Blog
Books
Search Quran
Lughaat

اَلْکَبُّ (ن) کے معنی کسی کو منہ کے بل گرانے کے ہیں۔چنانچہ قرآن پاک میں ہے: (فَکُبَّتۡ وُجُوۡہُہُمۡ فِی النَّارِ) (۲۷۔۹۰) تو ایسے لوگ اوندھے منہ دوزخ میں ڈال دیئے جائیں گے۔اَلْاِکْبَابُ:کسی چیز پر منہ کے بل گرجانا (اور کنایہ از ہم تن مشغول شدن درکارے) اسی سے قرآن پاک میں ہے۔ (اَفَمَنۡ یَّمۡشِیۡ مُکِبًّا عَلٰی وَجۡہِہٖۤ اَہۡدٰۤی) (۶۷۔۲۲) بھلا جو شخص چلتا ہوا منہ کے بل گرگر پڑتا ہو۔وہ سیدھے رستے پر ہے۔یعنی جو غلط روش پر چلتا ہے۔اَلْکَبْکَبَۃُ:کسی چیز کو اوپر سے لڑھکاکر گڑھے میں پھینک دینا۔قرآن پاک میں ہے: (فَکُبۡکِبُوۡا فِیۡہَا ہُمۡ وَ الۡغَاوٗنَ ) (۲۶۔۹۴) تو وہ اور گمراہ (یعنی بت اور بت پرست) اوندھے منہ دوزخ میں ڈال دیئیے جائیں گے۔کَبَّ وَکَبْکَبَ ثلاثی و رباعی دونوں طرح آتا ہے۔مثل (کَفَّ وَکَفْکَفَ وَصَرَّاالرِّیْحُ وَصَرْصَرَ الْکَوَاکِبُ ظاہر ہونے والے ستارے،ستاروں کو کواکب اسی وقت کہا جاتا جب نمودار اور ظاہر ہوں۔قرآن پاک میں ہے۔ (فَلَمَّا جَنَّ عَلَیۡہِ الَّیۡلُ رَاٰ کَوۡکَبًا) (۶۔۷۶) (یعنی) جب رات نے ان کو (پردۂ تاریکی سے) ڈھانپ لیا (تو آسمان میں ) ایک ستارہ نظر پڑا۔ (کانھا …… دری) (۲۴۔۳۵) گویا وہ موتی کا سا چمکتا ہوا تارا ہے۔ (اِنَّا زَیَّنَّا السَّمَآءَ الدُّنۡیَا بِزِیۡنَۃِۣ الۡکَوَاکِبِ ) (۳۷۔۶) بے شک ہم نے آسمان دنیا کو ستاروں کی زینت سے مزین کیا۔ (وَ اِذَا الۡکَوَاکِبُ انۡتَثَرَتۡ ۙ) (۸۲۔۲) اور جب (آسمان کے) ستارے جھڑپڑیں گے۔محاورہ ہے۔ (ذَھَبُوْا تَحْتَ کُلِّ کَوْکَبٍ: وہ منتشر ہوگئے۔کَوْکَبُ الْعَسْکَرِ لشکر میں اسلحہ کی چمک۔

Words
Words Surah_No Verse_No
فَكُبْكِبُوْا سورة الشعراء(26) 94