اَلنَّحْلُ:شہد کی مکھی۔قرآن پاک میں ہے:۔ (وَ اَوۡحٰی رَبُّکَ اِلَی النَّحۡلِ ) (۱۶۔۶۸) اور تمہارے پروردگار نے شہد کی مکھیوں کو ارشاد فرمایا۔ (اَلنَّحْلَۃُ وَالنِّحْلَۃُ:اس عطیہ کوکہتے ہیں جو تبرعا دیا جائے یہ ہبہ سے خاص ہے کیونکہ ہر ہبہ کو نِحْلَۃ تو کہہ سکتے ہیں لیکن ہر نِحْلَہ کو ہبہ نہیں کہتے۔میرے خیال میں یہ نَحْلٌ سے مشتق ہے اور اس میں مکھی کے فعل کے معنی ملحوظ ہیں تو گویا نَحَلْتُہٗ کے معنی نَحْلٌ کی طرح عطیہ دینے کے ہیں۔جس پر کہ آیت:۔ (وَاَوْحٰی رَبُّکَ اِلَی النَّحْلِ اْلاٰٰیَۃ) میں متنبہ کیا ہے حکماء کا بیان ہے کہ نَحْل جن پودوں سے غذا لیتی ہے انہیں کسی قسم کا نقصان نہیں پہنچاتی بلکہ الٹا فائدہ پہنچاتی ہے اور شہد جیسی شفا بخش چیز لوگوں کو حاصل کرکے دیتی ہے جیسا کہ قرآن پاک میں اﷲ تعالیٰ نے اس کے متعلق بیان فرمایا ہے۔اور نَحْلَۃَ وَنِحْلَۃَ:صداق یعنی عورتوں کے مہر کو بھی کہتے ہیں کیونکہ اس کے مقابلہ میں سوائے لذت اندوزی کے اور کوئی مالی معاوضہ حاصل نہیں ہوتا۔اسی سے اولاد کو عطیہ دینے پر نَحَلَ ابْنَہٗ کَذَا وَانْحَلَہٗ بولتے ہیں اور اسی سے نَحَلْتُ الْمَرْئَ ۃَ ہے۔قرآن پاک میں ہے۔ (وَ اٰتُوا النِّسَآءَ صَدُقٰتِہِنَّ نِحۡلَۃً) (۴۔۴) اور عورتوں کو ان کے مہر خوشی سے دے دیا کرو اور نَحِلَ جِسْمُہٗ کے معنی دبلا ہوکر مکھی کی طرح باریک ہوجانے کے ہیں۔اور اسی سے تیز تلواروں کو ان کی دھاروں کے باریک ہونے کی وجہ سے نَوَاحِلُ کہا جاتا ہے۔یہ بھی ہوسکتا ہے کہ نِحْلَۃٌ کو اصل قرار دے کر نحل کو اس سے مشتق مانا جائے۔کیونکہ مکھی سے جو شہد حاصل ہوتا ہے وہ بھی فائدہ بخش ہونے کے لحاظ سے ایک قسم کی عطا ہی ہوتی ہے۔اَلْاِ نْتِحَالُ کے معنی کسی چیز کا ادعاء کرنے اور لینے کے ہیں اسی سے فُلَانٌ یَنْتَحِلُ الشِّعْرَ کا محاورہ ہے جس کے معنی شعری سرقہ کرنے کے ہیں۔واﷲ اعلم۔