اَثْلٌ (جھاؤ کا درخت) قرآن میں ہے : (ذَوَاتَیۡ اُکُلٍ خَمۡطٍ وَّ اَثۡلٍ وَّ شَیۡءٍ مِّنۡ سِدۡرٍ قَلِیۡلٍ ) (۳۴:۱۶) ’’یعنی دو ایسے باغ دئیے‘‘ جن کے میوے بدمزہ اور جھاؤ اور کچھ سبزیاں تھیں اَثْل۔ یعنی وہ درخت جس کی جڑ خوب مضبوط ہو اسی سے شَجَرٌ مُتَاثِّلٌ کا محاورہ ہے یعنی وہ درخت جس کی جڑ اثل کی طرح مضبوط ہو۔ تَاَثَّلَ کَذَا وہ چیز اثل کی طرح مضبوطی سے جم گئی اس نے جڑ پکڑ لی او رآنحضرت ﷺ کا وَصِیّ کے متعلق (غَیْرَ مُتَأَثِّلٍ ماَ لا) (۵) فرمایا ہے(1) (یعنی یتیم کے مال سے بقدر ضرورت لے اور ذخیرہ اندوزی نہ کرے) یہ مال کے اذخار اور اقتناء سے کنایہ ہے او راسی سے بطور استعارہ نَحَتَّ اَثْلَتَہٗ کا محاورہ استعمال ہوتا ہے جس کے معنی غیبت اور بدگوئی کرنا کے ہیں۔
Words | Surah_No | Verse_No |
وَّاَثْلٍ | سورة سبأ(34) | 16 |