Blog
Books
Search Quran
Lughaat

اَلْغَبْنُ (ض) کے معنی باہمی معاملہ میں پوشیدہ طور پر اپنے ساتھی کا حق مارنے کے ہیں(1) اگر یہ کمی مال وغیرہ میں ہو تو غَبَنَ فُلَانٌ کہا جاتا ہے اور اگر رائے وغیرہ میں ہو تو غَبِنَ کہتے ہیں اور غَبَنْتُ کَذَا غَبْنًا کے معنی کسی چیز سے غفلت برتنے کو خسارا خیال کرنے کے ہیں اور قرآن پاک میں (یَوۡمُ التَّغَابُنِ) (۶۴:۹) نقصان اٹھانے کا دن سے یَومْمُ الْقِیَامَۃِ مراد ہے کیونکہ قیامت کے روز اس مبایعت (معاملہ) میں جس کی طرف کہ آیت: (وَ مِنَ النَّاسِ مَنۡ یَّشۡرِیۡ نَفۡسَہُ ابۡتِغَآءَ مَرۡضَاتِ اللّٰہِ) (۲:۲۰۷) اور کوئی شخص ایسا ہے کہ خدا کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے اپنی جان بیچ ڈالتا ہے۔ (اِنَّ اللّٰہَ اشۡتَرٰی مِنَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ ) (۹:۱۱۱) الآیۃ خدا نے مومنوں سے ان کی جانیں اور ان کے مال خرید لیے ہیں۔ (الَّذِیۡنَ یَشۡتَرُوۡنَ بِعَہۡدِ اللّٰہِ وَ اَیۡمَانِہِمۡ ثَمَنًا قَلِیۡلًا ) (۳:۷۷) جو لوگ خدا کے اقراروں اور اپنی قسموں کو (بیچ ڈالتے ہیں اور ان) کے عوض تھوڑی قیمت حاصل کرتے ہیں۔ میں اشارہ فرمایا ہے نقصان ظاہر ہوگا اور انہیں معلوم ہوجائے گا کہ دنیا میں اس معاملہ کو جو انہوں نے اپنے اﷲ کے ساتھ کیا تھا، چھوڑ کر اس کی بجائے متاع دنیا حاصل کرکے انہوں نے کس قدر نقصان اٹھایا ہے کسی سے دریافت کیا گیا کہ قرآن پاک میں قیامت کو یَوْمُ التَّغَابُنِ کیوں کہا گیا ہے تو انہوں نے جواب دیا کیونکہ وہاں ان مقادیر (پیمانوں) کے خلاف اشیاء کا ظہور ہوگا جن کے مطابق وہ دنیا میں اندازہ لگایا کرتے تھے۔ بعض مفسرین نے کہا ہے کہ اصل میں غَبْنٌ کے معنی کسی چیز کو چھپانے کے ہیں اور اَلْغَبَنُ (بفتح الباء) اس جگہ کو کہتے ہیں جہاں کوئی چیز چھپائی جائے اور دلیل میں یہ شعر پیش کیا ہے۔(2) (المنسرح) (۳۲۷) وَلَمْ اَرَمِثْلَ الْفِتیَانِ فِیْ غَبَنِ الرَّأیِ یُنْسٰی عَوَاقِبُھَا اس رائے کے چھپانے میں نوجوانوں جیسا کوئی نہیں دیکھا جس کے نتائج کو بھلا دیا جائے۔ چنانچہ مڑنے والے اعصاء جیسے بغل اور کنج ران وغیرہ کو مغابن کہا جاتا ہے کیونکہ اعضاء کے یہ حصے بھی پوشیدہ رہتے ہیں اور (نفاست پسند) عورت کو طَیِّبَۃُ الْمَغَابِنِ کہا جاتا ہے۔

Words
Words Surah_No Verse_No
التَّغَابُنِ سورة التغابن(64) 9