اَلْحَرَسُ وَالْحُرَّاسُ: (جمع) پاسبان۔ اس کا واحد حَارِسٌ ہے (1) قرآن پاک میں ہے: (فَوَجَدۡنٰہَا مُلِئَتۡ حَرَسًا شَدِیۡدًا) (۷۲:۸) تو اس کو مضبوط چوکیداروں …… سے بھرا ہوا پایا۔ اَلْحَرْسُ: (ض) اور اَلْحِرْزُ کے جس طرح الفاظ ملتے جلتے ہیں ایسے ہی ان کے معنیٰ بھی قریب قریب ایک ہی ہیں ان میں فرق صرف اتنا ہے کہ حِرْزٌ کا استعمال زیادہ تر نقدی اور سامان کی حفاظت کے لئے آتا ہے۔ شاعر نے کہا ہے۔ (2) (الکامل) (۱۰۴) فَبَقِیْتُ حَرْساً قَبْلَ مَجْرَی دَاحِسٍ لَو کَانَ لِلنَّفْسِ اللَّجُوْجِ خُلُودُ میں داحس کی دوڑ سے پہلے اس کی حفاظت کرتا رہا کاش سرکش نفس کے لئے ہمیشہ رہنا ہوتا۔ بعض نے کہا یہ کہ شعر میں حَرْساً کے معنیٰ دَھْراً کے ہیں۔ ہم کہتے ہیں کہ اگر صرف اس شعر کی بنا پر حرس کے معنیٰ زمانہ کئے گئے ہیں تو یہ صحیح نہیں ہے کیونکہ شعر مذکور میں ہوسکتا ہے کہ حرس مصدر بمعنی فاعل موضع حال میں ہو ای بقیت حَارِساً: اب رہا اس کا زمانہ یا مدت کے معنیٰ پر دلالت کرنا تو یہ لفظ حرس کے اصل معنیٰ نہیں ہیں بلکہ مقتضائے کلام سے مفہوم ہوتے ہیں۔ اَحْرَسَ: صاحب حراست ہونا۔ (اس میں صاحب مآخذ ہونے کے معنیٰ پائے جاتے ہیں جیساکہ باب افعال کا خاصہ ہے۔ حَرِیْسَۃُ الْجَبَلِ: وہ مال جو رات کے وقت پہاڑ میں حفاظت کے لئے رکھا جاتا ہے۔ (3) ابوعبیدہ کا قول ہے کہ الحریسۃ بمعنیٰ مَحْرُوسۃ ہے نیز اَلْحَرِیسیۃ بمعنیٰ مسروقۃ بھی آجاتا ہے یعنی چوری کیا ہوا مال اور اس معنیٰ میں باب حَرس (ض) یَحْرِس حَرْساً آتا ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ لفظ اَلْحَرِیسۃ سے بنا ہے کیونکہ اہل عرب سے الحریسیۃ کے بمعنیٰ سَرْقہ یعنی چوری بھی منقول ہے۔
Words | Surah_No | Verse_No |
حَرَسًا | سورة الجن(72) | 8 |