اَلْحَلُّ: اصل میں حَلٌّ کے معنی گرہ کشائی کے ہیں۔ چنانچہ آیت کریمہ: (وَ احۡلُلۡ عُقۡدَۃً مِّنۡ لِّسَانِیۡ ) (۲۰:۲۷) اور میری زبان کی گرہ کھول دے۔ میں یہی معنی مراد ہیں اور حَلَلْتُ کے معنیٰ کسی جگہ پر اترنا اور فروکش ہونا بھی آتے ہیں اصل میں یہ حَلٌّ الْاَحْمَالِ عندالنزول سے ہے، جس کے معنیٰ کسی جگہ اترنے کے لئے سامان کی رسیوں کی گرہیں کھول دینا کے ہیں۔ پھر محض اترنے کے معنیٰ میں استعمال ہونے لگا ہے۔ لٰہذا حَلَّ (ن) حَلُوْلًا کے معنیٰ کسی جگہ پر اترنا ہیں اور اَحَلَّہٗ کے معنی اتارنے کے ہیں۔ قرآن پاک میں ہے: (اَوۡ تَحُلُّ قَرِیۡبًا مِّنۡ دَارِہِمۡ ) (۱۳:۳۱) یا ان کے مکانات کے قریب نازل ہوتی رہے گی۔ (وَّ اَحَلُّوۡا قَوۡمَہُمۡ دَارَ الۡبَوَارِ ) (۱۴:۲۸) اور اپنی قوم کو تباہی کے گھر اتارا۔ حَلَّ الدَّیْنُ: قرض کی ادائیگی کا وقت قریب آپہنچا۔ اَلْحِلَّۃُ: نازل ہونے والی قوم (اسی سے کہا جاتا ہے) حَیٌّ حَلَالٌ جبکہ لوگ ایک دوسرے کے جوار میں مقیم ہوں اَلْمَحِلَّۃُ: (اترنے کی جگہ) اور حَلُّ الْعَقْدۃِ (گرہ کھولنا) سے بطور استعارہ حَلَّ (ض) الشَّیئُ حِلًّا کا محاورہ استعمال ہوتا ہے جس کے معنیٰ کسی چیز کے حلال ہونا کے ہیں۔ قرآن پاک میں ہے: (وَ کُلُوۡا مِمَّا رَزَقَکُمُ اللّٰہُ حَلٰلًا طَیِّبًا) (۵:۸۸) اور جو حلال طیب روزی خدا نے تم کو دی ہے اسے کھاؤ۔ (ہٰذَا حَلٰلٌ وَّ ہٰذَا حَرَامٌ ) (۱۶:۱۱۶) کہ یہ حلال ہے اور یہ حرام ہے۔ اور الْحَلُوْلُ سے اَحَلَّتِ الشَّاۃُ کا محاورہ ہے جس کے معنیٰ بکری کے تھنوں سے دودھ اتر آنا کے ہیں۔ مگر اَحَلَّ اﷲُ کَذَا کے معنیٰ کسی چیز کو حلال کرنے کے ہیں۔ قرآن پاک میں ہے: (اُحِلَّتۡ لَکُمۡ بَہِیۡمَۃُ الۡاَنۡعَامِ) (۵:۱) تمہارے لئے چوپائے جانور (جو چرنے والے ہیں) حلال کردئیے گئے ہیں۔ اور آیت کریمہ: (یٰۤاَیُّہَا النَّبِیُّ اِنَّاۤ اَحۡلَلۡنَا لَکَ اَزۡوَاجَکَ الّٰتِیۡۤ اٰتَیۡتَ اُجُوۡرَہُنَّ وَ مَا مَلَکَتۡ یَمِیۡنُکَ مِمَّاۤ اَفَآءَ اللّٰہُ عَلَیۡکَ وَ بَنٰتِ عَمِّکَ وَ بَنٰتِ عَمّٰتِکَ ) (۳۳:۵۰) اے پیغمبر! ہم نے تمہارے لئے تمہاری بیویاں جن کو تم نے ان کے مہر دے دئیے ہیں حلال کردی ہیں اور تمہاری لونڈیاں جو خدا نے تم کو (کفار سے بطور مال غنیمت) دلوائی ہیں اور تمہارے چچا کی بیٹیاں اور تمہاری پھوپھیوں کی بیٹیاں۔ میں ازواج مطہرات کی حلت تو ظاہ رہے کہ وہ آپ کے عقد میں تھیں اور بنات العم وغیرہ کی حلت سے نکاح مراد ہے۔ بَلَغَ الْاَجَلُ مَحِلَّہُ: ادائیگی قرض کا وقت قریب آپہنچا قرآن پاک میں ہے: (حَتّٰی یَبۡلُغَ الۡہَدۡیُ مَحِلَّہٗ ) (۲:۱۹۶) جب تک قربانی اپنے مقام پر نہ پہنچ جائے۔ رَجُلٌ حَلَالٌ وَمُحِلٌّ جو احرام کھول دے یا وہ آدمی جو حدود حرم سے باہر چلا جائے قرآن میں ہے: (وَ اِذَا حَلَلۡتُمۡ فَاصۡطَادُوۡا) (۵:۲) اور جب احرام اتار دو تو پھر شکار کرو۔ (وَ اَنۡتَ حِلٌّۢ بِہٰذَا الۡبَلَدِ ۙ) (۹۰:۲) اور تم اسی شہر میں تو رہتے ہو۔ اور آیت کریمہ: (قَدۡ فَرَضَ اللّٰہُ لَکُمۡ تَحِلَّۃَ اَیۡمَانِکُمۡ ) (۶۶:۲) خدا نے تم لوگوں کے لئے تمہاری قسموں کا کفارہ مقرر کردیا ے۔ کے معنیٰ یہ ہیں کہ تمہاری قسموں کی گرہ کشائی کا کفارہ بیان کردیا ہے۔ حدیث میں ہے (1) (۹۵) لَایَمُوْتُ لِلرَّجُلِ ثَلاثَۃٌ مِّنَ الْاَوْلَادِ فَتَمَسَّہُ النَّارُ اِلَّا تَحِلَّۃَ الْقَسَمِ کہ جس مسلمان کے تین بچے مرجائیں (اور وہ صبر کرے) تو اسے دوزخ کی آگ صرف تَحِلَّۃ الْقَسمِ کی مقدار سے زیادہ نہیں چھوئے گی۔ یعنی جتنی دیر میں کہ انشاء اﷲ کہے۔ اسی معنیٰ میں شاعر نے کہا ہے۔ (2) ع (۱۱۹) وَقْعُھُنَّ الْاَرْضَ تَحْلِیلٌ کہ ان کے قدم کا زمین پر پڑنا تحلۃ القسم کی مقدار ہے یعنی برائے نام ہے۔ اَلْحَلِیلُ: خاوند۔ مؤنث حَلِیْلَۃٌ میاں بیوی کو حَلِیْلٌ وَحَلِیْلۃٌ یا تو اس لئے کہ جاتا ہے کہ ان میں سے ہر ایک دوسرے کے لئے اپنی چادر کھولتا ہے اور یا اس لئے کہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ رہتے ہیں اسی لئے جو شخص کسی کے ساتھ ایک ہی مکان میں رہتا ہو وہ اس کا حَلِیلٌ کہلاتا ہے۔ اور یا یہ حَلالَ سے ہے کہ میاں بیوی ایک دوسرے کے لئے حلال ہیں۔ اور حَلِیلۃ کی جمع اَلْحَلَائِلُ ہے۔ قرآن میں ہے: (وَ حَلَآئِلُ اَبۡنَآئِکُمُ الَّذِیۡنَ مِنۡ اَصۡلَابِکُمۡ) (۴:۲۳) اور تمہارے صلبی بیٹوں کی عورتیں بھی۔ اَلْحُلَّۃُ: (کپڑوں کا جوڑا) ازار اور رداء (اوپر اور نیچے کی چادریں) ۔ اَلاِحْلِیلُ: پیشاب نکلنے کا سوراخ، کیونکہ پیشاب کے وقت اس کی گرہ کھل جاتی ہے۔
Words | Surah_No | Verse_No |
يَّحْلِلْ | سورة طه(20) | 81 |