Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

عقل کے اندھے ضدی لوگ اللہ تبارک وتعالی اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے فرماتا ہے کہ آپ ان کے جھٹلانے کا کوئی تعجب نہ کریں یہ ہیں ہی ایسے اس قدر نشانیاں دیکھتے ہوئے ، اللہ کی قدرت کا ہمیشہ مطالعہ کرتے ہوئے ، اسے مانتے ہوئے کہ سب کا خالق اللہ ہی ہے پھر بھی قیامت کے منکر ہوتے ہیں حالانکہ اس سے بڑھ کر روز مرہ مشاہدہ کرتے رہتے ہیں کہ کچھ نہیں ہوتا اور اللہ تعالیٰ سب کچھ کر دیتا ہے ۔ ہر عاقل جان سکتا ہے کہ زمین وآسمان کی پیدائش انسان کی پیدائش سے بہت بڑی ہے ۔ اور دوبارہ پیدا کرنا بہ نسبت اول بار پیدا کرنے کے بہت آسان ہے ۔ جیسے فرمان ربانی ہے آیت ( اَوَلَمْ يَرَوْا اَنَّ اللّٰهَ الَّذِيْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَلَمْ يَعْيَ بِخَلْقِهِنَّ بِقٰدِرٍ عَلٰٓي اَنْ يُّـحْيِۦ الْمَوْتٰى ۭ بَلٰٓي اِنَّهٗ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ 33؀ ) 46- الأحقاف:33 ) یعنی جس نے آسمان و زمین تھکے پیدا کر دیا ، کیا وہ مردوں کو جلانے پر قادر نہیں ؟ بیشک ہے بلکہ ہر چیز اس کی قدرت میں ہے ۔ پس یہاں فرماتا ہے کہ اصل یہ کفار ہیں ، ان کی گردنوں میں قیامت کے دن طوق ہوں گے اور یہ جہنمی ہیں جو ہمیشہ جہنم میں رہیں گے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

5۔ 1 یعنی جس ذات نے پہلی مرتبہ پیدا کیا، اس کے لئے دوبارہ اس چیز کا بنانا کوئی مشکل کام نہیں۔ لیکن کفار یہ عجیب بات کہتے ہیں کہ دوبارہ ہم کیسے پیدا کئے جائیں گے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٩] نبا تات میں معرفت الہٰی پر دلائل۔ یعنی اگر آپ کو اس بات پر تعجب ہوتا ہے کہ یہ لوگ اللہ کی ایسی ایسی نشانیاں دیکھ کر بھی ایمان نہیں لاتے اور ہمیں اس بات پر تعجب ہوتا ہے کہ یہ لوگ اللہ تعالیٰ کی ایسی حیران کن نشانیاں دیکھتے بھی ہیں اور پھر یہ پوچھتے ہیں کہ جب ہم مر کر زمین میں مل جائیں گے تو کیا پھر دوبارہ اٹھائے جائیں گے ؟ وہ یہ نہیں سوچتے کہ ایک بیج زمین میں مل کر مٹی بن جاتا ہے۔ مگر جب موسم آتا ہے تو وہی بیج اگ کر ایک تناور درخت بن جاتا ہے۔ پھر آخر تم کیوں دوبارہ پیدا نہیں کئے جاسکتے ؟- [١٠] اللہ کی قدرتوں سے انکار اللہ ہی کا انکار ہوتا ہے۔ گویا دوبارہ پیدا ہونے سے انکار حقیقتاً اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ کا انکار ہے جسے اللہ ہی کے انکار کے مترادف بتلایا گیا ہے۔ ایک تو اس وجہ سے وہ دوزخ کے مستحق ہوئے دوسرے اللہ کے حضور جواب دہی کے۔ منکرین کی زندگی عموماً بےلگام اور شتر بےمہار کی طرح گزرتی ہے۔ ایسے لوگ دراصل محض اپنی خواہشات کے غلام ہوتے ہیں۔ اسی جرم کی پاداش میں ان کی گردنوں میں طوق ڈال کر انھیں اتنا ہی جکڑ کر بند کردیا جائے گا جتنا کہ وہ دنیا میں بےلگام تھے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَاِنْ تَعْجَبْ فَعَجَبٌ قَوْلُهُمْ ۔۔ : ” فَعَجَبٌ“ میں تنوین تعظیم و تہویل کے لیے ہے، اسی لیے اہل علم نے ترکیب میں اسے نکرہ ہونے کے باوجود مبتدا بنانا جائز رکھا ہے، گویا یہ نکرہ موصوفہ ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اگر آپ اتنی نشانیاں دیکھ کر بھی ان کے ایمان نہ لانے پر تعجب کریں تو بہت ہی عجیب بات ان کا دوبارہ نئے سرے سے پیدا ہونے کو ناممکن قرار دینا ہے، حالانکہ جو شخص معمولی علم اور معمولی عقل رکھتا ہے بآسانی سمجھ سکتا ہے کہ اتنی قدرتوں کے مالک اور پہلی دفعہ انھیں پیدا کرنے والے کے لیے انھیں دوبارہ نئے سرے سے پیدا کرنا کیوں مشکل ہے۔ - اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا بِرَبِّهِمْ : یعنی جب انھوں نے آخرت سے انکار کیا تو گویا اللہ کی قدرت سے انکار کیا اور یہ کہا کہ اللہ اتنا عاجز اور بےبس ہے کہ انھیں دوبارہ پیدا کر ہی نہیں سکتا۔ [ اَلْعِیَاذ باللّٰہِ ]- وَاُولٰۗىِٕكَ الْاَغْلٰلُ ۔۔ : ” الْاَغْلٰلُ “ ” غُلٌّ“ کی جمع ہے، لوہے کا کڑا یا زنجیر جو مجرم کے گلے میں ڈال کر اسے باندھا جاتا ہے۔ بعض اوقات اس کے ساتھ ہی ہاتھ بھی گردن کے ساتھ باندھ دیتے ہیں، یہ قید کی سخت ترین صورت ہے۔ یعنی ان کی گردنوں میں وہی آبائی کفر و شرک کے طوق پڑے ہوئے ہیں جو انھیں کفر سے ہلنے نہیں دیتے اور انجام ان کا یہ ہے کہ یہ آگ والے ہیں، ہمیشہ اس میں رہنے والے ہیں۔ بعض مفسرین نے ” وَاُولٰۗىِٕكَ الْاَغْلٰلُ “ کو بھی آخرت کے انجام میں شامل کیا ہے کہ جہنم میں ان کی گردنوں میں لوہے کے طوق (کڑے) ہوں گے، جن میں پڑی ہوئی زنجیروں سے بندھے ہوں گے۔ آیت کے الفاظ سے تو زیادہ ظاہر معنی یہی معلوم ہوتا ہے، جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا : (اِذِ الْاَغْلٰلُ فِيْٓ اَعْنَاقِهِمْ وَالسَّلٰسِلُ ۭ يُسْحَبُوْنَ 71؀ۙفِي الْحَمِيْمِ ڏ ثُمَّ فِي النَّارِ يُسْجَرُوْنَ ) [ المؤمن : ٧١، ٧٢ ] ” جب طوق ان کی گردنوں میں ہوں گے اور زنجیریں، گھسیٹے جا رہے ہوں گے۔ کھولتے پانی میں، پھر وہ آگ میں جھونکے جائیں گے۔ “

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر :- اور (اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اگر آپ کو ( ان لوگوں کے انکار قیامت سے) تعجب ہو تو (واقعی) ان کا یہ قول تعجب کے لائق ہے کہ جب ہم (مر کر) خاک ہوگئے کیا (خاک ہو کر) ہم پھر (قیامت کو) از سر نو پیدا ہوں گے (تعجب کے لائق اس لئے کی جو ذات ایسی اشیاء مذکورہ کے خلق پر ابتداء قادر ہے اس کو دوبارہ پیدا کرنا کیا مشکل ہے اور اسی سے جواب ہوگیا استبعاد بعث کا اور انکار نبوت کا بھی جس کا مبنی وہ استبعاد تھا ایک کے جواب سے دوسرے کا جواب ہوگیا آگے ان کے لئے وعید ہے کہ) یہ وہ لوگ ہیں کہ انہوں نے اپنے رب کے ساتھ کفر کیا (کیونکہ انکار بعث سے اس کی قدرت کا انکار کیا اور انکار قیامت سے انکار نبوت لازم آتا ہے) اور ایسے لوگوں کی گردنوں میں (دوزخ میں) طوق ڈالے جائیں گے اور ایسے لوگ دوزخی ہیں (اور) وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے اور یہ لوگ عافیت (کہ اگر آپ نبی ہیں تو جائیے عذاب منگا دیجئے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ عذاب کے وقوع کو بہت بعید سمجھتے ہیں) حالانکہ ان سے پہلے (اور کفار پر) واقعات عقوبت گذر چکے ہیں (تو ان پر آجانا کیا مستبعد ہے) اور (اللہ تعالیٰ کے غفور اور رحیم ہونے کو سن کر یہ لوگ مغرور نہ ہوجاویں کہ اب ہم کو عذاب نہ ہوگا کیونکہ وہ صرف غفور و رحیم ہی نہیں ہے اور پھر سب کے لئے غفور و رحیم نہیں ہیں بلکہ دونوں باتیں اپنے اپنے موقع پر ظاہر ہوتی ہیں یعنی) یہ بات بھی یقینی ہے کہ آپ کا رب لوگوں کی خطائیں باوجود ان کی (ایک خاص درجہ کی) بیجا حرکتوں کے معاف کردیتا ہے اور یہ بات بھی یقینی ہے کہ آپ کا رب سخت سزا دیتا ہے (یعنی اس میں دونوں صفتیں ہیں اور ہر ایک کے ظہور کی شرطیں اور اسباب ہیں پس انہوں نے بلا سبب اپنے کو مستحق رحمت و مغفرت کیسے سمجھ لیا بلکہ کفر کی وجہ سے ان کے لئے تو اللہ تعالیٰ شدید العقاب ہے) کیوں نہیں نازل کیا گیا (اور یہ اعتراض محض حماقت ہے کیونکہ آپ مالک معجزات نہیں بلکہ) آپ صرف (عذاب خدا سے کافروں کو) ڈرانے والے (یعنی نبی) ہیں (اور نبی کے لئے مطلق معجزہ کی ضرورت ہے جو کہ ظاہر ہوچکا ہے نہ کسی خاص معجزہ کی) اور (کوئی آپ انوکھے نبی نہیں ہوئے بلکہ) ہر قوم کیلئے (امم ماضیہ میں) ہادی ہوتے چلے آئے ہیں (ان میں بھی یہی قاعدہ چلا آیا ہے کہ دعوی نبوت کے لئے مطلق دلیل کو کافی قرار دیا گیا خاص دلیل کا التزام نہیں ہوا) اللہ تعالیٰ کو سب خبر رہتی ہے جو کچھ کسی عورت کو حمل رہتا ہے اور جو کچھ رحم میں کمی بیشی ہوتی ہے اور ہر چیز اللہ کے نزدیک ایک خاص انداز سے ہے۔- معارف و مسائل :- آیات مذکورہ کی پہلی تین آیتوں میں کفار کے شبہات کا جواب ہے جو نبوت کے متعلق تھی اور اس کے ساتھ منکرین کے لئے عذاب کی وعید مذکور ہے۔- ان کے شبہات تین تھے ایک یہ کہ یہ لوگ مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہونے اور محشر کے حساب و کتاب کو محال و خلاف عقل سمجھتے تھے اسی بنا پر آخرت کی خبر دینے والے انبیاء کی تکذیب اور ان کی نبوت کا انکار کرتے تھے جیسا کہ قرآن کریم نے ان کے اس شبہ کا بیان اس آیت میں فرمایا ہے هَلْ نَدُلُّكُمْ عَلٰي رَجُلٍ يُّنَبِّئُكُمْ اِذَا مُزِّقْتُمْ كُلَّ مُمَزَّقٍ ۙ اِنَّكُمْ لَفِيْ خَلْقٍ جَدِيْدٍ اس میں انبیاء (علیہم السلام) کا مذاق اڑانے کے لئے کہتے ہیں کہ آؤ ہم تمہیں ایک ایسا آدمی بتائیں جو تمہیں یہ بتلاتا ہے کہ جب تم مرنے کے بعد ریزہ ریزہ ہوجاؤ گے اور تمہاری مٹی کے ذرات بھی سارے جہان میں پھیل جائیں گے تم اس وقت پھر دوبارہ زندہ کئے جاؤ گے - مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہونے کا ثبوت :- آیات مذکورہ میں سے پہلی آیت میں ان کے اس شبہ کا جواب دیا گیا وَاِنْ تَعْجَبْ فَعَجَبٌ قَوْلُهُمْ ءَاِذَا كُنَّا تُرٰبًا ءَاِنَّا لَفِيْ خَلْقٍ جَدِيْد اس میں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خطاب ہے کہ اگر آپ کو اس پر تعجب ہے کہ یہ کفار آپ کے لئے کھلے ہوئے معجزات اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کا انکار کرتے ہیں اور مانتے ہیں کہ تو ایسے بےجان پتھروں کو مانتے ہیں جن میں نہ حس ہے نہ شعور، خود اپنے نفع و نقصان پر بھی قادر نہیں دوسروں کو کیا نفع پہنچا سکتے ہیں لیکن اس سے زیادہ تعجب کے قابل ان کی یہ بات ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ کیا ایسا ہوسکتا ہے کہ جب ہم مر کر مٹی ہوجائیں گے تو ہمیں دوبارہ پیدا کیا جائے گا قرآن نے وجہ اس تعجب کی بالتصریح بیان نہیں کی کیونکہ پچھلی آیات میں اللہ تعالیٰ جل شانہ کی قدرت کاملہ کے عجیب عجیب مظاہر بیان کر کے یہ ثابت کردیا گیا ہے کہ وہ ایسا قادر مطلق ہے جو ساری مخلوق کو عدم سے وجود میں لایا اور پھر ہر چیز کے وجود میں کیسی کیسی حکمتیں رکھیں کہ انسان ان کا ادراک و احاطہ بھی نہیں کرسکتا اور یہ ظاہر ہے کہ جو ذات پہلی مرتبہ بالکل عدم سے ایک چیز کو موجود کرسکتی ہے اس کو دوبارہ موجود کردینا کیا مشکل ہے انسان بھی جب کوئی نئی چیز بنانا چاہتا ہے تو پہلی مرتبہ اس کو مشکل پیش آتی ہے اور اسی کو دوبارہ بنانا چاہے تو آسان ہوجا تا ہے،- تو تعجب کی بات یہ ہے کہ یہ لوگ اس کے تو قائل ہیں کہ پہلی مرتبہ تمام کائنات کو بیشمار حکمتوں کے ساتھ اسی نے پیدا فرمایا ہے پھر دوبارہ پیدا کرنے کو کیسے محال اور خلاف عقل سمجھتے ہیں شاید ان منکرین کے نزدیک بڑا اشکال یہ ہے کہ مرنے اور خاک ہوجانے کے بعد انسان کے اجزا اور ذرات دنیا بھر میں منتشر ہوجاتے ہیں ہوائیں ان کو کہیں سے کہیں لیجاتی ہیں اور دوسرے اسباب و ذرائع سے بھی یہ ذرات سارے جہان میں پھیل جاتے ہیں پھر قیامت کے روز ان تمام ذرات کو جمع کس طرح کیا جائے گا اور پھر ان کو جمع کر کے دوبارہ زندہ کیسے کیا جائے گا ؟ - مگر وہ نہیں دیکھتے کہ اس وقت جو وجود ان کو حاصل ہے اس میں کیا سارے جہان کے ذرات جمع نہیں دنیا کے مشرق ومغرب کی چیزیں پانی ہوا اور ان کے لائے ہوئے ذرات انسان کی غذا میں شامل ہو کر اس کے بدن کا جزو بنتے ہیں اس مسکین کو بسا اوقات خبر بھی نہیں ہوتی کہ ایک لقمہ جو منہ تک لے جارہا ہے اس میں کتنے ذرات افریقہ کے کتنے امریکہ کے اور کتنے مشرقی ممالک کے ہیں تو جس ذات نے اپنی حکمت بالغہ اور تدبیر امور کے ذریعہ اس وقت ایک ایک انسان اور جانور کے وجود کو سارے جہان کے منتشر ذرات جمع کر کے کھڑا کردیا ہے کل اس کے لئے یہ کیوں مشکل ہوجائے گا کہ ان سب ذرات کو جمع کر ڈالے جبکہ دنیا کی ساری طاقتیں ہوا اور پانی اور دوسری قوتیں سب اس کے حکم کے تابع اور مسخر ہیں اس کے اشاروں پر ہوا اپنے اندر کے اور پانی اپنے اندر کے اور فضاء اپنے اندر کے سب ذرات کو جمع کردیں اس پر کیا اشکال ہے ؟- حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کی قدرت اور قدر کو پہچانا ہی نہیں اس کی قدرت کو اپنی قدرت پر قیاس کرتے ہیں حالانکہ آسمان و زمین اور ان کے درمیان کی سب چیزیں اپنی اپنی حیثیت کا ادراک و شعور رکھتے ہیں اور حکم حق کے تابع چلتے ہیں - خاک وبادو آب و آتش زندہ اند - بامن وتو مردہ باحق زندہ اند - خلاصہ یہ ہے کہ کھلی ہوئی نشانیوں کو دیکھنے کے باوجود جس طرح ان کا نبوت سے انکار قابل تعجب ہے اس سے زیادہ قیامت میں دوبارہ زندہ ہونے اور حشر کے دن سے انکار تعجب کی چیز ہے،- اس کے بعد ان معاند منکرین کی سزا کا ذکر کیا گیا ہے کہ یہ لوگ صرف آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہی کا انکار نہیں کرتے بلکہ درحقیقت اپنے رب کا انکار کرتے ہیں ان کی سزا یہ ہوگی کہ ان کی گردنوں میں طوق ڈالے جائیں گے اور ہمیشہ ہمیشہ دوزخ میں رہیں گے،- دوسرا شبہ منکرین کا یہ تھا کہ اگر فی الواقع آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے نبی اور رسول ہیں تو نبی کی مخالفت پر جو عذاب کی وعیدیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سناتے ہیں وہ عذاب آتا کیوں نہیں اس کا جواب دوسری آیت میں یہ دیا گیا

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَاِنْ تَعْجَبْ فَعَجَبٌ قَوْلُهُمْ ءَاِذَا كُنَّا تُرٰبًا ءَاِنَّا لَفِيْ خَلْقٍ جَدِيْدٍ ڛ اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا بِرَبِّهِمْ ۚ وَاُولٰۗىِٕكَ الْاَغْلٰلُ فِيْٓ اَعْنَاقِهِمْ ۚ وَاُولٰۗىِٕكَ اَصْحٰبُ النَّارِ ۚ هُمْ فِيْهَا خٰلِدُوْنَ ۝- عجب - العَجَبُ والتَّعَجُّبُ : حالةٌ تعرض للإنسان عند الجهل بسبب الشیء، ولهذا قال بعض الحکماء : العَجَبُ ما لا يُعرف سببه، ولهذا قيل : لا يصحّ علی اللہ التَّعَجُّبُ ، إذ هو علّام الغیوب لا تخفی عليه خافية . يقال : عَجِبْتُ عَجَباً ، ويقال للشیء الذي يُتَعَجَّبُ منه : عَجَبٌ ، ولما لم يعهد مثله عَجِيبٌ. قال تعالی: أَكانَ لِلنَّاسِ عَجَباً أَنْ أَوْحَيْنا - [يونس 2] ، تنبيها أنهم قد عهدوا مثل ذلک قبله، وقوله : بَلْ عَجِبُوا أَنْ جاءَهُمْ- [ ق 2] ، وَإِنْ تَعْجَبْ فَعَجَبٌ قَوْلُهُمْ [ الرعد 5] ،- ( ع ج ب ) العجب اور التعجب - اس حیرت کو کہتے ہیں جو کسی چیز کا سبب معلوم نہ ہونے کی وجہ سے انسان کو لاحق ہوجاتی ہے اسی بنا پر حکماء نے کہا ہے کہ عجب اس حیرت کو کہتے ہیں جس کا سبب معلوم نہ ہو اس لئے اللہ تعالیٰ پر تعجب کا اطلاق جائز نہیں ہے کیونکہ ذات باری تعالیٰ تو علام الغیوب ہے اس بنا پر کوئی چیز بھی مخفی نہیں ہے عجبت عجبا ( س ) میں نے تعجب کیا عجب ہر وہ بات جس سے تعجب پیدا ہوا اور جس جیسی چیز عام طور نہ دیکھی جاتی ہوا ہے عجیب کہا جاتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ أَكانَ لِلنَّاسِ عَجَباً أَنْ أَوْحَيْنا[يونس 2] کیا لوگوں کو اس بات پر حیرت ہے کہ ہم نے وحی بھیجی ۔ میں تنبیہ کی ہے کہ آنحضرت کی طرف وحی بھیجنا کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کیونکہ یہ لوگ پہلے سے سلسلہ وحی کو جانتے ہیں نیز فرمایا : ۔ بَلْ عَجِبُوا أَنْ جاءَهُمْ [ ق 2] بلکہ ان لوگوں نے تعجب کیا ہے کہ انہی میں سے ایک ہدایت کرنے والا ان کے پاس آیا ۔ وَإِنْ تَعْجَبْ فَعَجَبٌ قَوْلُهُمْ [ الرعد 5] اور اگر تم عجیب بات سننی چاہو تو کافروں کا یہ کہنا عجیب ہے ۔ - ترب - التُّرَاب معروف، قال تعالی: أَإِذا كُنَّا تُراباً [ الرعد 5] ، وقال تعالی: خَلَقَكُمْ مِنْ تُرابٍ [ فاطر 11] ، یالَيْتَنِي كُنْتُ تُراباً [ النبأ 40] .- ( ت ر ب )- التراب کے معنی میت کے ہیں ۔ قرآن میں ہے خَلَقَكُمْ مِنْ تُرابٍ [ فاطر 11] کہ اس نے تمہیں منی سے پیدا کیا ۔ یالَيْتَنِي كُنْتُ تُراباً [ النبأ 40] کہ اے کاش کے میں مٹی ہوتا ۔ - خلق - الخَلْقُ أصله : التقدیر المستقیم، ويستعمل في إبداع الشّيء من غير أصل ولا احتذاء، قال : خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام 1] ، أي : أبدعهما، - ( خ ل ق ) الخلق - ۔ اصل میں خلق کے معنی ( کسی چیز کو بنانے کے لئے پوری طرح اندازہ لگانا کسے ہیں ۔ اور کبھی خلق بمعنی ابداع بھی آجاتا ہے یعنی کسی چیز کو بغیر مادہ کے اور بغیر کسی کی تقلید کے پیدا کرنا چناچہ آیت کریمہ : ۔ خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام 1] اسی نے آسمانوں اور زمین کو مبنی بر حکمت پیدا کیا میں خلق بمعنی ابداع ہی ہے - كفر - الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، - وأعظم الكُفْرِ- : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] - ( ک ف ر ) الکفر - اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔- اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔- غل - الغَلَلُ أصله : تدرّع الشیء وتوسّطه، ومنه : الغَلَلُ للماء الجاري بين الشّجر، وقد يقال له :- الغیل، وانْغَلَّ فيما بين الشّجر : دخل فيه، فَالْغُلُّ مختصّ بما يقيّد به فيجعل الأعضاء وسطه، وجمعه أَغْلَالٌ ، وغُلَّ فلان : قيّد به . قال تعالی: خُذُوهُ فَغُلُّوهُ [ الحاقة 30] ، وقال : إِذِ الْأَغْلالُ فِي أَعْناقِهِمْ [ غافر 71] - ( غ ل ل ) الغلل - کے اصل معنی کسی چیز کو اوپر اوڑھنے یا اس کے درمیان میں چلے جانے کے ہیں اسی سے غلل اس پانی کو کہا جاتا ہے جو درختوں کے درمیان سے بہہ رہا ہو اور کبھی ایسے پانی کو غیل بھی کہہ دیتے ہیں اور الغل کے معنی درختوں کے درمیان میں داخل ہونے کے ہیں لہذا غل ( طوق ) خاص کر اس چیز کو کہا جاتا ہے ۔ جس سے کسی کے اعضار کو جکڑ کر اس کے دسط میں باندھ دیا جاتا ہے اس کی جمع اغلال اتی ہے اور غل فلان کے معنی ہیں اے طوق سے باندھ دیا گیا قرآن میں ہے : خُذُوهُ فَغُلُّوهُ [ الحاقة 30] اسے پکڑ لو اور طوق پہنادو ۔ إِذِ الْأَغْلالُ فِي أَعْناقِهِمْ [ غافر 71] جب کہ ان لی گردنوں میں طوق ہوں گے ۔- عنق - العُنُقُ : الجارحة، وجمعه أَعْنَاقٌ. قال تعالی: وَكُلَّ إِنسانٍ أَلْزَمْناهُ طائِرَهُ فِي عُنُقِهِ- ( ع ن ق ) العنق - ۔ گردن جمع اعناق ۔ قرآن میں ہے : وَكُلَّ إِنسانٍ أَلْزَمْناهُ طائِرَهُ فِي عُنُقِهِ [ الإسراء اور ہم نے پر انسان کے اعمال کو ( یہ صورت کتاب ) اس کے گلے میں لٹکا دیا ہے ۔ - صحب - الصَّاحِبُ : الملازم إنسانا کان أو حيوانا، أو مکانا، أو زمانا . ولا فرق بين أن تکون مُصَاحَبَتُهُ بالبدن۔ وهو الأصل والأكثر۔ ، أو بالعناية والهمّة، - ويقال للمالک للشیء : هو صاحبه، وکذلک لمن يملک التّصرّف فيه . قال تعالی: إِذْ يَقُولُ لِصاحِبِهِ لا تَحْزَنْ [ التوبة 40]- ( ص ح ب ) الصاحب - ۔ کے معنی ہیں ہمیشہ ساتھ رہنے والا ۔ خواہ وہ کسی انسان یا حیوان کے ساتھ رہے یا مکان یا زمان کے اور عام اس سے کہ وہ مصاحبت بدنی ہو جو کہ اصل اور اکثر ہے یا بذریعہ عنایت اور ہمت کے ہو جس کے متعلق کہ شاعر نے کہا ہے ( الطوایل ) ( اگر تو میری نظروں سے غائب ہے تو دل سے تو غائب نہیں ہے ) اور حزف میں صاحب صرف اسی کو کہا جاتا ہے جو عام طور پر ساتھ رہے اور کبھی کسی چیز کے مالک کو بھی ھو صاحبہ کہہ دیا جاتا ہے اسی طرح اس کو بھی جو کسی چیز میں تصرف کا مالک ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِذْ يَقُولُ لِصاحِبِهِ لا تَحْزَنْ [ التوبة 40] اس وقت پیغمبر اپنے رفیق کو تسلی دیتے تھے کہ غم نہ کرو ۔ - نار - والنَّارُ تقال للهيب الذي يبدو للحاسّة، قال : أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ [ الواقعة 71] ، - ( ن و ر ) نار - اس شعلہ کو کہتے ہیں جو آنکھوں کے سامنے ظاہر ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ [ الواقعة 71] بھلا دیکھو کہ جو آگ تم در خت سے نکالتے ہو ۔ - خلد - الخُلُود : هو تبرّي الشیء من اعتراض الفساد، وبقاؤه علی الحالة التي هو عليها، والخُلُودُ في الجنّة : بقاء الأشياء علی الحالة التي عليها من غير اعتراض الفساد عليها، قال تعالی: أُولئِكَ أَصْحابُ الْجَنَّةِ هُمْ فِيها خالِدُونَ [ البقرة 82] ،- ( خ ل د ) الخلودُ ( ن )- کے معنی کسی چیز کے فساد کے عارضہ سے پاک ہونے اور اپنی اصلی حالت پر قائم - رہنے کے ہیں ۔ اور جب کسی چیز میں دراز تک تغیر و فساد پیدا نہ ہو۔ قرآن میں ہے : ۔ لَعَلَّكُمْ تَخْلُدُونَ [ الشعراء 129] شاید تم ہمیشہ رہو گے ۔ جنت میں خلود کے معنی یہ ہیں کہ اس میں تمام چیزیں اپنی اپنی اصلی حالت پر قائم رہیں گی اور ان میں تغیر پیدا نہیں ہوگا ۔ قرآن میں ہے : ۔ أُولئِكَ أَصْحابُ الْجَنَّةِ هُمْ فِيها خالِدُونَ [ البقرة 82] یہی صاحب جنت میں ہمشہ اسمیں رہیں گے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٥) اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اگر آپ کو ان لوگوں کی تکذیب پر تعجب ہو تو واقعی ان کا یہ قول تعجب کے لائق ہے کہ جب ہم مر کر مٹی میں مل جائیں گے تو کیا مرنے کے بعد ہم پھر دوبارہ زندہ ہو کر اٹھیں گے اور ہم میں پھر روح پھونکی جائے گی، یہ مرنیکے بعد زندہ ہونے کا انکار کرنے والے وہ لوگ ہیں جنھون نے اپنے رب کے ساتھ کفر کیا، تو ان کافروں کی گردنوں میں بیڑیاں اور طوق باندھے جائیں گے اور یہ بیڑیوں اور طوق والے دوزخی ہیں اس میں ہمیشہ رہیں گے نہ ان کو وہاں موت آئے گی اور نہ یہ وہاں سے کبھی نکالے جائیں گے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٥ (وَاِنْ تَعْجَبْ فَعَجَبٌ قَوْلُهُمْ ءَاِذَا كُنَّا تُرٰبًا ءَاِنَّا لَفِيْ خَلْقٍ جَدِيْدٍ )- یعنی کفار کا مرنے کے بعد دوبارہ جی اٹھنے پر تعجب کرنا ‘ بذات خود باعث تعجب ہے۔ جس اللہ نے پہلی مرتبہ تم لوگوں کو تخلیق کیا پوری کائنات اور اس کی ایک ایک چیز پر حکمت طریقے سے بنائی اس کے لیے یہ تعجب کرنا کہ وہ ہمیں دوبارہ کیسے زندہ کرے گا یہ سوچ اور یہ نظریہ اپنی جگہ بہت ہی مضحکہ خیز اور باعث تعجب ہے۔- (اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا بِرَبِّهِمْ )- دوبارہ جی اٹھنے کے عقیدے سے ان کا یہ انکار دراصل اللہ کے وجود کا انکار ہے۔ اس کی قدرت اور اس کے عَلٰی کُلِّ شَیٌ قَدِیْر ہونے کا انکار ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الرَّعْد حاشیہ نمبر :12 یعنی ان کا آخرت سے انکار دراصل خدا سے اور اس کی قدرت اور حکمت سے انکار ہے ۔ یہ صرف اتنا ہی نہیں کہتے کہ ہمارا مٹی میں مل جانے کے بعد دوبارہ پیدا ہونا غیر ممکن ہے ، بلکہ ان کے اسی قول میں یہ خیال بھی پوشیدہ ہے کہ معاذاللہ وہ خدا عاجز دور ماندہ اور نادان و بے خرد ہے جس نے ان کو پیدا کیا ہے ۔ سورة الرَّعْد حاشیہ نمبر :13 گردن میں طوق پڑا ہونا قیدی ہونے کی علامت ہے ۔ ان لوگوں کی گردنوں میں طوق پڑے ہونے کا مطلب یہ ہے کہ لوگ اپنی جہالت کے ، اپنی ہٹ دھرمی کے ، اپنی خواہشات نفس کے ، اور اپنے آباواجداد کی اندھی تقلید کے اسیر بنے ہوئے ہیں ۔ یہ آزادانہ غور و فکر نہیں کر سکتے ۔ انہیں ان کے تعصبات نے ایسا جکڑ رکھا ہے کہ یہ آخرت کو نہیں مان سکتے اگرچہ اس کا ماننا سراسر معقول ہے ، اور انکار آخرت پر جمے ہوئے ہیں اگرچہ وہ سراسر نامعقول ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

9: مطلب یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ کا مُردوں کو زندہ کرنا کوئی تعجب کی بات نہیں، اس لئے کہ جو ذات یہ عظیم کائنات عدم سے وجود میں لا سکتی ہے، اُس کے لئے اِنسانوں کو دوبارہ زندہ کرنا کیا مشکل ہے؟ لیکن تعجب کے لائق تو یہ بات ہے کہ یہ کافر لوگ کھلی آنکھوں اﷲ تعالیٰ کی قدرت کاملہ کے بیشمار مظاہر دیکھنے کے بعد بھی نئے سرے سے پیدا کرنے کو اﷲ تعالیٰ کی قدرت سے بعید سمجھتے ہیں۔ 10: جب کسی کے گلے میں طوق پڑا ہوا ہو تو وہ اِدھر اُدھر دیکھنے کی صلاحیت سے محروم ہوجاتا ہے۔ اسی طرح یہ لوگ حقائق کو دیکھنے اور اُن کی طرف دھیان کرنے سے محروم ہیں (روح المعانی) ۔ اِس کے علاوہ گلے میں طوق در اصل غلامی کی علامت ہے۔ چنانچہ اسلام سے پہلے معاشروں میں غلاموں کے ساتھ یہی معاملہ کیا جاتا تھا۔ لہٰذا آیت کا اشارہ اس طرف بھی ہوسکتا ہے کہ ان لوگوں کے گلوں میں اپنی خواہشات اور شیطان کی غلامی کا طوق پڑا ہوا ہے، اس لئے وہ غیر جانب داری سے کچھ سوچنے سمجھنے کے قابل نہیں رہے۔ اور بعض مفسرین نے اِس جملے کا مطلب یہ بھی بیان کیا ہے کہ آخرت میں ان کے گلوں میں طوق ڈالے جائیں گے۔