Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

251یعنی جب قیامت برپا ہوگی تو آسمان و زمین کا یہ سارا نظام، جو اس وقت اس کے حکم سے قائم ہے، درہم برہم ہوجائے گا اور تمام انسان قبروں سے زندہ ہو کر باہر نکل آئیں گے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٢٣] اللہ تعالیٰ نے جہاں آسمان اور زمین کا ذکر کیا تو اس سے مراد کائنات کا نظام ہوتا ہے۔ جس میں لاتعداد اجرام فلکی محو گردش ہیں۔ اور موجودہ نظریہ کے مطابق ہماری زمین اور چاند اور کئی دیگر سیارے سورج کے گرد گردش کر رہے ہیں۔ عموماً سمجھا یہ جاتا ہے کہ ہر سیارے کی کشش ثقل اسے ایک مخصوص مقام پر جکڑے ہوئے ہے۔ مگر بات صرف اتنی نہیں۔ ہمارے نظام شمسی میں سورج ہی سب سے بڑا ستارہ اور سیارہ ہے۔ لہذا اس کی کشش ثقل یا قوت جاذبہ اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ وہ ہر سیارہ کو اپنی طرف کھینچ لے۔ مگر ایسا نہیں ہوتا۔ لہذا ضروری ہے کہ کوئی ایسی مقتدر اور قادر مطلق ایسی ہستی موجود ہو جو باوجود قوت جاذبہ کی کشش کے ان سیاروں کو اپنے اپنے مدارات پر قائم رکھ سکے کوئی سبب طبیعی ایسا نہیں بتلایا جاسکتا جس نے تمام کواکب کو کھلی فضا میں جکڑ بند کردیا ہے کہ وہ سب سورج کے گرد چکر لگانے میں ہمیشہ معین مدارات پر ایک خاص حیثیت میں بھی حرکت کریں جس میں کبھی تخلف نہ ہو۔ پھر کواکب کی حرکات اور درجات سرعت میں ان کی اور سورج کی درمیانی مسافت کو ملحوظ رکھتے ہوئے جو دقیق تناسب اور عمیق توازن قائم رکھا گیا ہے کوئی سبب طبیعی نہیں جن سے ان منظم و مربوط سیاروں کو وابستہ کرسکیں۔ ناچار اقرار کرنا پڑتا ہے کہ یہ سارا نظام کسی ایسے زبردست حکیم وعلیم کے تحت ہے جو ان تمام اجرام سماویہ کے مواد اور ان کی ماہیت سے پورا واقف ہے وہ جانتا ہے کہ کسی مادہ کی کس قدر مقدار سے کتنی قوت جاذبہ صادر ہوگی اس نے اپنے زبردست اندازہ سے کواکب اور سورج کے درمیان مختلف مسافتیں اور حرکت کے مختلف مدارج مقرر کئے ہیں تاکہ ایک دوسرے تضادم اور تزاحم نہ ہو اور سارا عالم ٹکرا کر تباہ نہ ہوجائے۔- [ ٢٤] اس مقام پر اللہ تعالیٰ نے اسرافیل کے صور پھونکنے کو اپنی پکار سے تعبیر فرمایا ہے۔ یعنی جتنے انسان مرچکے یا قیام قیامت تک مریں گے۔ سب اللہ کی ایک پکار پر اپنی اپنی قبروں سے زندہ ہو کر میدان محشر کی طرف چل کھڑے ہوں گے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَمِنْ اٰيٰتِهٖٓ اَنْ تَــقُوْمَ السَّمَاۗءُ وَالْاَرْضُ بِاَمْرِهٖ : اس سے پہلے اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے زمین و آسمان کی پیدائش کا ذکر فرمایا، اب فرماتے ہیں کہ اس کی نشانیوں میں سے یہ بات بھی ہے کہ اتنے عظیم آسمان و زمین اور ان میں موجود سورج، چاند اور ستارے کسی ستون یا تھامنے والی چیز کے بغیر محض اس کے امر کے ساتھ اپنی اپنی جگہ قائم ہیں اور اپنے اپنے مدار میں گردش کر رہے ہیں، جیسا کہ فرمایا : (كُلٌّ فِيْ فَلَكٍ يَّسْبَحُوْنَ ) [ الأنبیاء : ٣٣ ] ” سب ایک ایک دائرے میں تیر رہے ہیں۔ “ اس نے ہر ایک میں اپنی کمال حکمت کے ساتھ نہایت باریک اور درست حساب کے ساتھ جذب و دفع کی ایسی قوت رکھ دی ہے کہ کوئی دو جسم آپس میں نہیں ٹکراتے۔ اللہ تعالیٰ کے اس نظام میں کبھی باہمی تصادم نہیں ہوتا۔ اگر اس کا حکم نہ ہو تو نہ آسمان اپنی جگہ قائم رہ سکے اور نہ زمین۔ دیکھیے سورة حج (٦٥) اور سورة فاطر (٤١) ۔- ثُمَّ اِذَا دَعَاكُمْ دَعْوَةً ۔۔ : پھر یہ نہ سمجھو کہ یہ نظام دائمی یا ابدی ہے اور جو مرگیا ہمیشہ مردہ ہی رہے گا۔ نہیں، پھر (ثم) ایک وقت آرہا ہے جب وہ تمہارے زمین میں دفن ہونے کی حالت میں تمہیں ایک ہی آواز دے گا تو تم یک لخت زمین سے باہر نکل آؤ گے۔ مراد اس سے دوسرا نفخہ ہے، جیسا کہ فرمایا : (ثُمَّ نُفِخَ فِيْهِ اُخْرٰى فَاِذَا هُمْ قِيَامٌ يَّنْظُرُوْنَ ) [ الزمر : ٦٨ ] ” پھر اس (صور) میں دوسری دفعہ پھونکا جائے گا تو اچانک وہ کھڑے دیکھ رہے ہوں گے۔ “ اس کی ہم معنی آیات کے لیے دیکھیے بنی اسرائیل (٥٢) ، یٰس (٥٣) اور نازعات (١٣، ١٤) ۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

چھٹی آیت قدرت یہ ہے کہ آسمان و زمین کا قیام اللہ ہی کے امر سے ہے، اور جب اس کا امر یہ ہوگا کہ یہ نظام توڑ پھوڑ دیا جائے تو یہ سب مضبوط مستحکم چیزیں جن میں ہزاروں سال چل کر بھی کہیں کوئی نقصان یا خلل نہیں آتا، دم کے دم میں ٹوٹ پھوٹ کر ختم ہوجائیں گی اور پھر اللہ تعالیٰ ہی کے امر سے دوبارہ سب مردے زندہ ہو کر میدان حشر میں جمع ہوجائیں گے۔- یہ چھٹی آیت قدرت درحقیقت پہلی سب آیات کا ماحصل اور مقصد ہے، اسی کے سمجھانے کے لئے اس سے پہلی پانچ آیتیں بیان فرمائی ہیں اور اس کے بعد کئی آیات تک اسی مضمون کا ذکر فرمایا ہے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَمِنْ اٰيٰتِہٖٓ اَنْ تَــقُوْمَ السَّمَاۗءُ وَالْاَرْضُ بِاَمْرِہٖ۝ ٠ ۭ ثُمَّ اِذَا دَعَاكُمْ دَعْوَۃً۝ ٠ ۤۖ مِّنَ الْاَرْضِ۝ ٠ ۤۖ اِذَآ اَنْتُمْ تَخْرُجُوْنَ۝ ٢٥- الآية- والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع .- الایۃ ۔- اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔- أمر - الأَمْرُ : الشأن، وجمعه أُمُور، ومصدر أمرته :- إذا کلّفته أن يفعل شيئا، وهو لفظ عام للأفعال والأقوال کلها، وعلی ذلک قوله تعالی: إِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ [هود 123] - ( ا م ر ) الامر - ( اسم ) کے معنی شان یعنی حالت کے ہیں ۔ اس کی جمع امور ہے اور امرتہ ( ن ) کا مصدر بھی امر آتا ہے جس کے معنی حکم دینا کے ہیں امر کا لفظ جملہ اقوال وافعال کے لئے عام ہے ۔ چناچہ آیات :۔- وَإِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ ( سورة هود 123) اور تمام امور کا رجوع اسی طرف ہے - دعا - الدُّعَاء کالنّداء، إلّا أنّ النّداء قد يقال بيا، أو أيا، ونحو ذلک من غير أن يضمّ إليه الاسم، والدُّعَاء لا يكاد يقال إلّا إذا کان معه الاسم، نحو : يا فلان، وقد يستعمل کلّ واحد منهما موضع الآخر . قال تعالی: كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة 171] ، - ( د ع و ) الدعاء ( ن )- کے معنی ندا کے ہیں مگر ندا کا لفظ کبھی صرف یا آیا وغیرہ ہما حروف ندا پر بولا جاتا ہے ۔ اگرچہ ان کے بعد منادٰی مذکور نہ ہو لیکن دعاء کا لفظ صرف اس وقت بولا جاتا ہے جب حرف ندا کے ساتھ اسم ( منادی ) بھی مزکور ہو جیسے یا فلان ۔ کبھی یہ دونوں یعنی دعاء اور نداء ایک دوسرے کی جگہ پر بولے جاتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة 171] ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جو کسی ایسی چیز کو آواز دے جو پکار اور آواز کے سوا کچھ نہ سن سکے ۔ - إذا - إذا يعبّر به عن کلّ زمان مستقبل، وقد يضمّن معنی الشرط فيجزم به، وذلک في الشعر أكثر، و «إذ» يعبر به عن الزمان الماضي، ولا يجازی به إلا إذا ضمّ إليه «ما» نحو : 11-إذ ما أتيت علی الرّسول فقل له - ( اذ ا ) اذ ا - ۔ ( ظرف زماں ) زمانہ مستقبل پر دلالت کرتا ہے کبھی جب اس میں شرطیت کا مفہوم پایا جاتا ہے تو فعل مضارع کو جزم دیتا ہے اور یہ عام طور پر نظم میں آتا ہے اور اذ ( ظرف ) ماضی کیلئے آتا ہے اور جب ما کے ساتھ مرکب ہو ( اذما) تو معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ع (11) اذمااتیت علی الرسول فقل لہ جب تو رسول اللہ کے پاس جائے تو ان سے کہنا ۔- خرج - خَرَجَ خُرُوجاً : برز من مقرّه أو حاله، سواء کان مقرّه دارا، أو بلدا، أو ثوبا، وسواء کان حاله حالة في نفسه، أو في أسبابه الخارجة، قال تعالی: فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص 21] ،- ( خ رج ) خرج ۔ ( ن)- خروجا کے معنی کسی کے اپنی قرار گاہ یا حالت سے ظاہر ہونے کے ہیں ۔ عام اس سے کہ وہ قرار گاہ مکان ہو یا کوئی شہر یا کپڑا ہو اور یا کوئی حالت نفسانی ہو جو اسباب خارجیہ کی بنا پر اسے لاحق ہوئی ہو ۔ قرآن میں ہے ؛ فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص 21] موسٰی وہاں سے ڈرتے نکل کھڑے ہوئے کہ دیکھیں کیا ہوتا ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

اور اس کی قدرت کی نشانیوں میں سے یہ بھی ہے کہ آسمان و زمین اس کے حکم سے قائم ہیں پھر جب قیامت کے دن اللہ عالی تمہیں اسرافیل (علیہ السلام) کی زبانی قبروں سے بلائے گا تو تم ایک دم نکل پڑو گے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٢٥ (وَمِنْ اٰیٰتِہٖٓ اَنْ تَقُوْمَ السَّمَآءُ وَالْاَرْضُ بِاَمْرِہٖ ط) ” - ہماری زمین ‘ سورج ‘ نظام شمسی اور چھوٹے بڑے بیشمار ستاروں اور سیاروں کا ایک عظیم الشان اور لامتناہی نظام بھی اس کی قدرت کے مظاہر میں سے ہے۔ آج کا انسان جانتا ہے کہ اس نظام کے اندر ایسے ایسے ستارے بھی ہیں جن کے مقابلے میں ہمارے سورج کی جسامت کی کوئی حیثیت ہی نہیں۔ یہ اتنے بڑے بڑے اجرام سماویہ اللہ ہی کے حکم سے اپنے اپنے مدار پر قائم ہیں اور یوں اس کی مشیت سے کائنات کا یہ مجموعی نظام چل رہا ہے۔- (ثُمَّ اِذَا دَعَاکُمْ دَعْوَۃً ق مِّنَ الْاَرْضِق اِذَآ اَنْتُمْ تَخْرُجُوْنَ ) ” - قیامت کے دن بھی اللہ تعالیٰ کی شان ” کُن فیکُون “ کا ظہور ہوگا اور اس کے ایک ہی حکم سے پوری نسل انسانی زمین سے باہر نکل کر اس کے حضور حاضر ہوجائے گی۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الروم حاشیہ نمبر : 36 یعنی صرف یہی نہیں کہ وہ اس کے حکم سے ایک دفعہ وجود میں آگئے ہیں ، بلکہ ان کا مسلسل قائم رہنا اور ان کے اندر ایک عظیم الشان کارگاہ ہستی کا پیہم چلتے رہنا بھی اسی کے حکم کی بدولت ہے ۔ ایک لمحہ کے لیے بھی اگر اس کا حکم انہیں برقرار نہ رکھے تو یہ سارا نظام یک لخت درہم برہم ہوجائے ۔ سورة الروم حاشیہ نمبر : 37 یعنی کائنات کے خالق و مدبر کے لیے تمہیں دوبارہ زندہ کر کے اٹھانا کوئی ایسا بڑا کام نہیں ہے کہ اسے اس کے لیے بہت بڑی تیاریاں کرنی ہوں گی ، بلکہ اس کی صرف ایک پکار اس کے لیے بالکل کافی ہوگی کہ آغاز آفرینش سے آج تک جتنے انسان دنیا میں پیدا ہوئے ہیں اور آئندہ پیدا ہوں گے وہ سب ایک ساتھ زمین کے ہر گوشے سے نکل کھڑے ہوں ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani