اللہ تعالیٰ کے وعدے برحق ہیں ۔ جن جنتوں میں گناہوں سے توبہ کرنے والے داخل ہوں گے یہ جنتیں ہمیشہ والی ہوں گی جن کا غائبانہ وعدہ ان سے ان کا رب کر چکا ہے ان جنتوں کو انہوں نے دیکھا نہیں لیکن تاہم دیکھنے سے بھی زیادہ انہیں ان پر یقین وایمان ہے بات بھی یہی ہے کہ اللہ کے وعدے اٹل ہوتے ہیں وہ حقائق ہیں جو سامنے آکر ہی رہیں گے ۔ نہ اللہ وعدہ خلافی کرے نہ وعدے کو بدلے یہ لوگ وہاں ضرور پہنچائے جائیں گے اور اسے ضرور پائیں گے ۔ ماتیاکے معنی اتیا کے بھی آتے ہیں اور یہ بھی ہے کہ جہاں ہم جائیں وہ ہمارے پاس آہی گیا ۔ جیسے کہتے ہیں مجھ پر پچاس سال آئے یا میں پچاس سال کو پہنچا ۔ مطلب دونوں جملوں کا ایک ہی ہوتا ہے ۔ ناممکن ہے کہ ان جنتوں میں کوئی لغو اور ناپسندیدہ کلام ان کے کانوں میں پڑے ۔ صرف مبارک سلامت کی دھوم ہوگی ۔ چاروں طرف سے اور خصوصا فرشتوں کی پاک زبانی یہی مبارک صدائیں کان میں گونجتی رہیں گی ۔ جیسے سورہ واقعہ میں ہے ( لَا يَسْمَعُوْنَ فِيْهَا لَغْوًا وَّلَا تَاْثِيْمًا 25ۙ ) 56- الواقعة:25 ) وہاں کوئی بیہودہ اور خلاف طبع سخن نہ سنیں گے بجر سلام اور سلامتی کے ۔ یہ استثنار منقطع ہے ۔ صبح شام پاک طیب عمدہ خوش ذائقہ روزیاں بلا تکلف وتکلیف بےمشقت وزحمت چلی آئیں گی ۔ لیکن یہ نہ سمجھا جائے کہ جنت میں بھی دن رات ہونگے نہیں بلکہ ان انوار سے ان وقتوں کو جنتی پہچان لیں گے جو اللہ کی طرف سے مقرر ہیں ۔ چنانچہ مسند احمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں پہلی جماعت جو جنت میں جائے گی ان کے چہرے چودویں رات کے چاند جیسے روشن اور نورانی ہوں گے ۔ نہ وہاں انہیں تھوک آئے گا نہ ناک آئے گی نہ پیشاب پاخانہ ۔ ان کے برتن اور فرنیچر سونے کے ہوں گے ان کا بخور خوشبودار اگر ہوگا ، ان کے پسینے مشک بو ہوں گے ، ہر ایک جنتی مرد کی دو بیویاں تو ایسی ہوں گی کہ ان کے پنڈے کی صفائی سے ان کی پنڈلیوں کی نلی کا گودا تک باہر نظر آئے ۔ ان سب جنتوں میں نہ تو کسی کو کسی سے عداوت ہوگی نہ بغض سب ایک دل ہوں گے ۔ کوئی اختلاف باہم دیگر نہ ہوگا ۔ صبح شام تسبیح میں گزریں گے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں شہید لوگ اس وقت جنت کی ایک نہر کے کنارے جنت کے دروازے کے پاس سرخ رنگ قبوں میں ہیں ۔ صبح شام روزی پہنچائے جاتے ہیں ( مسند ) پس صبح وشام باعتبار دنیا کے ہے وہاں رات نہیں بلکہ ہروقت نور کا سماں ہے پردے گرجانے اور دروازے بند ہوجانے سے اہل جنت وقت شام کو اسی طرح پردوں کے ہٹ جانے اور دروازوں کے کھل جانے سے صبح کے وقت کو جان لیے گے ۔ ان دروازوں کا کھلنا بند ہونا بھی جنتیوں کے اشاروں اور حکموں پر ہوگا ۔ یہ دروازے بھی اس قدر صاف شفاف آئینہ نما ہیں کہ باہر کی چیزیں اندر سے نظر آئیں ۔ چونکہ دنیا میں دن رات کی عادت تھی اس لئے جو وقت جب چاہیں گے پائیں گے ۔ چونکہ عرب صبح شام ہی کھانا کھانے کے عادی تھے اس لئے جنتی رزق کا وقت بھی وہی بتایا گیا ہے ورنہ جنتی جو چاہیں جب چاہیں موجود پائیں گے ۔ چنانچہ ایک غریب منکر حدیث میں ہے کہ صبح شام کا ٹھیکہ ہے ، رزق تو بیشمار ہر وقت موجود ہے لیکن اللہ کے دوستوں کے پاس ان اوقات میں حوریں آئیں گی جن میں ادنی درجے کی وہ ہوں گی جو صرف زعفران سے پیدا کی گئی ہیں ۔ یہ نعمتوں والی جنتیں انہیں ملیں گی جو ظاہر باطن اللہ کے فرمانبردار تھے جو غصہ پی جانے والے اور لوگوں سے درگزر کرنے والے تھے جن کی صفیتں ( قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَ Ǻۙ ) 23- المؤمنون:1 ) کے شروع میں بیان ہوئی ہیں اور فرمایا گیا ہے کہ یہی وارث فردوس بریں ہیں جن کے لئے دوامی طور پر جنت الفردوس اللہ نے لکھ دی ہے ( اللہ اے اللہ ہمیں بھی تو اپنی رحمت کاملہ سے فردوس بریں میں پہنچا ، آمین )
61۔ 1 یعنی یہ ان کے ایمان و یقین کی پختگی ہے کہ انہوں نے جنت کو دیکھا بھی نہیں، صرف اللہ کے غائبانہ وعدے پر ہی اس کے حصول کے لئے ایمان وتقویٰ کا راستہ اختیار کیا۔
جَنّٰتِ عَدْنِۨ الَّتِيْ وَعَدَ الرَّحْمٰنُ ۔۔ : ہمیشگی کی جنتوں کا وعدہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے اپنے رحمٰن ہونے اور بندوں کو اپنا بندہ کہنے کے الفاظ سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس کی رحمت کس قدر بےحساب و بےکنار ہے اور فرماں بردار بندوں سے اس کا تعلق کتنا گہرا اور پیارا ہے۔ ” بن دیکھے “ کا مطلب یہ ہے کہ بندوں سے اس رحمٰن نے وعدہ کیا ہے جس رحمٰن کو انھوں نے نہیں دیکھا، یعنی بن دیکھے اس پر ایمان لائے ہیں۔ دوسرا معنی ہے کہ رحمٰن نے ان سے ایسی جنتوں کا وعدہ کیا ہے جو انھوں نے دیکھی نہیں مگر انھیں دیکھے بغیر ہی ان کے ملنے کا یقین ہے، کیونکہ یہ حقیقت ہے کہ رحمٰن کا وعدہ ہمیشہ پورا ہو کر رہنے والا ہے۔ ” اِنَّ “ تعلیل کے لیے ہے۔ ” مَاْتِيًّا “ ” أَتَی یَأْتِيْ “ سے اسم مفعول ہے۔ اللہ کا وعدہ جنت ہے اور اس کے بندے یقیناً اس میں آنے والے ہیں، یہ بات اس لیے فرمائی کہ عموماً لوگ ان دیکھی چیزوں کے کیے ہوئے وعدے پورے نہیں کرتے۔ (بقاعی) اللہ کا وعدہ پورا ہو کر رہنے پر مشتمل آیات کے لیے دیکھیے سورة رعد (٣١) ، آل عمران (١٩٤، ١٩٥) ، بنی اسرائیل (١٠٨) ، مزمل (١٧، ١٨) اور فرقان (١٥، ١٦) ۔
جَنّٰتِ عَدْنِۨ الَّتِيْ وَعَدَ الرَّحْمٰنُ عِبَادَہٗ بِالْغَيْبِ ٠ۭ اِنَّہٗ كَانَ وَعْدُہٗ مَاْتِيًّا ٦١- عدن - قال تعالی: جَنَّاتِ عَدْنٍ [ النحل 31] ، أي : استقرار وثبات، وعَدَنَ بمکان کذا : استقرّ ، ومنه المَعْدِنُ : لمستقرّ الجواهر، وقال عليه الصلاة والسلام : «المَعْدِنُ جُبَارٌ» «2» .- ( ع د ن ) عدن - ( ن ض ) کے معنی کسی جگہ قرار پکڑنے اور ٹہر نے کے ہیں ۔ کہا جاتا ہے ۔ عدن بمکان کذا یعنی اس نے فلاں جگہ قیام کیا قرآن میں ہے : ۔ جَنَّاتِ عَدْنٍ [ النحل 31] یعنی ہمیشہ رہنے کے باغات ۔ اسی سے المعدن ( کان ) ہے کیونکہ کا ن بھی جواہرات کے ٹھہر نے اور پائے جانے کی جگہ ہوتی ہے حدیث میں ہے ۔ المعدن جبار کہ اگر کوئی شخص کان میں گر کر مرجائیں تو کان کن پر اس کی دیت نہیں ہے ۔- عدن - قال تعالی: جَنَّاتِ عَدْنٍ [ النحل 31] ، أي : استقرار وثبات، وعَدَنَ بمکان کذا : استقرّ ، ومنه المَعْدِنُ : لمستقرّ الجواهر، وقال عليه الصلاة والسلام : «المَعْدِنُ جُبَارٌ» «2» .- ( ع د ن ) عدن - ( ن ض ) کے معنی کسی جگہ قرار پکڑنے اور ٹہر نے کے ہیں ۔ کہا جاتا ہے ۔ عدن بمکان کذا یعنی اس نے فلاں جگہ قیام کیا قرآن میں ہے : ۔ جَنَّاتِ عَدْنٍ [ النحل 31] یعنی ہمیشہ رہنے کے باغات ۔ اسی سے المعدن ( کان ) ہے کیونکہ کا ن بھی جواہرات کے ٹھہر نے اور پائے جانے کی جگہ ہوتی ہے حدیث میں ہے ۔ المعدن جبار کہ اگر کوئی شخص کان میں گر کر مرجائیں تو کان کن پر اس کی دیت نہیں ہے ۔- رحم - والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه»- ( ر ح م ) الرحم ۔- الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ، - عبد - العُبُودِيَّةُ : إظهار التّذلّل، والعِبَادَةُ أبلغُ منها، لأنها غاية التّذلّل، ولا يستحقّها إلا من له غاية الإفضال، وهو اللہ تعالی، ولهذا قال : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء 23] .- ( ع ب د ) العبودیۃ - کے معنی ہیں کسی کے سامنے ذلت اور انکساری ظاہر کرنا مگر العبادۃ کا لفظ انتہائی درجہ کی ذلت اور انکساری ظاہر کرنے بولا جاتا ہے اس سے ثابت ہوا کہ معنوی اعتبار سے العبادۃ کا لفظ العبودیۃ سے زیادہ بلیغ ہے لہذا عبادت کی مستحق بھی وہی ذات ہوسکتی ہے جو بےحد صاحب افضال وانعام ہو اور ایسی ذات صرف الہی ہی ہے اسی لئے فرمایا : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء 23] کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ۔ - غيب - الغَيْبُ : مصدر غَابَتِ الشّمسُ وغیرها : إذا استترت عن العین، يقال : غَابَ عنّي كذا . قال تعالی: أَمْ كانَ مِنَ الْغائِبِينَ [ النمل 20]- ( غ ی ب ) الغیب ( ض )- غابت الشمس وغیر ھا کا مصدر ہے جس کے معنی کسی چیز کے نگاہوں سے اوجھل ہوجانے کے ہیں ۔ چناچہ محاورہ ہے ۔ غاب عنی کذا فلاں چیز میری نگاہ سے اوجھل ہوئی ۔ قرآن میں ہے : أَمْ كانَ مِنَ الْغائِبِينَ [ النمل 20] کیا کہیں غائب ہوگیا ہے ۔ اور ہر وہ چیز جو انسان کے علم اور جو اس سے پودشیدہ ہو اس پر غیب کا لفظ بولا جاتا ہے - أتى- الإتيان : مجیء بسهولة، ومنه قيل للسیل المارّ علی وجهه - ( ا ت ی ) الاتیان - ۔ ( مص ض ) کے معنی کسی چیز کے بسہولت آنا کے ہیں ۔ اسی سے سیلاب کو اتی کہا جاتا ہے - سمع - السَّمْعُ : قوّة في الأذن به يدرک الأصوات، وفعله يقال له السَّمْعُ أيضا، وقد سمع سمعا .- ويعبّر تارة بالسمّع عن الأذن نحو : خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ وَعَلى سَمْعِهِمْ- [ البقرة 7] ، وتارة عن فعله كَالسَّمَاعِ نحو : إِنَّهُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُولُونَ [ الشعراء 212] ، وقال تعالی: أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ [ ق 37] ، وتارة عن الفهم، وتارة عن الطاعة، تقول : اسْمَعْ ما أقول لك، ولم تسمع ما قلت، وتعني لم تفهم، قال تعالی: وَإِذا تُتْلى عَلَيْهِمْ آياتُنا قالُوا قَدْ سَمِعْنا لَوْ نَشاءُ لَقُلْنا[ الأنفال 31] ، - ( س م ع ) السمع ۔ قوت سامعہ - ۔ کا ن میں ایک حاسہ کا نام ہے جس کے ذریعہ آوازوں کا اور اک ہوتا ہے اداس کے معنی سننا ( مصدر ) بھی آتے ہیں اور کبھی اس سے خود کان مراد لیا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ وَعَلى سَمْعِهِمْ [ البقرة 7] خدا نے ان کے دلوں اور کانوں پر مہر لگا رکھی ہے ۔ اور کبھی لفظ سماع کی طرح اس سے مصدر ی معنی مراد ہوتے ہیں ( یعنی سننا ) چناچہ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّهُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُولُونَ [ الشعراء 212] وہ ( آسمائی باتوں کے ) سننے ( کے مقامات ) سے الگ کردیئے گئے ہیں ۔ أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ [ ق 37] یا دل سے متوجہ ہو کر سنتا ہے ۔ اور کبھی سمع کے معنی فہم و تدبر اور کبھی طاعت بھی آجاتے ہیں مثلا تم کہو ۔ اسمع ما اقول لک میری بات کو سمجھنے کی کوشش کرو لم تسمع ماقلت لک تم نے میری بات سمجھی نہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَإِذا تُتْلى عَلَيْهِمْ آياتُنا قالُوا قَدْ سَمِعْنا لَوْ نَشاءُ لَقُلْنا[ الأنفال 31] اور جب ان کو ہماری آیتیں پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو کہتے ہیں ( یہ کلام ) ہم نے سن لیا ہے اگر چاہیں تو اسی طرح کا ( کلام ) ہم بھی کہدیں ۔
(٦١۔ ٦٢) اب اللہ تعالیٰ جس جنت میں یہ لوگ جائیں گے اس کے اوصاف بیان فرما رہا ہے یعنی ان ہمیشہ رہنے والے باغوں میں جن کا اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں سے غائبانہ وعدہ فرمایا ہے اور اس کا وعدہ ضرور پورا ہوگا اور یہ لوگ جنت میں فضول جھوٹی قسمیں نہ سننے پائیں گے سوائے اکرام و اعزاز کے طور پر ایک دوسرے کو سلام کرنے کے اور ان کو جنت میں دنیا کے انداز سے صبح وشام کھانا ملا کرے گا۔
آیت ٦١ (جَنّٰتِ عَدْنِ نِ الَّتِیْ وَعَدَ الرَّحْمٰنُ عِبَادَہٗ بالْغَیْبِ ط) ” - اللہ تعالیٰ کی طرف سے قرآن میں ایسے وعدے جگہ جگہ کیے گئے ہیں۔ دنیوی زندگی میں نہ تو کسی نے جنت کو دیکھا ہے اور نہ ہی اللہ تعالیٰ کو۔ یہ سارا معاملہ غیب ہی کا ہے۔ چناچہ جو شخص اللہ کو اور اس کے ایسے تمام وعدوں کو مانتا ہے وہ یُؤْمِنُوْنَ بالْغَیب کے مصداق غیب پر ایمان لاتا ہے۔- (اِنَّہٗ کَانَ وَعْدُہٗ مَاْتِیًّا ) ” - وہ اپنے وقت پر پورا ہو کر رہے گا۔
سورة مَرْیَم حاشیہ نمبر :37 یعنی جس کا وعدہ رحمان نے کیا وہ جنتیں ان کی نگاہ سے پوشیدہ ہیں ۔