اَلْبَتْرُ : یہ قریباً بَتْکٌ کے ہم معنی ہے مگر خاص کر دُم کے قطع کرنے پر بولا جاتا ہے۔ پھر جازاً قطع نسل کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے۔ اور اَبْتَر اس شخص پر بولا جاتا ہے جس کی موت کے بعد اس کا خلف نہ ہو اور اَبْتَر یا اَباتِر وہ ہے جس کا ذکر خیر باقی نہ رہے، نیز (رَجُلٌ اَبَاتِرُ) قاطع رحم اور جس خطبہ کے شروع میں حمدوثنا نہ ہو اسے بھی مجازاً خُطْبَۃٌ بَتْرَاء کہا جاتا ہے چنانچہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا ہے(1) (کُلُّ اَمْرٍ لَا یُبْدَئُ فِیْہِ بِذِکْرِاﷲِ فَھُوَ اَبْتَرُ) (۱۷) ہر وہ کام جس کے شروع میں اﷲ کا نام نہ لیا جائے وہ اَبْتَر ہے۔ اور آیت کریمہ: (اِنَّ شَانِئَکَ ہُوَ الۡاَبۡتَرُ ٪) (۱۰۸:۳) میں اَبْتَرْ کے معنی یہ ہیں کہ تیرے مخالف کا ذکر خیر باقی نہیں رہے گا۔ جب کفار نے طعنہ دیا کہ محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کی موت کے ساتھ ہی اس کا نام و نشان منقطع ہوجائے گا۔ کیونکہ اس کی نسل (اولاد) نہیں ہے اور اﷲ تعالیٰ نے متنبیہ کیا کہ تمہارا بداندیش ہی مقطوع النسل رہے گا، آپؐ کو تو اﷲ تعالیٰ نے (وَ رَفَعۡنَا لَکَ ذِکۡرَکَ ؕ) (۹۴:۴) کا مقام بخشا ہے، کیونکہ جملہ مؤمنین آپ کی اولاد ہیں اور اﷲتعالیٰ نے ان کو آپ کے اور آپ کے دین کے محافظ مقرر کردیا ہے۔ چنانچہ اسی معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے حضرت علیؓ نے فرمایا ہے(2) (۲۰) اَلْعُلَمَاء بَاقُوْنَ مَا بَقِی الدَّھْرُ، اَعْیَانُھُمْ مَفْقُوْدَۃٌ وَآثَارُھُمْ فِی الْقُلُوْبِ مَوْجُوْدَۃٌ۔ علماء تیاقیامت باقی رہیں گے ان کے اجسام مفقود ہوتے جاتے یہں، مگر ان کے آثار لوگوں کے دلوں پر ثبت رہتے ہیں۔ جب علماء کو یہ فضیلت حاصل ہے جو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے متبعین سے ہیں تو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی شان تو اس سے کہیں بلند ہے اور کیوں نہ ہو جبکہ اﷲ تعالیٰ نے آپ کو ’’رفع ذکر‘‘ کا شرف بخشا ہے اور آپ کو خاتم الانبیاء قرار دیا ہے۔ صلی اﷲ علیہ وعلیھم افضل الصلاۃ والسلام۔
Words | Surah_No | Verse_No |
الْاَبْتَرُ | سورة الکوثر(108) | 3 |