أ: الف بامعنی کی تین قسمیں ہیں۔ ایک وہ شروع کلام میں آتا ہے۔ دوسرا وہ جو وسط کلام میں واقع ہو۔ تیسرا وہ جو آخر کلام میں آئے۔ (۱) وہ الف جو شروع کلام میں آتا ہے۔ اس کی چند قسمیں ہیں: (۱) الف الْاِسْتِخْبَار اسے ہمزہ استفہام کہنے کے بجائے الف استخبار کہنا زیادہ صحیح ہوگا۔ کیونکہ اس میں عمومیت ہے جو استفہام و انکار نفی، تکبیت، (زجر و توبیخ) تسویہ سب پر حاوی ہے۔ چنانچہ معنی استفہام میں فرمایا: (اَتَجۡعَلُ فِیۡہَا مَنۡ یُّفۡسِدُ فِیۡہَا وَ یَسۡفِکُ الدِّمَآءَ ) (۲:۳۰) (انہوں نے کہا) کیا تو اس میں ایسے شخص کو نائب بنانا چاہتا ہے جو خرابیاں کرے اور کشت و خون کرتا پھرے اور تکبیت (1) یعنی سرزنش کبھی مخاطب کو ہوتی ہے اور کبھی غیر کو چنانچہ قسم اوّل کے متعلق) فرمایا : (۱) (اَذۡہَبۡتُمۡ طَیِّبٰتِکُمۡ ) (۴۶:۲۰) تم اپنی لذتیں حاصل کرچکے۔ (۲) (اَتَّخَذۡتُمۡ عِنۡدَ اللّٰہِ عَہۡدًا) (۲:۸۰) کیا تم نے خدا سے اقرار لے رکھا ہے؟(۳) (آٰلۡـٰٔنَ وَ قَدۡ عَصَیۡتَ قَبۡلُ ) (۱۰:۹۱) کیا اب (ایمان لاتاہے) حالانکہ تو پہلے نافرمانی کرتا رہا؟ اور غیر مخاطب کے متعلق فرمایا: (۴) (اَکَانَ لِلنَّاسِ عَجَبًا) (۱۰:۲) کیا لوگوں کے لیے تعجب خیز ہے؟ (۵) (اَفَا۠ئِنۡ مَّاتَ اَوۡ قُتِلَ ) (2) (۳:۱۴۴) تو کیا اگر یہ مرجائیں یا مارے جائیں؟ (۶) (اَفَا۠ئِنۡ مِّتَّ فَہُمُ الۡخٰلِدُوۡنَ ) (۲۱:۳۴) بھلا اگر تم مرگئے تو کیا یہ لوگ ہمیشہ رہیں گے؟ (۷) (ءٰٓالذَّکَرَیۡنِ حَرَّمَ اَمِ الۡاُنۡثَیَیۡنِ) (۶:۱۴۴) بتاؤ تو (خدا نے) دونوں نروں کو حرام کیا ہے یا دونوں مادوں کو۔ اور معنی تسویۃ (3) میں فرمایا : (سَوَآءٌ عَلَیۡنَاۤ اَجَزِعۡنَاۤ اَمۡ صَبَرۡنَا) (۱۴:۲۱) اب ہم گھبرائیں یا صبر کریں ہمارے حق میں برابر ہے۔ (سَوَآءٌ عَلَیۡہِمۡ ءَاَنۡذَرۡتَہُمۡ اَمۡ لَمۡ تُنۡذِرۡہُمۡ لَا یُؤۡمِنُوۡنَ ) (۲:۶) تم خواہ انہیں نصیحت کرو یا نہ کرو ان کے لیے برابر ہے، وہ ایمان نہیں لائیں گے۔ اور یہ الف (استخبار) کلام مثبت پر داخل ہو تو اسے نفی میں تبدیل کردیتا ہے۔ جیسے اَخَرَجَ (وہ باہر نہیں نکلا) کہ اس میں نفی خروج کے معنی پائے جاتے ہیں۔اس لیے کہ اگر نفی کے معنی نہ ہوتے تو اس کے اثبات کے متعلق سوال نہ ہوتا اور جب کلام منفی پر داخل ہو تو اسے مثبت بنادیتا ہے۔ کیونکہ کلام منفی پر داخل ہونے سے نفی کی نفی ہوئی۔ اور اس طرح اثبات پیدا ہوجاتا ہے۔ (4) چنانچہ فرمایا: (اَلَسۡتُ بِرَبِّکُمۡ ) (۷:۱۷۲) کیا تمہارا پروردگار نہیں ہوں؟ (یعنی ضرور ہوں) (اَلَیۡسَ اللّٰہُ بِاَحۡکَمِ الۡحٰکِمِیۡنَ ) (۹۵:۸) کیا خدا سب سے بڑا حاکم نہیں ہے؟ یعنی ضرور ہے۔ (اَوَ لَمۡ یَرَوۡا اَنَّا نَاۡتِی الۡاَرۡضَ ) (۱۳:۴۱) کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ ہم زمین کا بندوبست کرتے ہیں؟ (اَوَ لَمۡ تَاۡتِہِمۡ بَیِّنَۃُ ) (۲۰:۱۳۳) کیا ان کے پاس کھلی نشانی نہیں آئی۔ (اَوَ لَا یَرَوۡنَ ) (۹:۱۲۶) او رکیا یہ نہیں دیکھتے۔ (اَوَ لَمۡ نُعَمِّرۡکُمۡ ) (۳۷:۳۵) او رکیا ہم نے تم کو اتنی عمر نہیں دی؟ (۲) الف جو مضارع کے صیغہ واحد متکلم کے شروع میں آتا ہے اور ’’میں‘‘ کے معنی رکھتا ہے جیسے اَسْمَعُ وَاَبْصُرُ یعنی میں سنتا ہوں اور میں دیکھتا ہوں۔ (۳) ہمزۂ فعل امر خواہ قطعی ہو یا وصلی جیسے فرمایا: (اَنۡزِلۡ عَلَیۡنَا مَآئِدَۃً مِّنَ السَّمَآءِ ) (۵:۱۱۴) ہم اپر آسمان سے خوان نازل فرما۔ (رَبِّ ابۡنِ لِیۡ عِنۡدَکَ بَیۡتًا فِی الۡجَنَّۃِ ) (۶۶:۱۱) اے میرے پروردگار! میرے لیے بہشت میں اپنے پاس ایک گھر بنا۔ (۴) الف جو لام کے ساتھ معرفہ بنانے کے لیے آیا ہے جیسے فرمایا اَلْعَالَمِیْنَ (۱:۱) تمام جہانوں۔ (۵) الف نداء جیسے أَزَیْدُ (اے زید) (5) (ب) وہ الف جو وسط کلمہ میں آتا ہے اس کی پہلی قسم الف تثنیہ ہے، (مثلاً رَجُلَانِ) اور دوسری وہ جو بعض اوزان جمع میں پائی جاتی ہے، مثلاً مُسْلِمَاتٍ وَمَسَاکِیْنَ (ج) اب رہا وہ الف جو کلمہ کے آخر میں آتا ہے۔ وہ یا تو تانیث کے لیے ہوتا ہے جیسے حُبْلٰی اور بَیْضَآئُ میں آخری الف یا پھر تثنیہ میں ضمیر کے لیے جیساکہ اِذْھَبَا میں آخر کا الف ہے۔ وہ الف جو آیات قرآنی کے آخر میں کہیں بڑھایا دیا جاتا ہے، جیسے (وَ تَظُنُّوۡنَ بِاللّٰہِ الظُّنُوۡنَا ) (۳۳:۱۰) (فَاَضَلُّوۡنَا السَّبِیۡلَا ) (۳۳:۶۷) تو یہ کوئی معنوی اضافہ نہیں کرتا بلکہ محض لفظی اصلاح (اور صوتی ہم آہنگی) کے لیے آخر میں بڑھا دیا جاتا ہے (جیساکہ ابیات کے اواخر میں الف اشباع بڑھا دیتے ہیں۔)
Words | Surah_No | Verse_No |
اَفَبِھٰذَا | سورة الواقعة(56) | 81 |