صالح علیہ السلام اور قوم ثمود اللہ تعالیٰ کے بندے اور رسول حضرت صالح علیہ السلام کا واقعہ بیان ہو رہا کہ آپ اپنی قوم ثمود کی طرف رسول بنا کر بھیجے گئے تھے یہ لوگ عرب حجر نامی شہر میں رہتے تھے جو وادی القری اور ملک شام کے درمیان ہے ۔ یہ عادیوں کے بعد اور ابراہمیوں سے پہلے تھے شام کی طرف جاتے ہوئے آپ کا اس جگہ سے گزرنے کا بیان سورئہ اعراف کی تفسیر میں پہلے گزرچکا ہے ۔ انہیں ان کے نبی نے اللہ کی طرف بلایا کہ یہ اللہ کی توحید کو مانیں اور حضرت صالح علیہ السلام کی رسالت کا اقرار کریں لیکن انہوں نے بھی انکار کردیا اور اپنے کفر پر جمے رہے اللہ کے پیغمبر کو جھوٹا کہا ۔ باوجود اللہ سے ڈرتے رہنے کی نصیحت سننے کی پرہیزگاری اختیار نہ کی ۔ باوجود رسول امین کی موجودگی کے راہ ہدایت اختیار نہ کی ۔ حالانکہ نبی کا صاف اعلان تھا کہ میں اپنا کوئی بوجھ تم پر ڈال نہیں رہا میں تو رسالت کی تبلیغ کے اجرا کا صرف اللہ تعالیٰ سے خواہاں ہوں ۔ اس کے بعد اللہ کی نعمتیں انہیں یاد دلائیں ۔
14 1 1ثمود کا مسکن حضر تھا جو حجاز کے شمال میں ہے، آجکل اسے مدائن صالح کہتے ہیں۔ (ایسر التفاسیر) یہ عرب تھے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تبوک جاتے ہوئے ان بستیوں سے گزر کر گئے تھے، جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے۔
[٨٩] قوم عاد اولیٰ کے بعد یہی قوم ثمود، جسے عاد ثانیہ بھی کہتے ہیں، نامور ہوئی۔ سب سے پہلے اللہ تعالیٰ قوم موسیٰ کا ذکر فرمایا، پھر قوم ابراہیم کا، پھر قوم نوح کا، پھر قوم عاد اولیٰ کا اور پانچویں نمبر پر قوم عاد ثانیہ کا ذکر ہے۔ اس قوم کے مسکن کو الحجر بھی کہا جاتا ہے۔ یہ تین چار سو کلومیٹر لمبا اور تقریباً سو کلومیٹر چوڑا علاقہ حجاز اور شام کے درمیان واقع ہے اور اس راستہ پر واقع ہے جو مدینہ سے تبوک جاتا ہے۔ اس قوم کے رنگ ڈھنگ تقریباً وہی تھے جو عاد اولیٰ کے تھے۔ اسی طرح کے تندمند اور قد آور اور مضبوط جسموں کے مالک تھے۔ اللہ تعالیٰ کی ہستی کے قائل ضرور تھے مگر شرک کی امراض میں بری طرح مبتلا تھے۔ بڑی متکبر اور سرکش قوم تھی۔ ان کی نمایاں خصوصیت یہ تھی کہ اعلیٰ درجہ کے انجینئر اور بہترین قسم کے سنگ تراش تھے۔ وہ اپنے فن کا مظاہرہ یوں کرتے کہ پہاڑوں میں پتھر تراش تراش کر اپنے عالیٰ شان مکان بنالیتے تھے۔ اسی طرح پہاڑوں کے اندر ہی اندر انہوں نے بستیوں کی بستیاں آباد کر رکھی تھیں۔
كَذَّبَتْ ثَمُوْدُ الْمُرْسَلِيْنَ ۔۔ : ثمود اور صالح (علیہ السلام) کا قصہ اس سے پہلے سورة اعراف (٧٣ تا ٧٩) ، ہود (٦١ تا ٦٨) ، حجر (٨٠ تا ٨٤) اور بنی اسرائیل (٥٩) میں گزر چکا ہے۔ مزید دیکھیے سورة نمل (٤٥ تا ٥٣) ، ذاریات (٤٣ تا ٤٥) ، قمر (٢٣ تا ٣١) ، فجر (٩) اور شمس (١١) ۔- اِنِّىْ لَكُمْ رَسُوْلٌ اَمِيْنٌ : صالح (علیہ السلام) کی قوم بھی ان کی امانت و دیانت اور غیر معمولی قابلیت کو مانتی تھی۔ (دیکھیے ہود : ٦٢) قوم کا انھیں ” اِنَّمَآ اَنْتَ مِنَ الْمُسَحَّرِيْنَ “ کہنے سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ نبوت کے اعلان سے پہلے وہ ان کے نزدیک نہایت سمجھ دار اور عقل مند تھے اور ان کی حالت کی تبدیلی ان کے خیال سے جادو کا نتیجہ تھی۔
خلاصہ تفسیر - قوم ثمود نے (بھی) پیغمبروں کو جھٹلایا جبکہ ان سے ان کے بھائی صالح (علیہ السلام) نے فرمایا کیا تم (اللہ سے) نہیں ڈرتے، میں تمہارا امانت دار پیغمبر ہوں، سو تم اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو اور میں تم سے اس پر کچھ صلہ نہیں چاہتا، بس میرا صلہ تو رب العالمین کے ذمہ ہے (اور تم جو خوشحالی کی وجہ سے اس درجہ اللہ سے غافل ہو تو) کیا تم کو ان ہی چیزوں میں بےفکری سے رہنے دیا جاوے گا جو یہاں (دنیا میں) موجود ہیں، یعنی باغوں میں اور چشموں میں اور ان کھجوروں میں جن کے گپھے خوب گوندے ہوئے ہیں (یعنی ان کھجوروں میں خوب کثرت سے پھل آتا ہے) اور کیا (اسی غفلت کی وجہ سے) تم پہاڑوں کو تراش تراش کر اتراتے (اور فخر کرتے) ہوئے مکانات بناتے ہو سو اللہ سے ڈرو اور میرا کہنا مانو اور ان حدود (بندگی) سے نکل جانے والوں کا کہنا مت مانو جو سر زمین میں فساد کیا کرتے ہیں اور (کبھی) اصلاح (کی بات) نہیں کرتے (مراد رؤ سا کفار ہیں جو گمراہی پر لوگوں کو آمادہ کرتے تھے اور فساد اور عدم اصلاح سے یہی مراد ہے) ان لوگوں نے کہا کہ تم پر تو کسی نے بڑا بھاری جادو کردیا ہے (جس سے عقل میں خرابی آگئی ہے کہ نبوت کا دعویٰ کرتے ہو حالانکہ) تم بس ہماری طرح کے ایک (معمولی) آدمی ہو۔ (اور آدمی نبی ہوتا نہیں) سو کوئی معجزہ پیش کرو اگر تم (دعویٰ نبوت میں) سچے ہو، صالح (علیہ السلام) نے فرمایا کہ یہ ایک اونٹنی ہے (جو بوجہ خلاف عادت پیدا ہونے کے معجزہ ہے جیسا کہ پارہ ہشتم کے ختم کے قریب گزرا اور علاوہ اس کے یہ میری رسالت پر دلیل ہے خود اس کے بھی کچھ حقوق ہیں چناچہ ان میں سے ایک یہ ہے کہ) پانی پینے کے لئے ایک باری اس کی ہے اور ایک مقرر دن میں ایک باری تمہاری (یعنی تمہارے مواشی کی) اور (ایک یہ ہے کہ) اس کو برائی (اور تکلیف دہی) کے ساتھ ہاتھ بھی مت لگانا کبھی تم کو ایک بھاری دن کا عذاب آپکڑے سو انہوں نے (نہ رسالت کی تصدیق کی نہ اونٹنی کے حقوق ادا کئے بلکہ) اس اونٹنی کو مار ڈالا، پھر (جب عذاب کے نشان ظاہر ہوئے تو اپنی حرکت پر) پشیمان ہوئے (مگر اول تو عذاب دیکھ لینے کے وقت پشیمانی بیکار، دوسرے خالی طبعی پشیمانی سے کیا ہوتا ہے جب تک اختیاری تدارک یعنی توبہ و ایمان نہ ہو) پھر (آخر) عذاب نے ان کو آلیا، بیشک اس (واقعہ) میں بڑی عبرت ہے اور (باوجود اس کے) ان (کفار مکہ) میں اکثر لوگ ایمان نہیں لاتے اور بیشک آپ کا رب بڑا زبردست بہت مہربان ہے (کہ باوجود قدرت کے مہلت دیتا ہے۔ )
كَذَّبَتْ ثَمُوْدُ الْمُرْسَلِيْنَ ١٤ ١ۚۖ- ثمد - ثَمُود قيل : هو أعجمي، وقیل : هو عربيّ ، وترک صرفه لکونه اسم قبیلة، أو أرض، ومن صرفه جعله اسم حيّ أو أب، لأنه يذكر فعول من الثَّمَد، وهو الماء القلیل الذي لا مادّة له، ومنه قيل : فلان مَثْمُود، ثَمَدَتْهُ النساء أي :- قطعن مادّة مائه لکثرة غشیانه لهنّ ، ومَثْمُود : إذا کثر عليه السّؤال حتی فقد مادة ماله .- ( ث م د ) ثمود - ( حضرت صالح کی قوم کا نام ) بعض اسے معرب بتاتے ہیں اور قوم کا علم ہونے کی ہوجہ سے غیر منصرف ہے اور بعض کے نزدیک عربی ہے اور ثمد سے مشتق سے ( بروزن فعول ) اور ثمد ( بارش) کے تھوڑے سے پانی کو کہتے ہیں جو جاری نہ ہو ۔ اسی سے رجل مثمود کا محاورہ ہے یعنی وہ آدمی جس میں عورتوں سے کثرت جماع کے سبب مادہ منویہ باقی نہ رہے ۔ نیز مثمود اس شخص کو بھی کہا جاتا ہے جسے سوال کرنے والوں نے مفلس کردیا ہو ۔
(١٤١ تا ١٤٣) قوم ثمود نے بھی حضرت صالح (علیہ السلام) کو اور جن انبیاء کی حضرت صالح (علیہ السلام) نے ان کو خبر دی سب کو جھٹلایا جب کہ ان کے نبی حضرت صالح (علیہ السلام) نے فرمایا کہ تم اللہ سے نہیں ڈرتے کہ غیر اللہ کی عبادت کرتے ہو، میں اللہ کی طرف سے امانت دار پیغمبر ہوں سو تم اللہ سے ڈرو کہ توبہ کرو اور ایمان لاؤ۔
سورة الشُّعَرَآء حاشیہ نمبر :95 تقابل کے لیے ملاحظہ ہو الاعراف ، آیات 73 تا 79 ۔ ہود ، 61 ۔ 68 ۔ الحجر ، 80 ۔ 84 ۔ بنی اسرائیل 59 ۔ مزید تفصیلات کے لیے قرآن مجید کے حسب ذیل مقامات بھی پیش نظر رہیں : النمل ، 45 ۔ 53 ۔ الذاریات ، 43 ۔ 45 ۔ القمر ، 23 ۔ 31 ۔ الحاقہ ، 4 ۔ 5 ۔ الفجر ، 9 ۔ الشمس ، 11 ۔ اس قوم کے متعلق قرآن مجید میں مختلف مقامات پر جو تصریحات کی گئی ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ عاد کے بعد جس قوم کو عروج عطا کیا گیا وہ یہی تھی ، جَعَلَکُمْ خُلَفَآءَ مِنْ بَعْدِ عَادٍ ( الاعراف آیت 74 ) مگر اس کی تمدنی ترقی نے بھی بالآخر وہی شکل اختیار کی جو عاد کی ترقی نے کی تھی ، یعنی معیار زندگی بلند سے بلند تر اور معیار آدمیت پست سے پست تر ہوتا چلا گیا ۔ ایک طرف میدانی علاقوں میں عالی شان قصر اور پہاڑوں میں ایلورا اور اجنٹہ کے غاروں جیسے مکان بن رہے تھے ۔ دوسری طرف معاشرے میں شرک و بت پرستی کا زور تھا اور زمین ظلم و ستم سے لبریز ہو رہی تھی ۔ قوم کے بد ترین مفسد لوگ اس کے لیڈر بنے ہوئے تھے ۔ اونچے طبقے اپنی بڑائی کے گھمنڈ میں سرشار تھے ۔ حضرت صالح کی دعوت حق نے اگر اپیل کیا تو نچلے طبقے کے کمزور لوگوں کو کیا ۔ اونچے طبقوں نے اسے ماننے سے صرف اس لیے انکار کر دیا کہ اِنَّا بِالَّذِیْٓ اٰمَنْتُمْ بِہ کٰفِرُوْنَ ، جس چیز پر تم ایمان لائے ہو اس کو ہم نہیں مان سکتے ۔
30: قوم ثمود اور حضرت صالح (علیہ السلام) کا تعارف پیچھے سورۂ اعراف (٧۔ ٧٢) اور سورۂ ہود (١١۔ ٦١ تا ٦٨) میں گزرچکا ہے۔