Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

94۔ 1 ذو القرنین سے یہ خطاب یا تو کسی ترجمان کے ذریعے ہوا ہوگا یا اللہ تعالیٰ نے ذوالقرنین کو جو خصوصی اسباب و وسائل مہیا فرمائے تھے، انہی میں مختلف زبانوں کا علم بھی ہوسکتا ہے اور یوں یہ خطاب براہ راست بھی ہوسکتا ہے۔ 94۔ 2 یاجوج و ماجوج یہ دو قومیں ہیں اور حدیث صحیح کے مطابق نسل انسانی میں سے ہیں اور ان کی تعداد، دوسری انسانی نسلوں کے مقابلے میں زیادہ ہوگی اور انہی سے جہنم زیادہ بھرے گی (صحیح بخاری)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٧٦] ذوالقرنین کی تیسری مہم شمال کو۔ یاجوج ماجوج کون ہیں ؟ ذوالقرنین کے تیسرے سفر کی سمت کا قرآن میں ذکر نہیں ہے تاہم قیاس یہی ہے کہ یہ شمالی جانب تھا اور شمالی جانب وہ قفقاز (کاکیشیا) کے پہاڑی علاقہ تک چلا گیا۔ ذوالقرنین اور اس کے ساتھی ان لوگوں کی زبان نہیں سمجھتے تھے اور وہ ان کی زبان نہیں سمجھتے تھے۔ ایسی صورتوں میں کسی ترجمان کی وساطت سے ہی بات چیت ہوئی ہوگی یا بسا اوقات اشاروں سے بھی مطلب سمجھایا جاسکتا ہے اور مسلم مؤرخین کے بیان کے مطابق یاجوج ماجوج سے مراد وہ انتہائی شمال مشرقی علاقہ کی وحشی اقوام ہیں جو انہی دروں کے راستوں سے یورپ اور ایشیا کی مہذب اقوام پر حملہ آور ہوتی رہی ہیں اور جنہیں مؤرخین سیدنا نوح کے بیٹے یافث کی اولاد قرار دیتے ہیں۔ ان لوگوں نے ذوالقرنین کے حسن سلوک سے متاثر ہو کر یہ التجا کی کہ ہمیں یاجوج ماجوج حملہ کرکے ہر وقت پریشان کرتے رہتے ہیں اگر ممکن ہو تو ان دو گھاٹیوں کے درمیان جو درے ہیں انھیں پاٹ دیجئے اور اس سلسلہ میں جو لاگت آئے وہ ہم دینے کو تیار ہیں یا اس کے عوض ہم پر کوئی ٹیکس لگا دیجئے وہ ہم ادا کرتے رہیں گے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

قَالُوْا يٰذَا الْقَرْنَيْنِ ۔۔ : جب وہ قریب نہ تھے کہ کوئی بات سمجھیں تو ذوالقرنین سے ان کی گفتگو کیسے ہوئی ؟ جواب یہ ہے کہ اشاروں کی زبان میں، جو بین الاقوامی زبان ہے، یا ذوالقرنین کو اللہ تعالیٰ نے خاص طور پر ان کی زبان سمجھا دی ہوگی، جیسا کہ داؤد و سلیمان (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے پرندوں کی بولی سکھا دی تھی۔ - فَهَلْ نَجْعَلُ لَكَ خَرْجًا۔۔ : اس قوم اور یاجوج ماجوج کے درمیان دو پہاڑ تھے جن کے درمیان ایک درہ تھا، جہاں سے آ کر وہ لوگ لوٹ مار کر کے چلے جاتے تھے۔ دو پہاڑوں کے درمیان ان کے برابر ایک بلند دیوار کوئی اولو العزم بادشاہ ہی بنا سکتا تھا، جس کے پاس ہر قسم کے وسائل ہوں۔ کوئی قوم کتنی بھی مال دار ہو، یہ کام سرانجام نہیں دے سکتی۔ اس لیے انھوں نے اخراجات ادا کرنے کی پیش کش کرکے اپنے اور یاجوج ماجوج کے درمیان رکاوٹ بننے والی دیوار بنانے کی درخواست کی جو پہاڑوں کی طرح ان کا راستہ روک سکے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

یاجوج و ماجوج کون ہیں اور کہاں ہیں، سد ذوالقرنین کس جگہ ہے ؟- ان کے متعلق اسرائیلی روایات اور تاریخی کہانیوں میں بہت بےسروپا عجیب و غریب باتیں مشہور ہیں جن کو بعض حضرات مفسرین نے بھی تاریخی حیثت سے نقل کردیا ہے مگر وہ خود ان کے نزدیک بھی قابل اعتماد نہیں قرآن کریم نے ان کا مختصر ساحال اجمالاً بیان کیا اور رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بقدر ضرورت تفصیلات سے بھی امت کو آگاہ کردیا ایمان لانے اور اعتقاد رکھنے کی چیز صرف اتنی ہی ہے جو قرآن اور احادیث صحیحہ میں آگئی ہے اس سے زائد تاریخی اور جغرافیائی حالات جو مفسرین محدثین اور مؤ رخین نے ذکر کئے ہیں اور صحیح بھی ہوسکتے ہیں اور غلط بھی ان میں جو اہل تاریخ کے اقوال مختلف ہیں وہ قرائن اور قیاسات اور تخمینوں پر مبنی ہیں ان کے صحیح یا غلط ہونے کا کوئی اثر قرآنی ارشادات پر نہیں پڑتا۔- میں اس جگہ پہلے وہ احادیث نقل کرتا ہوں جو اس معاملے میں محدثین کے نزدیک صحیح یا قابل اعتماد ہیں اس کے بعد بقدر ضرورت تاریخی روایات میں لکھی جاویں گی۔- یاجوج وماجوج کے متعلق روایات حدیث :- قرآن و سنت کی تصریحات سے اتنی بات تو بلاشبہ ثابت ہے کہ یاجوج و ماجوج انسانوں ہی کی قومیں ہیں عام انسانوں کی طرح نوح (علیہ السلام) کی اولاد میں سے ہیں کیونکہ قرآن کریم کی نص صریح ہے وَجَعَلْنَا ذُرِّيَّتَهٗ هُمُ الْبٰقِيْنَ یعنی طوفان نوح (علیہ السلام) کے بعد جتنے انسان زمین پر باقی ہیں اور رہیں گے وہ سب حضرت نوح (علیہ السلام) کی اولاد میں ہوں گے۔ تاریخی روایات اس پر متفق ہیں کہ وہ یافث کی اولاد میں ہیں ایک ضعیف حدیث سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے ان کے باقی حالات کے متعلق سب سے زیادہ تفصیلی اور صحیح حدیث حضرت نواس بن سمعان (رض) کی ہے جس کو صحیح مسلم اور تمام مستند کتب حدیث میں نقل کیا گیا ہے اور محدثین نے اس کو صحیح قرار دیا ہے اس میں خروج دجال نزول عیسیٰ (علیہ السلام) پھر خروج یاجوج و ماجوج وغیرہ کی پوری تفصیل مذکور ہے اس پوری حدیث کا ترجمہ حسب ذیل ہے۔- حضرت نواس بن سمعان (رض) فرماتے ہیں کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک دن صبح کے وقت دجال کا تذکرہ فرمایا اور تذکرہ فرماتے ہوئے بعض باتیں اس کے متعلق ایسی فرمائیں کہ جن سے اس کا حقیر و ذلیل ہونا معلوم ہوتا تھا (مثلا یہ کہ وہ کانا ہے) اور بعض باتیں اس کے متعلق ایسی فرمائیں کہ جن سے معلوم ہوتا تھا کہ اس کا فتنہ سخت اور عظیم ہے (مثلا جنت و دوزخ کا اس کے ساتھ ہونا اور دوسرے خوارق عادات) آپ کے بیان سے (ہم پر ایسا خوف طاری ہوا کہ) گویا دجال کھجوروں کے جھنڈ میں ہے (یعنی قریب ہی موجود ہے) جب ہم شام کو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ نے ہمارے قلبی تاثرات کو بھانپ لیا اور پوچھا کہ تم نے کیا سمجھا ؟ ہم نے عرض کیا کہ آپ نے دجال کا تذکرہ فرمایا اور بعض باتیں اس کے متعلق ایسی فرمائیں جن سے اس کا معاملہ حقیر اور آسان معلوم ہوتا تھا اور بعض باتیں ایسی فرمائیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کی بڑی قوت ہوگی اس کا فتنہ بڑا عظیم ہے ہمیں تو ایسا محسوس ہونے لگا کہ ہمارے قریب ہی وہ کھجوروں کے جھنڈ میں موجود ہے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرمانے لگے تمہارے بارے میں جن فتنوں کا مجھے خوف ہے ان میں دجال کی بہ نسبت دوسرے فتنے زیادہ قابل خوف ہیں (یعنی دجال کا فتنہ اتنا عظیم نہیں جتنا تم نے سمجھ لیا ہے) اگر میری موجودگی میں وہ نکلا تو میں اس کا مقابلہ خود کروں گا (تمہیں اس کی فکر کی ضرورت نہیں) اور اگر وہ میرے بعد آیا تو ہر شخص اپنی ہمت کے موافق اس کو مغلوب کرنے کی کوشش کرے گا حق تعالیٰ میری غیر موجودگی میں ہر مسلمان کا ناصر اور مددگار ہے (اس کی علامت یہ ہے) کہ وہ نوجوان سخت پیچدار بالوں والا ہے اس کی ایک آنکھ اوپر کو ابھری ہوئی ہے (اور دوسری آنکھ سے کانا ہے جیسا کہ دوسری روایات میں ہے) اور اگر میں (اس کی قبیح صورت میں) اس کو کسی کے ساتھ تشبیہ دے سکتا ہوں تو وہ عبدالعزی بن قطن ہے (یہ زمانہ جاہلیت میں بنوخزاعہ قبیلہ کا ایک بدشکل شخص تھا) اگر تم میں سے کسی مسلمان کا دجال کے ساتھ سامنا ہوجائے تو اس کو چاہئے کہ وہ سورة کہف کی ابتدائی آیات پڑھ لے (اس سے دجال کے فتنہ سے محفوظ ہوجائے گا) دجال شام اور عراق کے درمیان سے نکلے گا اور ہر طرف فساد مچائے گا اے اللہ کے بندو اس کے مقابلہ میں ثابت قدم رہنا۔- ہم نے عرض کیا کہ یارسول اللہ وہ زمین میں کس قدر مدت رہے گا آپ نے فرمایا وہ چالیس دن رہے گا لیکن پہلا دن ایک سال کے برابر ہوگا اور دوسرا دن ایک ماہ کے برابر ہوگا اور تیسرا دن ایک ہفتہ کے برابر ہوگا اور باقی دن عام دنوں کے برابر ہوں گے ہم نے عرض کیا یا رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو دن ایک سال کے برابر ہوگا کیا ہم اس میں صرف ایک دن کی (پانچ نماریں) پڑھیں گے ؟ آپ نے فرمایا نہیں بلکہ وقت کا اندازہ کرکے پورے سال کی نمازیں ادا کرنا ہوں گی پھر ہم نے عرض کیا یا رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وہ زمین میں کس قدر سرعت کے ساتھ سفر کرے گا فرمایا اس ابر کے مانند تیز چلے گا جس کے پیچھے موافق ہوا لگی ہوئی ہو پس دجال کسی قوم کے پاس سے گذرے گا ان کو اپنے باطل عقائد کی دعوت دے گا وہ اس پر ایمان لائیں گے تو وہ بادلوں کو حکم دے گا تو وہ برسنے لگیں گے اور زمین کو حکم دے گا وہ سرسبز و شاداب ہوجائے گی (اور ان کے مویشی اس میں چریں گے) اور شام کو جب واپس آئیں گے تو ان کے کوہان پہلے کی بہ نسبت اونچے ہوں گے اور تھن دودھ سے بھرے ہوئے ہوں گے اور ان کی کو کھیں پر ہوں گی پھر دجال کسی دوسری قوم کے پاس سے گذرے گا اور ان کو بھی اپنے کفر واضلال کی دعوت دے گا لیکن وہ اس کی باتوں کو رد کردیں گے وہ ان سے مایوس ہو کر چلا جائے گا تو یہ مسلمان لوگ قحط سالی میں مبتلا ہوجائیں گے اور ان کے پاس کچھ مال نہ رہے گا اور ویران زمین کے پاس سے اس کا گذر ہوگا تو وہ اس کو خطاب کرے گا کہ اپنے خزانوں کو باہر لے آ چناچہ زمین کے خزانے اس کے پیچھے پیچھے ہو لیں گے جیسا کہ شہد کی مکھیاں اپنے سردار کے پیچھے ہو لیتی ہیں پھر دجال ایک آدمی کو بلائے گا جس کا شباب پورے زوروں پر ہوگا اس کو تلوار مار کردو ٹکڑے کردے گا اور دونوں ٹکڑے اس قدر فاصلہ پر کردیئے جائیں گے جس قدر تیر مارنے والے اور نشانہ کے درمیان فاصلہ ہوتا ہے پھر وہ اس کو بلائے گا وہ (زندہ ہوکر) دجال کی طرف اس کے اس فعل پر ہنستا ہوا روشن چہرے کے ساتھ آجائے گا دریں اثنا حق تعالیٰ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو نازل فرمائیں گے چناچہ وہ دو رنگ دار چادریں پہنے ہوئے دمشق کی مشرقی جانب کے سفید مینارہ پر اس طرح نزول فرمائیں گے کہ اپنے دونوں ہاتھوں کو فرشتوں کے پروں پر رکھے ہوئے ہوں گے جب اپنے سرمبارک کو نیچے کریں گے تو اس سے پانی کے قطرات جھڑیں گے (جیسے کوئی ابھی غسل کرکے آیا ہو) اور جب سر کو اوپر کریں گے تو اس وقت بھی پانی کے متفرق قطرات جو موتیوں کی طرح صاف ہوں گے گریں گے جس کافر کو آپ کے سانس کی ہوا پہنچے گی وہ وہیں مرجائے گا۔- اور آپ کا سانس اس قدر دور پہنچے گا جس قدر دور آپ کی نگاہ جائے گی حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) دجال کو تلاش کریں گے یہاں تک کہ آپ اسے باب اللد پر جا پکڑیں گے (یہ بستی اب بھی بیت المقدس کے قریب اسی نام سے موجود ہے) وہاں اس کو قتل کردیں گے پھر حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) لوگوں کے پاس تشریف لائیں گے اور (بطور شفقت کے) ان چہروں پر ہاتھ پھیریں گے اور جنت میں اعلیٰ درجات کی ان کو خوش خبری سنائیں گے۔- حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) ابھی اسی حال میں ہوں گے کہ حق تعالیٰ کا حکم ہوگا کہ میں اپنے بندوں میں ایسے لوگوں کو نکالوں گا جن کے مقابلہ کی کسی کو طاقت نہیں آپ مسلمانوں کو جمع کرکے کوہ طور پر چلے جائیں (چنانچہ عیسیٰ (علیہ السلام) ایسا ہی کریں گے) اور حق تعالیٰ یاجوج و ماجوج کو کھول دیں گے تو وہ سرعت سیر کے سبب ہر بلندی سے پھسلتے ہوئے دکھائی دیں گے ان میں سے پہلے لوگ بحیرہ طبریہ سے گذریں گے اور اس کا سب پانی پی کر ایسا کردیں گے کہ جب ان میں سے دوسرے لوگ اس بحیرہ سے گذریں گے تو دریا کی جگہ کو خشک دیکھ کر کہیں گے کہ کبھی یہاں پانی ہوگا۔- حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے رفقاء کوہ طور پر پناہ لیں گے اور دوسرے مسلمان اپنے قلعوں اور محفوظ جگہوں میں پناہ لیں گے کھانے پینے کا سامان ساتھ ہوگا مگر وہ کم پڑجائے گا تو ایک بیل کے سر کو سو دینار سے بہتر سمجھا جائے گا حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور دوسرے مسلمان اپنی تکلیف دفع ہونے کے لئے حق تعالیٰ سے دعاء کریں گے (حق تعالیٰ دعاء قبول فرمائیں گے) اور ان پر وبائی صورت میں ایک بیماری بھیجیں گے اور یاجوج و ماجوج تھوڑی دیر میں سب کے سب مرجائیں گے پھر حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے ساتھی کوہ طور سے نیچے آئیں گے تو دیکھیں گے کہ زمین میں ایک بالشت جگہ بھی ان لاشوں سے خالی نہیں (اور لاشوں کے سڑنے کی وجہ سے) سخت تعفن پھیلا ہوگا (اس کی کیفیت کو دیکھ کر دوبارہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے ساتھی حق تعالیٰ سے دعا کرتیں گے (کہ یہ مصیبت بھی دفع ہو حق تعالیٰ قبول فرمائیں گے) اور بہت بھاری بھر کم پرندوں کو بھیجیں گے جن کی گردنیں اونٹ کی گردن کے مانند ہوں گی (اور ان کی لاشوں کو اٹھا کر جہاں اللہ کی مرضی ہوگی وہاں پھینک دیں گے) بعض روایات میں ہے کہ دریا میں ڈالیں گے پھر حق تعالیٰ بارش برسائیں گے کوئی شہر اور جنگل ایسا نہ ہوگا جہاں بارش نہ ہوئی ہوگی ساری زمین دھل جائے گی اور شیشہ کے مانند صاف ہوجائے گی پھر حق تعالیٰ زمین کو حکم فرمائیں گے کہ اپنے پیٹ سے پھلوں اور پھولوں کو اگادے اور (از سرنو) اپنی برکات کو ظاہر کردے (چنانچہ ایسا ہی ہوگا اور اس قدر برکت ظاہر ہوگی) کہ ایک انار ایک جماعت کے کھانے کے لئے کفایت کرے گا اور لوگ اس کے چھلکے کی چھتری بنا کر سایہ حاصل کریں گے اور دودھ میں اس قدر برکت ہوگی کہ ایک اونٹنی کا دودھ ایک بہت بڑی جماعت کے لئے کافی ہوگا اور ایک گائے کا دودھ ایک قبیلہ کے سب لوگوں کو کافی ہوجائے گا ایک بکری کا دودھ پوری برادری کو کافی ہوجائے گا (یہ غیر معمولی برکات اور امن وامان کا زمانہ چالیس سال رہنے کے بعد جب قیامت کا وقت آجائے گا تو) اس وقت حق تعالیٰ ایک خوشگوار ہوا چلائیں گے جس کی وجہ سے سب مسلمانوں کی بغلوں کے نیچے ایک خاص بیماری ظاہر ہوجائے گی اور سب کے سب وفات پاجائیں گے اور باقی صرف شریر و کافر رہ جائیں گے جو زمین پر کھلم کھلا حرام کاری جانوروں کی طرح کریں گے ایسے ہی لوگوں پر قیامت آئے گی،- اور حضرت عبد الرحمن بن یزید کی روایت میں یاجوج وماجوج کے قصہ کی زیادہ تفصیل آئی ہے وہ یہ کہ بحیرہ طبریہ سے گذرنے کے بعد یاجوج وماجوج بیت المقدس کے پہاڑوں میں سے ایک پہاڑ جبل الخمر پر چڑھ جائیں گے اور کہیں گے کہ ہم نے زمین والوں کو سب کو قتل کردیا ہے لو اب ہم آسمان والوں کا خاتمہ کریں چناچہ وہ اپنے تیر آسمان کی طرف پھینکیں گے اور وہ تیر حق تعالیٰ کے حکم سے خون آلود ہو کر ان کی طرف واپس آئیں گے (تاکہ وہ احمق یہ سمجھ کر خوش ہوں کہ آسمان والوں کا بھی خاتمہ کردیا )- اور دجال کے قصہ میں حضرت ابو سعید خدری (رض) کی روایت میں یہ اضافہ بھی ہے کہ دجال مدینہ منورہ سے دور رہے گا اور مدینہ کے راستوں پر بھی اس کا آنا ممکن نہ ہوگا تو وہ مدینہ کے قریب ایک شور زمین کی طرف آئے گا اس وقت ایک آدمی دجال کے پاس آئے گا اور وہ آدمی اس وقت کے بہترین لوگوں میں سے ہوگا اور اس کو خطاب کرکے کہے گا کہ میں یقین سے کہتا ہوں کہ تو وہی دجال ہے جس کی ہمیں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خبر دی تھی (یہ سن کر) دجال کہنے لگے گا لوگو مجھے یہ بتلاؤ کہ اگر میں اس آدمی کو قتل کردوں اور پھر اسے زندہ کردوں تو میرے خدا ہونے میں شک کرو گے وہ جواب دیں گے نہیں چناچہ اس آدمی کو قتل کرے گا اور پھر اس کو زندہ کردے گا تو وہ دجال کو کہہ گا کہ اب مجھے تیرے دجال ہونے کا پہلے سے زیادہ یقین ہوگیا ہے دجال اس کو دوبارہ قتل کرنے کا ارادہ کرے گا لیکن وہ اس پر قادر نہ ہو سکے گا (صحیح مسلم)- صحیح بخاری و مسلم میں حضرت ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ قیامت کے روز اللہ تعالیٰ حضرت آدم (علیہ السلام) سے فرمائیں گے کہ آپ اپنی ذریت میں سے بعث النار (یعنی جہنمی لوگ) اٹھائیے وہ عرض کریں گے اے رب وہ کون ہیں تو حکم ہوگا ہر ایک ہزار میں سے نو سو ننانوے جہنمی ہیں صرف ایک جنتی ہے صحابہ کرام (رض) اجمعین سہم گئے اور دریافت کیا کہ یارسول اللہ ہم میں سے وہ ایک جنتی کونسا ہوگا تو آپ نے فرمایا غم نہ کرو کیونکہ یہ نو سو ننانوے جہنمی تم میں سے ایک اور یاجوج وماجوج میں سے ایک ہزار کی نسبت سے ہوں گے۔ اور مستدرک حاکم میں حضرت عبداللہ بن عمر سے روایت ہے کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں کے دس حصے کئے ان میں سے نو حصے یاجوج وماجوج کے ہیں اور باقی ایک حصہ میں باقی ساری دنیا کے انسان ہیں (روح المعانی)- ابن کثیر نے البدایہ والنہایہ میں ان روایات کو ذکر کرکے لکھا ہے کہ اس سے معلوم ہوا کہ یاجوج وماجوج کی تعداد ساری انسانی ابٓادی سے بےحد زیادہ ہے۔- مسند احمد اور ابوداؤد میں باسناد صحیح حضرت ابوہریرہ (رض) کی روایت ہے کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ عیسیٰ (علیہ السلام) نزول کے بعد چالیس سال زمین پر رہیں گے مسلم کی ایک روایت میں جو سات سال کا عرصہ بتلایا ہے حافظ نے فتح الباری میں اس کو مؤل یا مرجوح قرار دے کر چالیس سال ہی کا عرصہ صحیح قرار دیا ہے اور حسب تصریح احادیث یہ پورا عرصہ امن وامان اور برکات کے ظہور کا ہوگا بغض و عداوت آپس میں قطعاً نہ رہے گا کبھی دو آدمیوں میں کوئی جھگڑا یا عداوت نہیں ہوگی (روایت مسلم و احمد)- بخاری میں حضرت ابو سعید خدری (رض) سے روایت کیا ہے کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ بیت اللہ کا حج وعمرہ خروج یاجوج و ماجوج کے بعد بھی جاری رہے گا (تفسیر مظہری)- بخاری ومسلم نے حضرت زینب بنت جحش ام المؤ منین (رض) سے روایت کیا ہے کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (ایک روز) نیند سے ایسی حالت میں بیدار ہوئے کہ چہرہ مبارک سرخ ہو رہا تھا اور آپ کی زبان مبارک پر یہ جملے تھے۔- لا الہ الا اللہ ویل اللعرب من شر قد اقترب افتح الیوم من ردم یاجوج وماجوج مثل ھذہ وحلق تسعین۔ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں خرابی ہے عرب کی اس شر سے جو قریب آچکا ہے آج کے دن یاجوج وماجوج کی روم یعنی سد میں اتنا سوراخ کھل گیا ہے اور آپ نے عقد تسعین یعنی انگوٹھے اور انگشت شہادت کو ملا کر حلقہ بنا کر دکھلایا۔- ام المؤ منین (رض) فرماتی ہیں کہ اس ارشاد پر ہم نے عرض کیا کہ یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیا ہم ایسے حال میں ہلاک ہوسکتے ہیں جب کہ ہمارے اندر صالحین موجود ہوں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہاں ہلاک ہوسکتے ہیں جب کہ خبث (یعنی شر) کی کثرت ہوجائے (مثلا فی الصحیحین عن ابی ہریرۃ (رض) کذا فی البدایہ والنہایہ لابن کثیر) اور سد یاجوج وماجوج میں بقدر حلقہ سوراخ ہوجانا اپنے حقیقی معنی بھی ہوسکتا ہے اور مجازی طور پر سد ذوالقرنین کے کمزور ہوجانے کے معنی میں بھی ہوسکتا ہے۔ (ابن کثیر ابو احیان)- مسند احمد ترمذی ابن ماجہ نے حضرت ابوہریرۃ (رض) کی روایت سے نقل کیا ہے کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ یاجوج و ماجوج ہر روز سد ذوالقرنین کو کھودتے رہتے ہیں یہاں تک کہ اس آہنی دیوار کے آخری حصہ تک اتنے قریب پہنچ جاتے ہیں کہ دوسری طرف کی روشنی نظر آنے لگے مگر یہ کہہ کر لوٹ جاتے ہیں کہ باقی کو کل کھود کر پار کردیں گے مگر اللہ تعالیٰ اس کو پھر ویسا ہی مضبوط درست کردیتے ہیں اور اگلے روز پھر نئی محنت اس کے کھودنے میں کرتے ہیں یہ سلسلہ کھودنے میں محنت کا اور پھر منجانب اللہ اس کی درستی کا اس وقت تک چلتا رہے گا جس وقت تک یاجوج وماجوج کو بند رکھنے کا ارادہ ہے اور جب اللہ تعالیٰ ان کو کھولنے کا ارادہ فرمائیں گے تو اس روز جب محنت کرکے آخری حد میں پہنچادیں گے اس دن یوں کہے گے کہ اگر اللہ نے چاہا تو ہم کل اس کو پار کرلیں گے (اللہ کے نام اور اس کی مشیت پر موقوف رکھنے سے آج توفیق ہوجائے گی) تو اگلے روز دیوار کا باقی ماندہ حصہ اپنی حالت پر ملے گا اور وہ اس کو توڑ کر پار کرلیں گے۔- ترمذی اس روایت کو بسند ابی عوانہ عن قتادہ عن ابی رافع عن ابی ہریرہ نقل کرکے فرمایا : غریب لا نعرفہ الا من ھذا الوجہ ابن کثیر نے اپنی تفسیر میں اس روایت کو نقل کرکے فرمایا - اسنادہ جید قوی ولکن متنہ فی رفعہ نکارۃ : ترجمہ اسناد اس کی جید اور قوی ہے لیکن حضرت ابوہریرہ (رض) سے اس کو مرفوع کرنے یا اس کو رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف منسوب کرنے میں ایک نکارت و اجنبیت معلوم ہوتی ہے۔- اور ابن کثیر نے البدایہ والنہایہ میں اس حدیث کے متعلق فرمایا کہ اگر یہ بات صحیح مان لی جائے کہ یہ حدیث مرفوع نہیں بلکہ کعب احبار کی روایت ہے تب تو بات صاف ہوگئی کہ یہ کوئی قابل اعتماد چیز نہیں اور اگر اس روایت کو وہم راوی سے محفوظ قرار دے کر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہی کا ارشاد قرار دیا جائے تو پھر مطلب اس کا یہ ہوگا کہ یاجوج وماجوج کا یہ عمل سد کو کھودنے کا اس وقت شروع ہوگا جبکہ ان کے خروج کا وقت قریب آجائے گا اور قرآنی ارشاد کہ اس دیوار میں نقب نہیں لگائی جاسکتی یہ اس وقت کا حال ہے جبکہ ذوالقرنین نے اس کو تعمیر کیا تھا اس لئے کوئی تعارض نہ رہا نیز یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ نقب سے مراد دیوار کا وہ رخنہ اور سوراخ ہے کہ جو آر پار ہوجائے اور اس روایت میں اس کی تصریح موجود ہے کہ یہ سوراخ آر پار نہیں ہوتا (بدایہ ص ١١٢ ج ٢)- حافظ ابن حجر نے فتح الباری میں اس حدیث کو عبد بن حمید اور ابن حبان کے حوالے سے بھی نقل کرکے کہا ہے کہ ان سب کی روایت حضرت قتادہ سے ہے اور ان میں بھی کوئی شبہ نہیں کیا اور بحوالہ ابن عربی بیان کیا کہ اس حدیث کے مرفوع قرار دینے پر بھی کوئی شبہ نہیں کیا اور بحوالہ ابن عربی بیان کیا کہ اس حدیث میں تین آیات الہیہ یعنی معجزات ہیں اول یہ کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے ذہنوں کو اس طرف متوجہ نہیں ہونے دیا کہ سد کو کھودنے کا کام رات دن مسلسل جاری رکھیں ورنہ اتنی بڑی قوم کے لئے کیا مشکل تھا کہ دن اور رات کی ڈیوٹیاں الگ الگ مقرر کرلیتے دوسرے ان کے ذہنوں کو اس طرف سے پھیر دیا کہ اس سد کے اوپر چڑھنے کی کوشش کریں اس کے لئے آلات سے مدد لیں حالانکہ وہب بن منبہ کی روایت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ صاحب زراعت وصناعت ہیں ہر طرح کے آلات رکھتے ہیں ان کی زمین میں درخت بھی مختلف قسم کے ہیں کوئی مشکل کام نہ تھا کہ اوپر چڑھنے کے ذرائع وسائل پیدا کرلیتے تیسرے یہ کہ ساری مدت میں ان کے قلوب میں یہ بات نہ آئے کہ انشاء اللہ کہہ لیں صرف اس وقت یہ کلمہ ان کی زبان پر جاری ہوگا جب ان کے نکلنے کا وقت مقرر آجائے گا۔- ابن عربی نے فرمایا کہ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ یاجوج وماجوج میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو اللہ کے وجود اور اس کی مشیت و ارادے کو مانتے ہیں اور یہ بھی ممکن ہے کہ بغیر کسی عقیدے کے ہی ان کی زبان پر اللہ تعالیٰ یہ کلمہ جاری کردے اور اس کی برکت سے ان کا کام بن جائے (اشراط الساعۃ اللسید محمد ص ١٥٤) مگر ظاہر یہی ہے کہ ان کے پاس بھی انبیاء (علیہم السلام) کی دعوت پہنچ چکی ہے ورنہ نص قرآنی کے مطابق ان کو جہنم کا عذاب نہ ہونا چاہئے " وماکنا معذبین حتی نبعث رسولا "۔۔ معلوم ہوا کہ دعوت ایمان ان کو بھی پہنچی ہے مگر یہ لوگ کفر پر جمے رہے ان میں سے کچھ لوگ ایسے بھی ہوں گے جو اللہ کے وجود اور اس کے ارادہ و مشیت کے قائل ہوں گے اگرچہ صرف اتنا عقیدہ ایمان کے لئے کافی نہیں جب تک رسالت اور آخرت پر ایمان نہ ہو بہرحال انشاء اللہ کا کلمہ کہنا باوجود کفر کے بھی بعید نہیں۔- روایات حدیث سے حاصل شدہ نتائج :- مذکور الصدر احادیث میں یاجوج و ماجوج کے متعلق جو باتیں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بیان سے ثابت ہوئیں وہ حسب ذیل ہیں۔- (١) یاجوج وماجوج عام انسانوں کی طرح انسان حضرت نوح (علیہ السلام) کی اولاد میں سے ہیں جمہور محدثین و مؤ رخین ان کو یافث ابن نوح (علیہ السلام) کی اولاد قرار دیتے ہیں اور یہ بھی ظاہر ہے کہ یافث ابن نوح کی اولاد نوح (علیہ السلام) کے زمانے سے ذوالقرنین کے زمانے تک دور دور تک مختلف قبائل اور مختلف قوموں اور آبادیوں میں پھییل چکی تھی یاجوج وماجوج جن قوموں کا نام ہے یہ بھی ضروری نہیں کہ وہ سب کے سب سد ذوالقرنین کے پیچھے ہی محصور ہوگئے ہوں ان کے کچھ قبائل اور قومیں سد ذوالقرنین کے اس طرف بھی ہوں گے البتہ ان میں سے جو قتل و غارت گری کرنے والے وحشی لوگ تھے وہ سد ذوالقرنین کے ذریعہ روک دیئے گئے مؤ رخین عام طور سے ان کو ترک اور مغول یا منگولین لکھتے ہیں مگر ان میں سے یاجوج و ماجوج نام صرف ان وحشی غیر متمدن خوانخوار ظالم لوگوں کا ہے جو تمدن سے آشنا نہیں ہوئے انہی کی برادری کے مغول اور ترک یا منگولین جو متمدن ہوگئے وہ اس نام سے خارج ہیں۔- (٢) یاجوج و ماجوج کی تعداد پوری دنیا کے انسانوں کی تعداد سے بدرجہا زائد کم از کم ایک اور دس کی نسبت سے ہے (حدیث نمبر ٢)- (٣) یاجوج وماجوج کی جو قومیں اور قبائل سد ذی القرنین کے ذریعہ اس طرف آنے سے روک دیئے گئے ہیں وہ قیامت کے بالکل قریب تک اسی طرح محصور رہیں گے ان کے نکلنے کا وقت مقدر ظہور مہدی (علیہ السلام) پھر خروج دجال کے بعد وہ ہوگا جبکہ عیسیٰ (علیہ السلام) نازل ہو کر دجال کو قتل کرچکیں گے (حدیث نمبر ١)- (٤) یاجوج وماجوج کے کھلنے کے وقت سد ذوالقرنین منہدم ہو کر زمین کے برابر ہوجائے گی (آیت قرآن) اس وقت یاجوج وماجوج کی بےپناہ قومیں بیک وقت پہاڑوں کی بلندیوں سے اترتی ہوئی سرعت رفتار کے سبب ایسی معلوم ہوں گی کہ گویا یہ پھسل پھسل کر گر رہے ہیں اور یہ لاتعداد وحشی انسان عام آبادی اور پوری زمین پر ٹوٹ پڑیں گے اور ان کے قتل و غارت گری کا کوئی مقابلہ نہ کرسکے گا اللہ کے رسول حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) بھی بامر الہی اپنے ساتھی مسلمانوں کو لے کر کوہ طور پر پناہ لیں گے اور عام دنیا کی آبادیوں میں جہاں کچھ قلعے یا محفوظ مقامات ہیں وہ ان میں بند ہو کر اپنی جانیں بچائیں گے کھانے پینے کا سامان ختم ہوجانے کے بعد ضروریات انتہائی گراں ہوجائے گی باقی انسانی آبادی کو یہ وحشی قومیں ختم کر ڈالیں گی ان کے دریاؤں کو چاٹ جائیں گی (حدیث نمبر ١) - (٥) حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے رفقاء کی دعاء سے پھر ٹڈی دل قسم کی بیشمار قومیں بیک وقت ہلاک کردی جائیں گی ان کی لاشوں سے ساری زمین پٹ جائے گی ان کی بدبو کی وجہ سے زمین پر بسنا مشکل ہوجائے (حدیث نمبر ١) - (٦) پھر حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے رفقاء ہی کی دعاء سے ان کی لاشیں دریا برد یا غائب کردی جائیں گی اور عالمگیر بارش کے ذریعہ پوری زمین کو دھو کر پاک صاف کردیا جائے گا (حدیث نمبر ١) ۔- (٧) اس کے بعد تقریباً چالیس سال امن وامان کا دور دورہ ہوگا زمین اپنی برکات اگل دے گی کوئی مفلس محتاج نہ رہے گا کوئی کسی کو نہ ستائے گا سکون وا طمینان آرام و راحت عام ہوگی (حدیث نمبر ٣)- (٨) اس امن وامان کے زمانے میں بیت اللہ کا حج و عمر جاری رہے گا (حدیث نمبر ٤)- (٩) رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آخر زمانے میں بذریعہ وحی خواب آپ کو دکھلایا گیا کہ سد ذوالقرنین میں ایک سوراخ ہوگیا ہے جس کو اپ نے عرب کے لئے شر و فتنہ کی علامت قرار دی اس دیوار میں سوراخ ہوجانے کو بعض محدثین نے اپنی حقیقت پر محمول کیا ہے اور بعض نے اس کا مطلب بطور استعارہ اور مجاز کے یہ قرار دیا ہے کہ اب یہ سد ذوالقرنین کمزور ہوچکی ہے خروج یاجوج و ماجوج کا وقت قریب آگیا ہے اور اس کے آثار عرب قوم کا تنزل و انحطاط کے رنگ میں ظاہر ہوں گے واللہ اعلم - حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے نزول کے بعد ان کا قیام زمین پر چالیس سال ہوگا (حدیث نمبر ٣) ان سے پہلے حضرت مہدی (علیہ السلام) کا زمانہ بھی چالیس سال رہے گا جس میں کچھ حصہ دونوں کے اجتماع و اشتراک کا ہوگا سید شریف برزنجی نے اپنی کتاب اشراط الساعۃ صفحہ ١٤٥ میں لکھا ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) قیام قتل دجال اور امن وامان کے چالیس سال ہوگا اور مجموعہ قیام پنتالیس سال ہوگا اور صفحہ ١١٢ میں ہے کہ مہدی (علیہ السلام) حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سے تیس سے اوپر کچھ سال پہلے ظاہر ہوں گے اور ان کا مجموعہ زمانہ چالیس سال ہوگا اس طرح پانچ یا سات سال تک دونوں حضرات کا اجتماع رہے گا اور ان دونوں زمانوں کی یہ خصوصیت ہوگی کہ پوری زمین پر عدل و انصاف کی حکومت ہوگی زمین اپنی برکات اور خزائن اگل دے گی کوئی فقیر و محتاج نہ رہے گا لوگوں کے آپس میں بغض و عدوات قطعاً نہ رہے گی ہاں حضرت مہدی (علیہ السلام) کے آخری زمانے میں دجال اکبر کا فتنہ عظیم سوائے مکہ اور مدینہ اور بیت المقدس اور کوہ طور کے سارے عالم پر چھا جائے گا اور یہ فتنہ دنیا کے تمام فتنوں سے عظیم تر ہوگا دجال کا قیام اور فساد صرف چالیس دن رہے گا مگر ان چالیس دنوں میں سے پہلا دن ایک سال کا دوسرا دن ایک مہینہ کا تیسرا دن ایک ہفتہ کا ہوگا باقی دن عام دنوں کی طرح کے ہوں گے جس کی صورت یہ بھی ہو سکتی ہے کہ حقیقۃ یہ دن اتنے طویل کردیئے جائیں کیونکہ اس آخر زمانے میں تقریباً سارے واقعات ہی خرق عادت اور معجزہ کے ہوں گے اور یہ بھی ممکن ہے کہ دن رات تو اپنے معمول کے مطابق ہوتے رہیں مگر دجال کا بڑا ساحر ہونا حدیث سے ثابت ہے ہوسکتا ہے کہ اس کے سحر کے اثر سے عام مخلوق کی نظروں پر یہ دن رات کا تغیر و انقلاب ظاہر نہ ہو وہ اس کو ایک ہی دن دیکھتے اور سمجھتے رہیں حدیث میں جو اس دن کے اندر عام دنوں کے مطابق اندازہ لگا کر نمازیں پڑھنے کا حکم آیا ہے اس سے بھی تائید اس کی ہوتی ہے کہ حقیقت کے اعتبار سے تو دن رات بدل رہے ہوں گے مگر لوگوں کے احساس میں یہ بدلنا نہیں ہوگا اس لئے اس ایک سال کے دن میں تین سو ساٹھ دنوں کی نمازیں ادا کرنے کا حکم دیا گیا ورنہ اگر دن حقیقۃ ایک ہی دن ہوتا تو قواعد شرعیہ کی رو سے اس میں صرف ایک ہی دن کی پانچ نمازیں فرض ہوتیں خلاصہ یہ کہ دجال کا کل زمانہ اس طرح کے چالیس دن کا ہوگا۔- اس کے بعد حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نازل ہو کر دجال کو قتل کرکے اس فتنہ کو ختم کریں گے مگر اس کے متصل ہی یاجوج وماجوج کا خروج ہوگا جو پوری دنیا میں فساد اور قتل و غارت گری کریں گے مگر اس کا زمانہ بھی چند ایام ہی ہوں گے پھر حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی دعاء سے یہ سب بیک وقت ہلاک ہوجائیں گے غرض حضرت مہدی (علیہ السلام) کے زمانے کہ آخر میں اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے زمانے کے شروع میں دو فتنے دجال اور یاجوج و ماجوج کے ہوں گے جو تمام زمین کے لوگوں کو تہہ وبالا کردیں گے ان ایام معدودہ سے پہلے اور بعد میں پوری دنیا کے اندر عدل و انصاف اور امن و سکون اور برکات وثمرات کا دور دورہ ہوگا حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے زمانہ میں اسلام کے سوا کوئی کلمہ و مذہب زمین پر نہ رہے گا زمین اپنے خزائن و دفائن اگل دے گی کوئی فقیر و محتاج نہ رہے گا درندے اور زہریلے جانور بھی کسی کو تکلیف نہ پہنچائیں گے۔- یاجوج وماجوج اور سد ذوالقرنین کے متعلق یہ معلومات تو وہ ہیں جو قرآن اور احادیث نبویہ نے امت کو بتلادیئے ہیں اسی پر عقیدہ رکھنا ضروری اور مخالفت ناجائز ہے۔ باقی رہی اس کی جغرافیائی بحث کہ سد ذوالقرنین کس جگہ واقع ہے اور قوم یاجوج وماجوج کون سی قوم ہے اور اس وقت کہاں کہاں بستی ہے اگرچہ اس پر نہ کوئی اسلامی عقیدہ موقوف ہے اور نہ قرآن کریم کی کسی آیت کا مطلب سمجھنا اس پر موقوف ہے لیکن مخالفین کی ہفوات کے جواب اور مزید بصیرت کے لئے علماء امت نے اس سے بحث فرمائی ہے اس کا کچھ حصہ نقل کیا جاتا ہے۔- قرطبی نے اپنی تفسیر میں بحوالہ سدی نقل کیا ہے کہ یاجوج و ماجوج کے بائیس قبیلوں میں سے اکیس قبیلوں کو سد ذوالقرنین سے بند کردیا گیا ان کا ایک قبیلہ سد ذوالقرنین کے اندر اس طرف رہ گیا وہ ترک ہیں اس کے بعد قرطبی نے فرمایا کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ترک کے متعلق جو باتیں بتلائی ہیں وہ یاجوج وماجوج سے ملتی ہوئی ہیں اور آخر زمانے میں مسلمانوں کی ان سے جنگ ہونا صحیح مسلم کی حدیث میں ہے پھر فرمایا کہ اس زمانے میں مسلمانوں کی ان سے جنگ ہونا صحیح مسلم کی حدیث میں ہے پھر فرمایا کہ اس زمانے میں ترک قوم کی بڑی بھاری تعداد مسلمانوں کے مقابلہ کے لئے نکلی ہوئی ہے جن کی صحیح تعداد اللہ تعالیٰ ہی کو معلوم ہے وہی مسلمانوں کو ان کو شر سے بچا سکتا ہے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہی یاجوج وماجوج ہیں یا کم از کم ان کا مقدمہ ہیں (قرطبی ص ٥٧ ج ١١) (قرطبی کا زمانہ چھٹی صدی ہجری ہے جس میں فتنہ تاتار ظاہر ہوا اور اسلامی خلافت کو تباہ و برباد کیا ان کا عظیم فتنہ تاریخ اسلام میں معروف اور تاتاریوں کا مغول ترک میں سے ہونا مشہور ہے) مگر قرطبی نے ان کو یاجوج وماجوج کے مشابہ اور ان کا مقدمہ قرار دیا ہے ان کے فتنہ کو وہ خروج یاجوج وماجوج نہیں بتایا جو علامات قیامت میں سے ہے کیونکہ صحیح مسلم کی حدیث مذکور میں اس کی تصریح ہے کہ وہ خروج حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے نزول کے بعد ان کے زمانے میں ہوگا۔- اسی لئے علامہ آلوسی نے اپنی تفسیر روح المعانی میں ان لوگوں پر سخت رد کیا ہے جنہوں نے تاتار ہی کو یاجوج وماجوج قرار دیا اور فرمایا کہ ایسا خیال کرنا کھلی ہوئی گمراہی ہے اور نصوص حدیث کی مخالفت ہے البتہ یہ انہوں نے بھی فرمایا کہ بلاشبہ یہ فتنہ یاجوج وماجوج کے فتنہ کے مشابہ ضرور ہے (روح ص ٤٤ ج ١٦) اس سے ثابت ہوا کہ اس زمانے میں جو بعض مورخین موجودہ روس یا چین یا دونوں کو یاجوج ماجوج قرار دیتے ہیں اگر اس سے ان کی مراد وہی ہوتی جو قرطبی اور آلوسی نے فرمایا کہ ان کا فتنہ فتنہ یاجوج وماجوج کے مشابہ ہے تو یہ کہنا کچھ غلط نہ ہوتا مگر اسی کو وہ خروج یاجوج وماجوج قرار دینا جس کی خبر قرآن و حدیث میں بطور علامات قیامت دی گئی اور اس کا وقت نزول حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے بعد بتلایا گیا یہ قطعاً غلط اور گمراہی اور نصوص حدیث کا انکار ہے۔- مشہور مؤ رخ ابن خلدون نے اپنی تاریخ کے مقدمہ میں اقلیم سادس کی بحث میں یاجوج وماجوج اور سد ذوالقرنین اور ان کے محل ومقام کے متعلق جغرافیائی تحقیق اس طرح فرمائی ہے۔- ساتویں اقلیم کے نویں حصہ میں مغرب کی جانب ترکوں کے وہ قبائل آباد ہیں جو قنجاق اور چرکس کہلاتے ہیں اور مشرق کی جانب یاجوج وماجوج کی آبادیاں ہیں اور ان دونوں کے درمیان کوہ قاف حد فاصل ہے جس کا ذکر گذشتہ سطور میں ہوچکا ہے کہ وہ بحر محیط سے شروع ہوتا ہے جو چوتھی اقلیم کے مشرق میں واقع ہے اور اس کے ساتھ شمال کی جانب اقلیم کے آخر تک چلا گیا ہے اور پھر بحر محیط سے جدا ہو کر شمال مغرب میں ہوتا ہوا یعنی مغرب کی جانب جھکتا ہوا پانچویں اقلیم کے نویں حصہ میں داخل ہوجاتا ہے اور یہاں پہنچ کر جنوب سے شمال مغرب کو ہوتا ہوا گیا ہے اور اسی سلسلہ کوہ کے درمیان سد سکندری ہے جس کا ہم ابھی ذکر کر آئے ہیں اور جس کی اطلاع قرآن نے بھی دی ہے۔- اور عبداللہ بن خردازبہ نے اپنی جغرافیہ کی کتاب میں واثق باللہ خلیفہ عباسی کا وہ خواب نقل کیا ہے جس میں اس نے یہ دیکھا تھا کہ سد کھل گئی ہے چناچہ وہ گھبرا کر اٹھا اور دریافت حال کے لئے سلام ترجمان کو روانہ کیا اس نے واپس آکر اسی سد کے حالات و اوصاف بیان کئے (مقدمہ ابن خلدون ص ٧٩)- واثق باللہ خلیفہ عباسی کا سد ذوالقرنین کی تحقیق کرنے کے لئے ایک جماعت کو بھیجنا اور ان کا تحقیق کرکے آنا ابن کثیر نے بھی البدایہ والنہایہ میں ذکر کیا ہے اور یہ کہ یہ دیوار لوہے سے تعمیر کی گئی ہے اس میں بڑے بڑے دروازے بھی ہیں جن پر قفل پڑا ہوا ہے اور یہ شمال مشرق میں واقع ہے اور تفسیر کبیر وطبری نے اس واقعہ کو بیان کرکے یہ بھی لکھا ہے کہ جو آدمی اس دیوار کا معائنہ کرکے واپس آنا چاہتا ہے تو رہ نما اس کو ایسے چٹیل میدانوں میں پہنچاتے ہیں جو سمرقند کے محاذات میں ہے (تفسیر کبیر ج ٥ ص ٥١٣)- حضرت الاستاذ حجۃ الاسلام سیدی حضرت مولانا انور شاہ کشمیری قدس سرہ نے اپنی کتاب عقیدۃ الاسلام فی حیاۃ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) میں یاجوج وماجوج اور سد ذوالقرنین کا حال اگرچہ ضمنی طور پر بیان فرمایا ہے مگر جو کچھ بیان کیا ہے وہ تحقیق و روایت کے اعلیٰ معیار پر ہے آپ نے فرمایا کہ مفسد اور وحشی انسانوں کی تاخت و تاراج سے حفاظت کے لئے زمین پر ایک نہیں بہت سی جگہوں میں سدیں (دیواریں) بنالی گئی ہیں جو مختلف بادشاہوں نے مختلف مقامات پر مختلف زمانوں میں بنائی ہیں ان میں سے زیادہ بڑی اور مشہور دیوار چین ہے جس کا طول ابوحیان اندلسی ( دربار ایران کے شاہی مورخ) نے بارہ سو میل بتلایا ہے اور یہ کہ اس کا بانی فغفور بادشاہ چین ہے اور اس کی بناء کی تاریخ ہبوط آدم (علیہ السلام) سے تین ہزار چار سو ساٹھ سال بعد بتلائی اور یہ کہ اس دیوار چین کو مغل لوگ اتکو وہ اور ترک لوگ بورقورقہ کہتے ہیں اور فرمایا کہ اسی طرح کی اور بھی متعدد دیواریں سدیں مختلف مقامات پر پائی جاتی ہیں۔- ہمارے خواجہ تاس مولانا حفظ الرحمن سہواری نے اپنی کتاب قصص القرآن میں حضرت شیخ کے اس بیان کی تاریخی توضیح بڑی تفصیل و تحقیق سے لکھی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ یاجوج وماجوج کی تاخت و تاراج اور شر و فساد کا دائرہ اتنا وسیع تھا کہ ایک طرف کا کیشیا کے نیچے بسنے والے ان کے ظلم وستم کا شکار تھے تو دوسری جانب تبت اور چین کے باشندے بھی ہر وقت ان کی زد میں تھے انہی یاجوج وماجوج کے شر و فساد سے بچنے کے لئے مختلف زمانوں میں مختلف مقامات پر متعدد سد تعمیر کی گئی ان میں سب سے زیادہ بڑی اور مشہور دیوار چین ہے جس کا ذکر اوپر آچکا ہے۔- دوسری سد وسط ایشیا میں بخارا اور ترمذ کے قریب واقع ہے اور اس کے محل وقوع کا نام دربند ہے یہ سد مشہور مغل تیمور لنگ کے زمانہ میں موجود تھی اور شاہ روم کے خاص ہم نشین سیلا برجر جرمنی نے بھی اس کا ذکر اپنی کتاب میں کیا ہے اور اندلس کے بادشاہ کسٹیل کے قاصد کلافچو نے بھی اپنے سفر نامہ میں اس کا ذکر کیا ہے یہ 1403 ء میں اپنے بادشاہ کا سفیر ہو کر جب تیمور کی خدمت میں حاضر ہوا تو اس جگہ سے گذرا ہے وہ لکھتا ہے کہ باب الحدید کی سد موصل کے اس راستہ پر ہے جو سمرقند اور ہندوستان کے درمیان ہے (از تفسیر جواہر القرآن طنطاوی ص ١٩٨ ج ٩)- تیسری سد روسی علاقہ داغستان میں واقع ہے یہ بھی دربند اور باب الابواب کے نام سے مشہور ہے یاقوت حموی نے معجم البلدان میں ادریسی نے جغرافیہ میں اور بستانی نے دائرۃ المعارف میں اس کے حالات بڑی تفصیل سے لکھی ہیں جس کا خلاصہ یہ ہے کہ۔- داغستان میں دربند ایک روسی شہر ہے یہ شہر بحر خزر (کاسپین) کے غربی کنارے پر واقع ہے اس کا عرض البلد 3 ۔ 43 شمالا اور طول البلد 15 ۔ 48 شرقا ہے اور اس کو دربندا نوشیرواں بھی کہتے ہیں اور باب الابواب کے نام سے بہت مشہور ہے۔- چوتھی سد اسی باب الابواب سے مغرب کی جانب کا کیشیا کے بہت بلند حصوں میں ہے جہاں دو پہاڑوں کے درمیان ایک درہ درہ داریال کے نام سے مشہور ہے اس جگہ یہ چوتھی سد جو قفقاز یا جبل قوقا یا کوہ قاف کی سد کہلاتی ہے بستانی نے اس کے متعلق لکھا ہے۔- اور اسی کے (یعنی سد باب الابواب کے) قریب ایک اور سد ہے جو غربی جانب بڑھتی چلی گئی ہے غالباً اس کو اہل فارس نے شمالی بربروں سے حفاظت کی خاطر بنایا ہوگا کیونکہ اس کے بانی کا صحیح حال معلوم نہیں ہوسکا بعض نے اس کی نسبت سکندر کی جانب کردی ہے اور بعض نے کسری و نوشیرواں کی طرف اور یاقوت کہتا ہے کہ یہ تانبا پگھلا کر اس سے تعمیر کی گئی ہے (دائرۃ المعارف جلد ٧ ص ٦٥١ معجم البلدان جلد ٨ ص ٩)- چونکہ یہ سب دیواریں شمال ہی میں ہیں اور تقریباً ایک ہی ضرورت کے لئے بنائی گئی ہیں اس لئے ان میں سے سد ذوالقرنین کون سی ہے اس کے متعین کرنے میں اشکالات پیش آئے ہیں اور بڑا اختلاط ان آخری دو سدوں کے معاملہ میں پیش آیا کیونکہ دونوں مقامات کا نام بھی دربند ہے اور دونوں جگہ سد بھی موجود ہے مذکور الصدر چار سدوں میں سے دیوار چین جو سب سے زیادہ بڑی اور سب سے زیادہ قدیم ہے اس کے متعلق تو سد ذوالقرنین ہونے کا کوئی قائل نہیں اور وہ بجائے شمال کے مشرق اقصی میں ہے اور قرآن کریم کے اشارہ سے اس کا شمال میں ہونا ظاہر ہے۔- اب معاملہ باقی تین دیواروں کا رہ گیا جو شمال ہی میں ہیں ان میں سے عام طور پر مؤ رخین مسعودی اصطخری حموی وغیرہ اس دیوار کو سد ذوالقرنین بتاتے ہیں جو داغستان یا کا کیشیا کے علاقہ باب الابواب کے دربند میں بحر خزر پر واقع ہے بخارا وترمذ کے دربند اور اس کی دیوار کو جن مورخین نے سد ذوالقرنین کہا ہے وہ غالبا لفظ دربند کے اشتراک کی وجہ سے ان کو اختلاط ہوا ہے اب تقریبا اس کا محل وقوع متعین ہوگیا کہ علاقہ داغستان کا کیشیا کے دربند باب الابواب میں یا اس سے بھی اوپر جبل قفقاز یا کوہ قاف کی بلندی پر ہے اور ان دونوں جگہوں پر سد کا ہونا مؤ رخین کے نزدیک ثابت ہے۔- ان دونوں میں سے حضرت الاستاذ مولانا سید محمد انور شاہ قدس سرہ نے عقیدہ الاسلام میں کوہ قاف قفقاز کی سد کو ترجیح دی ہے کہ یہ سد ذوالقرنین کی بنائی ہوئی ہے (عقیدۃ الاسلام ص ٢٩٧)- سد ذوالقرنین اس وقت تک موجود ہے اور قیامت تک رہے گی یا وہ ٹوٹ چکی ہے ؟:- آج کل تاریخ وجغرافیہ کے ماہرین اہل یورپ اس وقت ان شمالی دیواروں میں سے کسی کا موجود ہونا تسلیم نہیں کرتے اور نہ یہ تسلیم کرتے ہیں کہ اب بھی یاجوج و ماجوج کا راستہ بند ہے اس بناء پر بعض اہل اسلام مؤ رخین نے بھی یہ کہنا اور لکھنا شروع کردیا ہے کہ یاجوج وماجوج جن کے خروج کا قرآن و حدیث میں ذکر ہے وہ ہوچکا ہے بعض نے چھٹی صدی ہجری میں طوفان بن کر اٹھنے والی قوم تاتار ہی کو اس کا مصداق قرار دے دیا ہے بعض نے اس زمانے میں دنیا پر غالب آجانے والی قوموں روس اور چین اور اہل یورپ کو یاجوج وماجوج کہہ کر اس معاملہ کو ختم کردیا ہے مگر جیسا کہ اوپر بحوالہ روح المعانی بیان ہوچکا ہے کہ یہ سراسر غلط ہے احادیث صحیحہ کے انکار کے بغیر کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ جس خروج یاجوج وماجوج کو قرآن کریم نے بطور علامت قیامت بیان کیا اور جس کے متعلق صحیح مسلم کی حدیث نواس بن سمعان (رض) وغیرہ میں اس کی تصریح ہے کہ یہ واقعہ خروج دجال اور نزول عیسیٰ (علیہ السلام) اور قتل دجال کے بعد پیش آئے گا وہ واقعہ ہوچکا کیونکہ خروج دجال اور نزول عیسیٰ (علیہ السلام) بلاشبہ اب تک نہیں ہوا۔- البتہ یہ بات بھی قرآن وسنت کی کسی نص صریح کی خلاف نہیں ہے کہ سد ذوالقرنین اس وقت ٹوٹ چکی ہو اور یاجوج وماجوج کی بعض قومیں اس طرف آچکی ہوں بشرطیکہ اس کو تسلیم کیا جائے کہ ان کا آخری اور بڑا ہلہ جو پوری انسانی آبادی کو تباہ کرنے والا ثابت ہوگا وہ ابھی نہیں ہوا بلکہ قیامت کی ان بڑی علامات کے بعد ہوگا جن کا ذکر اوپر آچکا ہے یعنی خروج دجال اور نزول عیسیٰ (علیہ السلام) وغیرہ۔- حضرت الاستاذ حجۃ الاسلام سیدی حضرت مولانا انور شاہ کشمیری (رح) کی تحقیق اس معاملہ میں یہ ہے کہ اہل یورپ کا یہ کہنا تو کوئی وزن نہیں رکھتا کہ ہم نے ساری دنیا چھان ماری ہے ہمیں دیوار کا پتہ نہیں لگا کیونکہ اول تو خود انہی لوگوں کی یہ تصریحات موجود ہیں کہ سیاحت اور تحقیق کے انتہائی معراج پر پہنچنے کے باوجود آج بھی بہت سے جنگل اور دریا اور جزیرے ایسے باقی ہیں جن کا ہمیں علم نہیں ہوسکا دوسرے یہ بھی احتمال بعید نہیں کہ اب وہ دیوار موجود ہونے کے باوجود پہاڑوں کے گرنے اور باہم مل جانے کے سبب ایک پہاڑ ہی کی صورت اختیار کرچکی ہو لیکن کوئی نص قطعی اس کے بھی منافی نہیں کہ قیامت سے پہلے یہ سد ٹوٹ جائے یا کسی دور دراز کے طویل راستہ سے یاجوج وماجوج کی کچھ قومیں اس طرف آسکیں۔- اس سد ذوالقرنین کے تاقیامت باقی رہنے پر بڑا استدلال تو قرآن کریم کے اس لفظ سے کیا جاتا ہے کہ فَاِذَا جَاۗءَ وَعْدُ رَبِّيْ جَعَلَهٗ دَكَّاۗءَ یعنی ذوالقرنین کا یہ قول کہ جب میرے رب کا وعدہ آپہنچے گا ( یعنی خروج یاجوج وماجوج کا وقت آجائے گا) تو اللہ تعالیٰ اس آہنی دیوار کو ریزہ ریزہ کرکے زمین کے برابر کردیں گے اس آیت میں وَعْدُ رَبِّيْ کا مفہوم ان حضرات نے قیامت کو قرار دیا ہے حالانکہ الفاظ قرآن اس بارے میں قطعی نہیں کیونکہ وعد ربی کا صریح مفہوم تو یہ ہے کہ یاجوج وماجوج کا راستہ روکنے کا جو انتظام ذوالقرنین نے کیا ہے یہ کوئی ضروی نہیں کہ ہمیشہ اسی طرح رہے جب اللہ تعالیٰ چاہیں گے کہ ان کا راستہ کھل جائے تو یہ دیوار منہدم ومسمار ہوجائے گی اس کے لئے ضروری نہیں کہ وہ بالکل قیامت کے متصل ہو چناچہ تمام حضرات مفسرین نے وعد رب کے مفہوم میں دونوں احتمال ذکر کئے ہیں تفسیر بحرمحیط میں ہے والوعد یحتمل ان یرادبہ یوم القیمۃ وان یراد بہ وقت خروج یاجوج وماجوج۔- اس کی تحقق یوں بھی ہوسکتا ہے کہ دیوار منہدم ہو کر راستہ ابھی کھل گیا ہو اور یاجوج وماجوج کے حملوں کی ابتداء ہوچکی ہو خواہ اس کی ابتداء چھٹی صدی ہجری کے فتنہ تاتار سے قرار دی جائے یا اہل یورپ اور روس و چین کے غلبہ سے مگر یہ ظاہر ہے کہ ان متمدن قوموں کے خروج اور فساد کو جو آئینی اور قانونی رنگ میں ہو رہا ہے وہ فساد نہیں قرار دیا جاسکتا جس کا پتہ قرآن و حدیث دے رہے ہیں کہ خالص قتل و غارت گری اور ایسی خوں ریزی کے ساتھ ہوگا کہ تمام انسانی آبادی کو تباہ و برباد کردے گا بلکہ اس کا حاصل پھر یہ ہوگا کہ انہی مفسد یاجوج وماجوج کی کچھ قومیں اس طرف آکر متمدن بن گئیں اسلامی ممالک کے لئے بلاشبہ وہ فساد عظیم اور فتنہ عظیمہ ثابت ہوئیں مگر ابھی ان کی وحشی قومیں جو قتل وخوں ریزی کے سوا کچھ نہیں جانتیں وہ تقدیری طور پر اس طرف نہیں آئیں اور بڑی تعداد ان کی ایسی ہی ہے ان کا خروج قیامت کے بالکل قریب میں ہوگا۔- دوسرا استدلال ترمذی اور مسند احمد کی اس حدیث سے کیا جاتا ہے جس میں مذکور ہے کہ یاجوج وماجوج اس دیوار کو روزانہ کھودتے رہتے ہیں مگر اول تو اس حدیث کو ابن کثیر نے معلول قرار دیا ہے دوسرے اس میں بھی اس کی کوئی تصریح نہیں کہ جس روز یاجوج وماجوج انشاء اللہ کہنے کی برکت سے اس کو پار کرلیں گے وہ قیامت کے متصل ہی ہوگا اور اس کے بھی اس حدیث میں کوئی دلیل نہیں کہ سارے یاجوج وماجوج اسی دیوار کے پیچھے رکے ہوئے رہیں گے اگر ان کی کچھ جماعتیں یا قومیں کسی دور دراز کے راستہ سے اس طرف آجائیں جیسا کہ آج کل کے طاقتور بحری جہازوں کے ذریعہ ایسا ہوجانا کچھ مستبعد نہیں اور بعض مؤ رخین نے لکھا بھی ہے کہ یاجوج وماجوج کو طویل بحری سفر کرکے اس طرف آنے کا راستہ مل گیا ہے تو اس حدیث سے اس کی بھی نفی نہیں ہوتی۔- خلاصہ یہ ہے کہ قرآن و سنت میں کوئی ایسی دلیل صریح اور قطعی نہیں ہے جس سے یہ ثابت ہو کہ سد ذوالقرنین قیامت تک باقی رہے گی یا ان کے ابتدائی اور معمولی حملے قیامت سے پہلے اس طرف کے انسانوں پر نہیں ہو سکیں گے البتہ وہ انتہائی خوفناک اور تباہ کن حملہ جو پوری انسانی آبادی کو برباد کردے گا اس کا وقت بالکل قیامت کے متسل وہی ہوگا جس کا ذکر بار بار آچکا ہے حاصل یہ ہے کہ قرآن وسنت کی نصوص کی بناء پر نہ یہ قطعی فیصلہ کیا جاسکتا ہے کہ سد یاجوج وماجوج ٹوٹ چکی ہے اور راستہ کھل گیا ہے اور نہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ از روئے قرآن وسنت اس کا قیامت تک قائم رہنا ضروری ہے احتمال دونوں ہی ہیں واللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم بحقیقۃ الحال۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

قَالُوْا يٰذَا الْقَرْنَيْنِ اِنَّ يَاْجُوْجَ وَمَاْجُوْجَ مُفْسِدُوْنَ فِي الْاَرْضِ فَہَلْ نَجْعَلُ لَكَ خَرْجًا عَلٰٓي اَنْ تَجْعَلَ بَيْنَنَا وَبَيْنَہُمْ سَدًّا۝ ٩٤- ذو - ذو علی وجهين : أحدهما : يتوصّل به إلى الوصف بأسماء الأجناس والأنواع، ويضاف إلى الظاهر دون المضمر، ويثنّى ويجمع۔ وَلكِنَّ اللَّهَ ذُو فَضْلٍ [ البقرة 251]- والثاني في لفظ ذو :- لغة لطيّئ، يستعملونه استعمال الذي، ويجعل في الرفع، والنصب والجرّ ، والجمع، والتأنيث علی لفظ واحد - ( ذ و ) ذو - ( والا ۔ صاحب ) یہ دو طرح پر استعمال ہوتا ہے - ( 1) اول یہ کہ اسماء اجناس وانوع کے ساتھ توصیف - کے لئے اسے ذریعہ بنایا جاتا ہے ۔ اس صورت میں اسم ضمیر کیطرف مضاف نہیں ہوتا بلکہ ہمیشہ اسم ظاہر کی طرف مضاف ہوتا ہے اور اس کا تنثیہ جمع بھی آتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَلكِنَّ اللَّهَ ذُو فَضْلٍ [ البقرة 251] لیکن خدا اہل عالم پر بڑا مہرابان ہے ۔ - ( 2 ) دوم بنی طیی ذوبمعنی الذی استعمال کرتے ہیں - اور یہ رفعی نصبی جری جمع اور تانیث کی صورت میں ایک ہی حالت پر رہتا ہے - أج - قال تعالی: هذا عَذْبٌ فُراتٌ وَهذا مِلْحٌ أُجاجٌ [ الفرقان 53] : شدید الملوحة والحرارة، من قولهم : أجيج النار وأَجَّتُهَا، وقد أجّت، وائتجّ النهار . ويأجوج ومأجوج منه، شبّهوا بالنار المضطرمة والمیاه المتموّجة لکثرة اضطرابهم وأجّ الظّليم : إذا عدا، أجيجاً تشبيهاً بأجيج النار .- ( ا ج ج ) الاجاج - ۔ کے معنی سخت کھاری اور گرم پانی کے ہیں قرآن میں ہے :۔ هَذَا عَذْبٌ فُرَاتٌ وَهَذَا مِلْحٌ أُجَاجٌ [ الفرقان : 53] ایک کا پانی نہایت شیریں اور دوسرے کا سخت گرم ہے ۔ یہ ( اجاج ) اجیح النار ( شعلہ نار یا اس کی شدید تپش اور حرارت ) واجل تھا وقد اجت ۔ میں نے آگ بھڑکائی چناچہ وہ بھڑک اٹھی ( وغیرہ محاورات ) سے مشتق ہے ۔ ائتج النھار ۔ دن گرم ہوگیا ۔ اسی ( اج) سے يَأْجُوجَ وَمَأْجُوجَ (18 ۔ 94) (21 ۔ 94) ہے ان کے کثرت اضطراب کی وجہ سے مشتعل آگ یا موجزن اور متلاطم پانی کے ساتھ تشبیہ دے کر یاجوج ماجوج کہا گیا ہے ۔ اج الظلیم اجیحا ۔ شتر مرغ نہایت سرعت رفتار سے چلا ۔ یہ محاورہ اشتعال نار کے ساتھ تشبیہ دے کر بولا جاتا ہے ۔- فسد - الفَسَادُ : خروج الشیء عن الاعتدال، قلیلا کان الخروج عنه أو كثيرا،. قال تعالی: لَفَسَدَتِ السَّماواتُ وَالْأَرْضُ [ المؤمنون 71] ، - ( ف س د ) الفساد - یہ فسد ( ن ) الشئی فھو فاسد کا مصدر ہے اور اس کے معنی کسی چیز کے حد اعتدال سے تجاوز کر جانا کے ہیں عام اس سے کہ وہ تجاوز کم ہو یا زیادہ قرآن میں ہے : ۔ لَفَسَدَتِ السَّماواتُ وَالْأَرْضُ [ المؤمنون 71] تو آسمان و زمین ۔۔۔۔۔ سب درہم برہم ہوجائیں ۔- سد - السَّدُّ والسُّدُّ قيل هما واحد، وقیل : السُّدُّ : ما کان خلقة، والسَّدُّ : ما کان صنعة «1» ، وأصل السَّدِّ مصدر سَدَدْتُهُ ، قال تعالی: بَيْنَنا وَبَيْنَهُمْ سَدًّا، [ الكهف 94] ، وشبّه به الموانع، نحو : وَجَعَلْنا مِنْ بَيْنِ أَيْدِيهِمْ سَدًّا وَمِنْ خَلْفِهِمْ سَدًّا [يس 9] ، وقرئ سدا «2» السُّدَّةُ : کا لظُّلَّة علی الباب تقية من المطر، وقد يعبّر بها عن الباب، كما قيل :- ( الفقیر الذي لا يفتح له سُدَدُ السّلطان) «3» ، والسَّدَادُ والسَّدَدُ : الاستقامة، والسِّدَادُ : ما يُسَدُّ به الثّلمة والثّغر، واستعیر لما يسدّ به الفقر .- ( س د د ) السد :- ( دیوار ، آڑ ) بعض نے کہا ہے سد اور سد کے ایک ہی معنی ہیں اور بعض دونوں میں فرق کرتے ہیں کہ سد ( بضمہ سین ) اس آڑ کو کہا جاتا ہے جو قدرتی ہو اور سد ( بفتحہ سین ) مصنوعی اور بنائی ہوئی روک کو کہتے ہیں ۔ اصل میں یہ سددتہ ( ن ) کا مصدر ہے جس کے معنی رخنہ کو بند کرنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ بَيْنَنا وَبَيْنَهُمْ سَدًّا، [ الكهف 94] کہ ( آپ ) ہمارے اور ان کے درمیان ایک دیوار کھینچ دیں ۔ اور تشبیہ کے طور پر ہر قسم کے موانع کو سد کہہ دیا جاتا ہے ۔ جیسا کہ قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلْنا مِنْ بَيْنِ أَيْدِيهِمْ سَدًّا وَمِنْ خَلْفِهِمْ سَدًّا [يس 9] اور ہم نے ان کے آگے بھی دیوار بنا دی اور ان کے پیچھے بھی ایک قراءت میں سدا بھی ہے ۔ السدۃ برآمدہ جو دروازے کے سامنے بنایا جائے تاکہ بارش سے بچاؤ ہوجائے ۔ کبھی دروازے کو بھی سدۃ کہہ دیتے ہیں جیسا کہ مشہور ہے : ۔ ( الفقیر الذي لا يفتح له سُدَدُ السّلطان) یعنی وہ فقیر جن کے لئے بادشاہ کے دروازے نہ کھولے جائیں ۔ السداد والسدد کے معنی استقامت کے ہیں اور السداد اسے کہتے ہیں جس سے رخنہ اور شگاف کو بھرا جائے ۔ اور استعارہ کے طور پر ہر اس چیز کو سداد کہا جاتا ہے جس سے فقر کو روکا جائے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

(فَهَلْ نَجْعَلُ لَكَ خَرْجًاعَلٰٓي اَنْ تَجْعَلَ بَيْنَنَا وَبَيْنَهُمْ سَدًّا)- یعنی آپ ان پہاڑوں کے درمیان واقع اس واحد قدرتی گزر گاہ کو بند کردیں تاکہ یاجوج و ماجوج ہم پر حملہ آور نہ ہو سکیں۔ یہ وہی تصور یا اصول تھا جس کے تحت آج کل دریاؤں پر ڈیم تعمیر کیے جاتے ہیں۔ یعنی دو متوازی پہاڑی سلسلوں کے درمیان اگر دریا کی گزرگاہ ہے تو کسی کو مناسب مقام پر مضبوط دیوار بنا کر پانی کا راستہ روک دیا جائے تاکہ دریا ایک بہت بڑی جھیل کی شکل اختیار کرلے۔ - یہ یاجوج ماجوج کون ہیں ؟ ان کے بارے میں جاننے کے لیے نسل انسانی کی قدیم تاریخ کا مطالعہ ضروری ہے۔ قدیم روایات کے مطابق حضرت نوح کے بعد نسل انسانی آپ کے تین بیٹوں سام حام اور یافث سے چلی تھی۔ ان میں سے سامی نسل تو بہت معروف ہے۔ قوم عاد قوم ثمود اور حضرت ابراہیم سب سامی نسل میں سے تھے۔ حضرت یافث کی اولاد کے لوگ وسطی ایشیا کے پہاڑی سلسلے کو عبور کر کے شمال کی طرف چلے گئے۔ وہاں سے ان کی نسل بڑھتے بڑھتے شمالی ایشیا اور یورپ کے علاقوں میں پھیل گئی۔ چناچہ مشرق میں چین اور ہند چینی کی مغرب میں روس اور سکنڈے نیوین ممالک کی اقوام مغربی یورپ کے مشرقی یورپ میں خصوصی طور پر شمالی علاقوں اور صحرائے گوبی کے علاقوں کی تمام آبادی حضرت یافث کی نسل سے تعلق رکھتی ہے۔ تورات میں حضرت یافث کے بہت سے بیٹوں کے نام ملتے ہیں۔ ان میں وغیرہ قابل ذکر ہیں (ممکن ہے روس کا شہر ماسکو حضرت یافث کے بیٹے ماسک نے آباد کیا ہو) ۔ اسی طرح اور کا نام غالباً کے نام پر ہے۔ بہر حال یورپ کی اینگلو سیکسن اقوام اور تمام یاجوج ماجوج ہی کی نسل سے ہیں۔ بنیادی طور پر یہ غیر متمدن اور وحشی لوگ تھے جن کا پیشہ لوٹ مار اور قتل و غارت گری تھا۔ وہ اپنے ملحقہ علاقوں پر حملہ آور ہوتے قتل و غارت کا بازار گرم کرتے اور لوٹ مار کر کے واپس چلے جاتے۔ ان کی اس غارت گری کی جھلک موجودہ دنیا نے بھی دیکھی جب نے ایک سیلاب کی طرح یورپ سے نکل کر دیکھتے ہی دیکھتے پورے ایشیا اور افریقہ کو نو آبادیاتی نظام کے شکنجے میں جکڑ لیا۔ بعد ازاں مختلف عوامل کی بنا پر انہیں ان علاقوں سے بظاہر پسپا تو ہونا پڑا مگر حقیقت میں دنیا کے بہت سے ممالک پر بالواسطہ اب بھی ان کا قبضہ ہے۔ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک جیسے ادارے ان کی اسی بالواسطہ حکمرانی کو مضبوط کرنے میں ان کی مدد کرتے ہیں۔ - قرب قیامت میں ان قوموں کی ایک اور یلغار ہونے والی ہے۔ اس کی تفصیلات احادیث اور روایات میں اس طرح آئی ہیں کہ قیامت سے قبل دنیا ایک بہت ہولناک جنگ کی لپیٹ میں آجائے گی۔ اس جنگ کو احادیث میں ” الملحمۃ العظمٰی “ جبکہ بائبل میں کا نام دیا گیا ہے۔ مشرق وسطیٰ کا علاقہ اس جنگ کا مرکزی میدان بنے گا۔ اس جنگ میں ایک طرف عیسائی دنیا اور تمام یورپی اقوام ہوں گی اور دوسری طرف مسلمان ہوں گے۔ اسی دوران اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو ایک عظیم لیڈر امام مہدی کی صورت میں عطا کرے گا۔ امام مہدی عرب میں پیدا ہوں گے اور وہ مجدد ہوں گے۔ پھر کسی مرحلے پر حضرت عیسیٰ کا نزول ہوگا۔ خراسان کے علاقے سے مسلمان افواج ان کی مدد کو جائیں گی۔ پھر اس جنگ کا خاتمہ اس طرح ہوگا کہ حضرت عیسیٰ دجال کو قتل کردیں گے یہودیوں کا خاتمہ ہوجائے گا اور تمام عیسائی مسلمان ہوجائیں گے۔ یوں اسلام کو عروج ملے گا اور دنیا میں اسلامی حکومت قائم ہوجائے گی۔ (اللہ تعالیٰ مسلمانان پاکستان کو توفیق دے کہ اس سے پہلے وہ یہاں نظام خلافت قائم کرلیں اور ہمسایہ علاقہ خراسان سے جو فوجیں امام مہدی کی مدد کے لیے روانہ ہوں ان میں ہمارے لوگ بھی شامل ہوں۔ )- جب ہولناک جنگ اپنے انجام کو پہنچ جائے گی تو اس کے بعد یاجوج ماجوج کی بہت بڑی یلغار ہوگی۔ میرے خیال میں یہ لوگ چین اور ہند چینی وغیرہ علاقوں کی طرف سے حملہ آور ہوں گے۔ یہ لوگ میں حصہ نہیں لیں گے بلکہ اس کے بعد اس علاقے پر یلغار کر کے تباہی مچائیں گے۔ سورة الانبیاء کی آیات ٩٤ ‘ ٩٧ اور ٩٨ میں ان کی اس یلغار کا ذکر قرب قیامت کے واقعات کے حوالے سے کیا گیا ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْكَهْف حاشیہ نمبر :69 یاجوج ماجوج سے مراد ، جیسا کہ اوپر حاشیہ نمبر 62 میں اشارہ کیا جاچکا ہے ، ایشیا کے شمالی مشرقی علاقے کی وہ قومیں ہیں جو قدیم زمانے سے متمدن ممالک پر غارت گرانہ حملے کرتی رہی ہیں اور جن کے سیلاب وقتاً فوقتاً اٹھ کر ایشیا اور یورپ ، دونوں طرف رخ کرتے رہے ہیں ۔ بائیبل کی کتاب پیدائش ( اب 10 ) میں ان کو حضرت نوح علیہ السلام کے بیٹے یافث کی نسل میں شمار کیا گیا ہے ، اور یہی بیان مسلمان مؤرخین کا بھی ہے ۔ حزقی ایل کے صحیفے ( باب 38و 39 ) میں سے مراد سیتھین قوم لیتا ہے جس کا علاقہ بحر اسود کے شمال اور مشرق میں واقع تھا ۔ جیروم کے بیان کے مطابق ماجوج کا کیشیا کے شمال میں بحر خَزَر کے قریب آباد تھے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

48: یا جوج ماجوج دو وحشی قبیلے تھے جو ان پہاڑوں کے پیچھے رہتے تھے اور تھوڑے تھوڑے وقفوں سے وہ پہاڑوں کے درمیان درے سے اس علاقے میں آکر قتل وغارت گری کا بازار گرم کردیتے تھے، علاقے کے لوگ ان سے پریشان تھے، اس لئے انہوں نے ذوالقرنین کو دیکھا کہ وہ بڑے وسائل کے مالک ہیں تو ان سے درخواست کی کہ پہاڑوں کے درمیان جو درہ ہے اسے ایک دیوار بناکر بند کردیں ؛ تاکہ یاجوج ماجوج کا راستہ بند ہوجائے، اور وہ یہاں آکر فساد نہ پھیلا سکیں، اس کام کے لئے انہوں نے کچھ مال کی بھی پیش کش کی۔ لیکن حضرت ذو القرنین نے کوئی معاوٖہ لینے سے انکار کردیا، البتہ یہ کہا کہ تم اپنی افرادی طاقت سے میری مدد کرو تو میں یہ دیوار بلا معاوضہ بنا دوں گا۔