اَلَجَذْوَۃُ وَالْجُذْوَۃُ: (انگارہ) جلنے اور شعلہ ختم ہوجانے کے بعد جو ایندھن باقی رہ جاتا ہے، اسے جَذْوَۃَ کہا جاتا ہے۔ ج جِذیً وجُذیً۔ قرآن پاک میں ہے: (اَوۡ جَذۡوَۃٍ مِّنَ النَّارِ ) (۲۸:۲۹) یا آگ کا انگارہ۔ خلیلؒ نے کہا ہے کہ جَذَا اور جَشَا ہم معنی ہیں یعنی چمٹ جانا، مگر جَذَا میں شدت لزوم کے معنی پائے جاتے ہیں۔ چنانچہ محاورہ ہے: جَذَا الْقُرَادُ فِیْ جنْبِ الْبَعِیْرِ۔ کہ چچڑی اونٹ کے پہلو میں سختی کے ساتھ چمٹ گئی۔ اَجْذَتِ (افعال) الشَّجَرَۃُ درخت کا جڑ پکڑ لینا۔ حدیث میں ہے۔ (1) (۶۰) کَمَثَلِ الْاَرْزَۃِ الْمُجْذِیَّۃِ۔ اس کی مثال مضبوط جڑ والے صنوبر کے درخت کی ہے، (یعنی جو ہوا کے جھکولوں سے ادھر اُدھر نہیں جھکتا) ۔ رَجُلٌ جَاذٍ: مرد کوتاہ دست و کوتاہ ارش۔ مؤنث جَاذِیَۃٌ: کوتاہ ہونے میں اس کے دونوں ہاتھ گویا پارۂ آتش ہیں۔
Words | Surah_No | Verse_No |
جَذْوَةٍ | سورة القصص(28) | 29 |