20 7 1یعنی اگر ہم نے انھیں مہلت دے دیں اور پھر انھیں اپنے عذاب کی گرفت میں لیں، تو کیا دنیا کا مال و متاع ان کے کچھ کام آئے گا ؟ یعنی انھیں عذاب سے بچا سکے گا ؟ نہیں یقینا نہیں۔
[١٢١] یہ کافروں کے مہلت کے مطالبہ کا دوسرا جواب ہے یعنی ہم نے انھیں دنیا میں سال ہا سال تک مہلت دی تو کیا اس مہلت سے انہوں نے کچھ فائدہ اٹھایا ؟ اور اگر ہم انھیں دوبارہ مہلت دے بھی دیں۔ پھر بھی یہ لوگ اس مہلت سے کچھ فائدہ نہیں اٹھائیں گے جب بڑی ہوئی مہلت میں ان کا سامان عیش و عشرت ان کے کسی کام نہ آئے گا تو اس سالہا سال تک دی ہوئی مہلت کو وہ بالکل تھوڑی مدت سمجھیں گے اور یہ خیال کریں گے کہ ہم بہت جلد پکڑے لئے گئے۔
مَآ اَغْنٰى عَنْہُمْ مَّا كَانُوْا يُمَـتَّعُوْنَ ٢٠٧ۭ- غنی( فایدة)- أَغْنَانِي كذا، وأغْنَى عنه كذا : إذا کفاه . قال تعالی: ما أَغْنى عَنِّي مالِيَهْ [ الحاقة 28] ، ما أَغْنى عَنْهُ مالُهُ [ المسد 2] ، لَنْ تُغْنِيَ عَنْهُمْ أَمْوالُهُمْ وَلا أَوْلادُهُمْ مِنَ اللَّهِ شَيْئاً [ آل عمران 10] ، - ( غ ن ی ) الغنیٰ- اور اغنانی کذا اور اغنی کذا عنہ کذا کسی چیز کا کا فی ہونا اور فائدہ بخشنا ۔ قر آں میں ہے : ما أَغْنى عَنِّي مالِيَهْ [ الحاقة 28] میرا مال میرے کچھ کام نہ آیا ما أَغْنى عَنْهُ مالُهُ [ المسد 2] تو اس کا مال ہی اس کے کچھ کام آیا ۔۔۔۔ لَنْ تُغْنِيَ عَنْهُمْ أَمْوالُهُمْ وَلا أَوْلادُهُمْ مِنَ اللَّهِ شَيْئاً [ آل عمران 10] نہ تو ان کا مال ہی خدا کے عذاب سے انہیں بچا سکے گا اور نہ ان کی اولاد ہی کچھ کام آئیگی - متع - الْمُتُوعُ : الامتداد والارتفاع . يقال : مَتَعَ النهار ومَتَعَ النّبات : إذا ارتفع في أول النّبات، والْمَتَاعُ : انتفاعٌ ممتدُّ الوقت، يقال : مَتَّعَهُ اللهُ بکذا، وأَمْتَعَهُ ، وتَمَتَّعَ به . قال تعالی:- وَمَتَّعْناهُمْ إِلى حِينٍ [يونس 98] ،- ( م ت ع ) المتوع - کے معنی کیس چیز کا بڑھنا اور بلند ہونا کے ہیں جیسے متع النھار دن بلند ہوگیا ۔ متع النسبات ( پو دا بڑھ کر بلند ہوگیا المتاع عرصہ دراز تک فائدہ اٹھانا محاورہ ہے : ۔ متعہ اللہ بکذا وامتعہ اللہ اسے دیر تک فائدہ اٹھانے کا موقع دے تمتع بہ اس نے عرصہ دراز تک اس سے فائدہ اٹھایا قران میں ہے : ۔ وَمَتَّعْناهُمْ إِلى حِينٍ [يونس 98] اور ایک مدت تک ( فوائد دینوی سے ) ان کو بہرہ مندر کھا ۔
آیت ٢٠٧ (مَآ اَغْنٰی عَنْہُمْ مَّا کَانُوْا یُمَتَّعُوْنَ ) ” - دنیا کا مال و متاع جس سے وہ فائدہ اٹھاتے رہے ہیں وہ انہیں اس عذاب سے بچا نہیں سکے گا۔
سورة الشُّعَرَآء حاشیہ نمبر :128 اس فقرے اور اس سے پہلے کے فقرے کے درمیان ایک لطیف خلا ہے جسے سامع کا ذہن تھوڑا سا غور کر کے خود بھر سکتا ہے ۔ عذاب کے لیے ان کے جلدی مچانے کی وجہ یہ تھی کہ وہ عذاب کے آنے کا کوئی اندیشہ نہ رکھتے تھے ۔ انہیں بھروسا تھا کہ جیسی چین کی بنسری آج تک ہم بجاتے رہے ہیں اسی طرح ہمیشہ بجاتے رہیں گے ۔ اسی اعتماد پر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو چیلنج دیتے تھے کہ اگر واقعی تم خدا کے رسول ہو اور ہم تمہیں جھٹلا کر عذاب الٰہی کے مستحق ہو رہے ہیں تو لو ہم نے تمہیں جھٹلا دیا ، اب لے آؤ اپنا وہ عذاب جس سے تم ہمیں ڈراتے ہو ۔ اس پر فرمایا جا رہا ہے ، اچھا اگر بالفرض ان کا یہ بھروسا صحیح ہی ہو ، اگر ان پر فوراً عذاب نہ آئے ، اگر انہیں دنیا میں مزے کرنے کے لیے ایک لمبی ڈھیل بھی مل جائے جس کی توقع پر یہ پھول رہے ہیں ، تو سوال یہ ہے کہ جب بھی ان پر عاد و ثمود یا قوم لوط اور اصحاب الایکہ کی سی کوئی آفت ناگہانی ٹوٹ پڑی جس سے محفوظ رہنے کی کسی کے پاس کوئی ضمانت نہیں ہے یا اور کچھ نہیں تو موت کی آخری گھڑی آن پہنچی جس سے بہرحال کسی کو مفر نہیں ، تو اس وقت عیش دنیا کے یہ چند سال آخر ان کے لیے کیا مفید ثابت ہوں گے ؟
48: عذاب کے جلدی نہ آنے پر کافروں کا ایک استدلال یہ تھا کہ اﷲ تعالیٰ نے تو ہمیں بڑے عیش دے رکھے ہیں اگر ہم لوگ غلط راستے پر ہوتے تو یہ عیش ہمیں کیوں دیا جاتا؟ ان آیات میں جواب دیا گیا ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے یہ مہلت سنبھلنے کے لئے دی ہوئی ہے، اگر کچھ لوگ سنبھل گئے تو خیر، ورنہ جب مہلت ختم ہونے پر، مثلا مرنے کے بعد عذاب آئے گا تو یہ عیش و عشرت جس کے مزے تم دُنیا میں اڑا رہے ہو، کچھ بھی کام نہیں آئے گا، بلکہ اُس وقت معلوم ہوگا کہ آخرت کی زندگی کے مقابلے میں اُس کی ذرّہ برابر کوئی وقعت نہیں ہے۔