Blog
Books
Search Hadith

{قَالَ آمَنْتُ اَنَّہُ لَا اِلٰہَ اِلَّا الَّذِیْ آمَنَتْ بِہٖبَنُوْاِسْرَائِیْلُ} کی تفسیر

7 Hadiths Found
۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جب فرعون نے کہا: {آمَنْتُ أَ نَّہُ لَا اِلٰہَ إِلَّا الَّذِی آمَنَتْ بِہِ بَنُو إِسْرَائِیلَ} … میں ایمان لایا ہوں کہ وہی معبود برحق ہے، جس پر بنو اسرائیل ایمان لائے ہیں۔ تو جبریل علیہ السلام نے مجھے کہا: اے محمد! کاش آپ مجھے اس وقت دیکھتے جب میں سمندر کی کالی مٹی لے کر فرعون کے منہ میں ٹھونس رہا تھا، اس ڈر سے کہ کہیں (اللہ کی) رحمت اس کو پا نہ لے۔

Haidth Number: 8633
۔ (دوسری سند)نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جبریل علیہ السلام اس ڈر سے فرعون کے منہ میں مٹی ٹھونس رہے تھے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کہہ دے۔

Haidth Number: 8633

۔ (۱۰۹۴۶)۔ حَدَّثَنَا إِسْمَاعِیلُ قَالَ: أَخْبَرَنَا ابْنُ عَوْنٍ عَنْ عُمَرَ بْنِ کَثِیرِ بْنِ أَفْلَحَ قَالَ: قَالَ کَعْبُ بْنُ مَالِکٍ: مَا کُنْتُ فِی غَزَاۃٍ أَیْسَرَ لِلظَّہْرِ وَالنَّفَقَۃِ مِنِّی فِی تِلْکَ الْغَزَاۃِ، قَالَ: لَمَّا خَرَجَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قُلْتُ: أَتَجَہَّزُ غَدًا، ثُمَّ أَلْحَقُہُ فَأَخَذْتُ فِی جَہَازِی فَأَمْسَیْتُ وَلَمْ أَفْرُغْ، فَقُلْتُ: آخُذُ فِی جَہَازِی غَدًا وَالنَّاسُ قَرِیبٌ بَعْدُ ثُمَّ أَلْحَقُہُمْ فَأَمْسَیْتُ وَلَمْ أَفْرُغْ، فَلَمَّا کَانَ الْیَوْمُ الثَّالِثُ، أَخَذْتُ فِی جَہَازِی فَأَمْسَیْتُ فَلَمْ أَفْرُغْ، فَقُلْتُ: أَیْہَاتَ سَارَ النَّاسُ ثَلَاثًا فَأَقَمْتُ، فَلَمَّا قَدِمَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جَعَلَ النَّاسُ یَعْتَذِرُونَ إِلَیْہِ فَجِئْتُ حَتّٰی قُمْتُ بَیْنَیَدَیْہِ، فَقُلْتُ: مَا کُنْتُ فِی غَزَاۃٍ أَیْسَرَ لِلظَّہْرِ وَالنَّفَقَۃِ مِنِّی فِی ہٰذِہِ الْغَزَاۃِ، فَأَعْرَضَ عَنِّی رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَأَمَرَ النَّاسَ أَنْ لَا یُکَلِّمُونَا، وَأُمِرَتْ نِسَاؤُنَا أَنْ یَتَحَوَّلْنَ عَنَّا، قَالَ: فَتَسَوَّرْتُ حَائِطًا ذَاتَ یَوْمٍ، فَإِذَا أَنَا بِجَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ فَقُلْتُ: أَیْ جَابِرُ نَشَدْتُکَ بِاللّٰہِ، ہَلْ عَلِمْتَنِی غَشَشْتُ اللّٰہَ وَرَسُولَہُ یَوْمًا قَطُّ؟ قَالَ: فَسَکَتَ عَنِّی فَجَعَلَ لَا یُکَلِّمُنِی، قَالَ: فَبَیْنَا أَنَا ذَاتَ یَوْمٍ إِذْ سَمِعْتُ رَجُلًا عَلَی الثَّنِیَّۃِیَقُولُ: کَعْبًا کَعْبًا، حَتّٰی دَنَا مِنِّی فَقَالَ: بَشِّرُوا! کَعْبًا۔ (مسند احمد: ۱۵۸۶۳)

عمر بن کثیر سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: کعب بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے مجھے بیان کیا میں غزوۂ تبوک کے موقع پر سواری اور اخراجات کے لحاظ سے جس قدر خوش حال تھا، اس سے قبل کبھی بھی اس قدر خوش حال نہیں تھا، جب اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم روانہ ہو گئے تو میں نے سوچا کہ میں کل تیاری کر کے روانہ ہو کر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے جا ملوں گا۔ تو میں اپنے کاموں میں مصروف ہو گیا، تاآنکہ شام ہو گئی اور میں اپنی مصروفیات سے فارغ نہ ہو سکا، میں نے سوچا کہ کوئی بات نہیں، میں کل تیاری کر لوں گا، لوگ ابھی قریب ہی ہیں، پس میں ان سے جا ملوں گا، دوسرے دن بھی شام تک کاموں سے فارغ نہیں ہو سکا، جب تیسرا دن ہوا تو میں پھر کاموں میں مصروف رہا اور شام تک کاموں سے فارغ نہ ہو سکا، میں نے سوچا کہ اب تو دیر ہو گئی، لوگ تین دن سفر کر چکے ہیں،یہ سوچ کر میں نے سفر کا ارادہ ملتوی کر دیا اور یہیں ٹھہرا رہا، جب اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم واپس تشریف لائے تو لوگ آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر معذرتیں کرنے لگے۔ میں بھی آکر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے سامنے کھڑا ہو گیا، میں نے عرض کیا میں اس غزوہ کے موقع پر سواری اور اخراجات کے لحاظ سے جس قدر خوشحال تھا، اتنا کسی دوسرے غزوہ کے موقع پر خوش حال نہیں تھا۔ ( یعنی میرا کوئی شرعی عذر نہیں تھا، بلکہ غفلت ہوئی) تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھ سے منہ موڑ لیا، اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے لوگوں کو حکم صادر فرمایا کہ کوئی بھی شخص ہمارے ساتھ کلام نہ کرے۔ اور ہماری بیویوں کو ہم سے الگ رہنے کا حکم دیا گیا۔ سیدنا کعب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: انہی ایام میں میں ایک دن باغ کی دیوار پر چڑھ کر سیدنا جابر بن عبداللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو دیکھا اور میں نے کہا: اے جابر ! میں تم سے اللہ کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں، کیا تمہارے علم میں ہے کہ میں نے کبھی اللہ اور اس کے رسول کو دھوکہ دیا ہو؟ وہ میری بات سن کر خاموش رہے اور مجھ سے کو ئی بات نہیں کی۔ میں اسی طرح دن گزار رہا تھا کہ ایک دن پہاڑ کی گھاٹی کی طرف سے میں نے ایک آدمی کو سنا جو میرا نام لے کر کعب کعب پکار رہا تھا۔ یہاں تک کہ وہ میرے قریب آگیا اور کہنے لگا کہ کعب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو خوشخبری دو۔

Haidth Number: 10946
عبدالرحمن بن عبداللہ بن کعب بن مالک سے مروی ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے سیدنا کعب بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی توبہ قبول کی تو وہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں آئے اور کہا: اللہ نے مجھے محض سچ بولنے کی برکت سے اس آزمائش سے نجات دی ہے، اب میری توبہ میں یہ چیز بھی شامل ہے کہ میں آئندہ کبھی بھی جھوٹ نہیں بولوں گا اور میں اپنا سارا مال اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی خدمت میں بطور صدقہ پیش کر دوں گا، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم اپنا کچھ مال رکھ لو، یہ تمہارے حق میں بہتر ہے۔ انہوں نے کہا: جی میں خیبر سے ملنے والا حصہ رکھ لیتا ہوں۔

Haidth Number: 10947

۔ (۱۱۸۶۲)۔ حَدَّثَنَا شَدَّادُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ الدِّمَشْقِیُّ، وَکَانَ قَدْ أَدْرَکَ نَفَرًا مِنْ أَصْحَابِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: قَالَ أَبُوْ أُمَامَۃَ: یَا عَمْرُو بْنَ عَبَسَۃَ صَاحِبَ الْعَقْلِ عَقْلِ الصَّدَقَۃِ، رَجُلٌ مِنْ بَنِی سُلَیْمٍ بِأَیِّ شَیْئٍ تَدَّعِی أَنَّکَ رُبُعُ الْإِسْلَامِ؟ قَالَ: إِنِّی کُنْتُ فِی الْجَاہِلِیَّۃِ أَرَی النَّاسَ عَلٰی ضَلَالَۃٍ وَلَا أَرَی الْأَوْثَانَ شَیْئًا، ثُمَّ سَمِعْتُ عَنْ رَجُلٍ یُخْبِرُ أَخْبَارَ مَکَّۃَ وَیُحَدِّثُ أَحَادِیثَ، فَرَکِبْتُ رَاحِلَتِی حَتّٰی قَدِمْتُ مَکَّۃَ، فَإِذَا أَنَا بِرَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مُسْتَخْفٍ، وَإِذَا قَوْمُہُ عَلَیْہِ جُرَآئُ فَتَلَطَّفْتُ لَہُ فَدَخَلْتُ عَلَیْہِ، فَقُلْتُ: مَا أَنْتَ؟ قَالَ: ((أَنَا نَبِیُّ اللّٰہِ۔)) فَقُلْتُ: وَمَا نَبِیُّ اللّٰہِ؟ قَالَ: ((رَسُولُ اللّٰہِ۔)) قَالَ: قُلْتُ آللَّہُ أَرْسَلَکَ؟ قَالَ: ((نَعَمْ۔)) قُلْتُ: بِأَیِّ شَیْئٍ أَرْسَلَکَ؟ قَالَ: ((بِأَنْ یُوَحَّدَ اللّٰہُ وَلَا یُشْرَکَ بِہِ شَیْئٌ وَکَسْرِ الْأَوْثَانِ وَصِلَۃِ الرَّحِمِ۔)) فَقُلْتُ لَہُ: مَنْ مَعَکَ عَلٰی ہٰذَا؟ قَالَ: ((حُرٌّ وَعَبْدٌ أَوْ عَبْدٌ وَحُرٌّ۔)) وَإِذَا مَعَہُ أَبُو بَکْرِ بْنُ أَبِی قُحَافَۃَ وَبِلَالٌ مَوْلٰی أَبِی بَکْرٍ، قُلْتُ: إِنِّی مُتَّبِعُکَ، قَالَ: ((إِنَّکَ لَا تَسْتَطِیعُ ذٰلِکَ یَوْمَکَ ہٰذَا وَلٰکِنْ ارْجِعْ إِلٰی أَہْلِکَ، فَإِذَا سَمِعْتَ بِی قَدْ ظَہَرْتُ فَالْحَقْ بِی۔)) قَالَ: فَرَجَعْتُ إِلٰی أَہْلِی وَقَدْ أَسْلَمْتُ، فَخَرَجَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مُہَاجِرًا إِلَی الْمَدِینَۃِ، فَجَعَلْتُ أَتَخَبَّرُ الْأَخْبَارَ حَتّٰی جَائَ رَکَبَۃٌ مِنْ یَثْرِبَ فَقُلْتُ: مَا ہٰذَا الْمَکِّیُّ الَّذِی أَتَاکُمْ؟ قَالُوْا: أَرَادَ قَوْمُہُ قَتْلَہُ فَلَمْ یَسْتَطِیعُوا ذٰلِکَ وَحِیلَ بَیْنَہُمْ وَبَیْنَہُ وَتَرَکْنَا النَّاسَ سِرَاعًا، قَالَ عَمْرُو بْنُ عَبَسَۃَ: فَرَکِبْتُ رَاحِلَتِی حَتّٰی قَدِمْتُ عَلَیْہِ الْمَدِینَۃَ فَدَخَلْتُ عَلَیْہِ فَقُلْتُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! أَتَعْرِفُنِی؟ قَالَ: ((نَعَمْ أَلَسْتَ أَنْتَ الَّذِی أَتَیْتَنِی بِمَکَّۃَ؟)) قَالَ: قُلْتُ: بَلٰی، فَقُلْتُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! عَلِّمْنِی مِمَّا عَلَّمَکَ اللّٰہُ وَأَجْہَلُ، قَالَ: ((إِذَا صَلَّیْتَ الصُّبْحَ فَأَقْصِرْ عَنِ الصَّلَاۃِ حَتّٰی تَطْلُعَ الشَّمْسُ، فَإِذَا طَلَعَتْ فَلَا تُصَلِّ حَتّٰی تَرْتَفِعَ، فَإِنَّہَا تَطْلُعُ حِینَ تَطْلُعُ بَیْنَ قَرْنَیْ شَیْطَانٍ، وَحِینَئِذٍ یَسْجُدُ لَہَا الْکُفَّارُ، فَإِذَا ارْتَفَعَتْ قِیدَ رُمْحٍ أَوْ رُمْحَیْنِ فَصَلِّ، فَإِنَّ الصَّلَاۃَ مَشْہُودَۃٌ مَحْضُورَۃٌ حَتّٰی یَسْتَقِلَّ الرُّمْحُ بِالظِّلِّ، ثُمَّ أَقْصِرْ عَنِ الصَّلَاۃِ، فَإِنَّہَا حِینَئِذٍ تُسْجَرُ جَہَنَّمُ، فَإِذَا فَائَ الْفَیْئُ فَصَلِّ، فَإِنَّ الصَّلَاۃَ مَشْہُودَۃٌ مَحْضُورَۃٌ حَتّٰی تُصَلِّیَ الْعَصْرَ، فَإِذَا صَلَّیْتَ الْعَصْرَ فَأَقْصِرْ عَنِ الصَّلَاۃِ حَتّٰی تَغْرُبَ الشَّمْسُ، فَإِنَّہَا تَغْرُبُ حِینَ تَغْرُبُ بَیْنَ قَرْنَیْ شَیْطَانٍ، وَحِینَئِذٍ یَسْجُدُ لَہَا الْکُفَّارُ۔)) قُلْتُ: یَا نَبِیَّ اللّٰہِ! أَخْبِرْنِی عَنِ الْوُضُوئِ، قَالَ: ((مَا مِنْکُمْ مِنْ أَحَدٍ یَقْرَبُ وَضُوئَہُ، ثُمَّ یَتَمَضْمَضُ وَیَسْتَنْشِقُ وَیَنْتَثِرُ إِلَّا خَرَجَتْ خَطَایَاہُ مِنْ فَمِہِ وَخَیَاشِیمِہِ مَعَ الْمَائِ حِینَ یَنْتَثِرُ، ثُمَّ یَغْسِلُ وَجْہَہُ کَمَا أَمَرَہُ اللّٰہُ تَعَالٰی إِلَّا خَرَجَتْ خَطَایَا وَجْہِہِ مِنْ أَطْرَافِ لِحْیَتِہِ مِنَ الْمَائِ، ثُمَّ یَغْسِلُ یَدَیْہِ إِلَی الْمِرْفَقَیْنِ إِلَّا خَرَجَتْ خَطَایَا یَدَیْہِ مِنْ أَطْرَافِ أَنَامِلِہِ، ثُمَّ یَمْسَحُ رَأْسَہُ إِلَّا خَرَجَتْ خَطَایَا رَأْسِہِ مِنْ أَطْرَافِ شَعَرِہِ مَعَ الْمَائِ، ثُمَّ یَغْسِلُ قَدَمَیْہِ إِلَی الْکَعْبَیْنِ کَمَا أَمَرَہُ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ إِلَّا خَرَجَتْ خَطَایَا قَدَمَیْہِ مِنْ أَطْرَافِ أَصَابِعِہِ مَعَ الْمَائِ، ثُمَّ یَقُومُ فَیَحْمَدُ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ وَیُثْنِی عَلَیْہِ بِالَّذِی ہُوَ لَہُ أَہْلٌ، ثُمَّ یَرْکَعُ رَکْعَتَیْنِ إِلَّا خَرَجَ مِنْ ذَنْبِہِ کَہَیْئَتِہِ یَوْمَ وَلَدَتْہُ أُمُّہُ۔)) قَالَ أَبُو أُمَامَۃَ: یَا عَمْرُو بْنَ عَبَسَۃَ! انْظُرْ مَا تَقُولُ؟ أَسَمِعْتَ ہٰذَا مِنْ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَیُعْطَی ہٰذَا الرَّجُلُ کُلَّہُ فِی مَقَامِہِ؟ قَالَ: فَقَالَ عَمْرُو بْنُ عَبَسَۃَ: یَا أَبَا أُمَامَۃَ! لَقَدْ کَبِرَتْ سِنِّی وَرَقَّ عَظْمِی، وَاقْتَرَبَ أَجَلِی وَمَا بِی مِنْ حَاجَۃٍ، أَنْ أَکْذِبَ عَلَی اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ وَعَلٰی رَسُولِہِ، لَوْ لَمْ أَسْمَعْہُ مِنْ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم إِلَّا مَرَّۃً أَوْ مَرَّتَیْنِ أَوْ ثَلَاثًا، لَقَدْ سَمِعْتُہُ سَبْعَ مَرَّاتٍ أَوْ أَکْثَرَ مِنْ ذٰلِکَ۔ (مسند احمد: ۱۷۱۴۴)

شداد بن عبداللہ دمشقی، جن کو متعدد صحابۂ کرام سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا، ان سے مروی ہے کہ سیدنا ابو امامہ نے کہا کہ دیت (خون بہا) ادا نہ کر سکنے والوں کی طرف سے خون بہاادا کرنے والے عمرو بن عبسہ! آپ بنو سلیم میں سے ہیں، آپ کس طرح دعویٰ کرتے ہیں کہ آپ چوتھے نمبر پر دائرۂ اسلام میں داخل ہوئے؟ انہوںنے کہا:میں دور جاہلیت میں بھی لوگوں کو گم راہ سمجھتا تھا اور میں بتوں کو کچھ اہمیت نہ دیا کرتا تھا، پھر میں نے ایک آدمی کو سنا وہ مکہ کی باتیں کیا کرتا اور بیان کیا کرتا تھا، میں سواری پر سوار ہو کر مکہ مکرمہ آیا۔ میں نے دیکھا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پوشیدہ طور پر اسلام کی تبلیغ کرتے تھے اور آپ کی قوم آپ پر غالب تھی اور ظلم ڈھاتی تھی۔ میں نرم خوئی اختیار کرکے آپ کے پاس پہنچنے میں کامیاب ہوگیا، میں نے عرض کیا: آپ کا دعویٰ کیاہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں اللہ کا نبی ہوں۔ میں نے دریافت کیا: اللہ کا نبی ہونے سے کیا مراد ہے یا اس کا مفہوم کیا ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ کے نبی ہونے کا مفہوم یہ ہے کہ میں اللہ کا رسول اور اس کا فرستادہ ہوں۔ میں نے دریافت کیا: آیا آپ کو اللہ نے رسول بنا کر مبعوث کیا ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جی بالکل۔ میں نے پوچھا: اللہ نے آپ کو کیا پیغام اور دعوت دے کر مبعوث کیا ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ کے ایک ہونے پر ایمان لایا جائے، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرایا جائے، بتوں کو توڑ دیا جائے، صلہ رحمی کی جائے۔ میں نے کہا: اس دعوت کے سلسلہ میں آپ کے ساتھ کس قسم کے لوگ ہیں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ایک آزادہے اور ایک غلام۔ ان دنوں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اور سیدنا بلال ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ تھے۔ میں نے عرض کیا: میں آپ کا متبع بننا چاہتا ہوں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم ان حالات میں اس بات کی استطاعت نہیں رکھ سکتے، البتہ تم اپنے اہل میں واپس چلے جائو، جب تم میرے غالب ہونے کا سنو تو میرے پاس آجانا۔ اس کے بعد میں اپنے اہل میں واپس آگیا، میں اسلام قبول کر چکا تھا، اس کے بعد رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہجرت کرکے مدینہ منورہ میں تشریف لے آئے، میں حالات معلوم کرتا رہا یہاں تک کہ یثرب سے ایک چھوٹا سا قافلہ آیا۔ میں نے ان سے دریافت کیا کہ وہ مکی جو تمہارے ہاں آیا تھا، اس کی کیا پوزیشن ہے؟ انہوںنے بتلایا کہ ان کی قوم نے ان کو قتل کرنے کا ارادہ کیا تھا، مگر وہ اپنے اس ارادے میں کامیاب نہ ہو سکے، ان کے اور ان کے اس برے ارادہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے رکاوٹ آگئی اور لوگ بڑی تیزسے اس کے ساتھ مل رہے ہیں۔ پھر میں سواری پر سوار ہو کر مدینہ منورہ آیا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں حاضر ہو گیا اور میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! کیا آپ نے مجھے پہچانا؟ آپ نے فرمایا: کیا تم وہی شخص نہیں ہو، جو میرے پاس مکہ میں آئے تھے؟ میں نے عرض کیا: جی ہاں۔ پھر میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! اللہ تعالیٰ نے آپ کو جو کچھ سکھایا ہے اور میں اس سے واقف نہیں، آپ مجھے بھی اس کی تعلیم دیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جب تم فجر کی نماز ادا کر لو تو طلوع آفتاب تک نماز نہ پڑھو، آفتاب طلوع ہونے کے بعد بھی اس کے بلند ہونے تک نماز نہ پڑھو، کیونکہ سورج شیطان کے دو سینگوں کے درمیان طلوع ہوتا ہے اور اس وقت کفار اسے سجدہ کرتے ہیں، جب سورج ایک دو نیزوں کے برابر بلند ہو جائے تو نماز پڑھ سکتے ہو، بے شک نماز کے وقت اللہ کے فرشتے حاضر ہوتے ہیں، تم سورج کے عین سر پر پہنچنے تک نماز پڑھ سکتے ہو، جب سورج عین سر پر ہو تو نماز نہ پڑھو کیونکہ اس وقت جہنم کو بھڑکایا جاتا ہے، جب سایہ ڈھل جائے تو نماز پڑھو، نماز کے وقت اللہ کے فرشتے حاضر ہوتے ہیں، پھر تم عصر تک نماز پڑھ سکتے۔ جب تم عصر کی نمازادا کر لو تو غروب آفتاب تک نماز پڑھنے سے رکے رہو، جب سورج غروب ہوتا ہے اس وقت بھی کفار اس کو سجدہ کرتے ہیں۔ میں نے عرض کیا: اللہ کے نبی! مجھے وضوء کے مسائل بھی بتلائیں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم میں سے جو کوئی وضو کے پانی کے قریب ہو کر کلی کرے، ناک میں پانی چڑھائے، ناک کو جھاڑے،تو اس کے گناہ پانی کے ساتھ اس کے منہ سے اور نتھنوں سے نکل جاتے ہیں، پھر جب وہ چہرہ اسی طرح دھوئے جیسے اس کا اللہ تعالیٰ نے اسے حکم دیاہے تو اس کے گناہ پانی کے ساتھ اس کیداڑھی کے کناروں سے نکل جاتے ہیں۔ پھروہ اپنے بازوئوں کو کہنیوں تک دھوتا ہے تو اس کے ہاتھوں کے گناہ انگلیوں کے پوروں سے نکل جاتے ہیں، پھر وہ جب اپنے سرکا مسح کرتا ہے تو اس کے سر کے گناہ پانی کے ساتھ بالوں کے سروں سے نکل جاتے ہیں، پھر وہ اپنے قدموں کو یعنی پائوں کو اسی طرح دھوتا ہے، جیسے اس کو اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے تو پانی کے ساتھ اس کے گناہ پائوں کی انگلیوں کے کناروں سے نکل جاتے ہیں، اس کے بعد وہ کھڑا ہو کر اللہ کے شایان شان حمد و ثناء کرتا ہے اور دو رکعت نماز ادا کرتا ہے تو وہ اپنے گناہوں سے اس طرح پاک ہو جاتا ہے، جیسا وہ اپنی ولادت کے روز تھا۔ عمرو بن عبسہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے شاگرد ابو امامہ نے دریافت کیا: اے عمرو بن عبسہ! ذرا خیال سے بولیں۔ کیا آپ نے یہ ساری بات رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے خو دسنی ہے؟ کیایہ سب کچھ ایک آدمی کو ایک ہی وقت میں مل جاتا ہے؟ سیدنا عمروبن عبسہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اے ابو امامہ!اب میں بوڑھا ہو چکا ہوں، میری ہڈیاں کمزور ہو چکی ہیں، میری موت کا وقت قریب ہے۔ مجھے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر جھوٹ باندھنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ اگر میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے یہ بات ایک، دو یا تین مرتبہ ہی سنی ہوتی تو میں بیان نہ کرتا۔ میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے یہ حدیث سات مرتبہ بلکہ اس سے بھی زائد مرتبہ سماع کر چکا ہوں۔

Haidth Number: 11862
ابو نجیح سیدنا عمرو بن عبسہ سلمی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: ہم نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی معیت میں طائف کے قلعے کا محاصر کیا، اس دوران رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جس نے اللہ کی راہ میں دشمن کو ایک تیر مارا، اسے جنت میں ایک درجہ ملے گا۔ سیدنا عمرو بن عبسہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: میں نے اس دن سولہ تیرمارے۔

Haidth Number: 11863
سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے دوپہر کے وقت خواب میں نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو دیکھا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کھڑے تھے اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے سر کے بال بکھرے ہوئے اور غبار آلود ہیں اور آپ کے ہاتھ میں ایک شیشی ہے جس میں خون تھا۔میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں، یہ کیا ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یہ حسین اور اس کے ساتھیوں کا خون ہے، جسے میں آج جمع کر رہا ہوں۔ ہم نے اس دن کا حساب لگایا تو وہ وہی دن تھا، جس دن سیدنا حسین ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ شہید ہوئے تھے۔

Haidth Number: 12423