Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

حروف مقطعہ جو سورتوں کے شروع میں آتے ہیں ان پر پوری بحث سورۃ بقرہ کے شروع میں ہم کرچکے ہیں ۔ یہاں دہرانے کی ضرورت نہیں ۔ قرآن کریم جو کھلی ہوئی واضح روشن اور ظاہر کتاب ہے ۔ یہ اسکی آیتیں ہیں جو مومنوں کے لئے ہدایت وبشارت ہیں ۔ کیونکہ وہی اس پر ایمان لاتے ہیں اس کی اتباع کرتے ہیں اسے سچا جانتے ہیں اس میں حکم احکام ہیں ان پر عمل کرتے ہیں یہی وہ لوگ ہیں جو نمازیں صحیح طور پر پڑھتے ہیں فرضوں میں کمی نہیں کرتے اسی طرح فرض زکوٰۃ بھی ، دار آخرت پر کامل یقین رکھتے ہیں موت کے بعد کی زندگی اور جزا سزا کو بھی مانتے ہیں ۔ جنت ودوزخ کو حق جانتے ہیں ۔ چنانچہ اور روایت میں بھی ہے کہ ایمانداروں کے لئے تو یہ قرآن ہدایت اور شفاہے اور بے ایمانوں کے کان تو بہرے ہیں ان میں روئی دئیے ہوئے ہیں ۔ اس سے خوشخبری پرہیزگاروں کو ہے اور بدکرداروں کو اس میں ڈراوا ہے ۔ یہاں بھی فرماتا ہے کہ جو اسے جھٹلائیں اور قیامت کے آنے کو نہ مانیں ہم بھی انہیں چھوڑ دیتے ہیں ان کی برائیاں انہیں اچھی لگنے لگتی ہیں ۔ اسی میں وہ بڑھتے اور پھولتے پھلتے رہتے ہیں اور اپنی سرکشی اور گمراہی میں بڑھتے رہتے ہیں ۔ انکی نگاہیں اور دل الٹ جاتے ہیں انہیں دنیا اور آخرت میں بدترین سزائیں ہونگی اور قیامت کے دن تمام اہل محشر میں سب سے زیادہ خسارے میں یہی رہیں گے بیشک آپ اے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہم سے ہی قرآن لے رہے ہیں ۔ ہم حکیم ہیں امرو نہی کی حکمت کو بخوبی جانتے ہیں علیم ہیں چھوٹے بڑے تمام کاموں سے بخوبی خبردار ہیں ۔ پس قرآن کی تمام خبریں بالکل صدق وصداقت والی ہیں اور اس کے حکم احکام سب کے سب سراسر عدل والے ہیں جیسے فرمان ہے آیت ( وَتَمَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ صِدْقًا وَّعَدْلًا ۭلَا مُبَدِّلَ لِكَلِمٰتِهٖ ۚ وَهُوَ السَّمِيْعُ الْعَلِيْمُ ١١٥؁ ) 6- الانعام:115 )

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

نَمْل، چیو نٹی کو کہتے ہیں۔ اس سورت میں چیونٹیوں کا ایک واقعہ نقل کیا گیا ہے، جس کی وجہ سے اس کو سورة نمل کہا جاتا ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١] یعنی اس کتاب کے پڑھنے سے صاف معلوم ہوجاتا ہے کہ یہ اللہ کی طرف سے نازل شدہ ہے۔ اس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ اس میں جو کچھ بیان کیا جاتا ہے۔ وہ بالکل واضح ہے اس میں کوئی ابہام یا پیچیدگی نہیں جو کسی کی سمجھ میں نہ آسکے۔ اور تیسرا مطلب یہ ہے کہ حق اور باطل سب کچھ بڑی وضاحت سے بتلا رہی ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

طٰسۗ ۣ تِلْكَ اٰيٰتُ الْقُرْاٰنِ وَكِتَابٍ مُّبِيْنٍ : یہاں قرآن کا ذکر پہلے ہے جب کہ سورة حجر میں اس کے برعکس کتاب کا ذکر پہلے ہے، وہاں فرمایا : (الۗرٰ ۣ تِلْكَ اٰيٰتُ الْكِتٰبِ وَقُرْاٰنٍ مُّبِيْنٍ ) [ الحجر : ١ ] ”۔ یہ کامل کتاب اور واضح قرآن کی آیات ہیں۔ “ یہ فرق کیوں ہے ؟ ابو حیان اور زمخشری کے مطابق یہ فرق ظاہر نہیں ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ بعض معطوف علیہ اور معطوف ایسے ہوتے ہیں جن میں سے کسی کو پہلے ذکر کرنے کی کوئی وجہ ترجیح نہیں ہوتی، جسے چاہو پہلے ذکر کر دو اور جسے چاہو بعد میں، جیسا کہ ” وَقُوْلُوْا حِطَّةً “ اور ” وَادْخُلْوْا الْبَابَ سْجَّداً “ میں ہے۔ قرآن اور کتاب کے عطف کا معاملہ بھی یہی ہے، جبکہ بعض ایسے ہوتے ہیں جن میں معطوف علیہ کو پہلے لانے کی وجہ ظاہر ہوتی ہے، جیسے : (شَهِدَ اللّٰهُ اَنَّهٗ لَآ اِلٰهَ اِلَّا ھُوَ ۙ وَالْمَلٰۗىِٕكَةُ وَاُولُوا الْعِلْمِ قَاۗىِٕمًۢا بالْقِسْطِ ) [ آل عمران : ١٨ ]” اللہ نے گواہی دی کہ حقیقت یہ ہے کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں اور فرشتوں نے اور علم والوں نے بھی، اس حال میں کہ وہ انصاف پر قائم ہے۔ “ ابن عاشور نے ایک وجہ ترجیح بیان کی ہے، وہ فرماتے ہیں کہ سورة حجر میں اس آیت کے بعد کفار کے قیامت کے دن حسرت و افسوس کا ذکر ہے، جب کہ یہاں اس کے بعد ایمان والوں کے لیے اس کے ہدایت اور بشارت ہونے کا ذکر ہے۔ کفار کو چونکہ قرآن پڑھنے سے کوئی تعلق نہیں، اس لیے وہاں کتاب کا ذکر پہلے فرمایا، کیونکہ کتاب تو ہر حال میں ان پر حجت ہے۔ مومنین کا تعلق قرآن لکھنے سے زیادہ پڑھنے کے ساتھ ہے، اس لیے یہاں قرآن کا ذکر پہلے فرمایا۔ (التحریر والتنویر)

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - طس (اس کے معنی تو اللہ ہی کو معلوم ہیں) یہ (آیتیں جو آپ پر نازل کی جاتی ہیں) آیتیں ہیں قرآن کی اور ایک واضح کتاب کی (یعنی اس میں دو صفتیں ہیں قرآن ہونا اور کتاب مبین ہونا) یہ (آیتیں) ایمان والوں کے لئے (موجب) ہدایت اور (اس ہدایت پر جزائے نیک کا) مژدہ سنانے والی ہیں جو (مسلمان) ایسے ہیں کہ (عملاً بھی ہدایت پر چلتے ہیں چنانچہ) نماز کی پابندی کرتے ہیں (جو کہ عبادات بدنیہ میں سب سے بڑی ہیں اور زکوٰۃ دیتے ہیں (جو کہ عبادات مالیہ میں سب سے بڑی ہے) اور (عقیدہ کے لحاظ سے بھی ہدایت یافتہ ہیں چنانچہ) وہ آخرت پر پورا یقین رکھتے ہیں (یہ تو ایمان والوں کی صفت ہے اور) جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے ہیں ہم نے ان کے اعمال (بد) ان کی نظر میں مرغوب کر رکھے ہیں سو وہ (اپنے جہل مرکب میں حق سے دور) بھٹکتے پھرتے ہیں (چنانچہ نہ ان کے عقائد درست ہیں نہ اعمال اس لئے وہ قرآن کو بھی نہیں مانتے تو جیسے قرآن اہل ایمان کو بشارت سناتا تھا منکروں کو وعید بھی سناتا ہے کہ) یہ وہ لوگ ہیں جن کے لئے (دنیا میں مرنے کے وقت بھی) سخت عذاب (ہونے والا) ہے اور وہ لوگ آخرت میں (بھی) سخت خسارہ میں ہیں (کہ کبھی نجات ہی نہ ہوگی) اور (گو یہ منکر قرآن کو نہ مانیں مگر) آپ کو بالیقین ایک بڑی حکمت والے علم والے کی طرف سے قرآن دیا جا رہا ہے (آپ اس نعمت کے سرور میں ان کے انکار سے غمگین نہ ہو جئے) ۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

طٰسۗ۝ ٠ۣ تِلْكَ اٰيٰتُ الْقُرْاٰنِ وَكِتَابٍ مُّبِيْنٍ۝ ١ۙ- الآية- والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع .- الایۃ ۔- اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔- قرآن - والْقُرْآنُ في الأصل مصدر، نحو : کفران ورجحان . قال تعالی:إِنَّ عَلَيْنا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ فَإِذا قَرَأْناهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ [ القیامة 17- 18] قال ابن عباس : إذا جمعناه وأثبتناه في صدرک فاعمل به، وقد خصّ بالکتاب المنزّل علی محمد صلّى اللہ عليه وسلم، فصار له کالعلم کما أنّ التّوراة لما أنزل علی موسی، والإنجیل علی عيسى صلّى اللہ عليهما وسلم . قال بعض العلماء : ( تسمية هذا الکتاب قُرْآناً من بين كتب اللہ لکونه جامعا لثمرة كتبه) بل لجمعه ثمرة جمیع العلوم، كما أشار تعالیٰ إليه بقوله : وَتَفْصِيلَ كُلِّ شَيْءٍ [يوسف 111] ، وقوله : تِبْياناً لِكُلِّ شَيْءٍ [ النحل 89] ، قُرْآناً عَرَبِيًّا غَيْرَ ذِي عِوَجٍ [ الزمر 28] ، وَقُرْآناً فَرَقْناهُ لِتَقْرَأَهُ [ الإسراء 106] ، فِي هذَا الْقُرْآنِ [ الروم 58] ، وَقُرْآنَ الْفَجْرِ؂[ الإسراء 78] أي :- قراء ته، لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ [ الواقعة 77]- ( ق ر ء) قرآن - القرآن ۔ یہ اصل میں کفران ورحجان کی طرف مصدر ہے چناچہ فرمایا :إِنَّ عَلَيْنا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ فَإِذا قَرَأْناهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ [ القیامة 17- 18] اس کا جمع کرنا اور پڑھوانا ہمارے ذمہ جب ہم وحی پڑھا کریں تو تم ( اس کو سننا کرو ) اور پھر اسی طرح پڑھا کرو ۔ حضرت ابن عباس نے اس کا یہ ترجمہ کیا ہے کہ جب ہم قرآن تیرے سینہ میں جمع کردیں تو اس پر عمل کرو لیکن عرف میں یہ اس کتاب الہی کا نام ہے جو آنحضرت پر نازل ہوگئی ا وریہ اس کتاب کے لئے منزلہ علم بن چکا ہے جیسا کہ توراۃ اس کتاب الہی کو کہاجاتا ہے جو حضرت موسیٰ ٰ (علیہ السلام) پر نازل ہوئی ۔ اور انجیل اس کتاب کو کہا جاتا ہے جو حضرت عیسیٰ پر نازل کی گئی ۔ بعض علماء نے قرآن کی وجہ تسمیہ یہ بھی بیان کی ہے کہ قرآن چونکہ تمام کتب سماویہ کے ثمرہ کو اپنے اندر جمع کئے ہوئے ہے بلکہ تمام علوم کے ماحصل کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے اس لئے اس کا نام قرآن رکھا گیا ہے جیسا کہ آیت : وَتَفْصِيلَ كُلِّ شَيْءٍ [يوسف 111] اور ہر چیز کی تفصیل کرنے والا ۔ اور آیت کریمہ : تِبْياناً لِكُلِّ شَيْءٍ [ النحل 89] کہ اس میں ہر چیز کا بیان مفصل ہے ۔ میں اس کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے ۔ مزید فرمایا : قُرْآناً عَرَبِيًّا غَيْرَ ذِي عِوَجٍ [ الزمر 28] یہ قرآن عربی ہے جس میں کوئی عیب ( اور اختلاف ) نہیں ۔ وَقُرْآناً فَرَقْناهُ لِتَقْرَأَهُ [ الإسراء 106] اور ہم نے قرآن کو جزو جزو کرکے نازل کیا تاکہ تم لوگوں کو ٹھہر ٹھہر کر پڑھ کر سناؤ ۔ فِي هذَا الْقُرْآنِ [ الروم 58] اس قرآن اور آیت کریمہ : وَقُرْآنَ الْفَجْرِ [ الإسراء 78] اور صبح کو قرآن پڑھا کرو میں قرآت کے معنی تلاوت قرآن کے ہیں ۔ لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ [ الواقعة 77] یہ بڑے رتبے کا قرآن ہے ۔- كتب - والْكِتَابُ في الأصل اسم للصّحيفة مع المکتوب فيه، وفي قوله : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء 153] فإنّه يعني صحیفة فيها كِتَابَةٌ ،- ( ک ت ب ) الکتب ۔- الکتاب اصل میں مصدر ہے اور پھر مکتوب فیہ ( یعنی جس چیز میں لکھا گیا ہو ) کو کتاب کہاجانے لگا ہے دراصل الکتاب اس صحیفہ کو کہتے ہیں جس میں کچھ لکھا ہوا ہو ۔ چناچہ آیت : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء 153]( اے محمد) اہل کتاب تم سے درخواست کرتے ہیں ۔ کہ تم ان پر ایک لکھی ہوئی کتاب آسمان سے اتار لاؤ ۔ میں ، ، کتاب ، ، سے وہ صحیفہ مراد ہے جس میں کچھ لکھا ہوا ہو

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١۔ ٢) طس، طاء سے طول اور سین سے خوبصورتی ونزاکت مراد ہے یا یہ کہ ایک قسم ہے یہ سورت قرآن کریم اور ایک ایسی کتاب کی آیتیں ہیں جو کہ حلال و حرام کو واضح کرنے والی ہیں یہ آیتیں ہیں ایمان والوں کے لیے گمراہی سے ہدایت کے لیے اور جنت کی خوشخبری سنانے والی ہیں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١ (طٰسۗ ۣ تِلْكَ اٰيٰتُ الْقُرْاٰنِ وَكِتَابٍ مُّبِيْنٍ )- اگر ” و “ کو واؤ تفسیری مانا جائے تو پھر ترجمہ ہوگا : ” یہ قرآن یعنی کتاب مبین کی آیات ہیں۔ “

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة النمل حاشیہ نمبر :1 کتاب مبین کا ایک مطلب یہ ہے کہ یہ کتاب اپنی تعلیمات اور اپنے احکام اور ہدایات کو بالکل واضح طریقے سے بیان کرتی ہے ، دوسرا یہ کہ وہ حق اور باطل کا فرق نمایاں طریقے سے کھول دیتی ہے ، اور ایک تیسرا مطلب یہ بھی ہے کہ اس کا کتاب الہی ہونا ظاہر ہے جو کوئی اسے آنکھیں کھول کر پڑھے گا اس پر یہ بات کھل جائے گی کہ یہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنا گھڑا ہوا کلام نہیں ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani