اَلْقُفْلِ : تالہ جمع۔اَقفَالٌ محاورہ ہے : اَقْفَلْتُ البَابَ : میں نے دروازے کو قفل لگادیا اور تمثیل کے طور پر ہر اس چیز کو قفل کہا جاتا ہے جو کسی کام سے مانع اور رکاوٹ بنے۔چنانچہ محاورہ ہے۔فُلَانٌ مُقْفَلٌ عَنْ کَذا) : فلاں کو اس کام سے روک دیا گیا ہے قرآن پاک میں ہے : (اَمۡ عَلٰی قُلُوۡبٍ اَقۡفَالُہَا) (۴۷۔۲۴) یا انکے دلوں پر قفل لگ رہے ہیں۔اور کنجوس آدمی کو جس طرح مغلول الیدین کہا جاتا ہے اسی طرح مَقْفُوْلُ الیَدَینِ بھی کہہ دیتے ہیں۔اَلقَفُوْلُ : سفر سے واپس لوٹنا اور سفر سے واپس آنے والی جماعت کو قافلہ کہا جاتا ہے۔ اَلقَفِیْلُ : خشک چیز کو کہتے ہیں اس لئے کہ خشک ہونے کی وجہ سے اس کے اجزاء ایک دوسرے کی طرف لوٹ آتے ہیں اور یا اس لئے کہ صلابت کی وجہ سے گویا اس پر قفل لگ جاتا ہے۔محاورہ ہے : قَفَلَ النَّبَاتُ : نباتات خشک ہوگئی۔قَفَلَ الْفَحْلُ : مستی سے سانڈھ کا دبلا ہوجانا۔
Words | Surah_No | Verse_No |
اَقْفَالُهَا | سورة محمد(47) | 24 |