سُوْرَۃُ الرُّوْمِ 3 0یہ سورت مکی ہے اس میں 6 0 آیات اور 6 رکوع ہیں
تفسیر سورة الروم - الۗمّۗ ۚغُلِبَتِ الرُّوْمُ ۙفِيْٓ اَدْنَى الْاَرْضِ ۔۔ : ” الم “ کے متعلق سورة بقرہ کی ابتدا ملاحظہ فرمائیں۔ - سورۂ روم کی ان ابتدائی آیات میں دو ایسی پیش گوئیاں کی گئی ہیں جو اسلام اور پیغمبر اسلام کی رسالت کے حق ہونے پر زبردست دلیل ہیں۔ ان میں سے پہلی پیش گوئی یہ تھی کہ اگر آج روم شکست کھا گیا ہے تو چند ہی سالوں میں روم پھر ایران پر غالب آجائے گا اور دوسری پیش گوئی یہ تھی کہ اگر آج مسلمان مشرکین مکہ کے ہاتھوں مظلوم و مقہور ہیں تو ان کو بھی اسی دن مشرکین مکہ پر غلبہ حاصل ہوگا جس دن روم ایران پر غالب آئے گا۔ تفصیل اس کی یہ ہے کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نبوت عطا ہوئی تو اس وقت عرب کے اطراف میں دو بڑی طاقتیں موجود تھیں۔ ایک روم کی عیسائی حکومت، جو دو باتوں میں مسلمانوں سے قریب تھے۔ ایک یہ کہ دونوں اہل کتاب تھے، دوسرے دونوں آخرت پر یقین رکھتے تھے، لہٰذا مسلمانوں کی ہمدردیاں انھی کے ساتھ تھیں۔ مسلمانوں کی عیسائی حکومت سے ہمدردی کی ایک اور وجہ یہ بھی تھی کہ اس زمانہ میں مسلمانوں نے حبشہ کی طرف ہجرت کی تھی اور قریشیوں کی مسلمانوں کو واپس لانے کی کوشش کے باوجود حبشہ کے عیسائی بادشاہ نے مسلمانوں کو اپنے ہاں پناہ دی اور قریش کی سفارت بری طرح ناکام ہوئی اور انھیں خالی ہاتھ وہاں سے آنا پڑا تھا۔ دوسری بڑی طاقت ایران کی تھی، جو دو وجہوں سے مشرکین مکہ سے قریب تھے۔ ایک یہ کہ ایرانی دو خداؤں کے قائل اور آتش پرست تھے اور مشرکین بت پرست تھے اور دوسرے یہ کہ دونوں آخرت کے منکر تھے۔ انھی وجوہ کی بنا پر مشرکین مکہ کی ہمدردیاں ایران کے ساتھ تھیں۔- رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور عیسیٰ (علیہ السلام) کے درمیان چھ سو برس کا وقفہ تھا۔ [ دیکھیے بخاري، مناقب الأنصار، باب إسلام سلمان الفارسی (رض) : ٣٩٤٨ ] جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نبوت ملی تو اس وقت روم و ایران میں جنگ شروع تھی اور اس کی خبریں مکہ میں بھی پہنچتی رہتی تھیں۔ جب ایران کی فتح کی کوئی خبر آتی تو مشرکین مکہ بغلیں بجاتے اور اس خبر کو اپنے حق میں نیک فال قرار دیتے اور کہتے کہ جس طرح ایران نے روم کا سر کچلا ہے، ایسے ہی ہم بھی کسی وقت مسلمانوں کا سر کچل دیں گے۔ اس جنگ میں ایرانیوں نے رومیوں کو فیصلہ کن شکست دی، جس کے نتیجے میں عرب کے ساتھ ملنے والے علاقوں میں روم کا اقتدار بالکل ختم ہوگیا۔ یہ خبر مشرکین کے لیے بڑی خوش کن اور مسلمانوں کے لیے بہت صدمے کا باعث تھی۔ مشرکین نے انھیں یہ کہہ کر چھیڑنا شروع کردیا کہ جس طرح ایران نے روم کو ختم کردیا ہے، ایسے ہی ہم بھی تمہیں مٹا ڈالیں گے۔ ایسے حالات میں یہ آیات نازل ہوئیں۔ اگرچہ بظاہر اہل روم کی فتح کے کوئی آثار نہیں تھے مگر مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ کی آیات پر پورا یقین تھا۔ اسی یقین کی بنیاد پر ابوبکر صدیق (رض) نے مشرکین کے ساتھ شرط بھی باندھ لی، جیسا کہ آگے آ رہا ہے۔ مفسر ابن کثیر (رض) نے اس واقعہ کی تفصیل کے لیے بہت سی روایات نقل فرمائی ہیں، جن میں سے اکثر کی سند کمزور ہے۔ صرف دو روایتوں کی سند اچھی ہے، وہ یہاں نقل کی جاتی ہیں۔- پہلی روایت یہ کہ عبداللہ بن عباس (رض) نے اللہ تعالیٰ کے فرمان ” الۗمّۗ ۚغُلِبَتِ الرُّوْمُ ۙفِيْٓ اَدْنَى الْاَرْضِ “ کے متعلق فرمایا : ( غُلِبَتْ وَ غَلَبَتْ ) ” رومی مغلوب ہوگئے اور (پھر) غالب آگئے۔ “ اور فرمایا، مشرکین پسند کرتے تھے کہ اہل فارس رومیوں پر غالب آئیں، کیونکہ مشرکین اور اہل فارس دونوں بت پرست تھے اور مسلمان پسند کرتے تھے کہ رومی فارس والوں پر غالب آئیں، کیونکہ وہ (رومی) اہل کتاب تھے۔ لوگوں نے ابوبکر (رض) سے اس بات کا ذکر کیا تو ابوبکر (رض) نے اس کا ذکر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کیا، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( أَمَا إِنَّھُمْ سَیَغْلِبُوْنَ ) ” سن لو یقیناً وہ (رومی) غالب آئیں گے۔ “ ابوبکر (رض) نے یہ بات مشرکین کو بتائی تو وہ کہنے لگے : ” ہمارے اور اپنے درمیان ایک مدت مقرر کرلو، اگر ہم غالب آگئے تو ہمیں یہ کچھ ملے گا اور اگر تم غالب آگئے تو تمہیں یہ کچھ ملے گا۔ “ تو ابوبکر (رض) نے پانچ سال مدت مقرر کرلی۔ مگر رومی غالب نہ آئے، تو ابوبکر (رض) نے اس کا ذکر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کیا، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” تم نے یہ مدت دس سے کم تک کیوں مقرر نہ کی۔ “ ابوسعید نے کہا ” اَلْبِضْعُ “ کا لفظ دس سے کم تک ہوتا ہے۔ ابن عباس (رض) نے فرمایا، پھر بعد میں رومی غالب آگئے اور اللہ تعالیٰ کے اس فرمان سے یہی مراد ہے : (الۗمّۗ ۚغُلِبَتِ الرُّوْمُ ۙفِيْٓ اَدْنَى الْاَرْضِ وَهُمْ مِّنْۢ بَعْدِ غَلَبِهِمْ سَيَغْلِبُوْنَ ۙفِيْ بِضْعِ سِنِيْنَ ڛ لِلّٰهِ الْاَمْرُ مِنْ قَبْلُ وَمِنْۢ بَعْدُ ۭ وَيَوْمَىِٕذٍ يَّفْرَحُ الْمُؤْمِنُوْنَ ۙبِنَصْرِ اللّٰهِ ۭ يَنْصُرُ مَنْ يَّشَاۗءُ ) سفیان نے فرمایا : ” میں نے سنا ہے کہ وہ ان پر بدر کے دن غالب آئے۔ “ [ ترمذي، تفسیر القرآن، باب و من سورة الروم : ٣١٩٣، و قال حسن صحیح غریب ] احمد شاکر نے مسند احمد (٢٤٩٥) کی تحقیق میں اسے صحیح کہا ہے اور شیخ البانی نے بھی اسے صحیح کہا ہے۔- دوسری روایت یہ کہ نیار بن مکرم الاسلمی (رض) بیان کرتے ہیں کہ جب یہ آیات اتریں : (الۗمّۗ غُلِبَتِ الرُّوْمُ فِيْٓ اَدْنَى الْاَرْضِ وَهُمْ مِّنْۢ بَعْدِ غَلَبِهِمْ سَيَغْلِبُوْنَ فِيْ بِضْعِ سِنِيْنَ ) تو ان دنوں فارس کے لوگ رومیوں پر پوری طرح غالب تھے، لیکن مسلمان ان پر رومیوں کے غلبے کو پسند کرتے تھے، کیونکہ رومی اور مسلمان اہل کتاب تھے اور اللہ کے اس فرمان سے یہی مراد ہے : (وَيَوْمَىِٕذٍ يَّفْرَحُ الْمُؤْمِنُوْنَ بِنَصْرِ اللّٰهِ ۭ يَنْصُرُ مَنْ يَّشَاۗءُ ۭ وَهُوَ الْعَزِيْزُ الرَّحِيْمُ ) جبکہ قریش فارس کے غلبے کو پسند کرتے تھے، کیونکہ مشرکین اور فارس والے اہل کتاب نہیں تھے۔ جب اللہ تعالیٰ نے یہ آیات اتاریں تو ابوبکر (رض) نکلے اور مکہ کے کناروں میں چیخ چیخ کر یہ آیات سنانے لگے : (الۗمّۗ ۚغُلِبَتِ الرُّوْمُ ۙفِيْٓ اَدْنَى الْاَرْضِ وَهُمْ مِّنْۢ بَعْدِ غَلَبِهِمْ سَيَغْلِبُوْنَ ۙفِيْ بِضْعِ سِنِيْنَ ) قریش کے کچھ لوگوں نے ابوبکر (رض) سے کہا، ہمارے تمہارے درمیان یہ بات طے ہوگئی، تمہارے ساتھی کا گمان ہے کہ روم فارس پر ” بضع سنین “ (چند سالوں) میں غالب آجائیں گے، تو کیا ہم اس پر تمہارے ساتھ شرط نہ رکھ لیں ؟ ابوبکر (رض) نے کہا، کیوں نہیں اور یہ جوئے کی شرط حرام ہونے سے پہلے کی بات ہے۔ تو ابوبکر (رض) اور مشرکین نے شرط باندھ لی اور شرط کی مقدار طے کرلی۔ انھوں نے ابوبکر (رض) سے کہا، بتاؤ کتنی مدت مقرر کرتے ہو۔” بِضْعٌ“ تین سال سے نو سال تک ہوتا ہے، تو ہمارے اور اپنے درمیان ایک اوسط وقت مقرر کرلو جہاں مدت پوری ہوجائے، تو انھوں نے چھ سال کی مدت مقرر کرلی۔ پھر یہ ہوا کہ رومیوں کے غالب آنے سے پہلے چھ سال گزر گئے، تو مشرکین نے ابوبکر (رض) سے طے شدہ شرط وصول کرلی۔ لیکن جب ساتواں سال شروع ہوا تو رومی اہل فارس پر غالب آگئے، تو اس پر مسلمانوں نے ابوبکر (رض) کا چھ سال مقرر کرنا ان کا قصور قرار دیا کہ انھوں نے چھ سال کی مدت کیوں مقرر کی، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے تو ” بضع “ کا لفظ فرمایا ہے، جو نو (٩) سال تک پر بولا جاتا ہے اور اس وقت بہت سے لوگ مسلمان ہوگئے۔- [ ترمذي، تفسیر القرآن، باب و من سورة الروم : ٣١٩٤، و قال حدیث حسن صحیح غریب وقال الألباني حسن ]- ان دونوں صحیح حدیثوں سے چند باتیں معلوم ہوتی ہیں، پہلی یہ کہ جس وقت یہ آیات نازل ہوئیں رومی اس وقت بری طرح سے مغلوب تھے کہ تمام لوگوں کی نگاہوں میں چند سالوں کے اندر ان کا غالب آنا ممکن نہیں تھا۔ دوسری یہ کہ ابوبکر (رض) کا اللہ تعالیٰ کی آیات پر اتنا مضبوط ایمان تھا کہ ظاہری اسباب کے بالکل مخالف ہونے کے باوجود انھوں نے ان کے سچا ہونے پر مشرکین کے ساتھ شرط طے کرلی۔ تیسری یہ کہ امت کے بڑے سے بڑے شخص سے بھی اجتہاد میں خطا ہوسکتی ہے۔ امت مسلمہ میں ابوبکر (رض) سے عظیم شخصیت کوئی نہیں، لیکن یہاں ان سے مدت کی تعیین میں خطا ہوگئی، مگر اپنے اجتہاد کے خطا ثابت ہونے پر بھی ان کے اللہ کی آیات پر ایمان میں کوئی کمی نہیں آئی۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ (رح) نے ایک مقام پر فرمایا ہے کہ ابوبکر (رض) کو اللہ تعالیٰ نے ایسی درست رائے سے نوازا تھا کہ ان کی خطا پکڑنا بہت ہی مشکل ہے، مگر ان سے بھی خطا ہوجاتی تھی، پھر انھوں نے ان کی خطا کی مثال کے لیے صحیح بخاری سے ابن عباس (رض) کی روایت بیان کی ہے کہ ایک آدمی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا اور اس نے کہا : ” آج رات میں نے خواب میں ایک سائبان دیکھا، جس سے گھی اور شہد ٹپک رہا ہے، میں لوگوں کو دیکھتا ہوں کہ وہ اسے اپنی ہتھیلیوں میں لے رہے ہیں، کوئی زیادہ لینے والا ہے اور کوئی کم لینے والا۔ پھر اچانک ایک رسی آسمان سے زمین تک آ ملی، تو میں آپ کو دیکھتا ہوں کہ آپ نے اسے پکڑا اور اوپر چڑھ گئے۔ پھر اسے ایک اور آدمی نے پکڑا، وہ اس کے ساتھ چڑھ گیا، پھر اسے ایک اور آدمی نے پکڑا وہ بھی اوپر چڑھ گیا۔ پھر وہ کٹ گئی، پھر دوبارہ مل گئی۔ “ ابوبکر (رض) نے کہا : ” یا رسول اللہ میرا باپ آپ پر قربان، آپ کو اللہ کی قسم مجھے اجازت دیں کہ میں اس کی تعبیر کروں۔ “ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” اس کی تعبیر کرو۔ “ انھوں نے کہا : ” وہ سائبان تو اسلام ہے اور جو شہد اور گھی ٹپک رہا ہے وہ قرآن کی حلاوت ہے، جو ٹپک رہی ہے۔ پھر کوئی قرآن سے زیادہ حاصل کرنے والا ہے اور کوئی کم حاصل کرنے والا ہے۔ رہی وہ رسی جو آسمان سے زمین تک ملی ہوئی ہے، تو اس سے مراد وہ حق ہے جس پر آپ قائم ہیں، آپ اسے پکڑے رکھیں گے تو اللہ تعالیٰ آپ کو بلند کرے گا، پھر آپ کے بعد اسے ایک اور آدمی پکڑے گا اور اس کے ساتھ بلند ہوجائے گا، پھر ایک اور آدمی اسے پکڑے گا اور اس کے ساتھ بلند ہوجائے گا، پھر ایک اور آدمی اسے پکڑے گا تو اس کے ساتھ وہ کٹ جائے گی، پھر اس کے لیے ملا دی جائے گی اور وہ اس کے ساتھ بلند ہوجائے گا۔ یا رسول اللہ میرا باپ آپ پر قربان، مجھے بتائیے میں نے درست کہا یا خطا کی ؟ “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” تم نے کچھ درست کہا، کچھ خطا کی۔ “ انھوں نے کہا : ” آپ کو اللہ کی قسم ہے آپ مجھے وہ ضرور بتائیں جو میں نے خطا کی ہے۔ “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” قسم مت ڈالو۔ “ [ بخاري،- التعبیر، باب من لم یر الرؤیا الأوّل عابر إذا لم یصب : ٧٠٤٤ ]- زیر تفسیر آیت میں ” بضع سنین “ کی تعیین میں بھی ابوبکر (رض) سے خطا ہوگئی۔ جب امت کے سب سے بڑے شخص سے خطا ہوسکتی ہے تو ان ائمہ سے خطا کیوں نہیں ہوسکتی جن کی تقلید میں لوگوں نے اسلام میں چار فرقے بنا رکھے ہیں، جو ابوبکر (رض) کے برابر تو کجا صحابی یا تابعی بھی نہیں ہیں اور جن کی بہت سی اجتہادی خطائیں ان کے شاگردوں نے بھی بیان کی ہیں اور جو وحی کے شرف کے حامل بھی نہ تھے کہ وحی کے ذریعے سے ان کی خطا کی اصلاح ہوجاتی ہو۔ اس لیے مسلمانوں پر لازم ہے کہ امتیوں کے اجتہادات و آراء کو دین سمجھنے کے بجائے صرف کتاب و سنت کو لازم پکڑیں، جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہیں اور جو خطا سے پاک ہیں، فرمایا : (اِتَّبِعُوْا مَآ اُنْزِلَ اِلَيْكُمْ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَلَا تَتَّبِعُوْا مِنْ دُوْنِهٖٓ اَوْلِيَاۗءَ ) [ الأعراف : ٣ ] ” اس کے پیچھے چلو جو تمہاری طرف تمہارے رب کی جانب سے نازل کیا گیا ہے اور اس کے سوا اور دوستوں کے پیچھے مت چلو۔ “ چوتھی بات یہ کہ ان دونوں روایتوں میں سے ایک میں پانچ سال کی مدت مقرر کرنے کا ذکر ہے اور دوسری میں چھ سال کا۔ اس کے باوجود ائمہ حدیث نے دونوں کو صحیح کہا ہے اور اس اختلاف کو روایتوں کے ضعف کا باعث نہیں سمجھا، کیونکہ اصل مقصود دونوں کا ایک ہے کہ ابوبکر (رض) نے جو مدت طے کی تھی وہ ” بضع سنین “ کی اصل مراد سے کم تھی۔- 3 ابن کثیر (رض) نے ابن ابی حاتم اور ابن جریر سے دو روایتیں نقل کی ہیں، جن میں ذکر ہے کہ جب ابوبکر (رض) کی طے کردہ مدت میں رومی غالب نہ آئے اور مشرکین نے ابوبکر (رض) سے شرط کی رقم لے لی تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے کہنے پر کہ ” بِضْعٌ“ سے مراد نو (٩) سال تک ہوتے ہیں، ابوبکر (رض) نے دوبارہ مشرکین سے شرط لگائی، جس میں مدت زیادہ کی اور شرط کی رقم بھی زیادہ کی۔ چناچہ نو سال پورے ہونے سے پہلے رومی فارسیوں پر غالب آگئے اور ابوبکر (رض) نے ان سے شرط کی رقم وصول کرلی۔ ممکن ہے ایسا ہوا ہو، کیونکہ صحیح روایات میں اور ان میں کوئی تعارض نہیں۔ مگر سند کی رو سے یہ روایات پایہ ثبوت کو نہیں پہنچتیں۔ اس مقام پر ابن کثیر (رح) نے رومیوں کے فارسیوں پر غالب آنے کے واقعات کی مزید کچھ تفصیل بیان کی ہے، مگر اسے غریب ترین قرار دیا ہے۔ ہمارے بعض اردو مفسرین نے بعض انگریز مؤرخین سے لمبی تفصیل ذکر کی ہے، مگر ان تمام تفصیلات کی کوئی پکی سند ہے نہ کوئی معتبر ذریعہ۔ قرآن کی تفسیر کے لیے اتنی بات ہی کافی ہے جو قرآن مجید اور صحیح روایات سے ثابت ہے۔ اور یہ کوئی کم عجیب نہیں کہ وہ بات جس کا ہونا لوگوں کی نگاہ میں ممکن ہی نہ تھا، اللہ تعالیٰ نے پہلے ہی اس کی پیش گوئی فرما دی اور ظاہری اسباب میں سے کوئی سبب موجود نہ ہونے کے باوجود چند ہی سالوں میں وہ رومی دوبارہ غالب آگئے جو بری طرح مغلوب تھے۔- فِيْٓ اَدْنَى الْاَرْضِ : ” سب سے قریب زمین “ سے مراد جزیرۂ عرب کی قریب ترین زمین ہے۔ یہ ” اذرعات “ اور ” بصریٰ “ کے درمیان کا خطہ ہے، جو شام کی سرحد پر حجاز سے ملتا ہوا مکہ کے قریب واقع ہے۔- فِيْ بِضْعِ سِنِيْنَ : یہاں ایک سوال ہے کہ متعین وقت بتانے کے بجائے ” بضع “ کا لفظ بولنے میں کیا حکمت ہے ؟ جواب اس کا یہ ہے کہ یقیناً اللہ تعالیٰ کو وہ سال، وہ مہینا اور وہ وقت معلوم تھا جس میں روم نے فارس پر غالب آنا تھا مگر اس وقت خبروں کا دوسرے مقامات پر پہنچنا اس طرح تیز رفتار نہ تھا جس طرح آج کل ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ متعین وقت بتادیتا، پھر کسی مقام پر اطلاع پہنچنے میں دیر ہوجاتی تو وہاں کے لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی کتاب پر طعن کا موقع مل سکتا تھا۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے مدت کی تعیین کے لیے ایسا لفظ استعمال فرمایا جس سے اس بات کا امکان ہی نہ رہا اور ہر شخص کو قرآن کی پیش گوئی کا حق ہونا ثابت ہوگیا۔ اس کے علاوہ وہ وقت تھوڑا مخفی رکھنے میں یہ حکمت بھی تھی کہ اس غلبے کے انتظار میں مسلمانوں کے حوصلے بلند رہیں کہ اب غلبہ ہوا اور اب ہوا۔ اگر متعین وقت بتادیا جاتا تو اتنی مدت تک حوصلے ٹوٹے رہتے۔- لِلّٰهِ الْاَمْرُ مِنْ قَبْلُ وَمِنْۢ بَعْدُ : ” الْاَمْرُ “ سے مراد اللہ کا تکوینی امر ہے، یعنی اس کا ” کُنْ “ کہنا، جس سے ہر کام ہوجاتا ہے۔ یعنی روم کے مغلوب ہونے سے پہلے بھی ہر کام صرف اللہ تعالیٰ کے اختیار میں تھا اور رومیوں کے چند سالوں میں غالب آنے کے بعد بھی ہر کام اسی کے اختیار میں ہے۔ اس میں یہ بھی سبق ہے کہ کوئی شخص یہ نہ سمجھے کہ فلاں کی تدبیر کی وجہ سے اسے فتح ہوئی اور فلاں کی کوتاہی کی وجہ سے اسے شکست ہوئی۔ نہیں وہ تدبیر یا کوتاہی بھی اسی کی تقدیر میں طے شدہ ہے۔ اسی طرح کوئی یہ نہ سمجھے کہ آسمان کی گردش یا سورج، چاند یا کسی ستارے کی تاثیر سے ایسا ہوا، نہیں جو ہوا پہلے بھی اللہ کے حکم سے ہوا اور بعد میں بھی اسی کے حکم سے ہوگا۔ سورج، چاند، ستاروں یا آسمان کی گردش کا کسی واقعہ سے کوئی تعلق نہیں، جیسا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بیٹے ابراہیم (رض) کی وفات کے دن سورج گرہن ہوا تو بعض لوگوں نے کہا کہ ابراہیم (رض) کی وفات کی وجہ سے سورج گرہن ہوا ہے۔ تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( اَلشَّمْسُ وَالْقَمَرُ لاَ یَنْکَسِفَانِ لِمَوْتِ أَحَدٍ وَلاَ لِحَیَاتِہِ ، وَلٰکِنَّہُمَا آیَتَانِ مِنْ آیَات اللّٰہِ ، فَإِذَا رَأَیْتُمُوْہُمَا فَصَلُّوْا ) [ بخاري، الکسوف، باب لا تنکسف الشمس لموت أحد ولا لحیاتہ : ١٠٥٧ ] ” سورج اور چاند نہ کسی کی موت کی وجہ سے گرہن ہوتے ہیں اور نہ کسی کی زندگی کی وجہ سے، بلکہ وہ دونوں اللہ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں، تو جب ان دونوں کو دیکھو تو نماز پڑھو۔ “- وَيَوْمَىِٕذٍ يَّفْرَحُ الْمُؤْمِنُوْنَ ۙبِنَصْرِ اللّٰهِ : ابو سعید خدری (رض) فرماتے ہیں : ” جب بدر کا دن ہوا تو رومی فارس پر غالب ہوئے اور مسلمانوں کو اس سے خوشی ہوئی اور یہ آیات نازل ہوئیں : (الۗمّۗ ۚغُلِبَتِ الرُّوْمُ ۙفِيْٓ اَدْنَى الْاَرْضِ وَهُمْ مِّنْۢ بَعْدِ غَلَبِهِمْ سَيَغْلِبُوْنَ ۙفِيْ بِضْعِ سِنِيْنَ ڛ لِلّٰهِ الْاَمْرُ مِنْ قَبْلُ وَمِنْۢ بَعْدُ ۭ وَيَوْمَىِٕذٍ يَّفْرَحُ الْمُؤْمِنُوْنَ ۙبِنَصْرِ اللّٰهِ ) (ابو سعید (رض) نے) فرمایا : ” تو مسلمان روم کے فارس پر غالب آنے سے خوش ہوئے۔ “ [ ترمذي، تفسیر القرآن، باب ومن سورة الروم : ٣١٩٢، و قال حسن غریب و قال الألباني صحیح لغیرہ ] ابو سعید خدری (رض) کی اس روایت اور سفیان ثوری اور بہت سے اہل علم کے قول کے مطابق روم کو فارس پر یہ غلبہ اس روز حاصل ہوا جس روز مسلمان بدر میں مشرکین پر فتح یاب ہوئے۔ مفسر رازی نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے فرمان ” ویومئذ یفرح المومنون “ (اور اس دن مومن اللہ کی مدد سے خوش ہوں گے) سے مراد یہ بھی ہوسکتی ہے کہ اس دن مومن روم کی فارس پر فتح کی خبر سے خوش ہوں گے اور یہ بھی کہ اس دن مومن مشرکین کے خلاف اللہ کی نصرت اور بدر کی فتح پر خوش ہوں گے۔ مگر راجح یہ ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ جس دن اہل روم فارس پر غالب آئیں گے اس دن مسلمان مشرکین پر فتح یابی اور اللہ کی نصرت سے خوش ہوں گے، کیونکہ بدر کے دن مسلمانوں کو اپنی فتح پر خوشی ہوئی تھی اور کسی روایت میں ذکر نہیں کہ روم کی فتح یابی کی خبر عین بدر کے دن پہنچی تھی۔ گویا اس آیت میں دو خوش خبریاں ہیں، ایک روم کا چند سالوں میں فارس پر غالب آنا اور ایک اس دن مسلمانوں کا مشرکین پر غلبے سے خوش ہونا اور سب جانتے ہیں کہ دونوں بشارتیں پوری ہوئیں۔- بعض تابعین کا خیال ہے کہ رومیوں کو ایرانیوں پر فتح صلح حدیبیہ کے بعد ہوئی۔ ان کا استدلال اس واقعہ سے ہے کہ قیصر روم نے منت مانی تھی کہ جب وہ فتح یاب ہوگا تو حمص سے پیدل چل کر ایلیا (بیت المقدس) جائے گا۔ چناچہ جب وہ ایلیا آیا تو ابھی واپس نہیں ہوا تھا کہ اسے دحیہ بن خلیفہ (رض) کے ذریعے سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا وہ خط ملا جو آپ نے اس کے نام صلح حدیبیہ کے بعد لکھا تھا۔ اس کے بعد اس نے ابو سفیان کو بلایا (جو ابھی مسلمان نہیں ہوئے تھے اور شام میں تجارت کی غرض سے آئے ہوئے تھے) اور ان سے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں مختلف سوالات کیے، جیسا کہ صحیح بخاری میں تفصیل کے ساتھ مذکور ہے۔ اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ رومیوں کو ایرانیوں پر فتح بھی اسی سال ہوئی، لیکن اس کا جواب یہ دیا جاسکتا ہے کہ رومیوں کو پہلی فتح تو بدر کے دن ہوئی، مگر دشمن کی فوجوں کی مکمل صفائی اور تمام علاقوں کے مکمل بندوبست کے بعد منت پوری کرنے کی نوبت چار سال بعد صلح حدیبیہ کے سال آئی۔ (واللہ اعلم)- يَنْصُرُ مَنْ يَّشَاۗءُ : آپس میں لڑنے والے کفار میں سے جس کی چاہتا ہے مدد کردیتا ہے اور مسلمانوں اور کافروں کی لڑائی میں بھی جس کی چاہتا ہے مدد کرتا ہے۔ نہ فتح یاب کرنا اس کے راضی ہونے کی دلیل ہے اور نہ شکست دینا اس کی ناراضی کی دلیل ہے۔ دونوں صورتوں میں وہ آدمی کو آزماتا ہے، جیسا کہ فرمایا : (وَتِلْكَ الْاَيَّامُ نُدَاوِلُھَا بَيْنَ النَّاسِ ۚ وَلِيَعْلَمَ اللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَيَتَّخِذَ مِنْكُمْ شُهَدَاۗءَ ) [ آل عمران : ١٤٠ ] ” اور یہ تو دن ہیں، ہم انھیں لوگوں کے درمیان باری باری بدلتے رہتے ہیں، اور تاکہ اللہ ان لوگوں کو جان لے جو ایمان لائے اور تم میں سے بعض کو شہید بنائے۔ “ اور فرمایا : (قُلِ اللّٰهُمَّ مٰلِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِي الْمُلْكَ مَنْ تَشَاۗءُ وَتَنْزِعُ الْمُلْكَ مِمَّنْ تَشَاۗءُ ۡ وَتُعِزُّ مَنْ تَشَاۗءُ وَتُذِلُّ مَنْ تَشَاۗءُ ۭبِيَدِكَ الْخَيْرُ ۭ اِنَّكَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْر) [ آل عمران : ٢٤ ] ” کہہ دے اے اللہ بادشاہی کے مالک تو جسے چاہے بادشاہی دیتا ہے اور جس سے چاہے بادشاہی چھین لیتا ہے اور جسے چاہے عزت دیتا ہے اور جسے چاہے ذلیل کردیتا ہے، تیرے ہی ہاتھ میں ہر بھلائی ہے، بیشک تو ہر چیز پر پوری طرح قادر ہے۔ “- وَهُوَ الْعَزِيْزُ الرَّحِيْمُ : اور وہی عزیز (سب پر غالب) ہے، جسے وہ نصرت سے نواز دے پھر کوئی اس پر فتح نہیں پاسکتا، مگر اس کا غلبہ بےرحم نہیں، بلکہ وہ رحیم (بےحد رحم والا) ہے، جب چاہتا ہے مغلوب اور شکست خوردہ لوگوں کو پھر فتح سے ہمکنار کردیتا ہے۔
خلاصہ تفسیر - الۗمّۗ، (اس کے معنی اللہ کو معلوم ہیں) اہل روم ایک قریب کے موقع میں (یعنی ارض روم کے ایسے مقام میں جو بہ نسبت فارس کے عرب سے قریب تر ہے، مراد اس سے اذرعات و بصری ہے، جو ملک شام میں دو شہر ہیں۔ کذا فی القاموس، اور حکومت روم کے تحت میں ہونے سے ارض روم میں داخل ہیں۔ اس موقع پر اہل روم اہل فارس کے مقابلہ میں) مغلوب ہوگئے (جس سے مشرکین خوش ہوئے) اور وہ (رومی) اپنے (اس) مغلوب ہونے کے بعد عنقریب (اور یہ مغلوب اور غالب ہونا سب خدا کی طرف سے ہے، کیونکہ مغلوب ہونے سے) پہلے بھی اختیار اللہ ہی کو تھا (جس سے مغلوب کردیا تھا) اور (مغلوب ہونے سے) پیچھے بھی (اللہ ہی کو اختیار ہے جس سے غالب کر دے گا) اور اس روز (یعنی جب اہل روم غالب آئیں گے) مسلمان اللہ تعالیٰ کی اس امداد پر خوش ہوں گے (امداد سے یا تو یہ مراد ہے کہ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو ان کے قول میں سچا اور غالب فرما دے گا۔ کیونکہ اس پیشنگوئی کو مسلمانوں نے کفار پر ظاہر کیا اور انہوں نے تکذیب کی تو اس کے وقوع سے مسلمانوں کی جیت ہوجائے گی اور یا یہ مراد ہے کہ مسلمانوں کو مقاتلہ میں بھی غالب کر دے گا۔ چناچہ وہ وقت جنگ بدر میں منصور ہونے کا تھا اور ہر حال میں نصرت کا محل اہل اسلام ہی ہیں اور مسلمانوں کی حالت ظاہری مغلوبیت کی دیکھ کر یہ بات مستبعد نہ سمجھی جائے کہ یہ مغلوب مسلمان مقابلہ کے وقت کفار پر غالب آجائیں گے، کیونکہ نصرت اللہ کے قبضے میں ہے) وہ جس کو چاہے غالب کردیتا ہے اور وہ زبردست ہے (کفار کو جب چاہے قولاً یا فعلاً مغلوب کرا دے اور) رحیم (بھی) ہے (مسلمانوں کو جب چاہے قولاً یا فعلاً مغلوب کرا دے اور) رحیم (بھی) ہے (مسلمانوں کو جب چاہے غالب کر دے) اللہ تعالیٰ نے اس کا وعدہ فرمایا ہے (اور) اللہ تعالیٰ اپنے وعدہ کو خلاف نہیں فرماتا (اس واسطے یہ پیشنگوئی ضرور واقع ہوگی) و لیکن اکثر لوگ (اللہ تعالیٰ کے تصرفات کو) نہیں جانتے (بلکہ صرف ظاہری اسباب کو دیکھ کر ان اسباب پر حکم لگا دیتے ہیں، اس لئے اس پیشنگوئی میں استبعاد کرتے ہیں، حالانکہ مسبب الاسباب اور مالک اسباب حق تعالیٰ ہے اس کو اسباب بدلنا بھی آسان ہے اور اسباب کے خلاف مسبب کا واقع کرنا بھی آسان۔- اور جس طرح پیشنگوئی کے واقع ہونے سے پہلے اسباب ظاہرہ نہ ہونے کی وجہ سے اس کا انکار کرتے ہیں اسی طرح پیشین گوئی کو پورا ہوتا ہوا دیکھ کر بھی اس کو ایک اتفاقی امر قرار دیتے ہیں، وعدہ الہیہ کا ظہور نہیں سمجھتے اس لئے لفظ لَا يَعْلَمُوْنَ میں یہ دونوں چیزیں آگئیں ان لوگوں کا اللہ تعالیٰ اور نبوت سے غافل و جاہل رہنا اس سبب سے ہے کہ) یہ لوگ صرف دنیوی زندگانی کی ظاہر (حالت) کو جانتے ہیں اور یہ لوگ آخرت سے (بالکل ہی) بیخبر ہیں (کہ وہاں کیا ہوگا، اس لئے ان کو دنیا میں نہ اسباب عذاب سے بچنے کی فکر ہے نہ اسباب نجات ایمان اور عمل صالح کی تلاش ہے۔ )
رکوع نمبر 4- سورة الروم - بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ الۗمّۗ ١ۚ غُلِبَتِ الرُّوْمُ ٢ۙ- غلب - الغَلَبَةُ القهر يقال : غَلَبْتُهُ غَلْباً وغَلَبَةً وغَلَبا ، فأنا غَالِبٌ. قال تعالی: الم غُلِبَتِ الرُّومُ فِي أَدْنَى الْأَرْضِ وَهُمْ مِنْ بَعْدِ غَلَبِهِمْ سَيَغْلِبُونَ [ الروم 1- 2- 3]- ( غ ل ب ) الغلبتہ - کے معنی قہرا اور بالادستی کے ہیں غلبتہ ( ض ) غلبا وغلبتہ میں اس پر مستول اور غالب ہوگیا اسی سے صیغہ صفت فاعلی غالب ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ الم غُلِبَتِ الرُّومُ فِي أَدْنَى الْأَرْضِ وَهُمْ مِنْ بَعْدِ غَلَبِهِمْ سَيَغْلِبُونَ [ الروم 1- 2- 3] الم ( اہل ) روم مغلوب ہوگئے نزدیک کے ملک میں اور وہ مغلوب ہونے کے بعد عنقریب غالب ہوجائیں گے - روم - الم غُلِبَتِ الرُّومُ [ الروم 1- 2] ، يقال مرّة للجیل المعروف، وتارة لجمع رُومِيٍّ کالعجم .
(١ تا ٥) الم۔ اس کے معنی اللہ ہی کو معلوم ہیں وہ ہی سب سے زیادہ جاننے والا ہے یا یہ کہ ایک قسم کے طور پر ہے۔ اہل روم فارس کے ایک قریبی علاقہ میں مغلوب ہوگئے یہ خبر سن کر مسلمانوں کو پریشانی ہوئی اور مشرکین اس سے بہت خوش ہوئے اور کہنے لگے کہ ہمھی ایمان والوں پر غالب آجائیں گے جیسا کہ فارس والوں نے رومیوں پر غلبہ کرلیا ہے۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا اور وہ رومی فارس سے مغلوب ہونے کے بعد عنقریب سات سالہ عرصہ میں دوبارہ فارس پر غالب آجائیں گے۔- اور اس غلبہ کی پیش گوئی پر حضرت ابوبکر صدیق نے ابی بن خلف جمحی سے دس اونٹوں پر پہلے (اور پھر بعد میں سو پر) معاہدہ کرلیا تھا۔
سورة الروم : نام: پہلی ہی آیت کے لفظ غُلِبَتِ الرُّوْمُ سے ماخوذ ہے ۔ زمانہ نزول: آغاز ہی میں جس تاریخی واقعہ کا ذکر کیا گیا ہے اس سے زمانہ نزول قطعی طور پر متعین ہوجاتا ہے ۔ اس میں ارشاد ہوا ہے کہ قریب کی سرزمین میں رومی مغلوب ہوگئے ہیں ۔ اس زمانے میں عرب سے متصل رومی مقبوضات اردن ، شام اور فلسطین تھے اور ان علاقوں میں رومیوں پر ایرانیوں کا غلبہ 615 ء میں مکمل ہوا تھا ۔ اس لیے پوری صحت کے ساتھ یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ سورہ اسی سال نازل ہوئی تھی ، اور یہ وہی سال تھا جس میں ہجرت حبشہ واقعہ ہوئی ۔ تاریخی پس منظر: جو پیشین گوئی اس سورے کی ابتدائی آیات میں کی گئی ہے وہ قرآن مجید کے کلام الہی ہونے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے رسول برحق ہونے کی نمایاں ترین شہادتوں میں سے ایک ہے ۔ اسے سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ ان تاریخی واقعات پر ایک تفصیلی نگاہ ڈالی جائے تو ان آیات سے تعلق رکھتے ہیں ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت سے 8 سال پہلے کا واقعہ ہے کہ قیصر روم ماریس ( ) کے خلاف بغاوت ہوئی اور ایک شخس فوکاس ( ) تخت سلطنت پر قابض ہوگیا ۔ اس شخس نے پہلے تو قیصر کی آنکھوں کے سامنے اس کے پانچ بیٹوں کو قتل کرایا ، پھر خود قیصر کو قتل کرا کے باپ بیٹوں کے سر قسطنطنیہ میں برسر عام لٹکوا دیے اور اس کے چند روز بعد اس کی بیوی اور تین لڑکیوں کو بھی مروا ڈالا ۔ اس واقعہ سے ایران کے بادشاہ خسرو پرویز کور وم پر حملہ آور ہونے کے لیے بہترین اخلاقی بہانہ مل گیا ۔ قیصر ماریس اس کا محسن تھا ۔ اسی کی مدد سے پرویز کو ایران کا تخت نصیب ہوا تھا ۔ اسے وہ اپنا باپ کہتا تھا ۔ اس بنا پر اس نے اعلان کیا کہ میں غاصب فوکاس سے اس ظلم کا بدلہ لوں گا جو اس نے میرے مجازی باپ اور اس کی اولاد پر ڈھایا ہے ۔ 603ء میں اس نے سلطنت روم کے خلاف جنگ کا آغاز کیا اور چند سال کے اندر وہ فوکاس کی فوجوں کو پے در پے شکستیں دیتا ہوا ایک طرف ایشیائے کوچک میں ایڈیسا موجودہ اور فاتک اور دوسری طرف شام میں حلب اور انطاکیہ تک پہنچ گیا ۔ روم کے اعیان سلطنت یہ دیکھ کر کہ فوکاس ملک کو نہیں بچا سکتا ، افریقہ کے گورنر سے مدد کے طالب ہوئے ۔ اس نے اپنے بیٹے ہرقل ( ) کو ایک طاقت اور بیڑے کے ساتھ قسطنطنیہ بھیج دیا ۔ اس کے پہنچتے ہی فوکاس معزول کردیا گیا ، اس کی جگہ ہرقل قیصر بنایا گیا ، اور اس نے برسر اقتدار آکر فوکاس کے ساتھ وہی کچھ کیا جو اس نے ماریس کے ساتھ کیا تھا ۔ یہ 610ء کا واقعہ ہے ، اور یہ وہی سال ہے جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالی کی طرف سے منصب نبوت پر سرفراز ہوئے ۔ خسرو پرویز نے جس اخلاقی بہانے کو بنیاد بنا کر جنگ چھیڑی تھی ، فوکاس کے عزل اور قتل کے بعد وہ ختم ہوچکا تھا ، اگر واقعی اس کی جنگ کا مقصد غاصب فوکاس سے اس کے ظلم کا بدلہ لینا ہوتا تو اس کے مارے جانے پر اسے نئے قیصر سے صلح کرلینی چاہیے تھی ۔ مگر اس نے پھر بھی جنگ جاری رکھی ، اور اب اس جنگ کو اس نے مجوسیت اور مسیحیت کی مذہبی جنگ کا رنگ دے دیا ۔ عیسائیوں کے جن فرقوں کو رومی سلطنت کے سرکاری کلیسا نے ملحد قرار دے کر سالہا سال سے تختہ مشق ستم بنا رکھا تھا ( یعنی نسطوری اور یعقوبی وغیرہ ) ان کی ساری ہمدردیاں بھی مجوسی حملہ آوروں کے ساتھ ہوگئیں ۔ اور یہودیوں نے بھی مجوسیوں کا ساتھ دیا ، حتی کہ خسرو پرویز کی فوج میں بھرتی ہونے والے یہودیوں کی تعداد 26 ہزار تک پہنچ گئی ۔ ہرقل آکر اس سیلاب کو نہ روک سکا ۔ تخت نشین ہوتے ہی پہلی اطلاع جو اسے مشرق سے ملی وہ انطاکیہ پر ایرانی قبضے کی تھی ۔ اس کے بعد 613ء میں دمشق فتح ہوا ۔ پھر 614ء میں بیت المقدس پر قبضہ کر کے ایرانیوں نے مسیحی دنیا پر قیامت ڈھا دی ۔ 90 ہزار عیسائی اس شہر میں قتل کیے گئے ۔ ان کا سب سے زیادہ مقدس کلیسا ، کینسۃ القیامہ ( ) برباد کردیا گیا ۔ اصلی صلیب جس کے متعلق عیسائیوں کا عقیدہ تھا کہ اسی پر مسیح نے جان دی تھی ، مجوسیوں نے چھین کر مدائن پہنچا دی ۔ لاٹ پادری زکریا کو بھی وہ پکڑ لے گئے اور شہر کے تمام بڑے بڑے گرجوں کو انہوں نے مسمار کردیا ۔ اس فتح کا نشہ جس بری طرح خسرو پرویز پر چڑھا تھا اس کا اندازہ اس خط سے ہوتا ہے جو اس نے بیت المقدس سے ہرقل کو لکھا تھا اس میں وہ کہتا ہے: سب خداؤں سے بڑے خدا ، تمام روئے زمین کے مالک خسرو کے طرف سے اس کے کمیضہ اور بے شعور بندے ہرقل کے نام ، تو کہتا ہے کہ تجھے اپنے رب پر بھروسہ ہے ، کیوں نہ تیرے رب نے یروشلم کو میرے ہاتھ سے بچا لیا ؟ اس فتح کے بعد ایک سال کے اندر اندر ایرانی فوجیں اردن ، فلسطین اور جزیرہ نمائے سینا کے پورے علاقے پر قابض ہوکر حدود مصر تک پہنچ گئیں ۔ یہ وہ زمانہ تھا جب مکہ معظمہ میں ایک اور اس سے بدرجہا زیادہ تاریخی اہمیت رکھنے والی جنگ برپا تھی ۔ یہاں توحید کے علمبردار سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی قیادت میں ، اور شرک کے پیروکار سرداران قریش کی رہنمائی میں ایک دوسرے سے برسر جنگ تھے ، اور نوبت یہاں تک پہنچ گئی تھی کہ 615ء میں مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد کو اپنا گھر بار چھوڑ کر حبش کی عیسائی سلطنت میں ( جو روم کی حلیف تھی ) پناہ لینی پڑی ۔ اس وقت سلطنت روم پر ایران کے غلبے کا چرچا ہر زبان پر تھا ۔ مکے کے مشرکین اس پر بغلیں بجا رہے تھے اور مسلمانوں سے کہتے تھے کہ دیکھو ایران کے آتش پرست فتح پا رہے ہیں اور وحی و رسالت کے ماننے والے عیسائی شکست پر شکست کھاتے چلے جارہے ہیں ۔ اسی طرح ہم عرب کے بت پرست بھی تمہیں اور تمہارے دین کو مٹا کر رکھ دیں گے ۔ ان حالات میں قرآن مجید کی یہ سورۃ نازل ہوئی اور اس میں یہ پیشین گوئی کی گئی کہ قریب کی سرزمین میں رومی مغلوب ہوگئے ہیں ، مگر اس مغلوبیت کے بعد چند سال کے اندر ہی وہ غالب آجائیں گے ، اور وہ دن وہ ہوگا جب کہ اللہ کی دی ہوئی فتح سے اہل ایمان کوش ہو رہے ہوں گے ۔ اس میں ایک کے بجائے دو پیشین گوئیاں تھیں ۔ ایک یہ کہ رومیوں کو غلبہ نصیب ہوگا ۔ دوسری یہ کہ مسلمانوں کو بھی اسی زمانے میں فتح حاصل ہوگی ۔ بظاہر دور دور تک کہیں اس کے آثار موجود نہ تھے کہ ان میں سے کوئی ایک پیشین گوئی بھی چند سال کے اندر پوری ہوجائے گی ۔ ایک طرف مٹھی بھر مسلمان تھے جو مکے میں مارے اور کھدیڑے جارہے تھے اور اس پیشین گوئی کے بعد بھی آٹھ سال تک ان کے لیے غلبہ و فتح کا کوئی امکان کسی کو نظر نہ آتا تھا ۔ دوسری طرف روم کی مغلوبیت روز بروز بڑھتی چلی گئی ۔ 619ء تک پورا مصر ایران کے قبضہ میں چلا گیا اور مجوسی فوجوں نے طرابلس کے قریب پہنچ کر اپنے جھنڈے گاڑ دیے ۔ ایشیائے کوچک میں ایرانی فوجیں رومیوں کو مارتی دباتی باسفورس کے کنارے تک پہنچ گئے اور 617ء میں انہوں نے عین قسطنطنیہ کے سامنے خلقدون ( موجودہ قاضی کوئی ) پر قبضہ کرلیا ۔ قیصر نے خسرو کے پاس ایلچی بھیج کر نہایت عاجزی کے ساتھ درخواست کی کہ میں ہر قیمت پر صلح کرنے کے لیے تیار ہوں ۔ مگر اس نے جواب دیا کہ اب میں قیصر کو اس وقت تک امان نہ دوں گا جب تک وہ پابزبخیر میرے سامنے حاضر نہ ہو اور اپنے خدائے مصلوب کو چھوڑ کر خداوند آتش کی بندگی نہ اختیار کرلے ۔ آخر کار قیصر اس حد تک شکست خوردہ ہوگیا کہ اس نے قسطنطنیہ چھوڑ کر قرطاجنہ ( موجودہ ٹیونس ) منتقل ہوجانے کا ارادہ کرلیا ۔ غرض انگریز مورخ گبن کے بقول ، قرآن مجید کی اس پیشین گوئی کے بعد بھی سات آٹھ برس تک حالات ایسے تھے کہ کوئی شخس یہ تصور تک نہ کرسکتا تھا کہ رومی سلطنت ایران پر غالب آجائے گی ، بلکہ غلبہ تو درکنار اس وقت تو کسی کو یہ امید بھی نہ تھی کہ اب یہ سلطنت زندہ رہ جائے گی ۔ قرآن کی یہ آیات جب نازل ہوئیں تو کفار مکہ نے ان کا خوب مذاق اڑایا اور ابی بن خلف نے حضرت ابوبکر سے شرط بدی کہ اگر تین سال کے اندر رومی غالب آگئے تو دس اونٹ میں دوں گا ورنہ دس اونٹ تم کو دینے ہوں گے ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس شرط کا علم ہوا تو آپ نے فرمایا کہ قرآن میں فِيْ بِضْعِ سِنِيْنَ کے الفاظ آئے ہیں ، اور عربی زبان میں بضع کا اطلاق دس سے کم پر ہوتا ہے ، اس لیے دس سال کے اندر کی شرط کرو اور اونٹوں کی تعداد بڑھا کر سو کردو ۔ چنانچہ حضرت ابوبکر نے ابی سے پھر بات کی اور نئے سرے سے یہ شرط طے ہوئے کہ دس سال کے اندر فریقین میں سے جس کی بات غلط ثابت ہوگی وہ سو اونٹ دے گا ۔ 622ء میں ادھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کر کے مدینہ طیبہ تشریف لے گئے اور ادھر قیصر ہرقل خاموشی کے ساتھ قسطنطنیہ سے بحر اسود کے راستے طرابزون کی طرف روانہ ہوا ، جہاں اس نے ایران پر پشت کی طرف سے حملہ کرنے کی تیاری کی ۔ اس جوابی حملے کی تیاری کے لیے قیصر نے کلیسا سے روپیہ مانگا اور مسیحی کلیسا کے اسقف اعظم سرجیس ( ) نے مسیحیت کو مجوسیت سے بچانے کے لیے گرجاؤں کے نذرانوں کی جمع شدہ دولت سود پر قرض دی ۔ ہرقل نے اپنا حملہ 623ء میں ارمینیا سے شروع کیا اور دوسرے سال 624ء میں اس نے آذر بیجان میں گھس کر زرتشت کے مقام پیدائش ارمیاہ ( ) کو تباہ کردیا اور برائیوں کے سب سے بڑے آتش کدے کی اینٹ سے اینٹ بجا دی ۔ خدا کی قدرت کا کرشمہ دیکھیے کہ یہی وہ سال تھا جس میں مسلمانوں کو بدر کے مقام پر پہلی مرتبہ مشرکین کے مقابلے میں فیصلہ کن فتح نصیب ہوئی ۔ اس طرح وہ دونوں پیشین گوئیاں جو سورہ روم میں کی گئی تھیں دس سال کی مدت ختم ہونے سے پہلے بیک وقت پوری ہوگئیں ۔ پھر روم کی فوجیں ایرانیوں کو مسلسل دباتی چلی گئیں ۔ نینوی کی فیصلہ کن لڑائی 627ء میں انہوں نے سلطنت ایران کی کمر توڑ دی ۔ اس کے بعد شاہان ایران کی قیام گاہ دستگرد ( دسکرۃ الملک ) کو تباہ کردیا گیا اور آگے بڑھ کر ہرقل کے لشکر عین طیسفون ( ) کے سامنے پہنچ گئے جو اس وقت ایران کا دار السلطنت تھا ۔ 628ء میں خسرو پرویز کے خلاف گھر میں بغاوت رونما ہوئی ۔ وہ قید کیا گیا ، اس کی آنکھوں کے سامنے اس کے 18 بیٹے قتل کردیے گئے ۔ اور چند روز بعد وہ خود قید کی سختیوں سے ہلاک ہوگیا ۔ یہی سال تھا جس میں صلح حدیبیہ واقع ہوئی جسے قرآن فتح عظیم کے نام سے تعبیر کرتا ہے ، اور یہی سال تھا جس میں خسرو کے بیٹے قباد ثانی نے تمام رومی مقبوضات سے دست بردار ہوکر اور اصلی صلیب واپس کر کے روم سے صلح کرلی ۔ 629ء میں قصیر مقدس صلیب کو اس کی جگہ رکھنے کے لیے خود بیت المقدس گیا ، اور اسی سال نبی صلی اللہ علیہ وسلم عمرۃ القضا ادا کرنے کے لیے ہجرت کے بعد پہلی مرتبہ مکہ معظمہ میں داخل ہوئے ۔ اس کے بعد کسی کے لیے بھی اس امر میں شبہ کی گنجائش باقی نہ رہی کہ قرآن کی پیشین گوئی بالکل سچی تھی ۔ عرب کے بکثرت مشرکین اس پر ایمان لے آئے ۔ ابی بن خلف کے وارثوں کو ہار مان کر شرط کے اونٹ ابوبکر صدیق کے حوالے کرنے پڑے ۔ وہ انہیں لے کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔ آپ نے حکم دیا کہ انہیں صدقہ کردیا جائے ۔ کیونکہ شرط اس وقت ہوئی تھی جب شریعت میں جوئے کی حرمت کا حکم نہیں آیا تھا ، مگر اب حرمت کا حکم آچکا تھا ، اس لیے حربی کافروں سے شرط کا مال تو لے لینے کی اجازت دے دی گئی مگر ہدایت کی گئی کہ اسے خود استعمال کرنے کے بجائے صدقہ کردیا جائے ۔ موضوع اور مضمون: اس سورہ میں کلام کا آغاز اس بات سے کیا گیا ہے کہ آج رومی مغلوب ہوگئے ہیں اور ساری دنیا یہ سمجھ رہی ہے کہ اس سلطنت کا خاتمہ قریب ہے ۔ مگر چند سال نہ گزرنے پائیں گے کہ پانسہ پلٹ جائے گا اور جو مغلوب ہے وہ غالب ہوجائے گا ۔ اس تمہید سے یہ مضمون نکل آیا کہ انسان اپنی سطح بینی کی کی وجہ سے وہی کچھ دیکھتا ہے جو بظاہر اس کی آنکھوں کے سامنے ہوتا ہے ، مگر اس ظاہر کے پردے کے پیچھے جو کچھ ہے اس کی اسے خبر نہیں ہوتی ۔ یہ ظاہر بینی جب دنیا کے ذرا ذرا سے معاملات میں غلط فہمیوں اور غلط اندازوں کی موجب ہوتی ہے ، اور جبکہ محض اتنی سی بات نہ جاننے کی وجہ سے کل کل کیا ہونے والا ہے آدمی غلط تخمینے لگا بیٹھتا ہے تو پھر بحیثیت مجموعی پوری زندگی کے معاملے میں ظاہر حیات دنیا پر اعتماد کر بیٹھنا اور اسی کی بنیاد پر اپنے پورے سرمایہ حیات کو داؤں پر لگا دینا کتنی بڑی غلطی ہے ۔ اس طرح روم و ایران کے معاملے سے تقریر کا رخ آخرت کے مضمون کی طرف پھر جاتا ہے اور مسلسل تین رکوعوں تک طریقے طریقے سے یہ سمجھانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ آخرت ممکن بھی ہے ، معقول بھی ہے ، اس کی ضرورت بھی ہے ، اور انسانی زندگی کے نظام کو درست رکھنے کے لیے بھی یہ ضروری ہے کہ آدمی آخرت کا یقین رکھ کر اپنی موجودہ زندگی کا پروگرام اختیار کرے ، اور نہ وہی غلطی واقع ہوگی جو ظاہر پر اعتماد کرلینے سے واقع ہوا کرتی ہے ۔ اس سلسلے میں آخرت پر استدلال کرتے ہوئے کائنات کے جن آثار کو شہادت میں پیش کیا گیا ہے وہ بعینہ وہی آثار ہیں جو توحید پر بھی دلالت کرتے ہیں ، اس لیے چوتھے رکوع کے آغاز سے تقریر کا رخ توحید کے اثبات اور شرک کے ابطال کی طرف پھر جاتا ہے اور بتایا جاتا ہے کہ انسان کے لیے فطری دین اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ وہ بالکل یکسو ہوکر خدائے واحد کی بندگی کرے ۔ شرک فطرت کائنات اور فطرت انسان کے خلاف ہے ، اسی لیے جہاں بھی انسان نے اس گمراہی کو اختیار کیا ہے وہاں فساد رونما ہوا ہے ۔ اس موقع پر پھر اس فساد عظیم ، جو اس وقت دنیا کی دو سب سے بڑی سلطنتوں کے درمیان جنگ کی بدولت برپا تھا ، اشارہ کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ یہ فساد بھی شرک کے نتائج میں سے ہے اور پچھلی انسانی تاریخ میں بھی جتنی قومیں مبتلائے فساد ہوئی ہیں وہ سب بھی مشرک ہی تھیں ۔ خاتمہ کلام پر تمثیل کے پیرایہ میں لوگوں کو سمجھایا گیا ہے کہ جس طرح مردہ پڑی ہوئی زمین خدا کی بھیجی ہوئی بھیجی ہوئی بارش سے یکایک جی اٹھتی ہے اور زندگی و بہار کے خزانے اگلنے شروع کردیتی ہے ، اسی طرح خدا کی بھیجی ہوئی وحی و نبوت بھی مردہ پڑی ہوئی انسانیت کے حق میں ایک باران رحمت ہے جس کا نزول اس کے لیے زندگی اور نشو و نما اور خیر و فلاح کا موجب ہوتا ہے ۔ اس موقع سے فائدہ اٹھاؤ گے تو یہی عرب کی سونی زمین رحمت الہی سے لہلہا اٹھے گی اور ساری بھلائی تمہارے اپنے لیے ہی ہوگی ۔ اس سے فائدہ نہ اٹھاؤ گے تو اپنا ہی نقصان کرو گے ، پھر پچھتانے کا کچھ حاصل نہ ہوگا اور تلافی کا کوئی موقع تمہیں میسر نہ آئے گا ۔