7۔ 1 یعنی انسان خود بھی اپنی ناشکری کی گواہی دیتا ہے۔ بعض لشہید کا فاعل اللہ کو قرار دیتے ہیں۔ لیکن امام شوکانی نے پہلے مفہوم کو راجح قرار دیا ہے، کیونکہ مابعد کی آیات میں ضمیر کا مرجع انسان ہی ہے۔ اس لیے یہاں بھی انسان ہی ہونا زیادہ صحیح ہے۔
[٧] دوسری بات جس پر اللہ تعالیٰ نے قسم کھائی یہ ہے کہ انسان اپنی آنکھوں سے دیکھتا ہے کہ گھوڑا اپنے مالک کا اتنا وفادار ہوتا ہے کہ وہ اس کی خاطر لڑائی کے میدان میں جا گھستا ہے۔ جہاں ہر طرف قتل و غارت ہو رہی ہوتی ہے۔ اور بسا اوقات وہ اپنے مالک کی جان بچانے کی خاطر اپنی جان خطرے میں ڈال دیتا ہے۔ مگر انسان ایسا نمک حرام واقع ہوا ہے کہ اپنے مالک اور رازق کے لیے جان و مال کی قربانی تو درکنار، وہ اپنے پروردگار کا شکر تک ادا نہیں کرتا بلکہ الٹا اس کے شکوے شکایت کرتا رہتا ہے۔
آیت ٧ وَاِنَّہٗ عَلٰی ذٰلِکَ لَشَہِیْدٌ ۔ ” اور وہ خود اس پر گواہ ہے۔ “- وہ اپنے اس طرزعمل سے خوب واقف ہے۔ جیسا کہ سورة القیامہ میں فرمایا گیا : بَلِ الْاِنْسَانُ عَلٰی نَفْسِہٖ بَصِیْرَۃٌ ۔ کہ انسان اپنے خیالات ‘ جذبات اور کردار کے بارے میں خود سب کچھ جانتا ہے۔ چناچہ انسان خوب جانتا ہے کہ وہ قدم قدم پر اپنے رب کی ناشکری کا مرتکب ہو رہا ہے۔
سورة العدیات حاشیہ نمبر : 5 یعنی اس کا ضمیر اس پر گواہ ہے ، اس کے اعمال اس پر گواہ ہیں ، اور بہت سے کافر انسان خود اپنی زبان سے علانیہ ناشکری کا اظہار کرتے ہیں ، کیونکہ ان کے نزدیک خدا ہی سرے سے موجود نہیں کجا کہ وہ اپنے اوپر اس کی کسی نعمت کا اعتراف کریں اور اس کا شکر اپنے ذمے لازم سمجھیں ۔
2: یعنی اس کا طرز عمل گواہی دیتا ہے کہ وہ ناشکرا ہے۔