لَفَفْتُ الشَّیْ ئَ لَفَّا کے معنی ایک چیز کو دوسری چیز کے ساتھ ملا دینے اور مد غم کردینے کے ہیں۔ قرآن پاک میں ہے: (جِئۡنَا بِکُمۡ لَفِیۡفًا) (۱۷۔۱۰۴) اور ہم تم سب کو جمع کرکے لے آئیں گے۔ اور محاورہ ہے: جَائُ وْاوَمَنْ لَفَّ لَفَّھُمْ: یعنی وہ اور ان کے سب متعلقین آئے۔ اور آیت کریمہ: (وَجَنّٰتٍ اَلفَافاً) (۷۸۔۱۶) اور گھنے گھنے باغ الفاف سے ایک دوسرے سے متصل گھنے اور گنجان درختوں والے باغیچے مراد ہیں۔ اِلتفَّ ایک چیز کا دوسری سے لپٹ جانا قرآن پاک میں ہے: اَلاَلَفُّ : وہ آدمی جس کی رانیں موٹاپے کی وجہ سے باہم ملی ہوئی ہوں اور بہت زیادہ بھاری جسم اور سست آدمی کو بھی اَلَفُّ کہا جاتا ہے ۔ لَفَّ راسَہ : اس نے اپنے سر کو (کپڑوں.... میں ) چھپالیا۔ اَللَّفِیْفُ: مختلف قبائل کے ایک جگہ جمع ہونے والے لوگ اور خلیل نے ہر اس کلمے کا نام لفیف رکھا ہے جس کے حروف اصلی میں سے دو حروف علت ہوں۔
Words | Surah_No | Verse_No |
اَلْفَافًا | سورة النبأ(78) | 16 |
لَفِيْفًا | سورة بنی اسراءیل(17) | 104 |
وَالْتَفَّتِ | سورة القيامة(75) | 29 |