قرآن مجید میں ہے: (رِحۡلَۃَ الشِّتَآءِ وَ الصَّیۡفِ ) (۱۰۶:۲) (یعنی) ان کو جاڑے اور گرمی کے سفر سے مانوس کرنے کے سبب۔ اور شَتّٰی اور اَشْتٰی کے معنیٰ کسی جگہ موسم سرما گزارنے یا موسم سرما میں داخل ہونے کے ہیں۔ جیسے صَافَ وَاَصَافَ کے معنیٰ موسم گرما گزارنے یا موسم گرما میں داخل ہونے کے ہوتے ہیں۔ اَلْمَشْتٰی وَالْمَشْتَا (جاڑے کا زمانہ) اسم ظرف ہے اور کبھی مصدر بن کر بھی استعمال ہوتا ہے۔ شاعر نے کہا ہے: (1) (۲۵۳) نَحْنُ فِی الْمَشْتَاۃِ تَدْعُوْا الْجَفَلٰی ہم موسم سرما یعنی قحط سالی میں دعوتِ عام دیتے ہیں۔
Words | Surah_No | Verse_No |
الشِّتَاۗءِ | سورة قريش(106) | 2 |