Blog
Books
Search Hadith

{وَظِلٍّ مَمْدُوْدٍ} کی تفسیر

3 Hadiths Found
۔ قتادہ اللہ تعالی کے اس فرمان {وَظِلٍّ مَمْدُودٍ}… اور لمبے لمبے سایوں میں کی تفسیر بیان کرتے ہوئے سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یقینا جنت میں ایک درخت ہے، سوار اس کے سائے میں ایک سو سال چلے گا، پھر بھی اسے طے نہ کر سکے گا۔ سیدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے تھے: اگر چاہتے ہو تو اللہ تعالی کا یہ فرمان پڑھ لو: {وَظِلٍّ مَمْدُودٍ}… اور لمبے لمبے سایوں میں

Haidth Number: 8778
سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ انھوں نے سیدہ اسمائ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے ایک ہار بطورِ استعارہ لیا تھا، لیکن وہ گم ہو گیا، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کچھ افراد کو اس کو تلاش کرنے کے لیے بھیجا، ان کو وہ مل گیا، لیکن نماز نے ان کو اس حال میں پا لیا کہ ان کے پاس پانی نہیں تھا، پس انھوں نے بغیر وضو کے نماز پڑھی اور نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی طرف یہ شکایت کی، پس اللہ تعالیٰ نے تیمم کی رخصت نازل کر دی، سیدنا اسید بن حضیر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے کہا: اللہ تعالیٰ تم کو جزائے خیر دے، جب بھی تمہارا کوئی ایسا معاملہ بنتا ہے، جس کو تم ناپسند کرتی ہے، اللہ تعالیٰ اس میں تمہارے لیے اور مسلمانوں کے لیے خیر و بھلائی بنا دیتا ہے۔

Haidth Number: 11435

۔ (۱۱۴۳۶)۔ عَنْ عَائِشَۃَ زَوْجِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَتْ: أَقْبَلْنَا مَعَ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِی بَعْضِ أَسْفَارِہِ حَتّٰی إِذَا کُنَّا بِتُرْبَانَ بَلَدٍ بَیْنَہُ وَبَیْنَ الْمَدِینَۃِ بَرِیدٌ وَأَمْیَالٌ، وَہُوَ بَلَدٌ لَا مَائَ بِہِ وَذٰلِکَ مِنَ السَّحَرِ انْسَلَّتْ قِلَادَۃٌ لِی مِنْ عُنُقِی فَوَقَعَتْ، فَحُبِسَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لِالْتِمَاسِہَا حَتّٰی طَلَعَ الْفَجْرُ وَلَیْسَ مَعَ الْقَوْمِ مَائٌ، قَالَتْ: فَلَقِیتُ مِنْ أَبِی مَا اللّٰہُ بِہِ عَلِیمٌ مِنْ التَّعْنِیفِ وَالتَّأْفِیفِ، وَقَالَ فِی کُلِّ سَفَرٍ: لِلْمُسْلِمِینَ مِنْکِ عَنَائٌ وَبَلَائٌ، قَالَتْ: فَأَنْزَلَ اللّٰہُ الرُّخْصَۃَ بِالتَّیَمُّمِ، قَالَتْ: فَتَیَمَّمَ الْقَوْمُ وَصَلَّوْا، قَالَتْ: یَقُولُ أَبِی حِینَ جَائَ مِنَ اللّٰہِ مَا جَائَ مِنَ الرُّخْصَۃِ لِلْمُسْلِمِینَ: وَاللّٰہِ! مَا عَلِمْتُ یَا بُنَیَّۃُ إِنَّکِ لَمُبَارَکَۃٌ مَاذَا جَعَلَ اللّٰہُ لِلْمُسْلِمِینَ فِی حَبْسِکِ إِیَّاہُمْ مِنَ الْبَرَکَۃِ وَالْیُسْرِ۔ (مسند احمد: ۲۶۸۷۲)

زوجۂ نبی ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کا بیان ہے کہ ہم ایک سفر میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ہمراہ واپس آرہے تھے۔ جب ہم مدینہ منورہ سے چند میل کے فاصلے پر سحری کے وقت ایک ایسی جگہ پہنچے جہاں پانی کا نام و نشان تک نہ تھا، میری گردن سے ہار اتر کر گر گیا۔ اس کی تلاش میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو رکنا پڑا یہاں تک کہ فجر طلوع ہوگئی، کسی کے پاس پانی نہ تھا، اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ اس موقعہ پر مجھے اپنے والد کی طرف سے کس قدر ڈانٹ پڑی۔ انہوںنے یہ بھی کہا کہ ہر سفر میں تمہاری وجہ سے مسلمانوں کو مشکل اور تکلیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ام المؤمنین ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کا بیان ہے کہ اس موقع پر اللہ نے تیمم کی رخصت کا حکم نازل فرما دیا۔ اور لوگوں نے تیمم کرکے نماز ادا کی، جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے مسلمانوں کے لیے رخصت کا یہ حکم آیا تو میرے ابا جان نے کہا: بیٹی! اللہ کی قسم! میں نہیں جانتا تھا کہ تم اس قدر با برکت ہو۔ تمہارے ہار کی تلاش میں مسلمانوں کو یہاں روکے جانے کے نتیجہ میں ان کے لیے اللہ نے کیا برکت اور آسانی رکھ دی ہے۔

Haidth Number: 11436