Blog
Books
Search Hadith

باب: سورۃ التوبہ سے بعض آیات کی تفسیر

19 Hadiths Found

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، وَمُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، وَابْنُ أَبِي عَدِيٍّ، وسهل بن يوسف، قَالُوا:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا عَوْفُ بْنُ أَبِي جَمِيلَةَ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ الْفَارِسِيُّ، حَدَّثَنَا ابْنُ عَبَّاسٍ، قَالَ:‏‏‏‏ قُلْتُ لِعُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ:‏‏‏‏ مَا حَمَلَكُمْ أَنْ عَمَدْتُمْ إِلَى الْأَنْفَالِ وَهِيَ مِنَ الْمَثَانِي، ‏‏‏‏‏‏وَإِلَى بَرَاءَةٌ وَهِيَ مِنَ الْمِئِينَ فَقَرَنْتُمْ بَيْنَهُمَا وَلَمْ تَكْتُبُوا بَيْنَهُمَا سَطْرَ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ، ‏‏‏‏‏‏وَوَضَعْتُمُوهَا فِي السَّبْعِ الطُّوَلِ، ‏‏‏‏‏‏مَا حَمَلَكُمْ عَلَى ذَلِكَ ؟ فَقَالَ عُثْمَانُ:‏‏‏‏ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِمَّا يَأْتِي عَلَيْهِ الزَّمَانُ وَهُوَ تَنْزِلُ عَلَيْهِ السُّوَرُ ذَوَاتُ الْعَدَدِ، ‏‏‏‏‏‏فَكَانَ إِذَا نَزَلَ عَلَيْهِ الشَّيْءُ دَعَا بَعْضَ مَنْ كَانَ يَكْتُبُ فَيَقُولُ:‏‏‏‏ ضَعُوا هَؤُلَاءِ الْآيَاتِ فِي السُّورَةِ الَّتِي يُذْكَرُ فِيهَا كَذَا وَكَذَا، ‏‏‏‏‏‏وَإِذَا نَزَلَتْ عَلَيْهِ الْآيَةُ فَيَقُولُ ضَعُوا هَذِهِ الْآيَةَ فِي السُّورَةِ الَّتِي يُذْكَرُ فِيهَا كَذَا وَكَذَا، ‏‏‏‏‏‏وَكَانَتْ الْأَنْفَالُ مِنْ أَوَائِلِ مَا أُنْزِلَتْ بِالْمَدِينَةِ، ‏‏‏‏‏‏وَكَانَتْ بَرَاءَةُ مِنْ آخِرِ الْقُرْآنِ، ‏‏‏‏‏‏وَكَانَتْ قِصَّتُهَا شَبِيهَةً بِقِصَّتِهَا فَظَنَنْتُ أَنَّهَا مِنْهَا، ‏‏‏‏‏‏فَقُبِضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَمْ يُبَيِّنْ لَنَا أَنَّهَا مِنْهَا فَمِنْ أَجْلِ ذَلِكَ قَرَنْتُ بَيْنَهُمَا، ‏‏‏‏‏‏وَلَمْ أَكْتُبْ بَيْنَهُمَا سَطْرَ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ فَوَضَعْتُهَا فِي السَّبْعِ الطُّوَلِ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ عَوْفٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ يَزِيدَ الْفَارِسِيِّ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، ‏‏‏‏‏‏وَيَزِيدُ الْفَارِسِيُّ هُوَ مِنَ التَّابِعِينَ، ‏‏‏‏‏‏قَدْ رَوَى عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ غَيْرَ حَدِيثٍ، ‏‏‏‏‏‏وَيُقَالُ هُوَ يَزِيدُ بْنُ هُرْمُزَ، ‏‏‏‏‏‏وَيَزِيدُ الرَّقَاشِيُّ هُوَ يَزِيدُ بْنُ أَبَانَ الرَّقَاشِيُّ، ‏‏‏‏‏‏وَهُوَ مِنَ التَّابِعِينَ وَلَمْ يُدْرِكْ ابْنَ عَبَّاسٍ إِنَّمَا رَوَى عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ وَكِلَاهُمَا مِنَ التَّابِعِينَ مِنْ أَهْلِ الْبَصْرَةِ، ‏‏‏‏‏‏وَيَزِيدُ الْفَارِسِيُّ أَقْدَمُ مِنْ يَزِيدَ الرَّقَاشِيِّ.

میں نے عثمان بن عفان رضی الله عنہ سے کہا کہ کس چیز نے آپ کو آمادہ کیا کہ سورۃ الانفال کو جو «مثانی» میں سے ہے اور سورۃ برأۃ کو جو «مئین» میں سے ہے دونوں کو ایک ساتھ ملا دیا، اور ان دونوں سورتوں کے بیچ میں «بسم الله الرحمن الرحيم» کی سطر بھی نہ لکھی۔ اور ان دونوں کو «سبع طوال» ( سات لمبی سورتوں ) میں شامل کر دیا۔ کس سبب سے آپ نے ایسا کیا؟ عثمان رضی الله عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر زمانہ آتا جا رہا تھا اور آپ پر متعدد سورتیں نازل ہو رہی تھیں، تو جب آپ پر کوئی آیت نازل ہوتی تو وحی لکھنے والوں میں سے آپ کسی کو بلاتے اور کہتے کہ ان آیات کو اس سورۃ میں شامل کر دو جس میں ایسا ایسا مذکور ہے۔ اور پھر جب آپ پر کوئی آیت اترتی تو آپ فرماتے اس آیت کو اس سورۃ میں رکھ دو جس میں اس اس طرح کا ذکر ہے۔ سورۃ الانفال ان سورتوں میں سے ہے جو مدینہ میں آنے کے بعد شروع شروع میں نازل ہوئی ہیں۔ اور سورۃ برأت قرآن کے آخر میں نازل ہوئی ہے۔ اور دونوں کے قصوں میں ایک دوسرے سے مشابہت تھی تو ہمیں خیال ہوا کہ یہ اس کا ایک حصہ ( و تکملہ ) ہے۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں یہ بتائے بغیر کہ یہ سورۃ اسی سورۃ کا جزو حصہ ہے اس دنیا سے رحلت فرما گئے۔ اس سبب سے ہم نے ان دونوں سورتوں کو ایک ساتھ ملا دیا اور ان دونوں سورتوں کے درمیان ہم نے «بسم الله الرحمن الرحيم» نہیں لکھا اور ہم نے اسے «سبع طوال» میں رکھ دیا ( شامل کر دیا ) ۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اسے ہم صرف عوف کی روایت سے جانتے ہیں، جسے وہ یزید فارسی کے واسطہ سے ابن عباس سے روایت کرتے ہیں، اور یزید فارسی تابعین میں سے ہیں، انہوں نے ابن عباس سے کئی حدیثیں روایت کی ہیں۔ اور کہا جاتا ہے کہ وہ یزید بن ہرمز ہیں۔ اور یزید رقاشی یہ یزید بن ابان رقاشی ہیں، یہ تابعین میں سے ہیں اور ان کی ملاقات ابن عباس سے نہیں ہے۔ انہوں نے صرف انس بن مالک سے روایت کی ہے، اور یہ دونوں ہی بصرہ والوں میں سے ہیں۔ اور یزید فارسی، یزید رقاشی سے متقدم ہیں۔

Narrated Ibn 'Abbas: I said to 'Uthman bin 'Affan: 'What was your reasoning with Al-Anfal - while it is from the Muthani (Surah with less than one-hundred Ayat), and Bara'ah while it is from the Mi'in (Surah with about one-hundred Ayat), then you put them together, without writing the line Bismillahir-Rahmanir-Rahim between them, and you placed them with the seven long (Surah) - why did you do that?' So 'Uthman said: 'A long time might pass upon the Messenger of Allah (ﷺ) without anything being revealed to him, and then sometimes a Surah with numerous (Ayat) might be revealed. So when something was revealed, he would call for someone who could write, and say: Put these Ayat in the Surah which mentions this and that in it. When an Ayah was revealed, he would say: Put this Ayah in the Surah which mentions this and that in it. Now Al-Anfal was among the first of those revealed in Al-Madinah, and Bara'ah among the last of those revealed of the Qur'an, and its narrations (those of Bara'ah) resembled its narrations (those of Al-Anfal), so we thought that it was part of it. Then the Messenger of Allah (ﷺ) died, and it was not made clear to us whether it was part of it. So it is for this reason that we put them together without writing Bismillahir-Rahmanir-Rahim between them, and we put that with the seven long (Surahs).'

Haidth Number: 3086

حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلَّالُ، حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بْنُ عَلِيٍّ الْجُعْفِيُّ، عَنْ زَائِدَةَ، عَنْ شَبِيبِ بْنِ غَرْقَدَةَ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْأَحْوَصِ، حَدَّثَنَا أَبِي، أَنَّهُ شَهِدَ حَجَّةَ الْوَدَاعِ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ وَذَكَّرَ وَوَعَظَ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قَالَ:‏‏‏‏ أَيُّ يَوْمٍ أَحْرَمُ ؟ أَيُّ يَوْمٍ أَحْرَمُ ؟ أَيُّ يَوْمٍ أَحْرَمُ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ فَقَالَ النَّاسُ:‏‏‏‏ يَوْمُ الْحَجِّ الْأَكْبَرِ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَإِنَّ دِمَاءَكُمْ وَأَمْوَالَكُمْ وَأَعْرَاضَكُمْ عَلَيْكُمْ حَرَامٌ كَحُرْمَةِ يَوْمِكُمْ هَذَا، ‏‏‏‏‏‏فِي بَلَدِكُمْ هَذَا، ‏‏‏‏‏‏فِي شَهْرِكُمْ هَذَا، ‏‏‏‏‏‏أَلَا لَا يَجْنِي جَانٍ إِلَّا عَلَى نَفْسِهِ، ‏‏‏‏‏‏وَلَا يَجْنِي وَالِدٌ عَلَى وَلَدِهِ وَلَا وَلَدٌ عَلَى وَالِدِهِ، ‏‏‏‏‏‏أَلَا إِنَّ الْمُسْلِمَ أَخُو الْمُسْلِمِ فَلَيْسَ يَحِلُّ لِمُسْلِمٍ مِنْ أَخِيهِ شَيْءٌ إِلَّا مَا أَحَلَّ مِنْ نَفْسِهِ، ‏‏‏‏‏‏أَلَا وَإِنَّ كُلَّ رِبًا فِي الْجَاهِلِيَّةِ مَوْضُوعٌ لَكُمْ رُءُوسُ أَمْوَالِكُمْ لَا تَظْلِمُونَ وَلَا تُظْلَمُونَ، ‏‏‏‏‏‏غَيْرَ رِبَا الْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنَّهُ مَوْضُوعٌ كُلُّهُ، ‏‏‏‏‏‏أَلَا وَإِنَّ كُلَّ دَمٍ كَانَ فِي الْجَاهِلِيَّةِ مَوْضُوعٌ، ‏‏‏‏‏‏وَأَوَّلُ دَمٍ وُضِعَ مِنْ دِمَاءِ الْجَاهِلِيَّةِ دَمُ الْحَارِثِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ كَانَ مُسْتَرْضَعًا فِي بَنِي لَيْثٍ فَقَتَلَتْهُ هُذَيْلٌ، ‏‏‏‏‏‏أَلَا وَاسْتَوْصُوا بِالنِّسَاءِ خَيْرًا فَإِنَّمَا هُنَّ عَوَانٍ عِنْدَكُمْ لَيْسَ تَمْلِكُونَ مِنْهُنَّ شَيْئًا غَيْرَ ذَلِكَ، ‏‏‏‏‏‏إِلَّا أَنْ يَأْتِينَ بِفَاحِشَةٍ مُبَيِّنَةٍ فَإِنْ فَعَلْنَ فَاهْجُرُوهُنَّ فِي الْمَضَاجِعِ، ‏‏‏‏‏‏وَاضْرِبُوهُنَّ ضَرْبًا غَيْرَ مُبَرِّحٍ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنْ أَطَعْنَكُمْ فَلَا تَبْغُوا عَلَيْهِنَّ سَبِيلًا، ‏‏‏‏‏‏أَلَا إِنَّ لَكُمْ عَلَى نِسَائِكُمْ حَقًّا وَلِنِسَائِكُمْ عَلَيْكُمْ حَقًّا، ‏‏‏‏‏‏فَأَمَّا حَقُّكُمْ عَلَى نِسَائِكُمْ فَلَا يُوطِئْنَ فُرُشَكُمْ مَنْ تَكْرَهُونَ وَلَا يَأْذَنَّ فِي بُيُوتِكُمْ مَنْ تَكْرَهُونَ، ‏‏‏‏‏‏أَلَا وَإِنَّ حَقَّهُنَّ عَلَيْكُمْ أَنْ تُحْسِنُوا إِلَيْهِنَّ فِي كِسْوَتِهِنَّ وَطَعَامِهِنَّ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، ‏‏‏‏‏‏وَقَدْ رَوَاهُ أَبُو الْأَحْوَصِ، عَنْ شَبِيبِ بْنِ غَرْقَدَةَ.

میرے باپ نے مجھے بتایا کہ وہ حجۃ الوداع میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ موجود تھے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کی تعریف اور ثنا کی، اور وعظ و نصیحت فرمائی۔ پھر فرمایا: ”کون سا دن سب سے زیادہ حرمت و تقدس والا ہے؟ کون سا دن سب سے زیادہ حرمت و تقدس ہے؟ کون سا دن سب سے زیادہ حرمت و تقدس والا ہے؟“ لوگوں نے کہا: اللہ کے رسول! حج اکبر کا دن ہے۔ آپ نے فرمایا: ”تمہارا خون، تمہارے اموال اور تمہاری عزتیں سب تم پر حرام ہیں جیسے کہ تمہارے آج کے دن کی حرمت ہے، تمہارے اس شہر میں تمہارے اس مہینے میں، سن لو! کوئی انسان کوئی جرم نہیں کرے گا مگر اس کا وبال اسی پر آئے گا، کوئی باپ قصور نہیں کرے گا کہ جس کی سزا اس کے بیٹے کو ملے۔ اور نہ ہی کوئی بیٹا کوئی قصور کرے گا کہ اس کی سزا اس کے باپ کو ملے۔ آگاہ رہو! مسلمان مسلمان کا بھائی ہے۔ کسی مسلمان کے لیے اپنے بھائی کی کوئی چیز حلال نہیں ہے سوائے اس چیز کے جو اسے اس کا بھائی خود سے دیدے۔ سن لو! جاہلیت کا ہر سود باطل ہے تم صرف اپنا اصل مال ( اصل پونجی ) لے سکتے ہو، نہ تم کسی پر ظلم و زیادتی کرو گے اور نہ تمہارے ساتھ ظلم و زیادتی کی جائے گی۔ سوائے عباس بن عبدالمطلب کے سود کے کہ اس کا سارا کا سارا معاف ہے۔ خبردار! جاہلیت کا ہر خون ختم کر دیا گیا ہے ۱؎ اور جاہلیت میں ہوئے خونوں میں سے پہلا خون جسے میں معاف کرتا ہوں وہ حارث بن عبدالمطلب کا خون ہے، وہ قبیلہ بنی لیث میں دودھ پیتے تھے، تو انہیں قبیلہ ہذیل نے قتل کر دیا تھا، سنو! عورتوں کے ساتھ اچھا سلوک ( و برتاؤ ) کرو۔ کیونکہ وہ تمہارے پاس بے کس و لاچار بن کر ہیں اور تم اس کے سوا ان کی کسی چیز کے مالک نہیں ہو، مگر یہ کہ وہ کوئی کھلی ہوئی بدکاری کر بیٹھیں، اگر وہ کوئی قبیح گناہ کر بیٹھیں تو ان کے بستر الگ کر دو اور انہیں مارو مگر ایسی مار نہ لگاؤ کہ ان کی ہڈی پسلی توڑ بیٹھو، پھر اگر وہ تمہارے کہے میں آ جائیں تو ان پر ظلم و زیادتی کے راستے نہ ڈھونڈو، خبردار ہو جاؤ! تمہارے لیے تمہاری بیویوں پر حقوق ہیں، اور تمہاری بیویوں کے تم پر حقوق ہیں، تمہارا حق تمہاری بیویوں پر یہ ہے کہ جنہیں تم ناپسند کرتے ہو انہیں وہ تمہارے بستروں پر نہ آنے دیں، اور نہ ہی ان لوگوں کو گھروں میں آنے کی اجازت دیں جنہیں تم برا جانتے ہو، اور ان کا حق تم پر یہ ہے کہ تم ان کے ساتھ اچھا سلوک کرو اور انہیں اچھا پہناؤ اور اچھا کھلاؤ“۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اسے ابوالا ٔحوص نے شبیب بن غرقدہ سے روایت کیا ہے۔

Narrated Sulaiman bin 'Amr bin Al-Ahwas: My father narrated to me that he attended the Farewell Hajj with the Messenger of Allah (ﷺ). He (ﷺ) expressed his gratitude to Allah and praised Him, and reminded and exhorted, then he said: 'Which day is most sacred? Which day is most sacred? Which day is most sacred?' He said: So the people said: 'The day of Al-Hajj Al-Akbar O Messenger of Allah!' So he said: 'Indeed, your blood, your wealth, your honor, is as sacred for you as the sacredness of this day of yours, in this city of yours, in this month of yours. Behold! None commits a crime but against himself, none offends a father for a son, nor a son for a father. Behold! Indeed the Muslim is the brother of the Muslim, so it is not lawful for the Muslim to do anything to his brother, which is not lawful to be done to himself. Behold! All Riba from Jahiliyyah is invalid, for you is the principle of your wealth, but your are not to wrong nor be wronged - except in the case of Riba of Al-'Abbas bin 'Abdul-Muttalib - otherwise it is all invalid. Behold! All retribution regarding cases of blood during Jahiliyyah are invalid. The first case of blood retribution invalidated among those of Jahiliyyah, is the blood of Al-Harith bin 'Abdul-Muttalib who was nursed among Banu Laith and killed by Hudhail. Behold! I order you to treat women well, for they are but like captives with you, you have no sovereignty beyond this over them, unless they manifest lewdness. If they do that, then abandon their beds, and beat them with a beating that is not painful. Then if they obey you, then there is no cause for you against them beyond that. Behold! There are rights for you upon your women, and rights for your women upon you. As for your rights upon them,then they are not to allow anyone on your bedding whom you dislike, nor to permit anyone whom you dislike in your homes. Behold! Indeed their rights upon you are that you treat them well in clothing them and feeding them.'

Haidth Number: 3087
Haidth Number: 3088
حج اکبر کا دن یوم النحر ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ روایت محمد بن اسحاق کی روایت سے زیادہ صحیح ہے کیونکہ یہ حدیث کئی سندوں سے ابواسحاق سے مروی ہے، اور ابواسحاق حارث کے واسطہ سے علی رضی الله عنہ سے موقوفاً روایت کرتے ہیں۔ اور ہم کسی کو محمد بن اسحاق کے سوا نہیں جانتے کہ انہوں نے اسے مرفوع کیا ہو، ۲- شعبہ نے اس حدیث کو ابواسحاق سے، ابواسحاق نے عبداللہ بن مرہ سے، اور عبداللہ نے حارث کے واسطہ سے علی رضی الله عنہ سے موقوفا ہی روایت کی ہے۔

Narrated 'Ali: The day of Al-Hajj Al-Akbar is the day of An-Nahr.

Haidth Number: 3089
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سورۃ برأۃ ابوبکر رضی الله عنہ کے ساتھ بھیجی ۱؎ پھر آپ نے انہیں بلا لیا، فرمایا: ”میرے خاندان کے کسی فرد کے سوا کسی اور کے لیے مناسب نہیں ہے کہ وہ جا کر یہ پیغام وہاں پہنچائے ( اس لیے تم اسے لے کر نہ جاؤ ) پھر آپ نے علی رضی الله عنہ کو بلایا اور انہیں سورۃ برأۃ دے کر ( مکہ ) بھیجا۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث انس بن مالک کی روایت سے حسن غریب ہے۔

Narrated Anas bin Malik: The Prophet (ﷺ) sent Abu Bakr with the (announcement of) Bara'ah (the declaration to publicize the disavowal of the idolaters). Then he summoned him and said: 'It is not right for anyone to convey this except a man among my family.' So he called for 'Ali and gave it to him.

Haidth Number: 3090

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيل، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ سُلَيْمَانَ، حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ الْعَوَّامِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ حُسَيْنٍ، عَنِ الْحَكَمِ بْنِ عُتَيْبَةَ، عَنْ مِقْسَمٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ:‏‏‏‏ بَعَثَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَبَا بَكْرٍ وَأَمَرَهُ أَنْ يُنَادِيَ بِهَؤُلَاءِ الْكَلِمَاتِ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ أَتْبَعَهُ عَلِيًّا، ‏‏‏‏‏‏فَبَيْنَا أَبُو بَكْرٍ فِي بَعْضِ الطَّرِيقِ إِذْ سَمِعَ رُغَاءَ نَاقَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْقَصْوَاءِ، ‏‏‏‏‏‏فَخَرَجَ أَبُو بَكْرٍ فَزِعًا فَظَنَّ أَنَّهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَإِذَا هُوَ عَلِيٌّ فَدَفَعَ إِلَيْهِ كِتَابَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏وَأَمَرَ عَلِيًّا أَنْ يُنَادِيَ بِهَؤُلَاءِ الْكَلِمَاتِ، ‏‏‏‏‏‏فَانْطَلَقَا فَحَجَّا، ‏‏‏‏‏‏فَقَامَ عَلِيٌّ أَيَّامَ التَّشْرِيقِ، ‏‏‏‏‏‏فَنَادَى ذِمَّةُ اللَّهِ وَرَسُولِهِ بَرِيئَةٌ مِنْ كُلِّ مُشْرِكٍ، ‏‏‏‏‏‏فَسِيحُوا فِي الْأَرْضِ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَلَا يَحُجَّنَّ بَعْدَ الْعَامِ مُشْرِكٌ، ‏‏‏‏‏‏وَلَا يَطُوفَنَّ بِالْبَيْتِ عُرْيَانٌ، ‏‏‏‏‏‏وَلَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ إِلَّا مُؤْمِنٌ، ‏‏‏‏‏‏وَكَانَ عَلِيٌّ يُنَادِي فَإِذَا عَيِيَ قَامَ أَبُو بَكْرٍ فَنَادَى بِهَا ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ مِنْ حَدِيثِ ابْنِ عَبَّاسٍ.

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوبکر رضی الله عنہ کو ( مکہ ) بھیجا کہ وہاں پہنچ کر لوگوں میں ان کلمات ( سورۃ التوبہ کی ابتدائی آیات ) کی منادی کر دیں۔ پھر ( ان کے بھیجنے کے فوراً بعد ہی ) ان کے پیچھے آپ نے علی رضی الله عنہ کو بھیجا۔ ابوبکر رضی الله عنہ بھی کسی جگہ راستہ ہی میں تھے کہ انہوں نے اچانک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی قصویٰ کی بلبلاہٹ سنی، گھبرا کر ( خیمہ ) سے باہر آئے، انہیں خیال ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لا رہے ہیں، لیکن وہ آپ کے بجائے علی رضی الله عنہ تھے۔ علی رضی الله عنہ نے آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کا خط انہیں پکڑا دیا، اور ( آپ نے ) علی رضی الله عنہ کو حکم دیا کہ وہ ان کلمات کا ( بزبان خود ) اعلان کر دیں۔ پھر یہ دونوں حضرات ساتھ چلے، ( دونوں نے حج کیا، اور علی رضی الله عنہ نے ایام تشریق میں کھڑے ہو کر اعلان کیا: اللہ اور اس کے رسول ہر مشرک و کافر سے بری الذمہ ہیں، صرف چار مہینے ( سر زمین مکہ میں ) گھوم پھر لو، اس سال کے بعد کوئی مشرک حج نہ کرے، کوئی شخص بیت اللہ کا ننگا ہو کر طواف نہ کرے، جنت میں صرف مومن ہی جائے گا، علی رضی الله عنہ اعلان کرتے رہے جب وہ تھک جاتے تو انہیں کلمات کا ابوبکر رضی الله عنہ اعلان کرنے لگتے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس سند سے ابن عباس کی روایت سے حسن غریب ہے۔

Narrated Ibn 'Abbas: The Messenger of Allah (ﷺ) dispatched Abu Bakr ordering him to announce these statements. Then 'Ali followed him. When Abu Bakr was at a particular road, he heard the heavy breathing of Al-Qiswa, the she camel of the Messenger of Allah (ﷺ), so Abu Bakr appeared frightened because he thought that it was the Messenger of Allah (ﷺ). When he saw that it was 'Ali, he gave him the letter of the Messenger of Allah (ﷺ), and told 'Ali to announce the statements. So he left to perform Hajj. During the day of At-Tashriq 'Ali stood to announce: 'The protection of Allah and His Messenger is removed from every idolater. So travel in the land for four months. There is to be no idolater performing Hajj after this year, nor may anyone perform Tawaf around the House while naked. None shall enter Paradise but a believer.' 'Ali was making the announcement, so when he became exhausted Abu Bakr would announce it.

Haidth Number: 3091

حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ زَيْدِ بْنِ يُثَيْعٍ، قَالَ:‏‏‏‏ سَأَلْنَا عَلِيًّا بِأَيِّ شَيْءٍ بُعِثْتَ فِي الْحَجَّةِ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ بُعِثْتُ بِأَرْبَعٍ:‏‏‏‏ أَنْ لَا يَطُوفَ بِالْبَيْتِ عُرْيَانٌ، ‏‏‏‏‏‏وَمَنْ كَانَ بَيْنَهُ وَبَيْنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَهْدٌ فَهُوَ إِلَى مُدَّتِهِ، ‏‏‏‏‏‏وَمَنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ عَهْدٌ فَأَجَلُهُ أَرْبَعَةُ أَشْهُرٍ، ‏‏‏‏‏‏وَلَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ إِلَّا نَفْسٌ مُؤْمِنَةٌ، ‏‏‏‏‏‏وَلَا يَجْتَمِعُ الْمُشْرِكُونَ وَالْمُسْلِمُونَ بَعْدَ عَامِهِمْ هَذَا ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ مِنْ حَدِيثِ سُفْيَانَ بْنِ عُيَيْنَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي إِسْحَاق، ‏‏‏‏‏‏وَرَوَاهُ الثَّوْرِيُّ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ بَعْضِ أَصْحَابِهِ، عَنْ عَلِيٍّ، وَفِي الْبَابِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ.

میں نے علی رضی الله عنہ سے پوچھا: آپ حج میں کیا پیغام لے کر بھیجے گئے تھے؟ کہا: میں چار چیزوں کا اعلان کرنے کے لیے بھیجا گیا تھا ( ایک یہ کہ ) کوئی ننگا بیت اللہ کا طواف ( آئندہ ) نہیں کرے گا۔ ( دوسرے ) یہ کہ جس کافر اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان کوئی معاہدہ ہے وہ معاہدہ مدت ختم ہونے تک قائم رہے گا اور جن کا کوئی معاہدہ نہیں ان کے لیے چار ماہ کی مدت ہو گی ۱؎ ( تیسرے ) یہ کہ جنت میں صرف ایمان والا ( مسلمان ) ہی داخل ہو سکے گا۔ ( چوتھے یہ کہ ) اس سال کے بعد مسلم و مشرک دونوں حج نہ کر سکیں گے ۲؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث سفیان بن عیینہ کی روایت سے جسے وہ ابواسحاق سے روایت کرتے ہیں حسن صحیح ہے، ۲- اسے سفیان ثوری نے ابواسحاق کے بعض اصحاب سے روایت کی ہے اور انہوں نے علی رضی الله عنہ سے روایت کی ہے، ۳- اس باب میں ابوہریرہ رضی الله عنہ سے بھی روایت ہے۔

Narrated Zaid bin Yuthai': We asked 'Ali what he had been dispatched with during the Hajj. He said: 'I was sent with four: That there shall be no Tawaf around the House while naked, that if there is a treaty between someone and the Prophet (ﷺ), then the treaty remains until its expiration, and whoever does not have a treaty, then he has the span of four months, none shall enter Paradise except a believer, and the idolaters and Muslims shall not congregate (for Hajj) after this year.'

Haidth Number: 3092
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم کسی آدمی کو دیکھو کہ وہ مسجد کا عادی ہے ( یعنی برابر مسجد میں نمازیں پڑھنے جاتا ہے ) تو اس کے مومن ہونے کی گواہی دو“، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: «إنما يعمر مساجد الله من آمن بالله واليوم الآخر» ”اللہ کی مسجدیں وہی لوگ آباد رکھتے ہیں جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہیں“ ( التوبہ: ۱۸ ) ۔

Narrated Abu Sa'eed: that the Messenger of Allah (ﷺ) said: When you see a man frequenting the Masjid, then testify to his faith. Indeed Allah, Most High, said: The Masjid shall be maintained by those who believe in Allah and the Last day (9:18).

Haidth Number: 3093

حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ، عَنْ ثَوْبَانَ، قَالَ:‏‏‏‏ لَمَّا نَزَلَتْ وَالَّذِينَ يَكْنِزُونَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ سورة التوبة آية 34 قَالَ:‏‏‏‏ كُنَّا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي بَعْضِ أَسْفَارِهِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ بَعْضُ أَصْحَابِهِ:‏‏‏‏ أُنْزِلَ فِي الذَّهَبِ وَالْفِضَّةِ مَا أُنْزِلَ لَوْ عَلِمْنَا أَيُّ الْمَالِ خَيْرٌ فَنَتَّخِذَهُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ أَفْضَلُهُ لِسَانٌ ذَاكِرٌ، ‏‏‏‏‏‏وَقَلْبٌ شَاكِرٌ، ‏‏‏‏‏‏وَزَوْجَةٌ مُؤْمِنَةٌ تُعِينُهُ عَلَى إِيمَانِهِ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ سَأَلْتُ مُحَمَّدَ بْنَ إِسْمَاعِيل، ‏‏‏‏‏‏فَقُلْتُ لَهُ:‏‏‏‏ سَالِمُ بْنُ أَبِي الْجَعْدِ سَمِعَ مِنْ ثَوْبَانَ ؟ فَقَالَ:‏‏‏‏ لَا، ‏‏‏‏‏‏فَقُلْتُ:‏‏‏‏ لَهُ مِمَّنْ سَمِعَ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعَ مِنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏وَأَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، ‏‏‏‏‏‏وَذَكَرَ غَيْرَ وَاحِدٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.

جب آیت «والذين يكنزون الذهب والفضة» ”اور جو لوگ سونے چاندی کا خزانہ رکھتے ہیں، اور اسے اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے تو آپ انہیں درد ناک عذاب کی خوشخبری سنا دیجئیے“ ( التوبہ: ۳۴ ) ، نازل ہوئی، اس وقت ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھے، آپ کے بعض صحابہ نے کہا: سونے اور چاندی کے بارے میں جو اترا سو اترا ( یعنی اس کی مذمت آئی ) اگر ہم جانتے کہ کون سا مال بہتر ہے تو اسی کو اپناتے۔ آپ نے فرمایا: ”بہترین مال یہ ہے کہ آدمی کے پاس اللہ کو یاد کرنے والی زبان ہو، شکر گزار دل ہو، اور اس کی بیوی ایسی مومنہ عورت ہو جو اس کے ایمان کو پختہ تر بنانے میں مددگار ہو“۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن ہے، ۲- میں نے محمد بن اسماعیل بخاری سے پوچھا کہ کیا سالم بن ابی الجعد نے ثوبان سے سنا ہے؟ تو انہوں نے کہا: نہیں، میں نے ان سے کہا: پھر انہوں نے کسی صحابی سے سنا ہے؟ کہا: انہوں نے جابر بن عبداللہ اور انس بن مالک رضی الله عنہما سے سنا ہے اور انہوں نے ان کے علاوہ کئی اور صحابہ کا ذکر کیا۔

Narrated Thawban: When (the following) was revealed: And those who hoard up gold and silver... (9:34) He said: We were with the Messenger of Allah (ﷺ) during one of his journeys, so some of his Companions said: (This) has been revealed about gold and silver, if we knew which wealth was better then we would use it. So he (ﷺ) said: 'The most virtuous of it is a remembering tongue, a grateful heart, and a believing wife that helps him with his faith.'

Haidth Number: 3094

حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ يَزِيدَ الْكُوفِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ السَّلَامِ بْنُ حَرْبٍ، عَنْ غُطَيْفِ بْنِ أَعْيَنَ، عَنْ مُصْعَبِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ، قَالَ:‏‏‏‏ أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَفِي عُنُقِي صَلِيبٌ مِنْ ذَهَبٍ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ يَا عَدِيُّ، ‏‏‏‏‏‏اطْرَحْ عَنْكَ هَذَا الْوَثَنَ، ‏‏‏‏‏‏وَسَمِعْتُهُ يَقْرَأُ فِي سُورَةِ بَرَاءَةٌ اتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللَّهِ سورة التوبة آية 31، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَمَا إِنَّهُمْ لَمْ يَكُونُوا يَعْبُدُونَهُمْ، ‏‏‏‏‏‏وَلَكِنَّهُمْ كَانُوا إِذَا أَحَلُّوا لَهُمْ شَيْئًا اسْتَحَلُّوهُ وَإِذَا حَرَّمُوا عَلَيْهِمْ شَيْئًا حَرَّمُوهُ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، ‏‏‏‏‏‏لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ عَبْدِ السَّلَامِ بْنِ حَرْبٍ، ‏‏‏‏‏‏وَغُطَيْفُ بْنُ أَعْيَنَ لَيْسَ بِمَعْرُوفٍ فِي الْحَدِيثِ.

میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، میری گردن میں سونے کی صلیب لٹک رہی تھی، آپ نے فرمایا: ”عدی! اس بت کو نکال کر پھینک دو، میں نے آپ کو سورۃ برأۃ کی آیت: «اتخذوا أحبارهم ورهبانهم أربابا من دون الله» ”انہوں نے اللہ کو چھوڑ کر اپنے عالموں اور راہبوں کو معبود بنا لیا ہے“ ( التوبہ: 31 ) ، پڑھتے ہوئے سنا۔ آپ نے فرمایا: ”وہ لوگ ان کی عبادت نہ کرتے تھے، لیکن جب وہ لوگ کسی چیز کو حلال کہہ دیتے تھے تو وہ لوگ اسے حلال جان لیتے تھے، اور جب وہ لوگ ان کے لیے کسی چیز کو حرام ٹھہرا دیتے تو وہ لوگ اسے حرام جان لیتے تھے“ ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث غریب ہے، ۲- ہم اسے صرف عبدالسلام بن حرب کی روایت ہی سے جانتے ہیں، ۳- غطیف بن اعین حدیث میں معروف نہیں ہیں۔

Narrated 'Adi bin Hatim: I came to the Prophet (ﷺ) while I had a cross of gold around my neck. He said: 'O 'Adi! Remove this idol from yourself!' And I heard him reciting from Surah Bara'ah: They took their rabbis and monks as lords besides Allah (9:31). He said: 'As for them, they did not worship them, but when they made something lawful for them, they considered it lawful, and when they made something unlawful for them, they considered it unlawful.'

Haidth Number: 3095
میں اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم دونوں جب غار میں تھے تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ اگر ان ( کافروں ) میں سے کوئی اپنے قدموں کی طرف نظر ڈالے تو ہمیں اپنے قدموں کے نیچے ( غار میں ) دیکھ لے گا۔ آپ نے فرمایا: ”ابوبکر! تمہارا ان دو کے بارے میں کیا خیال و گمان ہے جن کا تیسرا ساتھی اللہ ہو“ ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے، ۲- ہمام کی حدیث مشہور ہے اور ہمام اس روایت میں منفرد ہیں، ۳- اس حدیث کو حبان بن ہلال اور کئی لوگوں نے اسی کے مانند ہمام سے روایت کیا ہے۔

Narrated Anas: that Abu Bakr narrated to him, he said: While were in the cave, I said to the Prophet (ﷺ): 'If one of them were to look down at his feet, then he would see us under his feet.' So he said: 'O Abu Bakr! What do you think about two, the third of whom is Allah?'

Haidth Number: 3096

حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاق، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَال:‏‏‏‏ سَمِعْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ، يَقُولُ:‏‏‏‏ لَمَّا تُوُفِّيَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أُبَيٍّ، ‏‏‏‏‏‏دُعِيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِلصَّلَاةِ عَلَيْهِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَامَ إِلَيْهِ فَلَمَّا وَقَفَ عَلَيْهِ يُرِيدُ الصَّلَاةَ تَحَوَّلْتُ حَتَّى قُمْتُ فِي صَدْرِهِ، ‏‏‏‏‏‏فَقُلْتُ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏أَعَلَى عَدُوِّ اللَّهِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أُبَيٍّ الْقَائِلِ يَوْمَ كَذَا وَكَذَا كَذَا وَكَذَا يَعُدُّ أَيَّامَهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَبَسَّمُ، ‏‏‏‏‏‏حَتَّى إِذَا أَكْثَرْتُ عَلَيْهِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَخِّرْ عَنِّي يَا عُمَرُ، ‏‏‏‏‏‏إِنِّي خُيِّرْتُ فَاخْتَرْتُ قَدْ قِيلَ لِي:‏‏‏‏ اسْتَغْفِرْ لَهُمْ أَوْ لا تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ إِنْ تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ سَبْعِينَ مَرَّةً فَلَنْ يَغْفِرَ اللَّهُ لَهُمْ سورة التوبة آية 80 لَوْ أَعْلَمُ أَنِّي لَوْ زِدْتُ عَلَى السَّبْعِينَ غُفِرَ لَهُ لَزِدْتُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ ثُمَّ صَلَّى عَلَيْهِ وَمَشَى مَعَهُ فَقَامَ عَلَى قَبْرِهِ حَتَّى فُرِغَ مِنْهُ قَالَ:‏‏‏‏ فَعَجَبٌ لِي وَجُرْأَتِي عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏وَاللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، ‏‏‏‏‏‏فَوَاللَّهِ مَا كَانَ إِلَّا يَسِيرًا حَتَّى نَزَلَتْ هَاتَانِ الْآيَتَانِ وَلا تُصَلِّ عَلَى أَحَدٍ مِنْهُمْ مَاتَ أَبَدًا وَلا تَقُمْ عَلَى قَبْرِهِ سورة التوبة آية 84 إِلَى آخِرِ الْآيَةِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَمَا صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعْدَهُ عَلَى مُنَافِقٍ، ‏‏‏‏‏‏وَلَا قَامَ عَلَى قَبْرِهِ حَتَّى قَبَضَهُ اللَّهُ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ.

میں نے عمر بن خطاب رضی الله عنہ کو کہتے ہوئے سنا کہ جب عبداللہ بن ابی ( منافقوں کا سردار ) مرا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی نماز جنازہ پڑھنے کے لیے بلائے گئے، آپ کھڑے ہو کر اس کی طرف بڑھے اور اس کے سامنے کھڑے ہو کر نماز پڑھانے کا ارادہ کر ہی رہے تھے کہ میں لپک کر آپ کے سینے کے سامنے جا کھڑا ہوا، میں نے کہا: اللہ کے رسول! کیا آپ اللہ کے دشمن عبداللہ بن ابی کی نماز پڑھنے جا رہے ہیں جس نے فلاں فلاں دن ایسا اور ایسا کہا تھا؟ وہ اس کے بےادبی و بدتمیزی کے دن گن گن کر بیان کرنے لگے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسکراتے رہے یہاں تک کہ جب میں بہت کچھ کہہ گیا ( حد سے تجاوز کر گیا ) تو آپ نے فرمایا: ” ( بس بس ) مجھ سے ذرا پرے جاؤ عمر! مجھے اختیار دیا گیا ہے تو میں نے اس کے لیے مغفرت طلبی کو ترجیح دی ہے۔ کیونکہ مجھ سے کہا گیا ہے: «استغفر لهم أو لا تستغفر لهم إن تستغفر لهم سبعين مرة فلن يغفر الله لهم» ”ان ( منافقوں ) کے لیے مغفرت طلب کرو یا نہ کرو اگر تم ان کے لیے ستر بار بھی مغفرت طلب کرو گے تو بھی وہ انہیں معاف نہ کرے گا“ ( التوبہ: ۸۰ ) ، اگر میں جانتا کہ ستر بار سے زیادہ مغفرت طلب کرنے سے وہ معاف کر دیا جائے گا تو ستر بار سے بھی زیادہ میں اس کے لیے مغفرت مانگتا۔ پھر آپ نے عبداللہ بن ابی کی نماز جنازہ پڑھی اور جنازہ کے ساتھ چلے اور اس کی قبر پر کھڑے رہے، یہاں تک کہ اس کے کفن دفن سے فارغ ہو گئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں اپنی جرات و جسارت پر مجھے حیرت ہوئی۔ اللہ اور اس کے رسول زیادہ بہتر جانتے ہیں ۱؎، قسم اللہ کی! بس تھوڑی ہی دیر ہوئی تھی کہ یہ دونوں آیتیں نازل ہوئیں۔ «ولا تصل على أحد منهم مات أبدا ولا تقم على قبره» ”ان میں سے کسی ( منافق ) کی جو مر جائے نماز جنازہ کبھی بھی نہ پڑھو، اور نہ اس کی قبر پر کھڑے ہو“ ( التوبہ: ۸۴ ) ، اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مرنے تک کبھی بھی کسی منافق کی نماز جنازہ نہیں پڑھی، اور نہ ہی اس کی قبر پر کھڑے ہو کر دعا فرمائی۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔

Narrated Ibn 'Abbas: I heard 'Umar bin Al-Khattab saying: 'When 'Abdullah bin Ubayy died, the Messenger of Allah (ﷺ) was called to perform the funeral prayer over him. The Messenger of Allah (ﷺ) came to him, and when he stood over him, about to perform the prayer, he turned until he was standing at his chest. I said: O Messenger of Allah! (You pray) for Allah's enemy 'Abdullah bin Ubayy, who on this day said this and that - mentioning different days. He said: The Messenger of Allah (ﷺ) was smiling until I had said too much to him and he said: 'Leave me O 'Umar! Indeed I have been given the choice, so I chose. I was told: Whether you ask forgiveness for them, or do not ask for forgiveness for them. Even though you ask for their forgiveness seventy times, Allah will not forgive them (9:80). If I knew that were I to ask more than seventy times that he would be forgiven, then I would do so. He said: Then he performed the Salat for him and walked with him (his funeral procession) and he stood at his grave until it was finished. I was amazed at myself and my daring to talk like that to the Messenger of Allah (ﷺ), while Allah and His Messenger (ﷺ) know better. But by Allah! It was not long until these two Ayat were revealed: 'And never pray for any of them who dies nor stand at his grave... (9:84) until the end of the Ayah. He said: So afterwards the Messenger of Allah (ﷺ) did not perform the Salat for a hypocrite, nor would he stand at his grave until Allah took him.

Haidth Number: 3097

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ، أَخْبَرَنَا نَافِعٌ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ:‏‏‏‏ جَاءَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أُبَيٍّ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ مَاتَ أَبُوهُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ أَعْطِنِي قَمِيصَكَ أُكَفِّنْهُ فِيهِ، ‏‏‏‏‏‏وَصَلِّ عَلَيْهِ، ‏‏‏‏‏‏وَاسْتَغْفِرْ لَهُ، ‏‏‏‏‏‏فَأَعْطَاهُ قَمِيصَهُ وَقَالَ:‏‏‏‏ إِذَا فَرَغْتُمْ فَآذِنُونِي ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمَّا أَرَادَ أَنْ يُصَلِّيَ جَذَبَهُ عُمَرُ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ:‏‏‏‏ أَلَيْسَ قَدْ نَهَى اللَّهُ أَنْ تُصَلِّيَ عَلَى الْمُنَافِقِينَ ؟ فَقَالَ:‏‏‏‏ أَنَا بَيْنَ خِيرَتَيْنِ اسْتَغْفِرْ لَهُمْ أَوْ لا تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ سورة التوبة آية 80 فَصَلَّى عَلَيْهِ، ‏‏‏‏‏‏فَأَنْزَلَ اللَّهُ وَلا تُصَلِّ عَلَى أَحَدٍ مِنْهُمْ مَاتَ أَبَدًا وَلا تَقُمْ عَلَى قَبْرِهِ سورة التوبة آية 84 فَتَرَكَ الصَّلَاةَ عَلَيْهِمْ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.

عبداللہ بن عبداللہ بن ابی کے باپ کا جب انتقال ہوا تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، اور کہا کہ آپ اپنی قمیص ہمیں عنایت فرما دیں، میں انہیں ( عبداللہ بن ابی ) اس میں کفن دوں گا۔ اور ان کی نماز جنازہ پڑھ دیجئیے اور ان کے لیے استغفار فرما دیجئیے۔ تو آپ نے عبداللہ کو اپنی قمیص دے دی۔ اور فرمایا: ”جب تم ( غسل و غیرہ سے ) فارغ ہو جاؤ تو مجھے خبر دو۔ پھر جب آپ نے نماز پڑھنے کا ارادہ کیا تو عمر رضی الله عنہ نے آپ کو کھینچ لیا، اور کہا: کیا اللہ نے آپ کو منافقین کی نماز پڑھنے سے منع نہیں فرمایا؟ آپ نے فرمایا: ”مجھے دو چیزوں «استغفر لهم أو لا تستغفر لهم» ”ان کے لیے استغفار کرو یا نہ کرو“ میں سے کسی ایک کے انتخاب کا اختیار دیا گیا۔ چنانچہ آپ نے اس کی نماز پڑھی۔ جس پر اللہ نے آیت «ولا تصل على أحد منهم مات أبدا ولا تقم على قبره» نازل فرمائی۔ تو آپ نے ان ( منافقوں ) پر نماز جنازہ پڑھنی چھوڑ دی۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

Narrated Ibn 'Umar: 'Abdullah bin 'Abdullah bin Ubayy came to the Messenger of Allah (ﷺ) when his father died, and said: 'Give me your shirt to shroud him in and perform the Salat upon him, and seek forgiveness for him.' So he (ﷺ) gave him his shirt, and said: 'When you are finished then inform me.' So when he wanted to perform the Salat, 'Umar tugged at him and said: 'Has not Allah prohibited that you perform Salat over the hypocrites?' He said: 'I have been given the choice between two: 'Whether you seek forgiveness for them or you do not seek forgiveness for them.... (9:80)' So he performed the Salat for him. Then Allah revealed: 'And never pray for any of them who dies, nor stand at his grave... (9:84)' So he abandoned praying for them.

Haidth Number: 3098
دو آدمی اس مسجد کے بارے میں اختلاف کر بیٹھے جس کی تاسیس و تعمیر پہلے دن سے تقویٰ پر ہوئی ہے ۱؎ ( کہ وہ کون سی ہے؟ ) ایک شخص نے کہا: وہ مسجد قباء ہے اور دوسرے نے کہا: وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد ہے۔ تب آپ نے فرمایا: ”وہ میری یہی مسجد ( مسجد نبوی ) ہے“ ۲؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- عمران بن ابی انس کی روایت سے یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے، ۲- یہ حدیث ابو سعید خدری سے اس سند کے علاوہ دوسری سند سے بھی مروی ہے، ۳- اسے انیس بن ابی یحییٰ نے اپنے والد سے اور ان کے والد ابو سعید خدری رضی الله عنہ سے روایت کرتے ہیں۔

Narrated Abu Sa'eed Al-Khudri: Two men disagreed over the Masjid whose foundation was laid upon Taqwa from the first day (9:108). A man said: 'It is Masjid Quba' and the other said: 'It is the Masjid of the Messenger of Allah (ﷺ).' So the Messenger of Allah (ﷺ) said: 'It is this Masjid of mine.'

Haidth Number: 3099
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آیت «فيه رجال يحبون أن يتطهروا والله يحب المطهرين» ”اس میں ( قباء میں ) وہ لوگ ہیں جو پسند کرتے ہیں کہ وہ پاک رہیں اور اللہ پاک رہنے والوں کو محبوب رکھتا ہے“ ( التوبہ: ۱۰۸ ) ، اہل قباء کے بارے میں نازل ہوئی۔ ان کی عادت تھی کہ وہ استنجاء پانی سے کرتے تھے، تو ان کی شان میں یہ آیت نازل ہوئی“۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث اس سند سے غریب ہے، ۲- اس باب میں ابوایوب، انس بن مالک اور محمد بن عبداللہ بن سلام سے بھی روایت ہے۔

Narrated Abu Hurairah: that the Prophet (ﷺ) said: This Ayah was revealed about the people of Quba: In it are men who love to purify themselves. And Allah loves those who make themselves pure (9:108). He said: They used water to perform Istinja so this Ayah was revealed about them.

Haidth Number: 3100
میں نے ایک شخص کو اپنے مشرک ماں باپ کے لیے مغفرت طلب کرتے ہوئے سنا تو میں نے اس سے کہا: کیا اپنے مشرک ماں باپ کے لیے مغفرت طلب کرتے ہو؟ اس نے کہا: کیا ابراہیم علیہ السلام نے اپنے مشرک باپ کے لیے مغفرت طلب نہیں کی تھی؟ پھر میں نے اس بات کا ذکر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تو آپ پر یہ آیت نازل ہوئی «ما كان للنبي والذين آمنوا أن يستغفروا للمشركين» ”نبی اور مومنین کے لیے زیبا نہیں ہے کہ وہ مشرکین کے لیے مغفرت طلب کریں“ ( التوبہ: ۱۱۳ ) ۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن ہے، ۲- اس باب میں سعید بن مسیب سے بھی روایت ہے اور وہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں۔

Narrated 'Ali: I heard a man seeking forgiveness for his parents who were idolaters, so I said to him: 'You seek forgiveness for your parents while they are idolaters?' He said: 'Did Ibrahim not seek forgiveness for his father, and he was an idolater?' So I mentioned that to the Prophet (ﷺ) and (the following) was revealed: It is not for the Prophet nor those who believe, that they should seek forgiveness for the idolaters (9:113).

Haidth Number: 3101

حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ:‏‏‏‏ لَمْ أَتَخَلَّفْ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي غَزْوَةٍ غَزَاهَا حَتَّى كَانَتْ غَزْوَةُ تَبُوكَ، ‏‏‏‏‏‏إِلَّا بَدْرًا وَلَمْ يُعَاتِبِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحَدًا تَخَلَّفَ عَنْ بَدْرٍ، ‏‏‏‏‏‏إِنَّمَا خَرَجَ يُرِيدُ الْعِيرَ فَخَرَجَتْ قُرَيْشٌ مُغْوثِينَ لِعِيرِهِمْ، ‏‏‏‏‏‏فَالْتَقَوْا عَنْ غَيْرِ مَوْعِدٍ، ‏‏‏‏‏‏كَمَا قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ:‏‏‏‏ وَلَعَمْرِي إِنَّ أَشْرَفَ مَشَاهِدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي النَّاسِ لَبَدْرٌ، ‏‏‏‏‏‏وَمَا أُحِبُّ أَنِّي كُنْتُ شَهِدْتُهَا مَكَانَ بَيْعَتِي لَيْلَةَ الْعَقَبَةِ حَيْثُ تَوَاثَقْنَا عَلَى الْإِسْلَامِ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ لَمْ أَتَخَلَّفْ بَعْدُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏حَتَّى كَانَتْ غَزْوَةُ تَبُوكَ وَهِيَ آخِرُ غَزْوَةٍ غَزَاهَا، ‏‏‏‏‏‏وَآذَنَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ النَّاسَ بِالرَّحِيلِ فَذَكَرَ الْحَدِيثَ بِطُولِهِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَانْطَلَقْتُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَإِذَا هُوَ جَالِسٌ فِي الْمَسْجِدِ وَحَوْلَهُ الْمُسْلِمُونَ، ‏‏‏‏‏‏وَهُوَ يَسْتَنِيرُ كَاسْتِنَارَةِ الْقَمَرِ، ‏‏‏‏‏‏وَكَانَ إِذَا سُرَّ بِالْأَمْرِ اسْتَنَارَ فَجِئْتُ فَجَلَسْتُ بَيْنَ يَدَيْهِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ أَبْشِرْ يَا كَعْبُ بْنَ مَالِكٍ بِخَيْرِ يَوْمٍ أَتَى عَلَيْكَ مُنْذُ وَلَدَتْكَ أُمُّكَ ، ‏‏‏‏‏‏فَقُلْتُ:‏‏‏‏ يَا نَبِيَّ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏أَمِنْ عِنْدِ اللَّهِ أَمْ مِنْ عِنْدِكَ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ بَلْ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ تَلَا هَؤُلَاءِ الْآيَاتِ لَقَدْ تَابَ اللَّهُ عَلَى النَّبِيِّ وَالْمُهَاجِرِينَ وَالأَنْصَارِ الَّذِينَ اتَّبَعُوهُ فِي سَاعَةِ الْعُسْرَةِ مِنْ بَعْدِ مَا كَادَ يَزِيغُ قُلُوبُ فَرِيقٍ مِنْهُمْ ثُمَّ تَابَ عَلَيْهِمْ إِنَّهُ بِهِمْ رَءُوفٌ رَحِيمٌ سورة التوبة آية 117، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ وَفِينَا أُنْزِلَتْ أَيْضًا اتَّقُوا اللَّهَ وَكُونُوا مَعَ الصَّادِقِينَ سورة التوبة آية 119 ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قُلْتُ:‏‏‏‏ يَا نَبِيَّ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏إِنَّ مِنْ تَوْبَتِي أَنْ لَا أُحَدِّثَ إِلَّا صِدْقًا وَأَنْ أَنْخَلِعَ مِنْ مَالِي كُلِّهِ صَدَقَةً إِلَى اللَّهِ وَإِلَى رَسُولِهِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ أَمْسِكْ عَلَيْكَ بَعْضَ مَالِكَ فَهُوَ خَيْرٌ لَكَ ، ‏‏‏‏‏‏فَقُلْتُ:‏‏‏‏ فَإِنِّي أُمْسِكُ سَهْمِيَ الَّذِي بِخَيْبَرَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَمَا أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيَّ نِعْمَةً بَعْدَ الْإِسْلَامِ أَعْظَمَ فِي نَفْسِي مِنْ صِدْقِي رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ صَدَقْتُهُ أَنَا وَصَاحِبَايَ لَا نَكُونُ كَذَبْنَا فَهَلَكْنَا كَمَا هَلَكُوا، ‏‏‏‏‏‏وَإِنِّي لَأَرْجُو أَنْ لَا يَكُونَ اللَّهُ أَبْلَى أَحَدًا فِي الصِّدْقِ مِثْلَ الَّذِي أَبْلَانِي، ‏‏‏‏‏‏مَا تَعَمَّدْتُ لِكَذِبَةٍ بَعْدُ وَإِنِّي لَأَرْجُو أَنْ يَحْفَظَنِي اللَّهُ فِيمَا بَقِيَ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ وَقَدْ رُوِيَ عَنِ الزُّهْرِيِّ هَذَا الْحَدِيثُ بِخِلَافِ هَذَا الْإِسْنَادِ، ‏‏‏‏‏‏وَقَدْ قِيلَ:‏‏‏‏ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَمِّهِ عُبَيْدِ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ كَعْبٍ، ‏‏‏‏‏‏وَقَدْ قِيلَ غَيْرُ هَذَا، ‏‏‏‏‏‏وَرَوَى يُونُسُ بْنُ يَزِيدَ هَذَا الْحَدِيثَ عَنِ الزُّهْرِيِّ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ أَبَاهُ حَدَّثَهُ عَنْ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ.

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جتنے بھی غزوے کیے ان میں سے غزوہ تبوک کو چھوڑ کر کوئی بھی غزوہ ایسا نہیں ہے کہ جس میں آپ کے ساتھ میں نہ رہا ہوں۔ رہا بدر کا معاملہ سو بدر میں جو لوگ پیچھے رہ گئے تھے ان میں سے کسی کی بھی آپ نے سرزنش نہیں کی تھی۔ کیونکہ آپ کا ارادہ ( شام سے آ رہے ) قافلے کو گھیرنے کا تھا، اور قریش اپنے قافلے کو بچانے کے لیے نکلے تھے، پھر دونوں قافلے بغیر پہلے سے طے کئے ہوئے جگہ میں جا ٹکرائے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے آیت: «إذ أنتم بالعدوة الدنيا وهم بالعدوة القصوى والركب أسفل منكم ولو تواعدتم لاختلفتم في الميعاد ولكن ليقضي الله أمرا كان مفعولا» ( الأنفال: ۴۲ ) ۱؎ میں فرمایا ہے اور قسم اللہ کی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غزوات میں سب سے بڑھ کر غزوہ بدر ہے۔ اور میں اس میں شرکت کو عقبہ کی رات میں اپنی بیعت کے مقابل میں قابل ترجیح نہیں سمجھتا۔ جب ہم نے اسلام پر عہد و میثاق لیا تھا۔ اس کے بعد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ کر میں کبھی پیچھے نہیں ہوا یہاں تک کہ غزوہ تبوک کا واقعہ پیش آ گیا۔ اور یہ آخری غزوہ تھا جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے گئے تھے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں میں کوچ کا اعلان کر دیا۔ پھر انہوں نے لمبی حدیث بیان کی، کہا ( رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غزوہ تبوک سے لوٹنے کے بعد ) میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ مسجد میں تشریف فرما تھے اور مسلمان آپ کے اردگرد بیٹھے ہوئے تھے۔ اور چاند کی روشنی بکھرنے کی طرح آپ نور بکھیر رہے تھے۔ آپ جب کسی معاملے میں خوش ہوتے تو آپ کا چہرہ انور دمکنے لگتا تھا، میں پہنچ کر آپ کے سامنے بیٹھ گیا۔ آپ نے فرمایا: ”کعب بن مالک! اس بہترین دن کی بدولت خوش ہو جاؤ جو تمہیں جب سے تمہاری ماں نے جنا ہے اس دن سے آج تک میں اب حاصل ہوا ہے“۔ میں نے کہا: اللہ کے نبی! یہ دن مجھے اللہ کی طرف سے حاصل ہوا ہے یا آپ کی طرف سے؟ آپ نے فرمایا: ”نہیں بلکہ اللہ کی طرف سے حاصل ہوا ہے“۔ پھر آپ نے یہ آیات پڑھیں «لقد تاب الله على النبي والمهاجرين والأنصار الذين اتبعوه في ساعة العسرة» یہاں تک کہ آپ تلاوت کرتے ہوئے «إن الله هو التواب الرحيم» ۱؎ تک پہنچے۔ آیت «اتقوا الله وكونوا مع الصادقين» بھی ہمارے ہی متعلق نازل ہوئی ہے۔ میں نے کہا: اللہ کے نبی! میری توبہ کی قبولیت کا تقاضہ ہے کہ میں جب بھی بولوں سچی بات ہی بولوں، اور میری توبہ میں یہ بھی شامل ہے کہ میں اپنا سارا مال اللہ اور اس کے رسول کے حوالے کر کے خود خالی ہاتھ ہو جاؤں۔ آپ نے فرمایا: ”اپنا کچھ مال اپنے لیے روک لو۔ یہ تمہارے لیے بہتر ہے“۔ میں نے کہا: تو پھر میں اپنا وہ حصہ روک لیتا ہوں جو خیبر میں ہے، اسلام قبول کرنے کے بعد اللہ نے میری نظر میں اس سے بڑھ کر کوئی اور نعمت مجھے نہیں عطا کی کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سچ بولا اور جھوٹ نہ بولے کہ ہم ہلاک ہو جاتے جیسا کہ ( جھوٹ بول کر ) دوسرے ہلاک و برباد ہو گئے۔ اور میرا گمان غالب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سچائی کے معاملے میں جتنا مجھے آزمایا ہے کسی اور کو نہ آزمایا ہو گا، اس کے بعد تو میں نے کبھی جھوٹ بولنے کا قصد و ارادہ ہی نہیں کیا۔ اور میں اللہ کی ذات سے امید رکھتا ہوں کہ وہ باقی ماندہ زندگی میں بھی مجھے جھوٹ بولنے سے محفوظ رکھے گا۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث زہری سے اس اسناد سے مختلف دوسری سندوں سے بھی آئی ہے، ۲- یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ حدیث روایت کی گئی ہے عبدالرحمٰن بن عبداللہ بن کعب بن مالک سے اور وہ روایت کرتے ہیں اپنے چچا عبیداللہ سے اور وہ کعب سے، اور اس کے سوا اور بھی کچھ کہا گیا ہے، ۳- یونس بن یزید نے یہ حدیث زہری سے روایت کی ہے، اور زہری نے عبدالرحمٰن بن عبداللہ بن کعب بن مالک سے کہ ان کے باپ نے کعب بن مالک سے سن کر بیان کیا۔

Narrated 'Abdur-Rahman bin Ka'b bin Malik: from his father who said: I did not remain behind from any of the battles the Prophet (ﷺ) fought in, until the battle of Tabuk, except for Badr. And the Prophet (ﷺ) did not scold anyone who remained behind from Badr, because he only went out to look for the caravan. The Quraish came out to help their caravan, so they met without an appointment as Allah the Mighty and Sublime, said. By my life, people consider the most honorable of battles of the Messenger of Allah (ﷺ) to be that of Badr, but I would not have liked to attend it instead of my oath of allegiance on the night of Al-'Aqabah when we took a covenant for Islam. Afterwards, I did not stay behind from the Prophet (ﷺ) until the battle of Tabuk, and it was the last of the battles he fought. The Messenger of Allah (ﷺ) informed the people of the departure - and he mentioned the Hadith in its entirety, and said - So I went to the Prophet (ﷺ) and he was sitting in the Masjid, surrounded by the Muslims. He was beaming like the moon beams. When he was happy about a matter he would beam. So I came and said in front of him. He said: 'Receive glad tidings - O Ka'b bin Malik - of the best day you have seen since your mother bore you!' So I said: 'O Prophet of Allah! Is it from Allah or from you?' He said: 'From Allah.' Then he recited these Ayat: Allah has forgiven the Prophet, the Muhajirin, and the Ansar who followed him in the time of distress, after the hearts of a party of them had nearly deviated, but He accepted their repentance. Certainly, He is unto them full of Kindness, Most Merciful (9:117). [until he reached: Verily, Allah is the One Who accepts repentance, Most Merciful (9:118).] He said: And it was about us that (the following) was revealed as well: Have Taqwa of Allah, and be with those who are true (9:119). He said: O Prophet of Allah! Part of my repentance is to not say but the truth, and give up all of my wealth as charity for Allah and His Messenger.' So the Prophet (ﷺ) said: 'Keep some of your wealth for yourself, for indeed that is better for you.' I said: 'So I will keep my share from Al-Khaibar.' He said: So after my acceptance of Islam, Allah did not grant me a greater favor than when I and my two companions told the truth to the Messenger of Allah (ﷺ) and we were not among the liars to be ruined like the others were ruined. Indeed I hope that Allah will not test anyone over telling the truth as he tested me. I did not resort to a lie ever since then, and I hope that Allah will protect me regarding what remains to come.

Haidth Number: 3102

حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُبَيْدِ بْنِ السَّبَّاقِ، أَنَّ زَيْدَ بْنَ ثَابِتٍ حَدَّثَهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ بَعَثَ إِلَيَّ أَبُو بَكْرٍ الصِّدِّيقُ مَقْتَلَ أَهْلِ الْيَمَامَةِ، ‏‏‏‏‏‏فَإِذَا عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ عِنْدَهُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ إِنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ قَدْ أَتَانِي، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ إِنَّ الْقَتْلَ قَدِ اسْتَحَرَّ بِقُرَّاءِ الْقُرْآنِ يَوْمَ الْيَمَامَةِ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنِّي لَأَخْشَى أَنْ يَسْتَحِرَّ الْقَتْلُ بِالْقُرَّاءِ فِي الْمَوَاطِنِ كُلِّهَا، ‏‏‏‏‏‏فَيَذْهَبَ قُرْآنٌ كَثِيرٌ وَإِنِّي أَرَى أَنْ تَأْمُرَ بِجَمْعِ الْقُرْآنِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو بَكْرٍ لِعُمَرَ:‏‏‏‏ كَيْفَ أَفْعَلُ شَيْئًا لَمْ يَفْعَلْهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؟ فَقَالَ عُمَرُ:‏‏‏‏ هُوَ وَاللَّهِ خَيْرٌ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمْ يَزَلْ يُرَاجِعُنِي فِي ذَلِكَ حَتَّى شَرَحَ اللَّهُ صَدْرِي لِلَّذِي شَرَحَ لَهُ صَدْرَ عُمَرَ، ‏‏‏‏‏‏وَرَأَيْتُ فِيهِ الَّذِي رَأَى، ‏‏‏‏‏‏قَالَ زَيْدٌ:‏‏‏‏ قَالَ أَبُو بَكْرٍ:‏‏‏‏ إِنَّكَ شَابٌّ عَاقِلٌ لَا نَتَّهِمُكَ، ‏‏‏‏‏‏قَدْ كُنْتَ تَكْتُبُ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْوَحْيَ فَتَتَبَّعِ الْقُرْآنَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَوَاللَّهِ لَوْ كَلَّفُونِي نَقْلَ جَبَلٍ مِنَ الْجِبَالِ مَا كَانَ أَثْقَلَ عَلَيَّ مِنْ ذَلِكَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قُلْتُ:‏‏‏‏ كَيْفَ تَفْعَلُونَ شَيْئًا لَمْ يَفْعَلْهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؟ فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ:‏‏‏‏ هُوَ وَاللَّهِ خَيْرٌ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمْ يَزَلْ يُرَاجِعُنِي فِي ذَلِكَ أَبُو بَكْرٍ، ‏‏‏‏‏‏وَعُمَرُ حَتَّى شَرَحَ اللَّهُ صَدْرِي لِلَّذِي شَرَحَ لَهُ صَدْرَهُمَا صَدْرَ أَبِي بَكْرٍ، ‏‏‏‏‏‏وَعُمَرَ، ‏‏‏‏‏‏فَتَتَبَّعْتُ الْقُرْآنَ أَجْمَعُهُ مِنَ الرِّقَاعِ، ‏‏‏‏‏‏وَالْعُسُبِ، ‏‏‏‏‏‏وَاللِّخَافِ يَعْنِي الْحِجَارَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَصُدُورِ الرِّجَالِ، ‏‏‏‏‏‏فَوَجَدْتُ آخِرَ سُورَةِ بَرَاءَةٌ مَعَ خُزَيْمَةَ بْنِ ثَابِتٍ لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَءُوفٌ رَحِيمٌ ‏‏‏‏ 128 ‏‏‏‏ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَقُلْ حَسْبِيَ اللَّهُ لا إِلَهَ إِلا هُوَ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَهُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ ‏‏‏‏ 129 ‏‏‏‏ سورة التوبة آية 128-129 ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.

جنگ یمامہ کے موقع پر ابوبکر صدیق رضی الله عنہ نے انہیں بلا بھیجا، اتفاق کی بات کہ عمر بن خطاب رضی الله عنہ بھی وہاں موجود تھے، ابوبکر رضی الله عنہ نے کہا: عمر بن خطاب میرے پاس آئے ہیں کہتے ہیں کہ جنگ یمامہ میں قرآن کے بہت سے قراء ( حافظوں ) کی ہلاکت ہوئی ہے، اور میں ڈرتا ہوں کہ اگر ان تمام جگہوں میں جہاں جنگیں چل رہی ہیں قراء قرآن کا قتل بڑھتا رہا تو بہت سارا قرآن ضائع ہو سکتا ہے، اس لیے میں مناسب سمجھتا ہوں کہ آپ مکمل قرآن اکٹھا کرنے کا حکم فرمائیں۔ ابوبکر رضی الله عنہ نے عمر رضی الله عنہ سے کہا: میں کوئی ایسی چیز کیسے کروں جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کیا ہے۔ عمر رضی الله عنہ نے کہا: اللہ کی قسم! یہ بہتر کام ہے۔ وہ مجھ سے یہ بات باربار کہتے رہے یہاں تک کہ اللہ نے مجھے بھی اس کام کے لیے شرح صدر عطا کر دیا جس کام کے لیے اللہ نے عمر کو شرح صدر عطا فرمایا تھا۔ اور میں نے بھی اس سلسلہ میں وہی بات مناسب سمجھی جو انہوں نے سمجھی۔ زید کہتے ہیں: ابوبکر رضی الله عنہ نے ( مجھ سے ) کہا: تم جوان ہو، عقلمند ہو، ہم تمہیں ( کسی معاملے میں بھی ) متہم نہیں کرتے۔ اور تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہونے والی وحی لکھتے بھی تھے، تو ایسا کرو کہ پورا قرآن تلاش کر کے لکھ ڈالو، ( یکجا کر دو ) زید کہتے ہیں: قسم اللہ کی! اگر مجھ سے پہاڑوں میں سے کسی پہاڑ کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنے کے لیے کہتے تو یہ کام مجھے اس کام سے زیادہ بھاری نہ لگتا، میں نے کہا: آپ لوگ کوئی ایسا کام جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کیا ہے کیسے ( کرنے کی جرات ) کرتے ہیں؟ ابوبکر رضی الله عنہ نے کہا: اللہ کی قسم! تمہارے لیے بہتر ہے۔ اور ابوبکر و عمر رضی الله عنہما دونوں مجھ سے باربار یہی دہراتے رہے یہاں تک کہ اللہ نے میرے سینے کو بھی اس حق کے لیے کھول دیا جس کے لیے ابوبکر و عمر رضی الله عنہما کے سینے کو اس نے کھولا تھا، تو میں نے پورے قرآن کی تلاش و جستجو شروع کر دی، میں پرزوں، کھجور کے پتوں، نرم پتھروں اور لوگوں کے سینوں سے لے کر نقل کر کر کے یکجا کرنے لگا، تو سورۃ برأۃ کی آخری آیات «لقد جاءكم رسول من أنفسكم عزيز عليه ما عنتم حريص عليكم بالمؤمنين رءوف رحيم فإن تولوا فقل حسبي الله لا إله إلا هو عليه توكلت وهو رب العرش العظيم» ”تمہارے پاس تم ہی میں سے ایک رسول آیا ہے، اس پر تمہاری تکلیف شاق گزرتی ہے، وہ تمہاری بھلائی کا حریص ہے اور ایمان داروں کے حال پر نہایت درجہ شفیق اور مہربان ہے۔ پھر بھی اگر وہ منہ پھیر لیں تو اللہ مجھ کو کافی ہے اور اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ اسی پر میں نے بھروسہ کیا ہے اور وہی عرش عظیم کا مالک ہے“ ( التوبہ: ۱۲۸ ) ۔ مجھے خزیمہ بن ثابت رضی الله عنہ کے پاس ملیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

Narrated Az-Zuhri: From 'Ubaid bin As-Sabbaq, that Zaid bin Thabit narrated to him, he said: 'Abu Bakr As-Siddiq sent for me - (regarding) those killed at Al-Yamamah - and 'Umar bin Al-Khattab was with him. He (Abu Bakr) said: 'Umar came to me and said: The fighting inflicted many casualties among the reciters of the Qur'an on the Day of Al-Yamamah, and I fear that there will be more casualties among the reciters in other parts of the land, such that much of the Qur'an may be lost. In my view, you should order that the Qur'an be collected.' Abu Bakr said to 'Umar: How can I do something which was not done my the Messenger of Allah (ﷺ)? 'Umar said: 'By Allah! It is something good.' 'Umar continued trying to convince me until Allah opened up my chest to that which He had opened the chest of 'Umar, and I saw it as he saw it. Zaid said: 'Abu Bakr said: You are a young wise man, and we have no suspicions of you. You used to write down the Revelation for the Messenger of Allah as the Qur'an was revealed. He (Zaid) said: 'By Allah! If they had ordered to move one of the mountains it would have been lighter on me than that.' He said: 'I said: How will you do something which was not done by the Messenger of Allah (ﷺ)? Abu Bakr said: By Allah! It is something good. Abu Bakr and 'Umar continued trying to convince me, until Allah opened up my chest for that, just as He had opened their chests, the chest of Abu Bakr and the chest of 'Umar. So I began searching for Qur'anic material from parchments, leaf stalks of date-palms and Al-Likhaf - meaning stones - and the chests of men. I found the end of Surah Bara'ah with Khuzaimah bin Thabit: Verily, there has come to you a Messenger from among yourselves. It grieves him that you should receive any injury or difficulty. He is eager for you; for the believers (he is) full of pity, kind, and merciful. But if they turn away, say: Allah is sufficient for me. There is no god but He, in Him I put my trust, and He is the Lord of the Mighty Throne (9:128 & 129).'

Haidth Number: 3103

حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَنَسٍ، أَنَّ حُذَيْفَةَ قَدِمَ عَلَى عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ وَكَانَ يُغَازِي أَهْلَ الشَّامِ فِي فَتْحِ أَرْمِينِيَةَ وَأَذْرَبِيجَانَ مَعَ أَهْلِ الْعِرَاقِ، ‏‏‏‏‏‏فَرَأَى حُذَيْفَةُ اخْتِلَافَهُمْ فِي الْقُرْآنِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ لِعُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ:‏‏‏‏ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، ‏‏‏‏‏‏أَدْرِكْ هَذِهِ الْأُمَّةَ قَبْلَ أَنْ يَخْتَلِفُوا فِي الْكِتَابِ كَمَا اخْتَلَفَتِ الْيَهُودُ وَالنَّصَارَى، ‏‏‏‏‏‏فَأَرْسَلَ إِلَى حَفْصَةَ أَنْ أَرْسِلِي إِلَيْنَا بِالصُّحُفِ نَنْسَخُهَا فِي الْمَصَاحِفِ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ نَرُدُّهَا إِلَيْكِ، ‏‏‏‏‏‏فَأَرْسَلَتْ حَفْصَةُ إِلَى عُثْمَانَ بِالصُّحُفِ، ‏‏‏‏‏‏فَأَرْسَلَ عُثْمَانُ إِلَى زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ، ‏‏‏‏‏‏وَسَعِيدِ بْنِ الْعَاصِ، ‏‏‏‏‏‏وَعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ هِشَامٍ، ‏‏‏‏‏‏وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ، ‏‏‏‏‏‏أَنِ انْسَخُوا الصُّحُفَ فِي الْمَصَاحِفِ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ لِلرَّهْطِ الْقُرَشِيِّينَ الثَّلَاثَةِ، ‏‏‏‏‏‏مَا اخْتَلَفْتُمْ أَنْتُمْ وَزَيْدُ بْنُ ثَابِتٍ فَاكْتُبُوهُ بِلِسَانِ قُرَيْشٍ فَإِنَّمَا نَزَلَ بِلِسَانِهِمْ، ‏‏‏‏‏‏حَتَّى نَسَخُوا الصُّحُفَ فِي الْمَصَاحِفِ بَعَثَ عُثْمَانُ إِلَى كُلِّ أُفُقٍ بِمُصْحَفٍ مِنْ تِلْكَ الْمَصَاحِفِ الَّتِي نَسَخُوا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ الزُّهْرِيُّ:‏‏‏‏ وَحَدَّثَنِي خَارِجَةُ بْنُ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ، أَنَّ زَيْدَ بْنَ ثَابِتٍ، قَالَ:‏‏‏‏ فَقَدْتُ آيَةً مِنْ سُورَةِ الْأَحْزَابِ، ‏‏‏‏‏‏كُنْتُ أَسْمَعُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْرَؤُهَا مِنَ الْمُؤْمِنِينَ رِجَالٌ صَدَقُوا مَا عَاهَدُوا اللَّهَ عَلَيْهِ فَمِنْهُمْ مَنْ قَضَى نَحْبَهُ وَمِنْهُمْ مَنْ يَنْتَظِرُ سورة الأحزاب آية 23 فَالْتَمَسْتُهَا فَوَجَدْتُهَا مَعَ خُزَيْمَةَ بْنِ ثَابِتٍ، ‏‏‏‏‏‏أَوْ أَبِي خُزَيْمَةَ فَأَلْحَقْتُهَا فِي سُورَتِهَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ الزُّهْرِيُّ:‏‏‏‏ فَاخْتَلَفُوا يَوْمَئِذٍ فِي التَّابُوتِ وَالتَّابُوهِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ الْقُرَشِيُّونَ:‏‏‏‏ التَّابُوتُ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ زَيْدٌ:‏‏‏‏ التَّابُوهُ، ‏‏‏‏‏‏فَرُفِعَ اخْتِلَافُهُمْ إِلَى عُثْمَانَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ اكْتُبُوهُ التَّابُوتُ فَإِنَّهُ نَزَلَ بِلِسَانِ قُرَيْشٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ الزُّهْرِيُّ:‏‏‏‏ فَأَخْبَرَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ:‏‏‏‏ أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مَسْعُودٍ كَرِهَ لِزَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ نَسْخَ الْمَصَاحِفِ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ:‏‏‏‏ يَا مَعْشَرَ الْمُسْلِمِينَ أُعْزَلُ عَنْ نَسْخِ كِتَابَةِ الْمُصْحَفِ وَيَتَوَلَّاهَا رَجُلٌ، ‏‏‏‏‏‏وَاللَّهِ لَقَدْ أَسْلَمْتُ وَإِنَّهُ لَفِي صُلْبِ رَجُلٍ كَافِرٍ، ‏‏‏‏‏‏يُرِيدُ زَيْدَ بْنَ ثَابِتٍ، ‏‏‏‏‏‏وَلِذَلِكَ قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ:‏‏‏‏ يَا أَهْلَ الْعِرَاقِ اكْتُمُوا الْمَصَاحِفَ الَّتِي عِنْدَكُمْ وَغُلُّوهَا، ‏‏‏‏‏‏فَإِنَّ اللَّهَ يَقُولُ وَمَنْ يَغْلُلْ يَأْتِ بِمَا غَلَّ يَوْمَ الْقِيَامَةِ سورة آل عمران آية 161 فَالْقُوا اللَّهَ بِالْمَصَاحِفِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ الزُّهْرِيُّ:‏‏‏‏ فَبَلَغَنِي أَنَّ ذَلِكَ كَرِهَهُ مِنْ مَقَالَةِ ابْنِ مَسْعُودٍ رِجَالٌ مِنْ أَفَاضِلِ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، ‏‏‏‏‏‏وَهُوَ حَدِيثُ الزُّهْرِيِّ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِهِ.

حذیفہ بن الیمان عثمان رضی الله عنہما کے پاس آئے، ان دنوں آپ شام والوں کے ساتھ آرمینیہ کی فتح میں اور عراق والوں کے ساتھ آذر بائیجان کی فتح میں مشغول تھے، حذیفہ رضی الله عنہ نے قرآن کی قرأت میں لوگوں کا اختلاف دیکھ کر عثمان بن عفان رضی الله عنہ سے کہا: امیر المؤمنین! اس امت کو سنبھالئے اس سے پہلے کہ یہ کتاب ( قرآن مجید ) کے معاملے میں اختلاف کا شکار ہو جائے ( اور آپس میں لڑنے لگے ) جیسا کہ یہود و نصاریٰ اپنی کتابوں ( تورات و انجیل اور زبور ) کے بارے میں مختلف ہو گئے۔ تو عثمان رضی الله عنہ نے حفصہ رضی الله عنہا کے پاس پیغام بھیجا کہ ( ابوبکر و عمر رضی الله عنہما کے تیار کرائے ہوئے ) صحیفے ہمارے پاس بھیج دیں ہم انہیں مصاحف میں لکھا کر آپ کے پاس واپس بھیج دیں گے، چنانچہ ام المؤمنین حفصہ رضی الله عنہا نے عثمان بن عفان رضی الله عنہ کے پاس یہ صحیفے بھیج دیے۔ پھر عثمان نے زید بن ثابت اور سعید بن العاص اور عبدالرحمٰن بن الحارث بن ہشام اور عبداللہ بن زبیر رضی الله عنہم کے پاس ان صحیفوں کو اس حکم کے ساتھ بھیجا کہ یہ لوگ ان کو مصاحف میں نقل کر دیں۔ اور تینوں قریشی صحابہ سے کہا کہ جب تم میں اور زید بن ثابت رضی الله عنہ میں اختلاف ہو جائے تو قریش کی زبان ( و لہجہ ) میں لکھو کیونکہ قرآن انہیں کی زبان میں نازل ہوا ہے، یہاں تک کہ جب انہوں نے صحیفے مصحف میں نقل کر لیے تو عثمان نے ان تیار مصاحف کو ( مملکت اسلامیہ کے حدود اربعہ میں ) ہر جانب ایک ایک مصحف بھیج دیا۔ زہری کہتے ہیں مجھ سے خارجہ بن زید نے بیان کیا کہ زید بن ثابت نے کہا کہ میں سورۃ الاحزاب کی ایک آیت جسے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پڑھتے ہوئے سنتا تھا اور مجھے یاد نہیں رہ گئی تھی اور وہ آیت یہ ہے «من المؤمنين رجال صدقوا ما عاهدوا الله عليه فمنهم من قضى نحبه ومنهم من ينتظر» ۱؎ تو میں نے اسے ڈھونڈا، بہت تلاش کے بعد میں اسے خزیمہ بن ثابت کے پاس پایا ۲؎ خزیمہ بن ثابت رضی الله عنہ کہا یا ابوخزیمہ کہا۔ ( راوی کو شک ہو گیا ) تو میں نے اسے اس کی سورۃ میں شامل کر دیا۔ زہری کہتے ہیں: لوگ اس وقت ( لفظ ) «تابوهاور» تابوت میں مختلف ہو گئے، قریشیوں نے کہا «التابوت» اور زید نے «التابوه» کہا۔ ان کا اختلاف عثمان رضی الله عنہ کے سامنے پیش کیا گیا تو آپ نے فرمایا: «التابوت» لکھو کیونکہ یہ قرآن قریش کی زبان میں نازل ہوا ہے۔ زہری کہتے ہیں: مجھے عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ نے بتایا ہے کہ عبداللہ بن مسعود نے زید بن ثابت رضی الله عنہما کے مصاحف لکھنے کو ناپسند کیا اور کہا: اے گروہ مسلمانان! میں مصاحف کے لکھنے سے روک دیا گیا، اور اس کام کا والی و کارگزار وہ شخص ہو گیا جو قسم اللہ کی جس وقت میں ایمان لایا وہ شخص ایک کافر شخص کی پیٹھ میں تھا ( یعنی پیدا نہ ہوا تھا ) یہ کہہ کر انہوں نے زید بن ثابت کو مراد لیا ۳؎ اور اسی وجہ سے عبداللہ بن مسعود نے کہا: عراق والو! جو مصاحف تمہارے پاس ہیں انہیں چھپا لو، اور سنبھال کر رکھو۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: جو کوئی چیز چھپا رکھے گا قیامت کے دن اسے لے کر حاضر ہو گا تو تم قیامت میں اپنے مصاحف ساتھ میں لے کر اللہ سے ملاقات کرنا ۴؎ زہری کہتے ہیں: مجھے یہ اطلاع و خبر بھی ملی کہ کبار صحابہ نے ابن مسعود رضی الله عنہ کی یہ بات ناپسند فرمائی ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ اور یہ زہری کی حدیث ہے، اور ہم اسے صرف انہیں کی روایت سے جانتے ہیں۔

Narrated Az-Zuhri: from Anas who said: Hudhaifah bin Al-Yaman came to 'Uthman, at the time when the people of Ash-Sham and the people of Al-'Iraq were waging war to conquer Arminiyah and Adharbijan. Hudhaifah saw their (the people of Ash-Sham and Al-'Iraq) different forms of recitation of the Qur'an. So he said to 'Uthman: 'O Commander of the Believers! Save this nation before they differ about the Book as the Jews and the Christians did before them.' So he ('Uthman) sent a message to Hafsah (saying): 'Send us the manuscripts so that we may copy them in the Musahif (plural of Mushaf: a written copy of the Qur'an) then we shall return it to you.' So Hafsah sent the manuscripts to 'Uthman bin 'Affan. 'Uthman then sent order for Zaid bin Thabit, Sa'eed bin Al-'As, 'Abdur-Rahman bin Al-Harith bin Hisham, and 'Abdullah bin Az-Zubair to copy the manuscripts in the Musahif. 'Uthman said to the three Quraish men: 'In case you disagree with Zaid bin Thabit on any point in the (recitation dialect of the) Qur'an, then write it in the dialect of Quraish for it was in their tongue.' So when they had copied the manuscripts, 'Uthman sent one Mushaf from those Musahif that they had copied to every province. Az-Zuhri said: Kharijah bin Zaid [bin Thabit] narrated to me that Zaid bin Thabit said: 'I missed an Ayah of Surat Al-Ahzab that I heard the Messenger of Allah (ﷺ) reciting: Among the believers are men who have been true to their covenant with Allah, of them some have fulfilled their obligations, and some of them are still waiting (33:23) - so I searched for it and found it with Khuzaimah bin Thabit, or Abu Khuzaimah, so I put it in its Surah.' Az-Zuhri said: They differed then with At-Tabut and At-Tabuh. The Quraish said: At-Tabut while Zaid said: At-Tabuh. Their disagreement was brought to 'Uthman, so he said: 'Write it as At-Tabut, for it was revealed in the tongue of the Quraish.' Az-Zuhri said: 'Ubaidullah bin 'Abdullah bin 'Utbah informed me that 'Abdullah bin Mas'ud disliked Zaid bin Thabit copying the Musahif, and he said: 'O you Muslims people! Avoid copying the Mushaf and the recitation of this man. By Allah! When I accepted Islam he was but in the loins of a disbelieving man' - meaning Zaid bin Thabit - and it was regarding this that 'Abdullah bin Mas'ud said: 'O people of Al-'Iraq! Keep the Musahif that are with you, and conceal them. For indeed Allah said: And whoever conceals something, he shall come with what he concealed on the Day of Judgement (3:161). So meet Allah with the Musahif.' Az-Zuhri said: It was conveyed to me that some men amongst the most virtuous of the Companions of the Messenger of Allah (ﷺ) disliked that view of Ibn Mas'ud.

Haidth Number: 3104