[٥] اس آیت کے بھی دو مطلب ہیں۔ ایک یہ کہ وہ اپنے مقامات ستر کو ڈھانپ کر رکھتے ہیں اور کسی کے سامنے کھولتے نہیں نہ عریاں لباس پہنتے ہیں کہ بدن کے اعضا نظر آتے رہیں اور دوسرا یہ کہ وہ اپنی عفت و عصمت کی پوری پوری نگہداشت کرتے ہیں۔
وَالَّذِيْنَ هُمْ لِفُرُوْجِهِمْ حٰفِظُوْن : پاکدامنی کی صفت اگرچہ لغو سے اعراض میں شامل ہے، مگر نفس کی سب سے منہ زور قوت پر قابو رکھنے کی اہمیت کی وجہ سے اسے الگ بھی ذکر فرمایا، جیسا کہ ” اَلْمُوْمِنُوْنَ “ کے لفظ میں ایمان کے تمام اعمال شامل ہیں، مگر بعد میں سات چیزوں کو ان کی اہمیت کے پیش نظر الگ بھی ذکر فرمایا۔
وَالَّذِيْنَ ہُمْ لِفُرُوْجِہِمْ حٰفِظُوْنَ ٥ۙ- فرج - الفَرْجُ والفُرْجَةُ : الشّقّ بين الشّيئين کفرجة الحائط، والفَرْجُ : ما بين الرّجلین، وكنّي به عن السّوأة، وکثر حتی صار کالصّريح فيه . قال تعالی: وَالَّتِي أَحْصَنَتْ فَرْجَها [ الأنبیاء 91] ، لِفُرُوجِهِمْ حافِظُونَ- [ المؤمنون 5] ، وَيَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ [ النور 31] ، واستعیر الفَرْجُ للثّغر وكلّ موضع مخافة . وقیل : الفَرْجَانِ في الإسلام : التّرک والسّودان «1» ، وقوله : وَما لَها مِنْ فُرُوجٍ- [ ق 6] ، أي : شقوق وفتوق، قال : وَإِذَا السَّماءُ فُرِجَتْ- [ المرسلات 9] ، أي : انشقّت، والفَرَجُ : انکشاف الغمّ. يقال : فَرَّجَ اللہ عنك، وقوس فَرْجٌ: انفرجت سيتاها، ورجل فَرْجٌ: لا يكتم سرّه، وفَرَجٌ: لا يزال ينكشف فرجه «2» ، وفَرَارِيجُ الدّجاج لانفراج البیض عنها، ودجاجة مُفْرِجٌ: ذات فراریج، والْمُفْرَجُ :- القتیل الذي انکشف عنه القوم فلا يدری من قتله .- ( ف ر ج ) الفرج والفرجہ کے معنی دوچیزوں کے درمیان شگاف کے ہیں ۔ جیسے دیوار میں شگاف یا دونوں ٹانگوں کے درمیان کی کشادگی اور کنایہ کے طور پر فرج کا لفظ شرمگاہ پر بولا جاتا ہے اور کثرت استعمال کی وجہ سے اسے حقیقی معنی سمجھا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ؛ وَالَّتِي أَحْصَنَتْ فَرْجَها [ الأنبیاء 91] اور ان ( مریم ) کو ( بھی یاد کرو جنہوں نے اپنی عصمت کو محفوظ رکھا ۔ لِفُرُوجِهِمْ حافِظُونَ [ المؤمنون 5] اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں ۔ وَيَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ [ النور 31] اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کیا کریں ۔ اور استعارہ کے طور سر حد اور ہر خطرہ کی جگہ کو فرج کیا جاتا ہے اور بعض نے کہا ہے کہ اسلامی دور حکومت میں فرجان کا لفظ ترک اور سوڈان پر بولا جاتا تھا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَما لَها مِنْ فُرُوجٍ [ ق 6] اور اس میں کہیں شگاف تک نہیں ۔ میں فروج بمعنی شگاف ہے اور آیت کریمہ : ۔ وَإِذَا السَّماءُ فُرِجَتْ [ المرسلات 9] اور جب آسمان پھٹ جائے ۔ میں فرجت بمعنی انشقت ہے یعنی جب آسمان شق ہوجائے گا ۔ الفرج کے معنی غم دور ہونیکے ہیں چناچہ محاورہ ہے ۔ فرج اللہ عنک اللہ تجھ سے غم کو دور کرے اور قوس فرج اس کمان کو کہتے ہیں جس کے دونوں گوشے کشادہ ہوں ۔ جیسا کہ تانت سے علیدہ ہونے کی حالت میں اور جو شخص اپنا بھید نہ چھپائے اس کو فرج کہا جاتا ہے اور فرج اس شخص کو کہتے ہیں جس کی شرمگاہ پر ستر یعنی پردہ نہ ہو ۔ فراریج الدجامرغی کے چوزے کیونکہ وہ انڈوں سے نکتے ہیں اور چوزوں والی مرغی کو مفرج کہا جاتا ہے المفروج وہ قتیل جس سے لوگ دور ہوجائیں اور اس کے قاتل کا علم نہ ہوسکے ۔- حفظ - الحِفْظ يقال تارة لهيئة النفس التي بها يثبت ما يؤدي إليه الفهم، وتارة لضبط الشیء في النفس، ويضادّه النسیان، وتارة لاستعمال تلک القوة، فيقال : حَفِظْتُ كذا حِفْظاً ، ثم يستعمل في كلّ تفقّد وتعهّد ورعاية، قال اللہ تعالی: وَإِنَّا لَهُ لَحافِظُونَ [يوسف 12]- ( ح ف ظ ) الحفظ - کا لفظ کبھی تو نفس کی اس ہیئت ( یعنی قوت حافظہ ) پر بولا جاتا ہے جس کے ذریعہ جو چیز سمجھ میں آئے وہ محفوظ رہتی ہے اور کبھی دل میں یاد ررکھنے کو حفظ کہا جاتا ہے ۔ اس کی ضد نسیان ہے ، اور کبھی قوت حافظہ کے استعمال پر یہ لفظ بولا جاتا ہے مثلا کہا جاتا ہے ۔ حفظت کذا حفظا یعنی میں نے فلاں بات یاد کرلی ۔ پھر ہر قسم کی جستجو نگہداشت اور نگرانی پر یہ لفظ بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ وَإِنَّا لَهُ لَحافِظُونَ [يوسف 12] اور ہم ہی اس کے نگہبان ہیں ۔
شرم و حیا - قول باری ہے (والذین ھم لفزوجھم حافظون اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں) آیت سے مرد اور عورتیں دونوں مراد لینا درست ہے اس لئے کہ جب مذکر اور مئونث دونوں کا اجتماع ہوجائے تو تغلیب کے طور پر مذکر کا صیغہ لایا جاتا ہے جس طرح یہ قول باری ہے (قد افلح المومنون الذین ھم فی صلوتھم خاشعون) یہاں مرد اور عورتیں دونوں مراد ہیں۔ بعض مفسرین کا قول ہے کہ آیت (والذین ھم لفروجھم حافظون) مردوں کے ساتھ مخصوص ہے اس کی دلیل یہ قول باری ہے (الا علی ازواجھم اوما ملکت ایمانھم سوائے اپنی بیویوں کے اور ان عورتوں کے جو ان کی ملک یمین میں ہوں) اس میں لا محالہ مرد مراد ہیں۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ اس میں کوء امتناع نہیں کہ پہلا لفظ دونوں جنسوں کے لئے عام ہو اور استثناء مردوں کے لئے مخصوص ہو۔ جس طرح یہ قول باری ہے (ووصینا الانسان بوالدیہ حسناً اور ہم نے انسان کو اس کے والدین کے ساتھ حسن سلوک کی وصیت کی) پھر ارشاد ہوا (وان جاھداک علی ان نشرک بی اور اگر یہ دونوں یعنی ماں باپ تجھے اس امر پر مجبور کریں تو میرے ساتھ شریک ٹھہرائے) پہلا فقرہ سب کے لئے عام ہے اور عطف بعض افراد کے لئے ہے جنہیں لفظ شامل ہے۔ قول باری (والذین ھم لفروجھم حافظون) دلالت حال کی بنا پر عام ہے۔ دلالت حال یہ ہے کہ بدکاری میں مبتلا ہنے سے شرمگاہوں کی حفاظت کی جائے۔
سورة الْمُؤْمِنُوْن حاشیہ نمبر :6 اس کے دو مطلب ہیں ۔ ایک یہ کہ اپنے جسم کے قابل شرم حصوں کو چھپا کر رکھتے ہیں ، یعنی عریانی سے پرہیز کرتے ہیں اور اپنا ستر دوسروں کے سامنے نہیں کھولتے ۔ دوسرے یہ کہ وہ اپنی عصمت و عفت کو محفوظ رکھتے ہیں ، یعنی صنفی معاملات میں آزادی نہیں برتتے اور قوت شہوانی کے استعمال میں بے لگام نہیں ہوتے ۔ ( تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد سوم ، النور حواشی 30 ۔ 32 ) ۔
4: یعنی اس بات سے حفاظت کرتے ہیں کہ اپنی جنسی خواہشات کو پورا کرنے کے لیے کوئی ناجائز طریقہ اختیار کیا جائے۔