اللہ رب العزت کا تعارف ۔ موسیٰ علیہ السلام فرعون کے سوال کے جواب میں اوصاف الٰہی بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اسی اللہ نے زمین کو لوگوں کے لئے فرش بنایا ہے ۔ مھدا کی دوسری قرأت مھادا ہے ۔ زمین کو اللہ تعالیٰ نے بطور فرش کے بنا دیا ہے کہ تم اس پر قرار کئے ہوئے ہو ، اسی پر سوتے بیٹھتے رہتے سہتے ہو ۔ اس نے زمین میں تمہارے چلنے پھرنے اور سفر کرنے کے لئے راہیں بنا دی ہیں تاکہ تم راستہ نہ بھولو اور منزل مقصود تک بہ آسانی پہنچ سکو ۔ وہی آسمان سے بارش برساتا ہے اور اس کی وجہ سے زمین سے ہر قسم کی پیداوار اگاتا ہے ۔ کھیتیاں باغات میوے قسم قسم کے ذائقے دار کہ تم خود کھالو اور اپنے جانوروں کو چارہ بھی دو ۔ تمہارا کھانا اور میوے تمہارے جانوروں کا چارا خشک اور تر سب اسی سے اللہ تعالیٰ پیدا کرتا ہے ۔ جن کی عقلیں صحیح سالم ہیں ان کے لئے تو قدرت کی یہ تمام نشانیاں دلیل ہیں ۔ اللہ کی الوہیت ، اس کی وحدانیت اور اس کے وجود پر ۔ اسی زمین سے ہم نے تمہیں پیدا فرمایا ہے ۔ تمہاری ابتدا اسی سے ہے ۔ اس لئے کہ تمہارے باپ حضرت آدم علیہ السلام کی پیدائش اسی سے ہوئی ہے ۔ اسی میں تمہیں پھر لوٹنا ہے ، مر کر اسی میں دفن ہونا ہے ، اسی سے پھر قیامت کے دن کھڑے کئے جاؤ گے ۔ ہماری پکار پر ہماری تعریفیں کرتے ہوئے اٹھو گے اور یقین کر لو گے کہ تم بہت ہی تھوڑی دیر رہے ۔ جیسے اور آیت میں ہے کہ اسی زمین پر تمہاری زندگی گزرے گی مر کر بھی اسی میں جاؤ گے پھر اسی میں سے نکالے جاؤ گے ۔ سنن کی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک میت کے دفن کے بعد اس کی قبر پر مٹی ڈالتے ہوئے پہلی بار فرمایا ( مِنْهَا خَلَقْنٰكُمْ 55 ) 20-طه:55 ) دوسری لپ ڈالتے ہوئے فرمایا ( وَفِيْهَا نُعِيْدُكُمْ 55 ) 20-طه:55 ) تیسری بار فرمایا ( وَمِنْهَا نُخْرِجُكُمْ تَارَةً اُخْرٰى 55 ) 20-طه:55 ) ۔ الغرض فرعون کے سامنے دلیلیں آ چکیں ، اس نے معجزے اور نشان دیکھ لئے لیکن سب کا انکار اور تکذیب کرتا رہا ، کفر سرکشی ضد اور تکبر سے باز نہ آیا ۔ جیسے فرمان ہے یعنی باوجود یہ کہ ان کے دلوں میں یقین ہو چکا تھا لیکن تاہم ازراہ ظلم و زیادتی انکار سے باز نہ آئے ۔
الَّذِيْ جَعَلَ لَكُمُ الْاَرْضَ مَهْدًا ۔۔ : یہ دونوں آیات موسیٰ (علیہ السلام) کا کلام بھی ہوسکتی ہیں، جسے نقل کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے زمین سے مختلف نباتات نکالنے کا ذکر آنے پر اپنے لیے غائب کے صیغوں کے بعد جمع متکلم کا صیغہ استعمال فرما دیا، یعنی ” فَاَخْرَجْنَا بِهٖٓ اَزْوَاجًا “ اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) کا کلام ” وَلَایَنْسیٰ “ پر ختم ہوگیا ہو اور ان دونوں آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے مقام کی مناسبت سے اپنی مزید نعمتیں بیان فرمائی ہوں۔ اس صورت میں بھی اللہ تعالیٰ نے پہلے اپنا ذکر غائب کے صیغے سے فرمایا اور ” فَاَخْرَجْنَا “ میں اپنی عظمت کے اظہار کے لیے جمع متکلم کا صیغہ استعمال فرمایا۔ - ان دو آیات میں اللہ تعالیٰ نے اپنی چار نعمتیں ذکر فرمائی ہیں، پہلی نعمت زمین کو انسان کے لیے بچھونا بنانا۔ اس کا ذکر کئی آیات میں فرمایا۔ دیکھیے سورة زخرف (٩، ١٠) ، سورة نبا (٦) ، ذاریات (٤٨) اور رعد (٣) وغیرہ۔ دوسری نعمت زمین میں راستے بنانا سکھایا۔ دیکھیے سورة زخرف (٩) ، انبیاء (٣١) ، نوح (١٩) اور نحل (١٥) تیسری نعمت آسمان سے پانی اتارنا، اس کا ذکر قرآن مجید کی بہت سی آیات میں ہے۔ چوتھی نعمت بنی آدم اور ان کے مویشیوں کے لیے بیشمار قسم کی کھانے اور استعمال کی چیزیں اگانا۔ دیکھیے سورة سجدہ (٢٧) ، نازعات (٣١ تا ٣٣) ، عبس (٢٥ تا ٣٢) اور سورة نحل (١٠) ۔ (شنقیطی)- ” شَتّٰی “ ” شَتِیْتٌ“ کی جمع ہے، مختلف، جیسا کہ ” مَرِیْضٌ“ کی جمع ” مَرْضٰی “ ہے۔ ” النُّھٰی “ ” نُھْیَۃٌ“ کی جمع ہے، جس کا معنی عقل ہے، کیونکہ عقل انسان کو نامناسب کاموں سے منع کرتی ہے۔ ” نَھٰی یَنْھٰی “ کا معنی ہے منع کرنا۔
اَزْوَاجًا مِّنْ نَّبَاتٍ شَتّٰى، ازواج بمعنے انواع و اصناف ہے اور شتی شتیت کی جمع ہے جس کے معنی ہیں متفرق۔ مراد یہ ہے کہ نباتات کی اتنی بیشمار قسمیں پیدا فرمائیں کہ ان کی قسموں کا احاطہ بھی انسان نہیں کرسکتا۔ پھر ہر نبات جڑی، بوٹی، پھول، پھل، درخت کی چھال میں اللہ تعالیٰ نے ایسی ایسی خاصیتیں رکھی ہیں کہ علم طب اور ڈاکٹری کے ماہرین حیران ہیں اور ہزاروں سال سے اس کی تحقیقات کا سلسلہ جاری ہونے کے باوجود یہ کوئی نہیں کہہ سکتا کہ اس کے متعلق جو کچھ لکھ دیا گیا ہے وہ حرف آخر ہے اور یہ ساری نباتات کی مختلف قسمیں انسان اور اس کے پالتو جانوروں اور جنگلی جانوروں کی غذا یا دوا ہوتی ہیں، ان کی لکڑی سے انسان مکانوں کی تعمیر میں کام لیتا ہے اور گھریلو سامان استعمال کی ہزاروں قسمیں بناتا ہے ۭفَتَبٰرَكَ اللّٰهُ اَحْسَنُ الْخٰلِقِيْنَ ،
الَّذِيْ جَعَلَ لَكُمُ الْاَرْضَ مَہْدًا وَّسَلَكَ لَكُمْ فِيْہَا سُـبُلًا وَّاَنْزَلَ مِنَ السَّمَاۗءِ مَاۗءً ٠ۭ فَاَخْرَجْنَا بِہٖٓ اَزْوَاجًا مِّنْ نَّبَاتٍ شَتّٰى ٥٣- جعل - جَعَلَ : لفظ عام في الأفعال کلها، وهو أعمّ من فعل وصنع وسائر أخواتها،- ( ج ع ل ) جعل ( ف )- یہ لفظ ہر کام کرنے کے لئے بولا جاسکتا ہے اور فعل وصنع وغیرہ افعال کی بنسبت عام ہے ۔- أرض - الأرض : الجرم المقابل للسماء، وجمعه أرضون، ولا تجیء مجموعةً في القرآن «4» ، ويعبّر بها عن أسفل الشیء، كما يعبر بالسماء عن أعلاه . - ( ا رض ) الارض - ( زمین ) سماء ( آسمان ) کے بالمقابل ایک جرم کا نام ہے اس کی جمع ارضون ہے ۔ جس کا صیغہ قرآن میں نہیں ہے کبھی ارض کا لفظ بول کر کسی چیز کا نیچے کا حصہ مراد لے لیتے ہیں جس طرح سماء کا لفظ اعلی حصہ پر بولا جاتا ہے ۔ - مهد - المَهْدُ : ما يُهَيَّأُ للصَّبيِّ. قال تعالی: كَيْفَ نُكَلِّمُ مَنْ كانَ فِي الْمَهْدِ صَبِيًّا [ مریم 29] والمَهْد والمِهَاد : المکان المُمَهَّد الموطَّأ . قال تعالی: الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ مَهْداً [ طه 53] ، ومِهاداً [ النبأ 6] - م ھ د ) المھد - ۔ گہوارہ جو بچے کے لئے تیار کیا جائے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ كَيْفَ نُكَلِّمُ مَنْ كانَ فِي الْمَهْدِ صَبِيًّا [ مریم 29] کہ ہم اس سے کہ گود کا بچہ ہے ۔ کیونکہ بات کریں ۔ اور ۔ اور المھد والمھاد ہموار اور درست کی ہوئی زمین کو بھی کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ مَهْداً [ طه 53] وہ ( وہی تو ہے ) جس نے تم لوگوں کے لئے زمین کو فرش بنایا ۔ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ مَهْداً [ طه 53] کہ ہم نے زمین کو بچھونا نہیں بنایا : - سلك - السُّلُوكُ : النّفاذ في الطّريق، يقال : سَلَكْتُ الطّريق، وسَلَكْتُ كذا في طریقه، قال تعالی:- لِتَسْلُكُوا مِنْها سُبُلًا فِجاجاً [ نوح 20] ، وقال : فَاسْلُكِي سُبُلَ رَبِّكِ ذُلُلًا[ النحل 69] ، يَسْلُكُ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ [ الجن 27] ، وَسَلَكَ لَكُمْ فِيها سُبُلًا [ طه 53] ، ومن الثاني قوله : ما سَلَكَكُمْ فِي سَقَرَ [ المدثر 42] ، وقوله : كَذلِكَ نَسْلُكُهُ فِي قُلُوبِ الْمُجْرِمِينَ- [ الحجر 12] ، كَذلِكَ سَلَكْناهُ [ الشعراء 200] ، فَاسْلُكْ فِيها[ المؤمنون 27] ، يَسْلُكْهُ عَذاباً [ الجن 17] . قال بعضهم : سَلَكْتُ فلانا طریقا، فجعل عذابا مفعولا ثانیا، وقیل : ( عذابا) هو مصدر لفعل محذوف، كأنه قيل : نعذّبه به عذابا، والطّعنة السُّلْكَةُ : تلقاء وجهك، والسُّلْكَةُ : الأنثی من ولد الحجل، والذّكر : السُّلَكُ.- ( س ل ک ) السلوک - ( ن ) اس کے اصل بمعنی راستہ پر چلنے کے ہیں ۔ جیسے سکت الطریق اور یہ فعل متعدی بن کر بھی استعمال ہوتا ہے یعنی راستہ پر چلانا چناچہ پہلے معنی کے متعلق فرمایا : لِتَسْلُكُوا مِنْها سُبُلًا فِجاجاً [ نوح 20] تاکہ اس کے بڑے بڑے کشادہ راستوں میں چلو پھرو ۔ فَاسْلُكِي سُبُلَ رَبِّكِ ذُلُلًا[ النحل 69] اور اپنے پروردگار کے صاف رستوں پر چلی جا ۔ يَسْلُكُ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ [ الجن 27] اور اس کے آگے مقرر کردیتا ہے ۔ وَسَلَكَ لَكُمْ فِيها سُبُلًا [ طه 53] اور اس میں تمہارے لئے رستے جاری کئے ۔ اور دوسری معنی متعدی کے متعلق فرمایا : ما سَلَكَكُمْ فِي سَقَرَ [ المدثر 42] کہ تم دوزخ میں کیوں پڑے ۔ - كَذلِكَ نَسْلُكُهُ فِي قُلُوبِ الْمُجْرِمِينَ [ الحجر 12] اس طرح ہم اس ( تکذیب و ضلال ) کو گنہگاروں کے دلوں میں داخل کردیتے ہیں ۔ كَذلِكَ سَلَكْناهُ [ الشعراء 200] اسی طرح ہم نے انکار کو داخل کردیا ۔ فَاسْلُكْ فِيها[ المؤمنون 27] کشتی میں بٹھالو ۔ يَسْلُكْهُ عَذاباً [ الجن 17] وہ اس کو سخت عذاب میں داخل کرے گا ۔ بعض نے سلکت فلانا فی طریقہ کی بجائے سلکت فلانا طریقا کہا ہے اور عذابا کو یسل کہ کا دوسرا مفعول بنایا ہے ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ عذابا فعل محذوف کا مصدر ہے اور یہ اصل میں نعذبہ عذابا ہے اور نیزے کی بالکل سامنے کی اور سیدھی ضرف کو طعنۃ سلکۃ کہاجاتا ہے ۔ ( سلکیٰ سیدھا نیزہ ) اور سلکۃ ماده كبک کو کہتے ہیں اس کا مذکر سلک ہے ۔- سبل - السَّبِيلُ : الطّريق الذي فيه سهولة، وجمعه سُبُلٌ ، قال : وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل 15] - ( س ب ل ) السبیل - ۔ اصل میں اس رستہ کو کہتے ہیں جس میں سہولت سے چلا جاسکے ، اس کی جمع سبل آتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل 15] دریا اور راستے ۔- نزل - النُّزُولُ في الأصل هو انحِطَاطٌ من عُلْوّ.- يقال : نَزَلَ عن دابَّته، والفَرْقُ بَيْنَ الإِنْزَالِ والتَّنْزِيلِ في وَصْفِ القُرآنِ والملائكةِ أنّ التَّنْزِيل يختصّ بالموضع الذي يُشِيرُ إليه إنزالُهُ مفرَّقاً ، ومرَّةً بعد أُخْرَى، والإنزالُ عَامٌّ ، فممَّا ذُكِرَ فيه التَّنزیلُ قولُه : نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] وقرئ : نزل وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء 106] - ( ن ز ل ) النزول ( ض )- اصل میں اس کے معنی بلند جگہ سے نیچے اترنا کے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ نزل عن دابۃ وہ سواری سے اتر پڑا ۔ نزل فی مکان کذا کسی جگہ پر ٹھہر نا انزل وافعال ) اتارنا قرآن میں ہے ۔ عذاب کے متعلق انزال کا لفظ استعمال ہوا ہے قرآن اور فرشتوں کے نازل کرنے کے متعلق انزال اور تنزیل دونوں لفظ استعمال ہوئے ہیں ان دونوں میں معنوی فرق یہ ہے کہ تنزیل کے معنی ایک چیز کو مرۃ بعد اخریٰ اور متفرق طور نازل کرنے کے ہوتے ہیں ۔ اور انزال کا لفظ عام ہے جو ایک ہی دفعہ مکمل طور کیس چیز نازل کرنے پر بھی بولا جاتا ہے چناچہ وہ آیات ملا حضہ ہو جہاں تنزیل لا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] اس کو امانت دار فر شتہ لے کر اترا ۔ ایک قرات میں نزل ہے ۔ وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء 106] اور ہم نے اس کو آہستہ آہستہ اتارا - زوج - يقال لكلّ واحد من القرینین من الذّكر والأنثی في الحیوانات الْمُتَزَاوِجَةُ زَوْجٌ ، ولكلّ قرینین فيها وفي غيرها زوج، کالخفّ والنّعل، ولكلّ ما يقترن بآخر مماثلا له أو مضادّ زوج . قال تعالی:- فَجَعَلَ مِنْهُ الزَّوْجَيْنِ الذَّكَرَ وَالْأُنْثى[ القیامة 39] - ( ز و ج ) الزوج - جن حیوانات میں نرا اور پایا جاتا ہے ان میں سے ہر ایک دوسرے کا زوج کہلاتا ہے یعنی نرا اور مادہ دونوں میں سے ہر ایک پر اس کا اطلاق ہوتا ہے ۔ حیوانات کے علا وہ دوسری اشیائیں سے جفت کو زوج کہا جاتا ہے جیسے موزے اور جوتے وغیرہ پھر اس چیز کو جو دوسری کی مما ثل یا مقابل ہونے کی حثیت سے اس سے مقترن ہو وہ اس کا زوج کہلاتی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَجَعَلَ مِنْهُ الزَّوْجَيْنِ الذَّكَرَ وَالْأُنْثى[ القیامة 39] اور خر کار اس کی دو قسمیں کیں ( یعنی مرد اور عورت ۔- نبت - النَّبْتُ والنَّبَاتُ : ما يخرج من الأرض من النَّامِيات، سواء کان له ساق کا لشجر، أو لم يكن له ساق کالنَّجْم، لکن اختَصَّ في التَّعارُف بما لا ساق له، بل قد اختصَّ عند العامَّة بما يأكله الحیوان، وعلی هذا قوله تعالی: لِنُخْرِجَ بِهِ حَبًّا وَنَباتاً [ النبأ 15] ومتی اعتبرت الحقائق فإنّه يستعمل في كلّ نام، نباتا کان، أو حيوانا، أو إنسانا، والإِنْبَاتُ يستعمل في كلّ ذلك . قال تعالی: فَأَنْبَتْنا فِيها حَبًّا وَعِنَباً وَقَضْباً وَزَيْتُوناً وَنَخْلًا وَحَدائِقَ غُلْباً وَفاكِهَةً وَأَبًّا[ عبس 27- 31]- ( ن ب ت ) النبت والنبات - ۔ ہر وہ چیز جو زمین سے اگتی ہے ۔ اسے نبت یا نبات کہا جاتا ہے ۔ خواہ وہ تنہ دار ہو جیسے درخت ۔ یا بےتنہ جیسے جڑی بوٹیاں لیکن عرف میں خاص کر نبات اسے کہتے ہیں ہیں جس کے تنہ نہ ہو ۔ بلکہ عوام تو جانوروں کے چاراہ پر ہی نبات کا لفظ بولتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ : ۔ لِنُخْرِجَ بِهِ حَبًّا وَنَباتاً [ النبأ 15] تاکہ اس سے اناج اور سبزہ پیدا کریں ۔ میں نبات سے مراد چارہ ہی ہے ۔ لیکن یہ اپانے حقیقی معنی کے اعتبار سے ہر پڑھنے والی چیز کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ اور بناتات حیوانات اور انسان سب پر بولاجاتا ہے ۔ اور انبات ( افعال ) کا لفظ سب چیزوں کے متعلق اسستعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ فَأَنْبَتْنا فِيها حَبًّا وَعِنَباً وَقَضْباً وَزَيْتُوناً وَنَخْلًا وَحَدائِقَ غُلْباً وَفاكِهَةً وَأَبًّا[ عبس 27- 31] پھر ہم ہی نے اس میں اناج اگایا ور انگور اور ترکاری اور زیتون اور کھجوریں اور گھنے گھے باغ ور میوے ور چارہ ۔ - شتت - الشَّتُّ : تفریق الشّعب، يقال : شَتَّ جمعهم شَتّاً وشَتَاتاً ، وجاؤوا أَشْتَاتاً ، أي : متفرّقي النّظام، قال : يَوْمَئِذٍ يَصْدُرُ النَّاسُ أَشْتاتاً [ الزلزلة 6] ، وقال : مِنْ نَباتٍ شَتَّى[ طه 53] ، أي : مختلفة الأنواع، وَقُلُوبُهُمْ شَتَّى [ الحشر 14] ، أي : هم بخلاف من وصفهم بقوله : وَلكِنَّ اللَّهَ أَلَّفَ بَيْنَهُمْ [ الأنفال 63] . و ( شَتَّانَ ) : اسم فعل، نحو : وشکان، يقال : شتّان ما هما، وشتّان ما بينهما : إذا أخبرت عن ارتفاع الالتئام بينهما .- ( ش ت ت ) الشت - کے معنی قبیلہ کو متفرق کرنے کے ہیں محاورہ ہے ۔ شت جمعھم شتا وشتاتا ان کی جمیعت متفرق ہوگئی ۔ جاؤا اشتاتا وہ پر اگندہ حالت میں آئے قرآن میں ہے : يَوْمَئِذٍ يَصْدُرُ النَّاسُ أَشْتاتاً [ الزلزلة 6] اس دن لوگ گروہ گروہ ہوکر آئیں گے ۔ مِنْ نَباتٍ شَتَّى[ طه 53] ( یعنی انواع ( وہ اقسام ) کی مختلف روئیدگی پید اکیں ۔ وَقُلُوبُهُمْ شَتَّى [ الحشر 14]( مگر) ان کے دل پھٹے ہوئے ہیں ۔ یعنی ان کی حالت مسلمانوں کی حالت کے برعکس ہے جن کے متعلق فرمایا : وَلكِنَّ اللَّهَ أَلَّفَ بَيْنَهُمْ [ الأنفال 63] مگر خدا ہی نے ان میں الفت ڈال دی ۔ شتان یہ اسم فعل وزن وشگان ہے ۔ محاورہ ہے ؛۔ شتان ما ھما وشتان ما بینھما ان دونوں میں کس قدر بعد اور تفاوت ہے ۔
(٥٣) اور وہ ایسا ہے جس نے تم لوگوں کے لیے زمین کو فرش بنایا اور اس میں تمہاری آمد و رفت کے لیے راستے بنائے کہ تم ان پر سے آتے جاتے رہتے ہو اور آسمان سے پانی برسایا پھر ہم نے اس پانی کے ذریعے سے مختلف شکلوں کے نباتات پیدا کیے۔
سورة طٰهٰ حاشیہ نمبر :26 انداز کلام سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ حضرت موسیٰ کا جواب نہ بھولتا ہے پر ختم ہو گیا ، اور یہاں سے آخر پیرا گراف تک کی پوری عبارت اللہ تعالیٰ کی طرف سے بطور شرح و تذکیر ارشاد ہوئی ہے ۔ قرآن میں اس طرح کی مثالیں بکثرت موجود ہیں کہ کسی گزرے ہوئے یا آئندہ پیش آنے والے واقعے کو بیان کرتے ہوئے جب کسی شخص کا کوئی قول نقل کیا جاتا ہے ، تو اس کے بعد متصلاً چند فقرے وعظ و بند ، یا شرح و تفسیر ، یا تفصیل و توضیح کے طور پر مزید ارشاد فرمائے جاتے ہیں اور صرف انداز کلام سے پتا چل جاتا ہے کہ یہ اس شخص کا قول نہیں ہے جس کا پہلے ذکر ہو رہا تھا ، بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کا اپنا قول ہے ۔ واضح رہے کہ اس عبارت کا تعلق صرف قریب کے فقرے میرا رب نہ چوکتا ہے نہ بھولتا ہے سے ہی نہیں ہے بلکہ حضرت موسیٰ کے پورے کلام سے ہے جو : رَبُّنَا الَّذِئٓ اَعْطٰی کُلَّ شَئءٍ سے شروع ہوا ہے ۔