like the passing of lightning? He said: Have you not seen lightning, how it passes and then comes back within the twinkling of an eye? Then (they would pass) like the passing of the wind, then like the passing of a bird, and the hastening of persons would be according to their deeds, and your Apostle would be standing on the Path saying: Save, O my Lord, save. (The people would go on passing) till the deeds of the servants would be failing in strength, till a man would come who would find it hard to go along (that Path) but crawlingly. He (the narrator) said: And on the sides of the Path hooks would be suspended ready to catch anyone whom these would be required (to catch). There would be those who would somehow or other succeed in trasversing that Path and some would be piled up in Hell. By Him in Whose Hand is the life of Abu Huraira it would take one seventy years to fathom the depth of Hell.

Haidth Number: 482