Blog
Books
Search Quran
Lughaat

ذَکَتِ (ن) النَّارُ کے معنیٰ آگ جلنے اور روشن ہونے کے ہیں اور ذَکَّیْتُھَا (تفعیل) کے معنیٰ جلانے اور روشن کرنے کے ہیں۔ذُکَآئُ: سورج اور فجر کو سورج کا بیٹا تصور کرکے اسے اِبْنُ ذُکَائَ: کہا جاتا ہے اور اس کا حاجب اور دربان تصور کرکے اسے حَاجِبُ الشَّمْسِ کہہ دیتے ہیں۔ اور بطور کنایہ ذُکائٌ کے معنیٰ ذہانت اور ذودفہمی کے بھی آتے ہیں۔جیسا کہ فُلَانٌ ھُوَ شُعْلَۃْ نَارِ۔ کا محاورہ ہے کہ فلاں آتش کا پرکالا ہے۔ ذَکَّیتُ الشّاۃَ: بھیڑ ذبح کرنا۔ اصل میں تَذْکِیَۃُ (تفعیل) کے معنیٰ حرارت غریزی خارج کرنے کے ہیں لیکن اصطلاح شریعت میں مخصوص طریقہ سے حیاۃ زائل کرنے کو تذکِیۃ کہتے ہیں۔ (1) اس اشتقاق کی اس سے بھی تائید ہوتی ہے کہ میت کو خَامِدٌ اور ھَامِدٌ کہا جاتا ہے اور دوسری طرف بجھی ہوئی آگ کو مَیْتَۃٌ کہا جاتا ہے۔ ذَکِیَ الرَّجُلُ: جب کوئی شخص سن رسیدہ ہوکر کثرت تجارب کی بنا پر ذکاوت اور فہم سے بہرہ مند ہوجائے تو اس کے متعلق یہ محاورہ استعمال ہوتا ہے۔اس اشتقاق کے اعتبار سے صرف اسی عمر رسیدہ کو مُذَکّٰی کہا جائے گا جو کارآزمودہ و ریاضت چشیدہ ہو اور پھر تجارب اور ریاضت عام طور پر چونکہ عمر رسیدہ آدمیوں میں پائے جاتے ہیں اس لئے ان کے بارے میں ذکاوت کا لفظ استعمال ہوا تو اس مناسبت سے عمدہ اور عمر رسیدہ گھوڑوں کے متعلق بھی ذُکاء کا لفظ بولا جانے لگا چنانچہ محاورہ ہے: جَرْیُ الْمُذْکِیاتِ غَلَابٌ: کہ بوڑھے گھوڑے دوڑ میں غالب رہتے ہیں۔ (2)

Words
Words Surah_No Verse_No
ذَكَّيْتُمْ سورة المائدة(5) 3