(وَ عَنَتِ الۡوُجُوۡہُ لِلۡحَیِّ الۡقَیُّوۡمِ) (۲۰:۱۱۱) اور چہرے اس زندہ و قائم کے سامنے جھک جائیں گے۔ یعنی مصیبت میں گرفتار ہوکر خدا کے سامنے جھک جائیں گے اور عَنَیْتُہٗ کے معنی کسی کو مصیبت میں مبتلا کرنے کے ہیں اور عَنِیَ کے معنی مصیبت میں مبتلا ہونا یا قیدی بننا کے آتے ہیں اسی سے قیدی کو اَلْعَانِیْ کہا جاتا ہے (اس کی مونث عَانِیَۃٌ ہے اور عَانِیَۃٌ کی جمع عَوان آتی ہے) آنحضرت ﷺ نے فرمایا: (1) (۵۰) (اِسْتَوْصُوْا بِالنِّسَائِ خَیْرًا فَاِنَّھُنَّ عِنْدَکُمْ عَوَانٍ) کہ عورتوں سے اچھا سلوک کرو۔ بے شک وہ تمہارے پاس ایک طرح سے قیدی ہیں۔ محاورہ ہے: عُنِیَ بِحَاجَتِہٖ فَھُوَ مَعْنِیٌّ بِھَا (کسی حاجت میں مبتلا ہونا) بعض نے عُنِیَ فَھُوَ عَانٍ کہا ہے اور آیت کریمہ: (لِکُلِّ امۡرِیًٔ مِّنۡہُمۡ یَوۡمَئِذٍ شَاۡنٌ یُّغۡنِیۡہِ ) (۸۰:۴۲) میں ایک قراء ت یُعْنِیْہِ بھی ہے یعنی اسے مصروف رکھے گی۔ اَلْعَنِیَّۃُ: ایک دوا جو خارشی ہونٹ پر ملی جاتی ہے۔ مثل مشہور ہے۔(2) عَنِیَّۃٌ تَشْفِیْ الْجَرَبَ: درحق مرد نیک رامی گویند کہ بفکر خود امور رانیک انجام وبد۔ اَلْمَعْنٰی: مفہوم یا مقصود جو لفظ سے ظاہر ہوتا ہے ہو۔ یہ عَنَتِ الْاَرْضُ بِالنَّبَاتِ کے محاورہ سے مشتق ہے۔ جس کے معنی ہیں: زمین نے پودے نمودار کیے۔ عَنَتِ الْقِرْبَۃُ مشک سے پانی بہہ پڑا۔ اور جو لوگ عِنْوَانُ الْکِتَابِ کو عُنِیَ سے مشتق مانتے ہیں ان کے نزدیک یہ بھی عَنَتِ الْقِرَیَۃُ سے ماخوذ ہے اور لفظ اَلْمَعْنٰی اور التفسیر کا تقریباً ایک ہی مفہوم ہے گو ان میں قدرے فرق پایا جاتا ہے۔
Words | Surah_No | Verse_No |
وَعَنَتِ | سورة طه(20) | 111 |