اَلَّبَنُ:دودھ۔ج۔اَلْبَانٌ۔قرآن پاک میں ہے: (وَ اَنۡہٰرٌ مِّنۡ لَّبَنٍ لَّمۡ یَتَغَیَّرۡ طَعۡمُہٗ) (۴۷۔۱۵) اور دودھ کی نہریں ہیں جن کا مزہ نہیں بدلے گا۔ (مِنْ بَیْنِ فَرْثٍ وَّدَمٍ لَّبَنًا خالِصًا اور اس غذا سے جو نہ فضلہ بنی اور نہ خون ہم تم کو خالص دودھ پلاتے ہیں۔لَابِنٌ:بہت دودھ والا۔لَبَتْتُہٗ:میں نے اسے دودھ پلایا۔فَرَسٌ مَّلْبُوْنٌ:دودھ سے پرورش کیا ہوا گھوڑا۔اَلْْبَنَ فُلَانً:بہت سے دودھ کا مالک ہونا اور ایسے آدمی کو مُلْبِنٌ کہا جاتا ہے۔ اَلْبَنتِ النَّاقَۃُ کے معنی ہیں:اونٹنی بہت دودھ والی ہوگئی عام اس سے طبعی طور پر یا تھنوں میں دودھ چھوڑدینے کی وجہ سے ہو۔اَلْمَلْبَنُ:دودھ دوہنے کا برتن اور (ھُوَ اَخُوْہُ بِلِبَانِ اُمِّہ) کے معنی یہ ہیں کہ وہ اس کا رضاعی بھائی ہے اور اس کا محاورہ میں لِبَانِ اُمِّہ کی بجائے لَبَنُ اُمِّہ کہنا۔صحیح نہیں ہے کیونکہ یہ اہل عرب سے مسموع نہیں ہے۔کَمْ لُبْنُ غَنَمِکَ:یعنی تیری بکریوں میں دودھ والی کتنی ہیں۔ (1) اَللُّبَانُ:کے معنی مصدر یعنی سینہ کے ہیں اور لُبَانَۃٌ کے اصل معنی تو دودھ کی ضرورت کے ہیں مگر مطلق ضرورت کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔اور اَلَّبِنُ جس کے معنی عمارتی اینٹ کے ہیں اور اس کا واحد لَبَنَۃٌ ہے اس کا لَبِنٌ (دودھ) سے کوئی معنوی تعلق نہیں اللَّبِنُ (اینٹ سے لَبَنَہٗ (ض) یَلْبَنُہٗ کے معنی اینٹ سے مارنے کے ہیں اور اینٹ بنانے والے کو لَبَّانٌ کہا جاتا ہے۔