سواری کے جانوروں کی حرمت اپنی ایک اور نعمت بیان فرما رہا ہے کہ زینت کے لئے اور سواری کے لئے اس نے گھوڑے خچر اور گدھے پیدا کئے ہیں بڑا مقصد ان جانوروں کی پید ائش سے انسان کا ہی فائدہ ہے ۔ انہیں اور چوپایوں پر فضیلت دی اور علیحدہ ذکر کیا اس وجہ سے بعض علماء نے گھوڑے کے گوشت کی حرمت کی دلیل اس آیت سے لی ہے ۔ جیسے امام ابو حنیفہ اور ان کی موافقت کرنے والے فقہا کہتے ہیں کہ خچر اور گدھے کے ساتھ گھوڑے کا ذکر ہے اور پہلے کے دونوں جانور حرام ہیں اس لئے یہ بھی حرام ہوا ۔ چنانچہ خچر اور گدھے کی حرمت احادیث میں آئی ہے اور اکثر علماء کا مذہب بھی ہے ۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ان تینوں کی حرمت آئی ہے ۔ وہ فرماتے ہیں کہ اس آیت سے پہلے کی آیت میں چوپایوں کا ذکر کر کے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ انہیں تو کھاتے ہو پس یہ تو ہوئے کھانے کے جانور اور ان تینوں کا بیان کر کے فرمایا کہ ان پر تم سواری کرتے ہو پس یہ ہوئے سواری کے جانور ۔ مسند کی حدیث میں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے گھوڑوں کے خچروں کے اور گدھوں کے گوشت کو منع فرمایا ہے لیکن اس کے راویوں میں ایک راوی صالح ابن یحییٰ بن مقدام ہیں جن میں کلام ہے ۔ مسند کی اور حدیث میں مقدام بن معدی کرب سے منقول ہے کہ ہم حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ صائقہ کی جنگ میں تھے ، میرے پاس میرے ساتھی گوشت لائے ، مجھ سے ایک پتھر مانگا میں نے دیا ۔ انہوں نے فرمایا ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غزوہ خیبر میں تھے لوگوں نے یہودیوں کے کھیتوں پر جلدی کر دی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم دیا کہ لوگوں میں ندا کر دوں کہ نماز کے لئے آ جائیں اور مسلمانوں کے سوا کوئی نہ آئے پھر فرمایا کہ اے لوگو تم نے یہودیوں کے باغات میں گھسنے کی جلدی کی سنو معاہدہ کا مال بغیر حق کے حلال نہیں اور پالتو گدھوں کے اور گھوڑوں کے اور خچروں کے گوشت اور ہر ایک کچلیوں والا درندہ اور ہر ایک پنجے سے شکار کھلینے والا پرندہ حرام ہے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ممانعت یہود کے باغات سے شاید اس وقت تھی جب ان سے معاہدہ ہو گیا ۔ پس اگر یہ حدیث صحیح ہوتی تو بیشک گھوڑے کی حرمت کے بارے میں تو نص تھی لیکن اس میں بخاری و مسلم کی حدیث کے مقا بلے کی قوت نہیں جس میں حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے منقول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پالتو گدھوں کے گوشت کو منع فرما دیا اور گھوڑوں کے گوشت کی اجازت دی ۔ اور حدیث میں ہے کہ ہم نے خیبر والے دن گھوڑے اور خچر اور گدھے ذبح کئے تو ہمیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے خچر اور گدھے کے گوشت سے تو منع کر دیا لیکن گھوڑے کے گوشت سے نہیں روکا ۔ صحیح مسلم شریف میں حضرت اسماء بن ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ ہم نے مدینے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں گھوڑا ذبح کیا اور اس کا گوشت کھایا ۔ پس یہ سب سے بڑی سب سے قوی اور سب سے زیادہ ثبوت والی حدیث ہے اور یہی مذہب جمہور علماء کا ہے ۔ مالک ، شا فعی ، احمد ، ان کے سب ساتھی اور اکثر سلف و کلف یہی کہتے ہیں ۔ واللہ اعلم ۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ پہلے گھوڑوں میں وحشت اور جنگلی پن تھا اللہ تعالیٰ نے حضرت اسماعیل علیہ السلام کے لئے اسے مطیع کر دیا ۔ وہب نے اسرائیلی روایتوں میں بیان کیا ہے کہ جنوبی ہوا سے گھوڑے پیدا ہو تے ہیں ۔ واللہ اعلم ۔ ان تینوں جانوروں پر سواری لینے کا جواز تو قرآن کے لفظوں سے ثابت ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک خچر ہدیے میں دیا گیا تھا جس پر آپ سواری کرتے تھے ہاں یہ آپ نے منع فرمایا ہے کہ گھوڑوں کو گدھیوں سے ملایا جائے ۔ یہ ممانعت اس لئے ہے کہ نسل منقطع نہ ہو جائے ۔ حضرت دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ اگر آپ اجازت دیں تو ہم گھوڑے اور گدھی کے ملاپ سے خچر لیں اور آپ اس پر سوار ہوں آپ نے فرمایا یہ کام وہ کرتے ہیں جو علم سے کورے ہیں ۔
8۔ 1 یعنی ان کی پیدائش کا اصل مقصد اور فائدہ تو ان پر سواری کرنا ہے تاہم زینت کا بھی باعث ہیں، گھوڑے خچر، اور گدھوں کے الگ ذکر کرنے سے بعض فقہاء نے استدلال کیا ہے کہ گھوڑا بھی اسی طرح حرام ہے جس طرح گدھا اور خچر۔ علاوہ ازیں کھانے والے چوپاؤں کا پہلے ذکر آچکا ہے۔ اس لئے اس آیت میں جن تین جانوروں کا ذکر ہے، یہ صرف (سواری) کے لئے ہے۔ 8۔ 2 زمین کے زیریں حصے میں، اسی طرح سمندر میں، اور بےآب وگیاہ صحراؤں اور جنگلوں میں اللہ تعالیٰ مخلوق پیدا فرماتا رہتا ہے جن کا علم اللہ کے سوا کسی کو نہیں اور اسی میں انسان کی بنائی ہوئی وہ چیزیں بھی آجاتی ہیں جو اللہ کے دیئے ہوئے دماغ اور صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے اسی کی پیدا کردہ چیزوں کو مختلف انداز میں جوڑ کر تیار کرتا ہے، مثلاً بس، کار، ریل گاڑی، جہاز اور ہوائی جہاز اور اس طرح کی بیشمار چیزیں اور جو مستقبل میں متوقع ہیں۔
[٧] ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے یہ حقیقت بیان فرمائی کہ اللہ تعالیٰ نے مویشیوں کو بھی انسان ہی کی خدمت کے لیے پیدا فرمایا ہے جن سے وہ طرح طرح کے فوائد حاصل کرتا ہے بعض جانور ایسے ہیں جن کے گوشت کو غذا کے طور پر استعمال کرتا ہے۔ دودھ، مکھن اور گھی انھیں سے حاصل کرتا تھا۔ گرم پوشاک اسے انھیں مویشیوں کی اون سے مہیا ہوتی ہے۔ وہ اس کے باربرداری کے کام بھی آتے ہیں اور سواری کے بھی۔ ان کے چمڑے سے وہ بہت سی قیمتی چیزیں تیار کرتا ہے۔ حتیٰ کہ ان کی ہڈیوں تک کو اپنے کام میں لاتا ہے پھر مزید یہ کہ اس کے لیے زینت بھی ہیں اور شان و شوکت کا سامان بھی۔- آج کے مشینی دور میں گو بہ لحاظ سواری اور بار برداری مویشیوں کی قدر و قیمت بہت کم ہوگئی ہے۔ تاہم ابھی تک ان کی ضرورت بدستور باقی ہے لیکن اس مشینی دور کو شروع ہوئے ابھی تین سو سال سے زیادہ عرصہ نہیں ہوا۔ ذرا غور فرمائیے اس مشینی دور سے پہلے اگر یہ مویشی نہ ہوتے تو انسان بالخصوص بار برداری کے مسئلے میں کسی قدر مشقت میں پڑ سکتا تھا۔ پھر اس مشینی دور نے بھی ان جانوروں کے فوائد کے صرف ایک حصہ یعنی سواری اور بار برداری کو کم کیا ہے۔ اور آج بھی دشوار گزار راستوں پر انہی جانوروں سے سواری اور بار برداری کا کام لیا جاتا ہے۔ ان جانوروں کے باقی سب فوائد بدستور باقی ہیں اور یہ سب احسانات اللہ تعالیٰ نے انسان پر اس لئے کیے کہ اس کی جسمانی زندگی کے بقا کے لیے اس کے ممد و معاون ثابت ہوں۔- مندرجہ بالا آیات میں اللہ تعالیٰ نے جہاں سواری اور زینت کا ذکر فرمایا تو گھوڑوں، خچروں اور گدھوں کا نام لیا اور جہاں بار برداری اور جمال کا ذکر فرمایا تو وہاں انعام کا لفظ استعمال فرمایا اور انعام نعم کی جمع ہے گو اس کا اطلاق درندوں کے علاوہ باقی سب جانوروں پر ہوتا ہے تاہم اس کا زیادہ تر استعمال اونٹ کے لیے ہی ہوتا ہے کیونکہ عربوں کے لیے اونٹ سے بڑھ کر کوئی نعمت نہ تھی جس کی کئی وجوہ ہیں۔ مثلاً اونٹ باقی سب جانوروں سے زیادہ بوجھ اٹھا سکتا ہے۔ عام اندازے کے مطابق گدھا ٥ من یا ٢ بوریاں غلہ اٹھاسکتا ہے۔ گھوڑے اور خچر ٣ بوریاں جبکہ اونٹ ٤ بوریاں بآسانی اٹھا سکتا ہے۔ دوسرے یہ کہ باقی سب جانوروں پر انھیں کھڑا کرکے بوجھ لادا جاتا ہے صرف اونٹ ایک ایسا جانور ہے جسے بٹھا کر اس پر بوجھ لادا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی لمبوتری گردن میں اتنی قوت رکھی ہے کہ وہ اس کے سہارے بھرے ہوئے بوجھ سمیت اٹھ کھڑا ہوتا ہے اونٹ میں بار برداری کے لحاظ سے تیسری خوبی یہ ہے کہ وہ عرب کے لق و دوق صحراؤں کے ریگستان میں بآسانی سفر کرسکتا ہے اور چوتھی یہ کہ پانی کے بغیر یہ جانور کئی دنوں تک اپنا سفر جاری رکھ سکتا ہے اونٹ کی انہی خوبیوں کی بنا پر اسے صحراء کا جہاز کا نام دیا گیا ہے۔ آج کے میشنی دور میں بھی جہاں پٹرول کی گاڑیاں کام نہیں دیتیں یہی صحرائی جہاز کام دیتا ہے۔- [٨] مویشیوں کے فوائد :۔ اس جملہ کے بھی دو مطلب ہیں ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ نے کئی ایسی چیزیں تمہارے لیے پیدا کر رکھی ہیں جو تمہاری خدمت پر مامور ہیں لیکن تم انھیں جان نہیں سکتے یا ابھی تک جان نہیں سکے اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہاری سواری اور باربرداری اور دوسرے فوائد کے لیے مستقبل میں کئی ایسی چیزیں پیدا کرے گا جن کا فی الحال تم تصور بھی نہیں کرسکتے۔ مثلاً سواری کے لیے اللہ تعالیٰ نے بسیں، ریل گاڑیاں اور ہوائی جہاز پیدا کردیئے اور معلوم نہیں کہ آئندہ کیا کچھ پیدا کرے گا۔ یہی حال زندگی کے دوسرے شعبوں میں نت نئی نئی ایجادات کا ہے۔
وَّالْخَيْلَ وَالْبِغَالَ وَالْحَمِيْرَ لِتَرْكَبُوْهَا ۔۔ :” وَزِيْنَةً “ مفعول لہ ہے۔ ” وَيَخْلُقُ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ “ یعنی ان جانوروں کے علاوہ جن کا ابھی ذکر ہوا، اللہ تعالیٰ تمہارے لیے وہ چیزیں پیدا کرتا رہے گا جو تم نہیں جانتے۔ اس میں وہ بیشمار حیوانات بھی شامل ہیں جو اللہ تعالیٰ نئے سے نئے پیدا کرتا رہتا ہے، کبھی مختلف نسلوں کے ملاپ سے، کبھی از سر نو صحراؤں، جنگلوں، سمندروں میں اور انسانوں کی تجربہ گاہوں میں اور قیامت تک ایجاد ہونے والی سواریاں اور مشینیں بھی جو آیت کے نزول کے وقت موجود نہ تھیں، جن میں گاڑیاں، ہوائی جہاز اور انجنوں سے چلنے والے بحری جہاز وغیرہ سب شامل ہیں اور اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ مزید کیا کیا ایجادات ہوں گی ؟ قرآن نے ان چیزوں کا ذکر کیا مگر انھیں مبہم رکھا، کیونکہ اگر نام لیتے تو بہت سے لوگ شاید انکار ہی کردیتے۔ کہا جاتا ہے : ” اَلنَّاسُ اَعْدَاءٌ لِمَا جَھِلُوْا “ ” کہ لوگ جس بات کا علم نہ رکھتے ہوں اس کے مخالف ہوا کرتے ہیں “ اور ذکر نہ کرتے تو جانوروں سے بھی تیز رفتار، آرام دہ اور مزین سواریوں کا توحید و احسانِ الٰہی کی دلیل کے طور پر ذکر رہ جاتا جو ” سُبْحٰنَ الَّذِيْ سَخَّــرَ لَنَا ھٰذَا “ کی جانوروں سے بھی بڑھ کر مصداق ہیں اور صاحب ظلال القرآن نے لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ اشارہ اس لیے بھی کردیا کہ لوگ نئی ایجادات پر سواری میں حرج نہ سمجھیں کہ ہمارے بزرگ تو اونٹوں گھوڑوں ہی پر سواری کرتے رہے ہیں اور قرآن میں انھی کا ذکر ہے۔ - 3 خچر اور گدھے کے گوشت کی حرمت پر تو سب کا اتفاق ہے، البتہ گھوڑے کے گوشت میں اختلاف ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے صحیح احادیث میں اس کا حلال ہونا ثابت ہے۔ بعض لوگ جو اسے حرام سمجھتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہاں ان تینوں جانوروں کو سواری کے لیے دوسرے جانوروں سے الگ ذکر فرمایا ہے، اگر ان کا کھانا حلال ہوتا ہے تو سواری کے ساتھ انھیں کھانے کی نعمت کا ذکر ضرور ہوتا۔ یہ دلیل اگر درست مانی جائے تو پہلے جانوروں کے فوائد میں سواری کا ذکر نہیں تو ان پر سواری جائز نہیں ہونی چاہیے۔ (طبری) بغوی نے فرمایا کہ یہ آیات حلال و حرام کے بیان سے تعلق ہی نہیں رکھتیں۔ علامۂ شام جمال الدین قاسمی (رض) فرماتے ہیں کہ سب کو معلوم ہے کہ یہ سورت مکی ہے، اگر اس سے گھوڑے کی حرمت ثابت ہوتی تو گدھے کی بھی ضرور ثابت ہوتی، جب کہ گدھے کا گوشت ان آیات کے بعد بھی حلال رہا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خیبر کے موقع پر اسے حرام فرمایا اور اسی موقع پر گھوڑے کے حلال ہونے کو برقرار رکھا۔ چناچہ صحیح بخاری میں جابر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے گھریلو گدھوں کے گوشت سے منع فرمایا اور گھوڑوں کی اجازت دی۔ [ بخاري، المغازی، باب غزوۃ خیبر : ٤٢١٩ ] اسماء (رض) فرماتی ہیں، ہم نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے میں ایک گھوڑا نحر کیا اور اسے کھایا۔ [ بخاری، الذبائح والصید، باب النحر و الذبح : ٥٥١٠۔ مسلم، الصید والذبائح، باب إباحۃ أکل لحم الخیل : ١٩٤٢ ] اسی طرح جابر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں گھوڑے کا گوشت کھانے کی اجازت دی اور گھریلو گدھوں کے گوشت سے منع فرمایا۔ [ ترمذي، الأطعمۃ، باب ما جاء في أکل لحوم الخیل : ١٧٩٣۔ نسائی : ٤٣٣٣ ]- علامہ قاسمی فرماتے ہیں کہ ابوداؤد اور نسائی وغیرہ میں خالد بن ولید (رض) سے جو حدیث مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے درندوں میں سے ہر کچلی والے جانور اور گھوڑوں، خچروں اور گدھوں کے گوشت سے منع فرمایا، اس کی سند میں صالح بن یحییٰ ہے جس میں مقال ہے، امام بخاری نے فرمایا : ” فِیْہِ نَظْرٌ“ اور ایسے راوی کی حدیث لینا درست نہیں ہوتا، پھر اگر صحیح بھی فرض کریں تو یہ اوپر ذکر کردہ صحیح احادیث کے مقابلے میں پیش کرنے کے قابل نہیں اور یہ بھی ممکن ہے کہ یہ حکم خیبر سے پہلے کا ہو اور منسوخ ہو۔ - تنبیہ : صاحب ہدایہ نے امام ابوحنیفہ سے گھوڑے کی کراہت نقل فرمائی ہے، حرمت نہیں اور لکھا ہے : ” بعض نے کہا ان کے نزدیک کراہت تحریمی ہے اور بعض نے کہا تنزیہی ہے۔ (صاحب ہدایہ کے خیال میں پہلا قول زیادہ صحیح ہے) البتہ اس کے دودھ سے متعلق کہا گیا ہے کہ اس میں کوئی حرج نہیں، کیونکہ اس سے آلۂ جہاد (گھوڑوں) میں کمی واقع نہیں ہوتی۔ “ اس سارے کلام سے گھوڑے کا اور گدھے اور خچر کا فرق واضح ہو رہا ہے اور یہ بھی کہ امام ابوحنیفہ کا گھوڑوں کے گوشت کو مکروہ کہنے کی اصل و جہ یہ ہے کہ وہ آلۂ جہاد ہیں، ذبح کرنے سے کمی واقع ہوجائے گی۔ - وَزِيْنَةً : پچھلی آیات میں جمال اور اس آیت میں زینت کے ذکر سے معلوم ہوا کہ انسانی ضروریات صرف کھانا پینا، پہننا اور سواری ہی نہیں بلکہ حسن و جمال اور زینت کا احساس بھی انسان کی فطرت میں رکھ دیا گیا ہے اور اگر حرام طریقے سے نہ ہو تو اس سے فائدہ اٹھانا بھی اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے۔
(آیت) وَالْخَيْلَ وَالْبِغَالَ وَالْحَمِيْرَ لِتَرْكَبُوْهَا وَزِيْنَةً یعنی ہم نے گھوڑے خچر گدھے پیدا کئے تاکہ تم ان پر سوار ہو سکو اس میں بار برداری بھی ضمنا آگئی اور ان کو اس لئے بھی پیدا کیا کہ یہ تمہارے لئے زینت بنیں زینت سے وہی شان و شوکت مراد ہے جو عرفا ان جانوروں کے مالکان کو دنیا میں حاصل ہوتی ہے۔- قرآن میں ریل موٹر ہوائی جہاز کا ذکر :- آخر میں سواری کے تین جانور گھوڑے خچر گدھے کا خاص طور سے بیان کرنے کے بعد دوسری قسم کی سواریوں کے متعلق بصیغہ استقبال فرمایا۔- (آیت) وَيَخْلُقُ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ یعنی اللہ تعالیٰ پیدا کرے گا وہ چیزیں جن کو تم نہیں جانتے اس میں وہ تمام نو ایجاد سواری گاڑیاں بھی داخل ہیں جن کا زمانہ قدیم میں نہ وجود تھا نہ کوئی تصور مثلا ریل، موٹر، ہوائی جہاز وغیرہ جو اب تک ایجاد ہوچکے ہیں وہ تمام چیزیں بھی اس میں داخل ہیں جو آئندہ زمانے میں ایجاد ہوں گی کیونکہ تخلیق ان سب چیزوں کی درحقیقت خالق مطلق ہی کا فعل ہے سائنس قدیم وجدید کا اس میں صرف اتنا ہی کام ہے کہ مختلف کل پرزے بنا لے اور پھر اس میں قدرت الہیہ کی بخشی ہوئی ہوا پانی آگ وغیرہ سے برقی رو پیدا کرلے یا قدرت ہی کے دیئے ہوئے خزانوں میں سے پیڑول نکال کر ان سواریوں میں استعمال کرے سائنس قدیم وجدید مل کر بھی نہ کوئی لوہا پیتل پیدا کرسکتی ہے نہ ایلومونیم قسم کی ہلکی دھاتیں بنا سکتی ہے نہ لکڑی پیدا کرسکتی ہے نہ ہوا اور پانی پیدا کرنا اس کے بس میں ہے اس کا کام اس سے زائد نہیں کہ قدرت الہیہ کی پیدا کی ہوئی قوتوں کا استعمال سیکھ لے دنیا کی ساری ایجادات صرف اسی استعمال کی تفصیل ہیں اس لئے جب ذرا بھی کوئی غور وفکر سے کام لے تو ان سے نئی ایجادات کو تخلیق خالق مطلق کہنے اور تسلیم کرنے کے سوا چارہ نہیں - یہاں یہ بات خاص طور سے قابل نظر ہے کہ پچھلی تمام اشیاء کی تخلیق میں لفظ ماضی خلق استعمال فرمایا گیا ہے اور معروف سواریوں کا ذکر کرنے کے بعد بصیغہ مستقبل یخلق ارشاد ہوا ہے اس تعبیر عنوان سے واضح ہوگیا کہ یہ لفظ ان سواریوں اور دوسری اشیاء کے متعلق ہے جو ابھی معرض وجود میں نہیں آئیں اور اللہ تعالیٰ کے علم میں ہے کہ اگلے زمانے میں کیا کیا سواریاں اور دوسری اشیاء پیدا کرنا ہیں ان کا اظہار اس مختصر جملے میں فرما دیا۔- حق جل شانہ یہ بھی کرسکتے تھے کہ آئندہ وجود میں آنے والی تمام نئی ایجادات کا نام لے کر ذکر فرما دیتے مگر اس زمانے میں اگر ریل، موٹر طیارہ وغیرہ کے الفاظ ذکر بھی کردیئے جاتے تو اس سے بجز تشویش ذہن کے کوئی فائدہ نہ ہوتا کیونکہ ان اشیاء کا اس وقت تصور کرنا بھی لوگوں کے لئے آسان نہ تھا اور نہ یہ الفاظ ان چیزوں کے لئے اس وقت کہیں مستعمل ہوتے تھے کہ اس سے کچھ مفہوم سمجھا جاسکے۔- میرے والد ماجد حضرت مولانا محمد یسین صاحب نے فرمایا کہ ہمارے استاذ استاذ الکل حضرت مولانا محمد یعقوب صاحب نانوتوی فرمایا کرتے تھے کہ قرآن کریم میں ریل کا ذکر موجود ہے اور اسی آیت سے استدلال فرمایا اس وقت تک موٹریں عام نہ ہوئی تھیں اور ہوائی جہاز ایجاد نہ ہوئے تھے اس لئے ریل کے ذکر پر اکتفاء فرمایا۔- مسئلہ : قرآن کریم نے اول انعام یعنی اونٹ گائے، بکری کا ذکر فرمایا اور ان کے فوائد میں سے ایک اہم فائدہ ان کا گوشت کھانا بھی قرار دیا پھر اس سے الگ کر کے فرمایا۔- وَالْخَيْلَ وَالْبِغَالَ وَالْحَمِيْرَ ان کے فوائد میں سواری لینے اور ان سے اپنی زینت حاصل کرنے کا تو ذکر کیا مگر گوشت کھانے کا یہاں ذکر نہیں کیا اس میں یہ دلالت پائی جاتی ہے کہ گھوڑے، خچر، گدھے کا گوشت حلال نہیں خچر اور گدھے کا گوشت حرام ہونے پر تو جمہور فقہاء کا اتفاق ہے اور ایک مستقل حدیث میں ان کی حرمت کا صراحۃ بھی ذکر آیا ہے مگر گھوڑے کے معاملہ میں حدیث کی دو روایتیں متعارض آئی ہیں ایک سے حلال اور دوسری سے حرام ہونا معلوم ہوتا ہے اسی لئے فقہائے امت کے اقوال اس مسئلے میں مختلف ہوگئے بعض نے حلال قرار دیا بعض نے حرام امام اعظم ابوحنیفہ (رح) نے اسی تعارض دلائل کی وجہ سے گھوڑے کے گوشت کو گدھے اور خچر کی طرح حرام تو نہیں کہا مگر مکروہ قرار دیا (احکام القرآن جصاص) - مسئلہ : اس آیت سے جمال اور زینت کا جواز معلوم ہوتا ہے اگرچہ تفاخر وتکبر حرام ہیں فرق یہ ہے کہ جمال اور زینت کا حاصل اپنے دل کی خوشی یا اللہ تعالیٰ کی نعمت کا اظہار ہوتا ہے نہ دل میں اپنے کو اس نعمت کا مستحق سمجھتا ہے اور نہ دوسروں کو حقیر جانتا ہے بلکہ حق تعالیٰ کا عطیہ اور انعام ہونا اس کے پیش نظر ہوتا ہے اور تکبر و تفاخر میں اپنے آپ کو اس نعمت کا مستحق سمجھنا دوسروں کو حقیر سمجھنا پایا جاتا ہے وہ حرام ہے (بیان القرآن )
وَّالْخَيْلَ وَالْبِغَالَ وَالْحَمِيْرَ لِتَرْكَبُوْهَا وَزِيْنَةً ۭ وَيَخْلُقُ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ - خيل - والخُيَلَاء : التّكبّر عن تخيّل فضیلة تراءت للإنسان من نفسه، ومنها يتأوّل لفظ الخیل لما قيل : إنه لا يركب أحد فرسا إلّا وجد في نفسه نخوة، والْخَيْلُ في الأصل اسم للأفراس والفرسان جمیعا، وعلی ذلک قوله تعالی: وَمِنْ رِباطِ الْخَيْلِ [ الأنفال 60] ، ويستعمل في كلّ واحد منهما منفردا نحو ما روي : (يا خيل اللہ اركبي) «1» ، فهذا للفرسان، وقوله عليه السلام : «عفوت لکم عن صدقة الخیل» «2» يعني الأفراس . والأخيل :- الشّقراق «3» ، لکونه متلوّنا فيختال في كلّ وقت أنّ له لونا غير اللون الأوّل،- ( خ ی ل )- الخیلاء ۔ تکبر جو کسی ایسی فضیلت کے تخیل پر مبنی ہو جو انسان اپنے اندر خیال کرتا ہو ۔ اسی سے لفظ خیل لیا گیا ہے کیونکہ جو شخص گھوڑے پر سوار ہو وہ اپنے اندر بخت و غرور پاتا ہے ۔ دراصل خیل اندر نحوت و غرور پاتا ہے ۔ دراصل خیل کا لفظ گھوڑے اور سواروں دونوں کے مجموعہ پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے :۔ وَمِنْ رِباطِ الْخَيْلِ [ الأنفال 60] اور گھوڑو ن کے تیار رکھنے سے اور کبھی ہر ایک پر انفراد بھی بولا جاتا ہے جیسا کہ ایک روایت میں ہے (122) یاخیل اللہ ارکبی ۔ ( اے اللہ کے سوا گھوڑے پر سوار ہوجا۔ تو یہاں خیل بمعنی فا رس کے ہے اور ایک حدیث میں ہے (123) عفوت لکم عن صدقۃ الخیل کہ میں نے تمہیں گھوڑوں کا صدقہ معاف کیا الاخیل ۔ شقرا ( ایک پرندہ ) کو کہاجاتا ہے کیونکہ وہ رنگ بدلتا رہتا ہے ۔ اور ہر لحظہ یہ خیال ہوتا ہے کہ یہ دوسرے رنگ کا ہے ۔ اس ی بناپر شاعر نے کہا ہے ( مجرد الکامل) (149) کا بی براقش کل لومن نہ یتخیل ابوبراقش کی طرح جو ہر آن نیا رنگ بدلتا ہے ۔ - بغل - قال اللہ تعالی: وَالْخَيْلَ وَالْبِغالَ وَالْحَمِيرَ [ النحل 8] ، والبَغْل : المتولّد من بين الحمار والفرس، وتَبَغَّلَ البعیر : تشبّه به في سعة مشيه، وتصوّر منه عرامته وخبثه، فقیل في صفة النذل : هو بغل .- ( ب غ ل )- البغل ( خچر اوہ جانور جو گدھے اور گھوڑی کے باہم ملاپ سے پیدا ہوتا ہے قرآن میں ہے : ۔ وَالْخَيْلَ وَالْبِغالَ وَالْحَمِيرَ [ النحل 8] اور اسی نے گھوڑے اور خچر اور گدھے ۔ تبغل البعیر اونٹ کا خچر کی طرح تیز چلنا ۔ کبھی خچر کی شرارت اور خباثت کے پیش نظر کمینے شخص کو بھی بغل کہہ دیا جاتا ہے ۔ ركب - الرُّكُوبُ في الأصل : كون الإنسان علی ظهر حيوان، وقد يستعمل في السّفينة، والرَّاكِبُ اختصّ في التّعارف بممتطي البعیر، وجمعه رَكْبٌ ، ورُكْبَانٌ ، ورُكُوبٌ ، واختصّ الرِّكَابُ بالمرکوب، قال تعالی: وَالْخَيْلَ وَالْبِغالَ وَالْحَمِيرَ لِتَرْكَبُوها وَزِينَةً [ النحل 8] ، فَإِذا رَكِبُوا فِي الْفُلْكِ- ) رک ب ) الرکوب - کے اصل معنی حیوان کی پیٹھ پر سوار ہونے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے :۔ لِتَرْكَبُوها وَزِينَةً [ النحل 8] تاکہ ان سے سواری کا کام لو اور ( سواری کے علاوہ یہ چیزیں ) موجب زینت ( بھی ) ہیں ۔ مگر کبھی کشتی وغیرہ سواری ہونے کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے :۔ فَإِذا رَكِبُوا فِي الْفُلْكِ [ العنکبوت 65] پھر جب لوگ کشتی میں سوار ہوتے ہیں ۔ - زين - الزِّينَةُ الحقیقيّة : ما لا يشين الإنسان في شيء من أحواله لا في الدنیا، ولا في الآخرة، فأمّا ما يزينه في حالة دون حالة فهو من وجه شين، - ( زی ن ) الزینہ - زینت حقیقی ہوتی ہے جو انسان کے لئے کسی حالت میں بھی معیوب نہ ہو یعنی نہ دنیا میں اور نہ ہی عقبی ٰ میں اور وہ چیز جو ایک حیثیت سی موجب زینت ہو لیکن دوسری حیثیت سے موجب زینت نہ ہو وہ زینت حقیقی نہیں ہوتی بلکہ اسے صرف ایک پہلو کے اعتبار سے زینت کہہ سکتے ہیں
(٨) اور اللہ تعالیٰ نے گھوڑے اور خچر اور گدھے بھی پید اکیے تاکہ اللہ تعالیٰ کے راستہ میں تم ان پر سوار ہو اور تمہاری زینت و خوشی کے لیے بھی ان کو پیدا کیا اور وہ ایسی ایسی چیزیں بناتا ہے جن کا تمہیں علم نہیں، اور جو تمہارے کبھی سننے میں بھی نہیں آئیں۔
آیت ٨ (وَّالْخَيْلَ وَالْبِغَالَ وَالْحَمِيْرَ لِتَرْكَبُوْهَا وَزِيْنَةً )- ان مویشیوں سے انسان کو بہت سے فوائد بھی حاصل ہوتے ہیں اور یہ اس کے لیے باعث زیب وزینت بھی ہیں۔ خصوصی طور پر گھوڑا بہت حسین اور قیمتی جانور ہے اور اس کا مالک اسے اپنے لیے باعث فخر و تمکنت سمجھتا ہے ۔- (وَيَخْلُقُ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ )- یعنی یہ تو چند وہ چیزیں ہیں جن کے بارے میں تم لوگ جانتے ہو مگر اللہ تعالیٰ تو بیشمار ایسی چیزیں بھی تخلیق فرماتا ہے جن کے بارے میں تمہیں کچھ بھی علم نہیں۔
سورة النَّحْل حاشیہ نمبر :8 یعنی بکثرت ایسی چیزیں ہیں جو انسان کی بھلائی کے لیے کام کر رہی ہیں اور انسان کو خبر تک نہیں ہے کہ کہاں کہاں کتنے خدام اس کی خدمت میں لگے ہوئے ہیں اور کیا خدمت انجام دے رہے ہیں ۔
4: یعنی اﷲ تعالیٰ کی پیدا کی ہوئی بہت سی سواریاں وہ ہیں جن کا ابھی تمہیں پتہ بھی نہیں ہے، اس طرح آیتِ کریمہ نے یہ خبر دی ہے کہ اگرچہ فی الحال تم صرف گھوڑوں، خچروں اور گدھوں کو سواری کے لئے استعمال کرتے ہو، لیکن اﷲ تعالیٰ آئندہ نئی نئی سواریاں پیدا کرے گا، اور اس طرح اس آیت میں اُن ساری سواریوں کا ذکر آگیا ہے جو نزولِ قرآن کے بعد پیدا ہوئیں، مثلا ًکاریں، بسیں، ریلیں، ہوائی اور بحری جہازوغیرہ۔ بلکہ قیامت تک جتنی سواریاں مزید پیدا ہوں وہ سب اس آیت کے مفہوم میں داخل ہیں۔ عربی زبان کے قاعدے کے مطابق اس جملے کا یہ ترجمہ بھی ہوسکتا ہے کہ ’’وہ ایسی چیزیں پیدا کرے گا جن کا تمہیں ابھی علم نہیں ہے۔‘‘ اس ترجمے سے یہ مفہوم زیادہ واضح ہوجاتا ہے۔