اَلْجَزَعُ: بے صبری۔ قرآن پاک میں ہے: (سَوَآءٌ عَلَیۡنَاۤ اَجَزِعۡنَاۤ اَمۡ صَبَرۡنَا) (۱۴:۲۱) اب ہم گھبرائیں یا صبر کریں۔ ہمارے حق میں برابر ہے۔ یہ حزن سے خاص ہے کیونکہ جَزَعٌ خاص کر اس غم کو کہتے ہییں جو انسان کو جس چیز کے وہ درپے ہو اس سے پھیر دے اور اس سے تعلق قطع کردے۔ اصل میں جَزْعٌ (ف) کے معنی رسی کو نصف سے کاٹ دینے کے ہیں اور اِنْجَزَعَ (انفعال) اس کا مطاوع آتا ہے، جیسے جَزَعْتُہٗ فَانْجَزَع میں نے اسے کاٹا چنانچہ کٹ گیا۔ اور معنی انقطاع کے تصور کی بنا پر وادی کے موڑ کو جَزْعُ الْوَادِیْ کہا جاتا ہے اور تغیر سے بھی چونکہ اصل رنگ کٹ جاتا ہے، اس لیے متلون خر مہرے کو جَزْعٌ کہتے ہیں اسی سے لَحْمٌ مُجَزَّعٌ کا محاورہ مستعار ہے، جس کے معنی دو رنگ کے گوشت کے ہیں اور نیم پختہ کھجور کو مُجَزَّعٌ کہا جاتا ہے۔ اَلْجَازعُ: شہتیر کو کہتے ہیں جو چھت کے وسط میں ڈالا جاتا ہے اور دونوں طرف سے چھوٹے شہتیر آآکر اس پر مل جاتے ہیں تو اسے جَازع یا تو اس لیے کہا جاتا ہے کہ بوجھ اٹھانے کی وجہ سے گویا وہ بے صبر ہورہا ہے اور یا اس لیے کہ کمرے کے درمیان میں ہونے کی وجہ سے گویا وہ اسے دو حصوں میں قطع کردیتا ہے۔
Words | Surah_No | Verse_No |
اَجَزِعْنَآ | سورة إبراهيم(14) | 21 |
جَزُوْعًا | سورة المعارج(70) | 20 |