7 3 1یعنی اگر تم ان کی عبادت ترک کردو تو کیا وہ تمہیں نقصان پہنچاتے ہیں ؟
[٥٠] حضرت ابراہیم کا اگلا سوال یہ تھا کہ جب تم انھیں پکارتے ہو تو یہ کوئی جواب دیتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ اس سوال کا جواب نفی میں ہی ہوسکتا تھا۔ بھلا پتھر کے خود ساختہ بتوں کا سننے یا سن کر جواب دینے سے کیا کام ؟ حضرت ابراہیم نے اگلا سوال یہ کیا کہ یہ بت تمہارا کچھ سنوار یا بگاڑ سکتے ہیں ؟ اس سوال کا جواب بھی نفی میں ہی ہوسکتا تھا بھلا جو بت اپنے وجود، اپنی حفاظت اور اپنے وجود کی بقا تک کے لئے اپنے عقیدت مندوں کے محتاج ہوں۔ یہ سنتے ہوں نہ بولتے ہوں۔ وہ اپنے عقیدت مندوں کو کون سی حاجت پوری کرسکتے ہیں یا ان کی کوئی تکلیف رفع کرسکتے ہیں ؟
اَوْ يَنْفَعُوْنَكُمْ اَوْ يَضُرُّوْنَ ٧٣- نفع - النَّفْعُ : ما يُسْتَعَانُ به في الوُصُولِ إلى الخَيْرَاتِ ، وما يُتَوَصَّلُ به إلى الخَيْرِ فهو خَيْرٌ ، فَالنَّفْعُ خَيْرٌ ، وضِدُّهُ الضُّرُّ. قال تعالی: وَلا يَمْلِكُونَ لِأَنْفُسِهِمْ ضَرًّا وَلا نَفْعاً [ الفرقان 3] - ( ن ف ع ) النفع - ہر اس چیز کو کہتے ہیں جس سے خیرات تک رسائی کے لئے استعانت حاصل کی جائے یا وسیلہ بنایا جائے پس نفع خیر کا نام ہے اور اس کی ضد ضر ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ وَلا يَمْلِكُونَ لِأَنْفُسِهِمْ ضَرًّا وَلا نَفْعاً [ الفرقان 3] اور نہ اپنے نقصان اور نفع کا کچھ اختیار رکھتے ہیں ۔- ضر - الضُّرُّ : سوءُ الحال، إمّا في نفسه لقلّة العلم والفضل والعفّة، وإمّا في بدنه لعدم جارحة ونقص، وإمّا في حالة ظاهرة من قلّة مال وجاه، وقوله : فَكَشَفْنا ما بِهِ مِنْ ضُرٍّ [ الأنبیاء 84] ، فهو محتمل لثلاثتها،- ( ض ر ر) الضر - کے معنی بدحالی کے ہیں خواہ اس کا تعلق انسان کے نفس سے ہو جیسے علم وفضل اور عفت کی کمی اور خواہ بدن سے ہو جیسے کسی عضو کا ناقص ہونا یا قلت مال وجاہ کے سبب ظاہری حالت کا برا ہونا ۔ اور آیت کریمہ : فَكَشَفْنا ما بِهِ مِنْ ضُرٍّ [ الأنبیاء 84] اور جوان کو تکلیف تھی وہ دورکردی ۔ میں لفظ ضر سے تینوں معنی مراد ہوسکتے ہیں
آیت ٧٣ (اَوْ یَنْفَعُوْنَکُمْ اَوْ یَضُرُّوْنَ ) ” - وہ لوگ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے ان منطقی سوالات کا اس کے علاوہ کوئی جواب نہ دے سکے :