اَلْکَفْتُ: (ض) کسی چیز کو جمع کرکے اسے قبضہ میں لے لینے کے ہیں۔قرآن پاک میں ہے: (اَلَمۡ نَجۡعَلِ الۡاَرۡضَ کِفَاتًا …… اَحۡیَآءً وَّ اَمۡوَاتًا) (۷۷۔۲۵۔۲۶) کیا ہم نے زمین کو سمیٹنے والی نہیں بنایا۔یعنی زندوں اور مردوں کو۔یعنی زمین تمام مردوں اور زندوں کو سمیٹے ہوئے ہے اور بعض نے کہا ہے کہ احیاء سے مراد انسان،حیوان اور نباتات ہیں اور اموات سے جمادات بعض نے ’’کفاتٗٗکے معنی تیزی سے اڑنا بھی کیے ہیں لیکن اصل میں اس کے معنی اڑنے کے لئے پروں کو سمیٹنا کے ہیں جیسا کہ قرآن پاک میں ہے: (اَوَ لَمۡ یَرَوۡا اِلَی الطَّیۡرِ فَوۡقَہُمۡ صٰٓفّٰتٍ وَّ یَقۡبِضۡنَ) (۶۷۔۱۹) کیا انہوں نے اپنے سروں پر اڑتے جانوروں کو نہیں دیکھا جو پروں کو پھیلائے رہتے ہیں اور سیکٹر بھی لیتے ہیں۔تو یہاں قبض کا لفظ ایسے ہی ہے جیسا کہ اوپر کی آیت میں کِفَاتٌ کا لفظ ہے۔اَلْکَفْتُ کے معنی تیز ہانکنا بھی آتے ہیں اور قبض کی طرح کفت کا لفظ بھی اونٹوں کے ہنکانے پر بولا جاتا ہے چنانچہ قبض الراعی الابل کے معنی ان کو تیز ہانکنے کے ہیں اور منتظم چرواہے کو راعی قبضتہ کہا جاتا ہے اور (کَفَتَ اﷲُ فُلَانًا اِلٰی نَفْسِہ) (اﷲ تعالیٰ نے اس کی روح قبض کرلی) قبضہ کے ہم معنی ہے۔حدیث میں ہے۔ (1) ۔ (۹۸) (اِکْفِتُوْ صِبْیَانکُمْ بِاللَّیْلِ) رات کو اپنے بچوں کو اپنے گھروں میں بند رکھو۔
Words | Surah_No | Verse_No |
كِفَاتًا | سورة المرسلات(77) | 25 |