اَلطَّرِیُّ: تروتازہ۔ قرآن پاک میں ہے: (لَحْمًا طَرِیًّا) (۱۶:۱۴) تازہ گوشت کھاؤ۔ طَرِیًّ کا مصدر طَرَائٌ وَطَرَاوَۃٌ آتا ہے جس کے معنی توتازہ ہونے کے ہیں۔ محاورہ ہے: طَرَّیَتُ کَذَا فَطَرِی: میں نے اسے تازہ کیا چنانچہ وہ تازہ ہوگیا۔ اسی سے نئے اور تازہ کیے ہوئے کپڑوں کو مُطَرَّاۃٌ کہا جاتا ہے اور اِطْرَائٌ اس تعریف کو کہتے ہیں جس سے ممدوح کی یاد تازہ ہوجائے اور (طَرَئَ) مہموز کے معنی طَلَعَ یعنی اچانک طلوع ہونے کے ہیں۔
Words | Surah_No | Verse_No |
طَرِيًّا | سورة النحل(16) | 14 |