اَلْفَتْقُ (ض) کے معنی دو متصل چیزوں کو الگ الگ کردینے کے ہیں اور یہ رَتْقٌ کی ضد ہے۔ چنانچہ قرآن پاک میں ہے۔ (اَوَ لَمۡ یَرَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡۤا اَنَّ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضَ کَانَتَا رَتۡقًا فَفَتَقۡنٰہُمَا) (۲۱:۳۰) آسمان اور زمین دونوں ملے ہوئے تھے تو ہم نے ان کو جدا جدا کردیا۔ اَلْفَتْقُ وَالْفَتِیْقُ صبح کو کہتے ہیں (کیونکہ وہ تاریکی سے نمودار ہوتی ہے۔ اَفْتَقَ الْقَمَرُ: چاندکا بادل سے ظاہر ہونا۔ نَصْلٌ فَتِیْقُ الشَّفْرَتَیْنِ: بھلا جس کی دو شاخیں ہوں۔ گویا ایک کو دوسری سے پھاڑ کر بنایا گیا ہے۔ جَمَلٌ فَتِیْقٌ: اونٹ جس کا چمڑا موٹاپے کی وجہ سے پھٹ گیا ہو اور یہ فَتِیْقَ (س لازم) فَتْقًا سے ہے۔
Words | Surah_No | Verse_No |
فَفَتَقْنٰهُمَا | سورة الأنبياء(21) | 30 |