Blog
Books
Search Quran
Lughaat

اَلمُشَاکَلَۃُ: کے معنیٰ شکل و صورت میں مشابہ ہونے کے ہیں اور نِد کے معنیٰ جنس میں شریک وہنے کے ہیں اور شَبَہٌ کے معنیٰ کیفیت میں مماثلت کے ہیں۔ چنانچہ آیت کریمہ: (وَّ اٰخَرُ مِنۡ شَکۡلِہٖۤ اَزۡوَاجٌ) (۳۸:۵۸) اور اس طرح کے اور بہت سے (عذاب ہوں گے) میں ہیئت اور تعاطی فعل کے لحاظ سے مماثلت مراد ہے بعض نے کہا ہے کہ شَکْلٌ کے معنیٰ دَلٌّ یعنی عورت کے نازانداز کے ہیں لیکن اصل میں اس نسبت کو کہتے ہیں جو دو ہم مشرب و ہم پیشہ شخصوں میں پائی جاتی ہے چنانچہ اسی سے محاورہ ہے۔ اَلنَّاسُ اَشْکَال وَالَّافُ کہ لوگ باہم مشابہ اور الفت کروالے ہیں۔ اصل میں مُشَاکَلَۃٌ شکل سے ہے اور شَکَّلْتُ الدَّابَۃَ کے معنیٰ ہیں ’’میں نے جانور کی ٹانگیں (اشکال سے) باندھ دیں اور شکال اس رسّی کو کہتے ہیں جس سے اس کی ٹانگیں باندھ دی جاتی ہیں پھر اس سے استعارہ کے طور پر فَیَّدْتُ الْکِتَابَ کی طرح شَکَّلْتُ الْکِتَابَ کا محاورہ استعمال ہوتا ہے جس کے معنیٰ کتاب کو اعراب لگانے کے ہیں۔ دَابَّۃٌ بِھَا شِکالٌ: وہ جانور جس کے ایک اگلے اور ایک پچھلے پاؤں میں شِکَال یعنی پائے بند کی طرح سفیدی ہو۔ قرآن پاک میں ہے: (قُلۡ کُلٌّ یَّعۡمَلُ عَلٰی شَاکِلَتِہٖ) (۱۷:۸۴) کہو کہ ہر ایک اپنے طریق کے مطابق عمل کرتا یہ۔ یعنی اپنی فطرت کے مطابق عمل کرتا ہے جو اسے پائے بند کے ہوئے ہے کیونکہ فطرت انسان پر سلطان قاہر کی طرح غالب رہتی ہے جیساکہ ہم اپنی کتاب ’’اَلذَّرِیْعَۃُ اِلٰی مکَارِمِ الشَّرِیْعَۃِ‘‘ میں بیان کرچکے ہیں۔ اور یہ ایسے ہی جیساکہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا: (1) (۱۹۹) کُلٌّ متَسِّلٌ لِمَا خُلِقَ لہٗ (فکر ہر کسی بقدر ہمت اوست) اَلْاشکَلَۃُ: حاجت جو انسان کو پابند کردے اور اَلْاِشْکَالُ کے معنیٰ (بطور استعارہ) کسی کام کے پیچیدہ ہوجانے کے ہیں۔ جیساکہ اشتباہ کا لفظ شَبَہٌ سے مشتق ہے اور مجازاً کسی امر کے مشتبہ ہونے پر بولا جاتا ہے۔

Words
Words Surah_No Verse_No
شَاكِلَتِهٖ سورة بنی اسراءیل(17) 84
شَكْلِهٖٓ سورة ص(38) 58