Blog
Books
Search Quran
Lughaat

قرآن پاک میں ہے: (فَلۡیُلۡقِہِ الۡیَمُّ بِالسَّاحِلِ) (۲۰:۳۹) تو دریا اسے ساحل پر ڈال دے گا۔ یہ اصل میں سَحَلَ الْحَدِیْدَ سے ہے جس کے معنیٰ ریتی سے لوہے کا برادہ بنانا اور چھیلنے کے ہیں۔ بعض کا خیال ہے دریا کے کنارے کو ساحل کی بجائے مَسْحُوْلٌ کہنا چاہیے تھا مگر اسم مفعول کی بجائے اسم فاعل استعمال ہوتا ہے جیساکہ ھَمٌّ نَاصِبٌ کہا جاتا ہے حالانکہ ھَمٌّ مَنْصُوبٌ ہوتا ہے۔ بعض کے نزدیک سَاحِلٌ کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ وہ پانی کو متفرق اور محدود کردیتا یہ اس صورت میں ساحل بمعنیٰ فاعل ہوگا۔ اَلسُّحَالَۃُ: برادہ کو کہتے ہیں اور گدھے کی ہنہناہٹ کو سَحِیلٌ یا سَحَالٌ کہا جاتا ہے گویا کرخت ہونے کے لحاظ سے اس کی آواز لوہے کو رگڑنے کی آواز کے مشابہ ہے۔ اور بلند آواز آدمی کو مِسْحَلٌ کہا جاتا ہے گویا وہ سَجِیْلُ الْحِمَارِ کے مشابہ یعنی رفع صوت کے لحاظ سے نہ کہ آواز کے کرخت ہونے کے لحاظ سے جیساکہ قرآن پاک نے گدھے کی آواز کے متعلق کہا ہے: (اِنَّ اَنۡکَرَ الۡاَصۡوَاتِ لَصَوۡتُ الۡحَمِیۡرِ) (۳۱:۱۹) اور وہانۂ لگام کے دونوں طرف کے حلقوں کو مِسْحَلَتَانِ کہا جاتا ہے۔

Words
Words Surah_No Verse_No
بِالسَّاحِلِ سورة طه(20) 39