مشرکین الگ اور موحدین الگ: اس سورہ مبارکہ میں مشرکین کے عمل سے بیزاری کا اعلان ہے اور اللہ کی عبادت کے اخلاص کا حکم ہے گو یہاں خطاب مکہ کے کفار قریش سے ہے لیکن دراصل روئے زمین کے تمام کافر مراد ہیں اس کی شان نزول یہ ہے کہ ان کارفوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سے کہا تھا کہ ایک سال آپ ہمارے معبودوں کی عبادت کریں تو اگلے سال ہم بھی اللہ کی عبادت کریں گے اس پر یہ سورت نازل ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی برحق صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حکم دیا کہ ان کے دین سے اپنی پوری بیزاری کا اعلان فرما دیں کہ میں تمہارے ان بتوں کو اور جن جن کو تم اللہ کا شریک مان رہے ہو ہرگز نہ پوجوں گا گو تم بھی میرے معبود برحق اللہ وحدہ لا شریک لہ کو نہ پوجو پس ما یہاں پر معنی میں من کے ہے پھر دوبارہ یہی فرمایا کہ میں تم جیسی عبادت نہ کروں گا تمہارے مذہب پر میں کاربند نہیں ہو سکتا نہ میں تمہارے پیچھے لگ سکتا ہوں بلکہ میں تو صرفاپنے رب کی عبادت کروں گا اور وہ بھی اس طریقے پر جو اسے پسند ہو اور جیسے وہ چاہے اسی لیے فرمایا کہ نہ تم میرے رب کے احکام کے آگے سر جھکاؤ گے نہ اس کی عبادت اس کے فرمان کے مطابق بجا لاؤ گے بلکہ تم نے تو اپنی طرف سے طریقے مقرر کر لیے ہیں جیسے اور جگہ ہے ان یتبعون الا الظن الخ یہ لوگ صرف وہم و گمان اور خواہش نفسانی کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں حالانکہ ان کے پاس ان کے رب کی طرف سے ہدایت پہنچ چکی ہے پس جناب نبی اللہ احم دمجتبیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہر طرح اپنا دامن ان سے چھڑا لیا اور صاف طور پر ان کے معبودوں سے اور ان کی عبادت کے طریقوں سے علیحدگی اور ناپسندیدگی کا اعلان فرما دیا ظاہر ہے کہ ہر عابد کا معبود ہو گا اور طریقہ عبادت ہو گا پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کی امت صر فاللہ ہی کی عبادت کرتے ہیں اور طریقہ عبادت ان کا وہ ہے جو سرور رسل صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تعلیم فرمایا ہے اسی لیے کلمہ اخلاص لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ ہے یعنی اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور اس کا راستہ وہی ہے جس کے بتانے والے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہویں جو اللہ کے پیغمبر ہیں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور مشرکین کے معبود بھی اللہ کے سوا غیر ہیں اور طریقہ عبادت بھی اللہ کا بتلایا ہوا نہیں اسی لیے فرمایا کہ متہارا دین تمہارے لیے میرا میرے لیے جیسے اور جگہ ہے وان کذبوک فقل لی عملی ولکم عملکم انتم بریون مما اعمل وانا بری مما تعملون یعنی اگر یہ تجھے جھٹلائیں تو تو کہہ دے کہ میرے لیے میرا عمل اور تمہارے لیے متہارا عمل ہے تم میرے اعمال سے الگ ہو اور میں تمہارے کاموں سے بیزار ہوں اور جگرہ فرمایا لنا اعمالنا ولکم اعمالکم ہمارے عمل ہمارے ساتھ اور تمہارے تمہارے ساتھ صحیح بخاری شریف میں اس آیت کی تفسیر میں ہے تمہارے لیے متہارا دین ہے یعنی کفر اور میرے لیے میرا دن ہے یعنی اسلام یہ لفظ اصل میں دینی تھا لیکن چونکہ اور آیتوں کا وقف نون پر ہے اس لیے اس میں بھی یا کو حذف کر دیا جیسے فھوا یھدین میں اور یسقین میں بعض مفسرین نے کہا ہے مطلب یہ ہے کہ میں اب تو تمہارے معبودوں کی پرستش کرتا نہیں اور آگے کے لیے بھی تمہیں ناامید کر دیتا ہوں کہ عمر بھر میں کبھی بھی یہ کفر مجھ سے نہ ہو سکے گا اسی طرح نہ تم اب میرے اللہ کو پوجتے ہو نہ آئندہ اس کی عبادت کرو گے اس سے مراد وہ کفار ہیں جن کا ایمان نہ لانا اللہ کو معلوم تھا جیسے قرآن میں اور جگہ ہے ولیزیدن کثیرا منھم ما انزل الیک من ربک طغیانا وکفرا یعنی تیری طرف جو اترتا ہے اس سے ان میں سے اکثر تو سرکشی اور کفر میں بڑھ جاتے ہیں ابن جرری نے بعض عربی دان حضرات سے نقل کیا ہے کہ وہ مرتبہ اس جملے کا لانا صرف تاکید کے لیے ہے جیسے فان مع العسر یسرا ان معالعسر یسرا میں اور جیسے لترون الجحیم ثم لترونھا عین الیقین پس ان دونوں جملوں کو دو مرتبہ لانے کی حکمت میں یہ تین قول ہوئے ایک تو یہ کہ پہلے جملے سے مراد معبود دوسرے سے مراد طریق عبادت دوسرے یہ کہ پہلے جملے سے مراد حال دوسرے سے مراد استقبال یعنی آئندہ تیسرے یہ کہ پہلے جملے کی تاکید دوسرے جملے سے ہے لیکن یہ یاد رہے کہ یہاں ایک چوتھی توجیہ بھی ہے جسے حضرت امام ابن تیمیہ اپنی بعض تصنیفات میں قوت دیتے ہیں وہ یہ کہ پہلے تو جملہ فعلیہ ہے اور دوبارہ جملہ اسمیہ ہے تو مراد یہ ہوئی کہ نہ تو میں غیر اللہ کی عبادت کرتا ہو نہ مجھ سے کبھی بھی کوئی امید رکھ سکتا ہے یعنی واقعہ کی بھی نفی ہے اور شرعی طور پر ممکن ہونے کا بھی انکار ہے یہ قول بھی ہت اچھا ہے واللہ اعلم حضرت امام ابو عبداللہ شافعی کررحمۃ اللہ علیہ نے اس آیت سے استدلال کیا ہے کہ کفر ایک ہی ملت ہے اس لیے یہود نصرانی کا اور نصرانی یہود کا وارث ہوس کتا ہے جبکہ ان دونوں میں سنب یا سبب ورثے کا پایا جائے اس لیے کہ اسلام کے سوا کفر کی جتنی راہیں ہیں وہ سب باطل ہونے میں ایک ہی ہیں حضرت امام احمد رحمۃ اللہ علیہ اور ان کے موافقین کا مذہب اس کے برخلاف ہے کہ نہ یہودی نصرانی کا وارث ہو سکتا ہے نہ نصرانی یہود کا کیونکہ حدیث ہے دو مختلف مذہب والے آپس میں ایک دوسرے کے وارث نہیں ہو سکتے سورہ کافرون کی تفسیر ختم ہوئی فالحمد اللہ احسانہ ۔
1۔ 1 الکفرون میں الف لام جنس کے لیے ہے لیکن بطور خاص صرف ان کافروں سے خطاب ہے جن کی بابت اللہ کو علم تھا کہ ان کا خاتمہ کفر و شرک پر ہوگا۔ کیونکہ اس سورت کے نزول کے بعد کئی مشرک مسلمان ہوئے اور انہوں نے اللہ کی عبادت کی (فتح القدیر)
(قل یھا الکفرون…: طبرانی اور تفسیر ابن ایب حاتم وغیرہ میں عبداللہ بن عباس (رض) سے جو معبودوں کو برا کہنا چھوڑ دو ، اس طرح ہم اور تم مل جل کر مکہ میں رہیں، اگر تم ایسا نہیں کرتے تو ایک سال تم ہمارے بتوں کو پوجا کرلیا کرو، دوسرے سال ہم تمہارے الہ کی بندگی کرلیا کریں گے، تو اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ سورت نازل فرمائی۔ اگرچہ اس شان نزول کی روایت کی سند میں ایک شخص ابوخلف عبداللہ ضعیف ہے، لیکن آیت :(قل افغیر اللہ تامرونی اعبدایھا الجھلون) (الزمر : ٦٣) (کہہ دے پھر کیا اللہ کے غیر کے بارے میں تم مجھے حکم دیتے ہو کہ میں اس کی عبادت کروں اے جاہلو ) کے مضمون سے اس شان نزول کی تائید ہوتی ہے، کیونکہ قریش کی جس فرمائش کا ذکر اس شان نزول کی روایت میں ہے، آیت کے ممضون سے معلوم ہوتا ہے کہ قریش نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس قسم کی فرمئاش ضرور کی تھی۔ (احسن التفاسیر)- (٢) صحیح مسلم میں جابر بن عبدا للہ (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے طواف کی دو رکعتوں میں سورة اخلاص اور سورة کافرون پڑھیں۔ (مسلم، الحج، باب حجۃ النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) : ١٢١٨) صحیح مسلم ہی میں ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ دونوں سورتیں یعنی سورة کافرون اور سورة اخلاص فجر کی دو رکعتوں (سنتوں) میں پڑھیں۔ (مسلم صلاۃ المسافرین کافرون پڑھا کرتے تھے۔ (دیکھیے ترمذی، الوتر، باب ما جاء فی ما یقرآبہ فی الوتر : ٣٦٢، وصحجہ الالبانی)- (٣) سورت کا مضمون یہ ہے کہ ساری دنیا کے کافروں کو سنا دو کہ مسلمان غیر اللہ کی عبادت کسی صورت نہیں کرسکتے، اس مسئلے پر سمجھوتے کی کوئی گنجائش نہیں۔- (٤) تکرار کی حکمت :(١) بہت سے اہل علم نے فرمایا کہ آیات میں تکرار تاکید کے لئے ہے کہ مسلمان کسی صورت بھی توحید کے متعلق کفار سے سمجھوتہ نہیں کرسکتے اور یہ کلام عرب اور قرآن مجید کا عام اسلوب ہے، جیسے فرمایا :(کلاسیعلمون ، ثم کلا سیعلموکن) (النبا : ٣، ٥)” ہرگز نہیں، عنقریب وہ جانلیں گے۔ پھر ہرگز نہیں، عنقریب وہ جان لیں گے۔ “ اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فاطمہ (رض) کی موجودگی میں علی (رض) عنہماکو دوسرے نکاح کی اجازت کے متعلق فرمایا :(فلا اذن، ثم لا اذن، ثم لا اذن) (بخاری، النکاح، باب ذب الرجل عن ابنہ فی د : ٥٢٣٠” میں اس کی اجازت نہیں دیتا، پھر اس کی اجازت نہیں دیتا، پھر میں اس کی اجازت نہیں دیتا۔ “ اسی طرح سورة رحمان اور مرسلات میں آیات کا بار بار تکرار ہے۔ یہاں تکرار کا مقصد یہ ہے کہ یہ کبھی ممکن ہی نہیں کہ میں توحید کا راستہ چھوڑ کر شرک کا راستہ اختیار کرلوں اور نہ یہ ممکن ہے کہ تم کافر رہتے ہوئے غیر اللہ کی عبادت کو یکسر ترک کر کے ایک اللہ کی عبادت پر قانع ہوجاؤ۔ شوکانی نے تکرار تاکید کے لئے ہونے کے علاوہ دوسری توجیہات کو تکلف قرار دیا ہے۔- (٢) بخاری (رح) نے (ابوعبیدہ سے) یہ تفسیر قنل فرمائی ہے کہ آیت :(لا اعبد ماتعبدون) کا مطلب ہے کہ میں اب موجودہ وقت میں اس کی عبادت نہیں کرتا، جس کی تم کرتے ہو اور آیت :(ولا انا عابد ما عبدثم) کا مطلب یہ ہے کہ آئندہ بھی جب تک میں زندہ ہوں کبھی اس کی عبادت نہیں کروں گا جس کی تم نے عبادت کی ہے۔ اسی طرح کفار کے متعلق فرمایا کہ نہ اب زمانہ حلا یمں تم اس (اکیلے اللہ) کی عبادت کرنے والے ہو جس کی میں عبادت کرتا ہوں اور نہ آئندہ زمانہ استقبال میں۔ اس پر ایک سوال ہے کہ کافروں کے متعلق کیسے فرمایا کہ وہ آئندہ ایک اللہ کی عبادت نہیں کریں آئندہ زمانہ استقبال میں۔ اس پر ایک سوال ہے کہ کافروں کے متعلق کیسے فرمایا کہ وہ آئندہ ایک اللہ کی عبادت نہیں کریں گے، ہوسکتا ہے آئندہ وہ مسلمان ہوجائیں اور فی الواقع بیشمار کافر مسلمان ہوئے بھی ہیں ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ کافر رہتے ہوئے یہ ممکن نہیں کہ وہ ایک اللہ کی عبادت کریں، مسلمان ہوجائیں تو الگ بات ہے۔ دوسرا جو بخاری (رح) نے ذکر فرمایا ہے کہ اس سے مراد وہ لوگ ہیں کہ آیات سن کر ان کے کفر میں اضافہ ہی ہوتا ہے، ایمان ان ک قسمت میں نہیں جیسا کہ فرمایا :(ولیزیدن کثیراً منھم ما انزل الیک من ربک طغیاناً و کفراً ) (المائدۃ : ٦٨)” اور یقینا جو کچھ تیری طرف تیرے رب کی جانب سے نازل کیا گیا ہے وہ ان میں سے بہت سے لوگوں کو سرکشی اور کفر میں ضرور پڑھا دے گا۔ “ بخاری (رح) کے الفاظ یہ ہیں :” وقال غیرہ :(لا اعبد ماتعبدون) الان ولا اجیبکم فیما بقی من عمری (ولا انتم عبدون ما اعبد) وھم الذی قال :(ولیزیدن کثیراً منھم ما انزل الیک من ربک طغیانًا وکفراً (المائدۃ : ٦٨)” بخاری، التفسیر، سورة (قل یایھا الکافرون) (قبل ج : ٣٩٦٨) مطلب وہی ہے جو اوپر بیان ہوا۔- (٢) حافظ ابن کثیر (رح) نے اس معنی کو ترجیح دی ہے کہ پہلی دو آیت ا میں ” ما “ موصولہ ہے اور دوسری دو میں مصدریہ ۔ معنی یہ ہوگا کہ میں اس چیز کی عبادت نہیں کرتا جس کی تم کرتے ہو (یعنی معبود ان باطلہ کی) اور تم اس کی عبادت نہیں کرتے جس کی میں کرتا ہوں (یعنی ایک اللہ کی) اور نہ میں وہ عبادت کرنے والا ہوں جو تم کرتے ہو (یعنی جس طرح تم تالیاں اور سیٹیاں بجا کر ذکر کرتے ہو اور کپڑے اتار کر ننگے ہو کر طواف کرتے ہو، میں اس طرح عبادت نہیں کرتا) اور نہ تم وہ عبادت کرنے والے ہو جو میں کرتا ہوں، یعنی صرف اللہ کے بتائے ہوئے طریقے پر عبادت کرو، تم ایسا کرنے کے لئے تیار نہیں۔- (٤) حافظ ابن تیمیمہ (رح) نے فرمایا ” لا اعبد ماتعبدون “ جملہ فعلیہ ہے، اس کا معنی ہے کہ نہ میں اس کی عبادت کرتا ہوں جس کی تم کرتے ہو اور ” ولا انا عابد ما عبدثم “ جملہ اسمیہ ہے، جس میں نفی کی تاکید زیادہ ہے، یعنی میری شان ہی نہیں اور نہ کسی وقت مجھ سے ممکن ہے کہ (رسول ہوتے ہوئے) شرک کا ارتکاب کروں۔ یعنی نہ مجھ سے یہ فعل واقع ہوا ہے اور نہ مجھ سے اس کا شرعی امکان ہے۔” ماعبدثم “ ماضی شاید اس لئے فرمایا کہ میری نبوت سے پہلے بھی تم نے جو شرک کیا اس وقت بھی وہ میرے لائق نہیں تھا، نہ میں نے اس وقت یا بعد میں کسی غیر کی پرستش کی۔ کفار کا حال دونوں جگہ جملہ اسمیہ ” ولا انتم عبدون ما اعبد “ سے بیان فرمایا، یعنی تم میں استعداد ہی نہیں اور نہ تم سے ممکن ہے کہ تم بلا شریک غیرے اللہ واحد کی پرستش کرو۔- (٥) لکم دینکم ولی دین : اس کے متعلق بعض مفسرین نے فرمایا کہ یہ آیت آیات جہاد سے منسوخ ہے، مگر یہ درست نہیں۔ اب بھی کسی کافر کو زبردست ی مسلمان بنانا جائز نہیں، جیسا کہ فرمایا :(لا اکراہ فی الدین) (البقرۃ : ٢٥٦)”’ ین میں زبردستی نہیں۔ “ اگر وہ کفر پر قائم رہنا چاہتے ہیں تو جزیہ ادا کر کے کفر پر رہ سکتے ہیں، ہاں فیصلہ قیامت کے دن ہوگا۔- اس آیت سے ان لوگوں کے نظریے کی تردید ہوتی ہے جو اسلام، موجودہ نصرانیت، یہودیت، ہندو ازم اور تمام مذاہب کو ایک ہی حقیقت کے مختلف مظاہر قرار دے کر سب کو درست قرار دیتے ہیں۔- (٦) ” ولی دین “ اصل ” ولی دینی “ ہے، چونکہ دوسری آیات نون پر ختم ہو رہی ہیں اس لئے آخر سے ” یائ “ حذف کردی ، مگر اس پر کسرہ باقی رکھا ہے۔
خلاصہ تفسیر - آپ (ان کافروں سے) کہہ دیجئے کہ اے کافرو (میرا تمہارا طریقہ ایک نہیں ہوسکتا اور) نہ (قوفی الحال) میں تمہارے معبودوں کی پرستش کرتا ہوں اور نہ تم میرے معبود کی پرستش کرتے ہو اور نہ (آئندہ استقبال میں) میں تمہارے معبودوں کی پرستش کروں گا اور نہ تم میرے معبود کی پرستش کرو گے (مطلب احقر کے نزدیک یہ ہے کہ میں موجد ہو کر شرک نہیں کرسکتا نہ اب نہ آئندہ، اور تم مشرک ہو کر موحد نہیں قرار دیئے جاسکتے نہ اب نہ آئندہ، یعنی توحید و شرک جمع نہیں ہو سکتے۔ ) تم کو تمہارا بدلہ ملے گا اور مجھ کو میرا بدلہ ملے گا (اس میں ان کے شرک پر وعید بھی سنا دی گئی۔ ) - معارف مسائل - سورت کے فضائل اور خواص :۔ حضرت صدیقہ عائشہ نے فرمایا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے کہ فجر کی سنتوں میں پڑھنے کے لئے دو سورتیں بہتر ہیں سورة کافرون اور سورة اخلاص (رواہ ابن ہاشم مظہری) اور تفسیر ابن کثیر میں متعدد صحابہ سے منقول ہے کہ انہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو صبح کی سنتوں میں اور بعد مغرب کی سنتوں میں بکثرت یہ دو سورتیں ڑھتے ہوئے سنا ہے۔ بعض صحابہ نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا کہ ہمیں کوئی دعا بتا دیجئے جو ہم سونے سے پہلے پڑھا کریں، آپ نے قل یا ایھا الکفرون پڑھنے کی تلقین فرمائی اور فرمایا کہ یہ شرک سے برائت ہے (رواہ الترمذی و ابوداؤد) اور حضرت جبیر بن مطلعم فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے فرمایا کہ کیا تم یہ چاہتے ہو کہ جب سفر میں جاؤ تو وہاں تم اپنے سب رفقاء سے زیادہ خوشحال با مراد رہو اور تمہارا سامان زیادہ ہوجائے۔ انہوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ بیشک میں ایسا چاہتا ہوں۔ آپ نے فرمایا کہ آخر قرآن کی پانچ سورتیں سورة کافرون، سورة نصر، سورة اخلاص، سورة فلق اور سورة ناس پڑھا کر اور ہر سورة کو بسم اللہ سے شروع کرو اور بسم اللہ ہی پر ختم کرو۔ حضرت جبیر فرماتے ہیں کہ اس وقت میرا حال یہ تھا کہ سفر میں اپنے دوسروں ساتھیوں کے بالمقابل قلیل الزاد خستہ حال ہوتا تھا۔ جب سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اس تعلیم پر عمل کیا میں سب سے بہتر حال میں رہنے لگا (مضہری بحوالہ ابویعلی) اور حضرت علی سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بچھونے کاٹ لیا تو آپ نے پای اور نمک منگایا اور یہ پانی کاٹنے کی جگہ لگاتے جاتے تھے اور قل یا ایھا الکافرون قل اعوذ برب الفلق، قل اعوذ برب الناس پڑھتے جاتے تھے۔ (مظہری) - شان نزول :۔ ابن اسحاق کی روایت ابن عباس سے یہ ہے کہ ولید بن مغیرہ اور عاص بن وائل اور اسود بن عبدالطلب اور امیہ بن خلف رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے اور کہا کہ آؤ ہم آپس میں اس پر صلح کرلیں کہ ایک سال آپ ہمارے بتوں کی عبادت کیا کریں اور ایک سال ہم آپ کے معبود کی عبادت کریں (قرطبی) اور طبرانی کی روایت حضرت ابن عباس سے یہ ہے کہ کفار مکہ نے اول تو باہمی مصالحت کے لئے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سمنے یہ صورت پیش کی کہ ہم آپ کو اتنا مال دیتے ہیں کہ آپ سارے مکہ میں سب سے زیادہ ملادار ہوجائیں اور جس عورت سے آپ چاہیں آپ کا نکاح کردیں، آپ صرف اتنا کریں کہ ہمارے معبودوں کو برا نہ کہا کریں اور اگر آپ یہ بھی نہیں مانتے تو ایسا کریں کہ ایک سال ہم آپ کے معبود کی عبادت کیا کریں اور ایک سال آپ ہمارے معبودوں کی عبادت کیا کریں۔ (مظہری) - اور ابو صالح کی روایت حضرت ابن عباس سے یہ ہے کہ کفار مکہ نے باہمی مصالحت کے لئے یہ صورت پیش کی تھی کہ آپ ہمارے بتوں میں سے بعض کو صرف ہاتھ لگا دیں تو ہم آپ کی تصدیق کرنے لگیں گے، اس پر جبرئیل امین سورة کافرون لے کر نازل ہوئے جس میں کفار کے اعمال سے برات اور خلاص اللہ تعالیٰ کی عبادت کا حکم ہے شان نزول میں جو متعدد واقعات بیان ہوئے ہیں ان میں کوئی تضاد نہیں، ہوسکتا ہے کہ یہ واقعات سبھی پیش آئے ہوں اور ان سب کے جواب میں یہ سورت نازل ہوئی ہو جس کا حاصل ایسی مصالحت سے روکنا ہے۔- لا اعبد ماتعبدون الآیتہ اس سورة میں یہ چند کلمات مکرر آئے ہیں اس تکرار کو رفع کرنے کے لئے ایک تفسیر تو وہ ہے جس کو بخایر نے بہت سے مفسرین سے نقل کیا ہے کہ دو کلمے ایک مرتبہ زمانہ لا کے لئے اور دوسری مرتبہ زمانہ مستقبل کے متعلق آئے ہیں اس لئے کوئی تکرار نہیں۔ مطلب یہ ہے کہ نہ تو بالفعل ایسا ہو رہا ہے کہ میں تمہارے معبودوں کی عبادت کروں اور تم میرے معبود کی عبادت کرو، اور نہ آئندہ ایسا ہوسکتا ہے کہ میں اپنی توحید پر تم اپنے شرک پر قائم رہتے ہئے ایک دوسرے کے معبود کی عبادت کریں۔ اسی تفسیر کو حضرت حکیم الامت نے تفسیر بیان القرآن میں اختیار فرمایا ہے جو اوپر خلاصہ تفسیر میں آ چکی ہے مگر بخاری کی تفسیر میں لکم دینکم ولی دین کی تفسیر دین بمعنے مذہب اسلام و فکر سے کی ہے اور مطلب یہ قرار دیا ہے کہ مصالحت کی مجوزہ صورت قابل قبول نہیں میں تو اپنے دین پر قائم ہوں ہی تم بھی اپنے دین پر مصر ہو تو تم جانور، اس کا انجام تمہیں بھگتنا ہے اور بیان القرآن میں دین کو بمعنے جزاء قرار دیا ہے۔- دوسری تفسیر وہ ہے جس کو ابن کثیر نے اختیار فرمایا ہے کہ حرف مالغت عرب میں جیسا اسم موصول الذی کے معنی میں آتا ہے ایسا ہی کبھی مصدری معنی کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے کہ وہ جس فعل پر داخل ہو اس کو بمعنے مصدر کردیتا ہے۔ اس سورت میں پہلی جگہ تو صرف ما اسم موصول الذی کے معنے میں ہے اور دوسری جگہ مامصدر یہ ہے تشریح اس کی یہ ہے کہ پہلے جمعہ لا اعبد ماتعبدون ولا انتم عبدون ما اعبد کے معنے یہ ہوئے کہ جن معبودوں کی تم عبادت کرتے ہو میں ان کی عبادت نہیں کرتا اور جس معبود کی میں عبادت کرتا ہوں اس کی تم نہیں کرتے اور دوسرے جملے ولا انا عابد ماعبدتم ولا انتم عبدون ما اعبد میں حرف ما مصدریہ ہے اور معنے یہ ہیں انا عابد عبادتکم ولا انتم عابدون عبادتی، یعنی ہماری اور تمہاری عبادت کے طریقے ہی الگ الگ ہیں، میں تمہارے طرز کی عبادت نہیں کرسکتا اور تم جب تک ایمان نہ لاؤ تو میرے طرز کی عبادت نہیں کرسکتے۔ اس طرح پہلے جملے میں معبودوں کا ختلاف بتلایا اور دوسرے جملے میں عبادت کے طرز و طریقہ کے اختلاف کو ظاہر کیا، حاصل یہ ہوا کہ نہ تمہارے اور ہمارے معبود میں اشتراک ہے نہ طری عبادت میں، اس طرح تکرار رفع ہوا اور طریق عبادت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مسلمانوں کا وہ ہے جو آپ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے بذریعہ وحی بتلایا گیا اور مشرکین کے طریقے خود ساختہ ہیں۔- ابن کثیر نے اس تفسیر کو راحج قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ کلمہ اسلام لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ سے یہی مفہوم نکلتا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور طریق عبادت وہ معتبر ہے جو محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے واسطے سے ہم تک پہنچا ہے اور لکم دینکم ولی دین کی تفسیر میں ابن کثیر نے فرمایا کہ یہ جملہ ایسا ہی ہے جیسے دوسری جگہ قرآن کریم کا ارشاد ہے فان کذبوک فقل لی عملی ولکم عملکم اور دوسری جگہ ہے لنا اعمالنا ولکم اعمالکم اس کا حاصل یہ ہے کہ لفظ دین کو ابن کثیر نے بھی اعمال دین کے معنی میں لیا ہے اور پھر مقصود اس سے وہی ہوگا جو بیان القرآن میں بیان کیا گیا کہ ہر ایک کو اپنے اپنے عمل کی جزا سزا خود بھگتنی پڑے گی۔- اور بعض مفسرین نے ایک تیسری تفسیر یہ اختیار کی کہ صرف ما دونوں جگہ موصولہ ہی ہے اور حال و استقبال کا بھی فرق نہیں بلکہ یہ دو جملے فی المواقع مکرر لائے گئے ہیں مگر ہر تکرار برا نہیں ہوتا، بہت جگہ تکرار تقاضائے بلاغت ہوتا ہے جیسا کہ فان مع العسر یسراً ان مع العسر یسرا میں ہے۔ یہاں اس تکرار کا مقصد تاکید مضمون بھی ہے اور یہ بھی کہ کفار کی طرف سے چونکہ ایسی مصالحت کی پیشکش متعدد مرتبہ کی گئی تو متعدد جملوں سے اس کو رد کیا گیا (نقلہ ابن جریر۔ ابن کثیر) - کفار سے معاہدہ صلح کی بعض صورتیں جائز ہیں بعض ناجائز :۔ سورة کافرون میں کفار کی طرف سے پیش کی ہوئی مصالحت کی چند صورتوں کو بالکلیہ رد کر کے اعلان برائت کیا گیا، مگر خود قرآن کریم میں یہ ارشاد بھی موجود ہے و ان جنحوا للسلم فاجنح لھا، یعنی کفار اگر صلح کی طرف جھکیں تو آپ بھی جھک جایئے (یعنی معاہدہ صلح کرلیجئے) اور مدینہ طیبہ جب آپ ہجرت کر کے تشریف لے گئے تو یہود مدینہ سے آپ کا معاہدہ صلح مشہود و معروف ہے اس لئے بعض مفسرین نے سورة کافرون کو مسنوخ کہہ دیا اور منسوخ کہنے کی بڑی وجہ آیت لکم دینکم ولی دین کو قرار دیا ہے کیونکہ بظاہر یہ احکام جہاد کے منافی ہے۔ مگر صحیح یہ ہے کہ یہاں لکم دینکم کا یہ مطلب نہیں کہ کفار کو کفر کی اجازت یا کفر پر برقرار رکھنے کی ضمانت دے دی گئی بلکہ اس کا حاصل وہی ہے جو لنا اعمالنا ولکم اعمالک کا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ جیسا کرو گے ویسا بھگتو گے اس لئے راجح اور صحیح جمہور کے نزدیک یہ ہے کہ یہ سورت منسوخ نہیں، جس قسم کی مصالح سورة کافرون کے نزول کا سب بنی وہ جیسے اس وقت حرام تھی آج بھی حرام ہے اور جس صورت کی اجازت آیت مذکورہ میں آئی اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے معاہدہ یہود سے عملاً ظاہر ہوئی، وہ جیسے اس وقت جائز تھی آج بھی جائز ہے۔ بات صرف موقع و محل کو سمجھنے اور شرائط صلح جائز ہے بجز اس صلح کے جس کی رو سے اللہ کی حرام کی ہوئی کسی چیز کو حلال یا حلال کی ہوئی چیز کو حرام قرار دیا گیا ہو۔ اب غور کیجئے کہ کفار مکہ نے صلح کی جو صورتیں پیش کی تھیں، ان سب میں کم از کم کفر و اسلام کی حدود میں التباس یقینی ہے اور بعض صورتوں میں تو اصول اسلام کے خلاف شرک کا ارتکاب لازم آتا ہے، ایسی صلح سے سورة کافرون نے اعلان برائت کردیا اور دوسری جگہ جس صلح کو جائز قرار دیا اور معاہدہ یہود سے اس کی عملی صورت معلوم ہوئی اس میں کوئی چیز ایسی نہیں جس میں اصول اسلام کا خلاف کیا گیا ہو یا کفر و اسلام کی حدود آپس میں ملتبس ہوئی ہوں۔ اسلام سے زیادہ کوئی مذہب رواداری، حسن سلوک صلح و سلامیت کا داعی نہیں مگر صلح اپنے انسانی حقوق میں ہوتی ہے۔ خدا کے قانون اور اصول دین میں کسی صلح مصالحت کی کوئی گنجائش نہیں۔ واللہ اعلم
قُلْ يٰٓاَيُّہَا الْكٰفِرُوْنَ ١ ۙ- قول - القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122]- ( ق و ل ) القول - القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔- كفر - الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، - وأعظم الكُفْرِ- : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] - ( ک ف ر ) الکفر - اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔- اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔
(1 ۔ 6) عاص بن وائل اور ولید بن مغیرہ نے حضور سے کہا تھا کہ آپ ہمارے معبودوں کو تسلیم کرلیں تو ہم آپ کے معبود کی عبادت شروع کردیں۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا آپ ان استہزاء کرنے والے کافروں سے فرما دیجیے کہ نہ تو فی الحال میں تمہارے معبودوں کی پرستش کرتا ہوں اور نہ آئندہ کروں گا تمہیں تمہارا دین یعنی کفر و شرک مبارک ہو اور میرے لیے میرا دین یعنی اسلام ہے ؟ یہ آیت قتال سے منسوخ ہے کیوں کہ حضور نے پھر ان سے قتال فرمایا۔- شان نزول : قل یا ایہا الکفرون الخ - طبرانی اور ابن ابی حاتم نے حضرت ابن عباس سے روایت کیا ہے کہ قریش نے حضور کو بلایا تاکہ آپ کو بہت سا مال دے دیں کہ جس سے آپ مکہ میں سب سے مال دار ہوجائیں اور جس عورت سے آپ چاہیں آپ کی شادی کردیں مگر آپ ہمارے بتوں کو برا بھلا کہنا چھوڑ دیں اگر یہ نہیں کرسکتے تو ایک سال تک ہمارے معبودوں کی پرستش کریں اس پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا دیکھتا ہوں میرے پاس میرے رب کا کیا حکم آتا ہے چناچہ اللہ تعالیٰ نے سورة کافرون پوری اور یہ آیت قُلْ اَفَغَیْرَ اللّٰہِ تَامرونی اعبد ایھا الجاھلون نازل فرمائی اور عبدالرزاق نے وہب سے روایت کیا ہے کہ قریش نے حضور سے کہا یہ طے کرلو کہ ایک سال ہم آپ کا دین اختیار کرلیا کریں گے اور ایک سال آپ ہمارا اس پر یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی۔- اور ابن منذر نے اسی طرح ابوجہل سے روایت کیا ہے اور ابن ابی حاتم نے سعید بن سینا سے روایت ہے کہ ولید بن مغیرہ، عاص بن وائل، اسود بن عبدالمطلب اور امیہ بن خلف نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا کہ محمد چلو جن کی ہم عبادت کرتے ہیں ان کی تم کرلو اور جس کی تم کرتے ہو اس کی ہم کرلیں دونوں اس معاملہ میں صلح کرلیں اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ سورت نازل فرمائی۔
آیت ١ قُلْ یٰٓــاَیُّہَا الْکٰفِرُوْنَ ۔ ” (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ کہہ دیجیے کہ اے کافرو “- نوٹ کیجیے یہ داعیانہ طرز تخاطب نہیں ہے ‘ بلکہ لاتعلق اور علیحدہ ہونے کا انداز ہے۔ ظاہر ہے ایک داعی تو اپنے مخاطبین کو یٰٓــاَیُّہَا النَّاسُکہہ کر پکارتا ہے ‘ کہ اے اللہ کے بندو میری بات سنو گویا کلمہ تخاطب میں ہی مفہوم واضح کردیا گیا کہ اگر میری تمامتر ناصحانہ کوششوں کے باوجود بھی تم لوگوں نے کفر و انکار پر ڈٹے رہنے کا فیصلہ کرلیا ہے تو تمہارا یہ فیصلہ اور طرزعمل تمہیں مبارک ہو۔ لیکن تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ اس کے بعد اب میری اور تمہاری راہیں جدا ہوچکی ہیں۔
سورة الکافرون حاشیہ نمبر :1 اس آیت میں چند باتیں خاص طور پر توجہ طلب ہیں: ( ۱ ) حکم اگرچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا گیا ہے کہ آپ کافروں سے یہ بات صاف صاف کہہ دیں ، لیکن آگے کا مضمون یہ بتا رہا ہے کہ ہر مومن کو وہی بات کافروں سے کہہ دینی چاہیے جو بعد کی آیات میں بیان ہوئی ہے کہ حتی کہ جو شخص کفر سے توبہ کر کے ایمان لے آیا ہو اس کے لیے بھی لازم ہے کہ دین کفر اور اس کی عبادات اور معبودوں سے اسی طرح اپنی براءت کا اظہار کردے ۔ پس لفظ قُل ( کہہ دو ) کے اولین مخاطب تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہیں ، مگر حکم حضور کے لیے خاص نہیں ہے بلکہ آپ کے واسطے سے ہر مومن کو پہنچتا ہے ۔ ( ۲ ) کافر کا لفظ کوئی گالی نہیں ہے جو اس آیت کے مخاطبوں کو دی گئی ہو ، بلکہ عربی زبان میں کافر کے معنی انکار کرنے والے اور نہ ماننے والے ( ) کے ہیں ، اور اس کے مقابلے میں مومن کا لفظ مان لینے اور تسلیم کرلینے والے ( ) کے لیے بولا جاتا ہے ، لہذا اللہ کے حکم سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا کہ اے کافرو دراصل اس معنی میں ہے کہ اے وہ لوگو جنہوں نے میری رسالت اور میری لائی ہوئی تعلیم کو ماننے سے انکار کیا ہے ۔ اور اسی طرح ایک مومن جب یہ لفظ کہے گا تو اس کی مراد محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان نہ لانے والے ہوں گے ۔ ( ۳ ) اے کافرو کہا ہے ، اے مشرکو نہیں کہا ، اس لیے مخاطب صرف مشرکین ہی نہیں ہیں بلکہ وہ سب لوگ ہیں جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالی کا رسول ، اور آپ کی لائی ہوئی تعلیم و ہدایت کو اللہ جل شانہ کی تعلیم و ہدایت نہیں مانتے ، خواہ وہ یہود ہوں ، نصاری ہوں ، مجوسی ہوں ، یا دنیا بھر کے کفار و مشرکین اور ملاحدہ ہوں ۔ اس خطاب کو صرف قریش یا عرب کے مشرکین تک محدود رکھنے کی کوئی وجہ نہیں ہے ۔ ( ۳ ) منکرین کو اے کافرو کہہ کر خطاب کرنا بالکل ایسا ہی ہے جیسے ہم کچھ لوگوں کو اے دشمنو یا اے مخاطبو کہہ کر مخاطب کیں ۔ اس طرح کا خطاب دراصل مخاطبوں کی ذات سے نہیں ہوتا بلکہ ان کی صفت دشمنی اور صفت مخالفت کی بنا پر ہوتا ہے اور اسی وقت تک کے لیے ہوتا ہے جب تک ان میں یہ صفت باقی رہے ۔ اگر ان میں سے کوئی دشمنی و مخالفت چھوڑ دے ، یا دوست اور حامی بن جائے تو وہ اس خطاب کا مخاطب نہیں رہتا ۔ بالکل اسی طرح جن لوگوں کو اے کافرو کہہ کر خطاب کیا گیا ہے ، وہ بھی ان کی صفت کفر کے لحاظ سے نہ کہ ان کی ذاتی حیثیت سے ، ان میں سے جو شخص مرتے دم تک کافر رہے اس کے لیے تو یہ خطاب دائمی ہوگا ، لیکن جو شخص ایمان لے آئے وہ اس کا مخاطب نہ رہے گا ۔ ( ۵ ) مفسرین میں سے بہت سے بزرگوں نے یہ رائے ظاہر کی ہے کہ اس سورۃ میں اے کافرو کا خطاب قریش کے صرف ان چند مخصوص لوگوں سے تھا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس دین کے معاملے میں مصالحت کی تجویزیں لے لے کر آرہے تھے اور جن کے متلعق اللہ تعالی نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو بتا دیا تھا کہ یہ ایمان لانے والے نہیں ہیں ۔ یہ رائے انہوں نے دو وجودہ سے قائم کی ہے ۔ ایک یہ کہ آگے لَآ اَعْبُدُ مَا تَعْبُدُوْنَ ( جس کی یا جن کی عبادت تم کرتے ہو اس کی یا ان کی عبادت میں نہیں کرتا ) فرمایا گیا ہے ۔ اور وہ کہتے ہیں کہ یہ قول یہود و نصاری پر صادق نہیں آتا ، کیونکہ وہ اللہ کی عبادت کرتے ہیں ۔ دوسرے یہ کہ آگے یہ بھی فرمایا گیا ہے کہ وَلَآ اَنْتُمْ عٰبِدُوْنَ مَآ اَعْبُدُ ( اور نہ تم اس کی عبادت کرنے والے ہو جس کی عبادت میں کرتا ہوں ) اور ان کا استدلال یہ ہے کہ یہ قول ان لوگوں پر صادق نہیں آتا جو اس سورۃ کے نزول کے وقت کافر تھے اور بعد میں ایمان لے آئے ۔ لیکن یہ دونوں دلیلیں صحیح نہیں ہیں ۔ جہاں تک ان آیتوں کا تعلق ہے ان کی تشریح تو ہم آگے چل کر کریں گے جس سے معلوم ہوجائے گا کہ ان کا وہ مطلب نہیں ہے جو ان سے سمجھا گیا ہے ۔ یہاں اس استدلال کی غلطی واضح کرنے کے لیے صرف اتنی بات کہہ دینا کافی ہے کہ اگر اس سورہ کے مخاطب صرف وہی لوگ تھے تو ان کے مر کھپ جانے کے بعد اس سورہ کی تلاوت جاری رہنے کی آخر کیا وجہ ہے؟ اور سے مستقل طور پر قرآن میں درج کردینے کی کیا ضرورت تھی کہ قیامت تک مسلمان اسے پڑھتے رہیں؟