اللہ قادر مطلق ۔ اللہ ساری مخلوق سے بےنیاز ہے اور تمام مخلوق اس کی محتاج ہے ۔ وہ غنی ہے اور سب فقیر ہیں ۔ وہ بےپرواہ ہے اور سب اس کے حاجت مند ہیں ۔ اس کے سامنے ہر کوئی ذلیل ہے اور وہ عزیز ہے کسی قسم کی حرکت و سکون پر کوئی قادر نہیں سانس تک لینا کسی کے بس میں نہیں ۔ مخلوق بالکل ہی بےبس ہے ۔ غنی بےپرواہ اور بےنیاز صرف اللہ ہی ہے تمام باتوں پر قادر وہی ہے ۔ وہ جو کرتا ہے اس میں قابل تعریف ہے ۔ اس کا کوئی کام حکمت و تعریف سے خالی نہیں ۔ اپنے قول میں اپنے فعل میں اپنی شرع میں تقدیروں کے مقرر کرنے میں غرض ہر طرح سے وہ بزرگ اور لائق حمد و ثناء ہے ۔ لوگو اللہ کی قدرت ہے اگر وہ چاہے تو تم سب کو غارت و برباد کر دے اور تمہارے عوض دوسرے لوگوں کو لائے ، رب پر یہ کام کچھ مشکل نہیں ، قیامت کے دن کوئی دوسرے کے گناہ اپنے اوپر نہ لے گا ۔ اگر کوئی گنہگار اپنے بعض یا سب گناہ دوسرے پر لادنا چاہے تو یہ چاہت بھی اس کی پوری نہ ہو گی ۔ کوئی نہ ملے گا کہ اس کا بوجھ بٹائے عزیز و اقارب بھی منہ موڑ لیں گے اور پیٹھ پھیر لیں گے ۔ گو ماں باپ اور اولاد ہو ۔ ہر شخص اپنے حال میں مشغول ہو گا ۔ ہر ایک کو اپنی اپنی پڑی ہو گی ۔ حضرت عکرمہ فرماتے ہیں پڑوسی پڑوسی کے پیچھے پڑ جائے گا اللہ سے عرض کرے گا کہ اس سے پوچھ تو سہی کہ اس نے مجھ سے اپنا دروازہ کیوں بند کر لیا تھا ؟ کافر مومن کے پیچھے لگ جائے گا اور جو احسان اس نے دنیا میں کئے تھے وہ یاد دلا کر کہے گا کہ آج میں تیرا محتاج ہوں مومن بھی اس کی سفارش کرے گا اور ہو سکتا ہے کہ اس کا عذاب قدرے کم ہو جائے گو جہنم سے چھٹکارا محال ہے ۔ باپ اپنے بیٹے کو اپنے احسان جتائے گا اور کہے گا کہ رائی کے ایک دانے برابر مجھے آج اپنی نیکیوں میں سے دے دے وہ کہے گا ابا آپ چیز تو تھوڑی سی طلب فرما رہے ہیں لیکن آج تو جو کھٹکا آپ کو ہے وہی مجھے بھی ہے میں تو کچھ بھی نہیں دے سکتا ۔ پھر بیوی کے پاس جائے گا اس سے کہے گا میں نے تیرے ساتھ دنیا میں کیسے سلوک کئے ہیں؟ وہ کہے گی بہت ہی اچھے یہ کہے گا آج میں تیرا محتاج ہوں مجھے ایک نیکی دے دے تاکہ عذابوں سے چھوٹ جاؤں جواب ملے گا کہ سوال تو بہت ہلکا ہے لیکن جس خوف میں تم ہو وہی ڈر مجھے بھی لگا ہوا ہے میں تو کچھ بھی سلوک آج نہیں کر سکتی ۔ قرآن کریم کی اور آیت میں ہے ( يٰٓاَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّكُمْ وَاخْشَوْا يَوْمًا لَّا يَجْزِيْ وَالِدٌ عَنْ وَّلَدِهٖ ۡ وَلَا مَوْلُوْدٌ هُوَ جَازٍ عَنْ وَّالِدِهٖ شَـيْـــــًٔا ۭ اِنَّ وَعْدَ اللّٰهِ حَقٌّ فَلَا تَغُرَّنَّكُمُ الْحَيٰوةُ الدُّنْيَا ۪ وَلَا يَغُرَّنَّكُمْ بِاللّٰهِ الْغَرُوْرُ 33 ) 31- لقمان:33 ) یعنی آج نہ باپ بیٹے کے کام آئے نہ بیٹا باپ کے کام آئے اور فرمان ہے ( يَوْمَ يَفِرُّ الْمَرْءُ مِنْ اَخِيْهِ 34ۙ ) 80-عبس:34 ) آج انسان اپنے بھائی سے ، ماں سے ، باپ سے ، بیوی سے اور اولاد سے بھاگتا پھرے گا ۔ ہر شخص اپنے حال میں سمت و بےخود ہو گا ۔ ہر ایک دوسرے سے غافل ہو گا ، تیرے وعظ و نصیحت سے وہی لوگ فائدہ اٹھا سکتے ہیں جو عقل مند اور صاحب فراست ہوں جو اپنے رب سے قدم قدم پر خوف کرنے والے اور اطاعت اللہ کرتے ہوئے نمازوں کو پابندی کے ساتھ ادا کرنے والے ہیں ۔ نیک اعمال خود تم ہی کو نفع دیں گے جو پاکیزگیاں تم کرو ان کا نفع تم ہی کو پہنچے گا ۔ آخر اللہ کے پاس جانا ہے ، اس کے سامنے پیش ہونا ہے ، حساب کتاب اس کے سامنے ہونا ہے ، اعمال کا بدلہ وہ خود دینے والا ہے ۔
15۔ 1 ناس کا لفظ عام ہے جس میں عوام وخاص حتی کہ انبیاء وصلحا سب آجاتے ہیں اللہ کے در کے سب ہی محتاج ہیں لیکن اللہ کسی کا محتاج نہیں۔ 15۔ 2 وہ اتنا بےنیاز ہے کہ اگر سب لوگ اس کے مخالف ہوجائیں اس سے اس کی سلطنت میں کوئی کمی اور سب اس کے اطاعت گزار بن جائیں، تو اس سے اس کی قوت میں زیادتی نہ ہوگی بلکہ نافرمانی میں لوگوں کا اپنا ہی نقصان ہے۔ اور عبادت واطاعت میں اپنا ہی فائدہ ہے۔ 15۔ 3 یعنی محمود ہے اپنی نعمتوں کی وجہ سے۔ پس ہر نعمت، جو اس نے بندوں پر کی ہے، اس پر وہ حمد و شکر کا مستحق ہے۔
[ ٢٣] یہ خطاب تمام جہان کے انسانوں سے ہے کہ تم اپنی صحت کے لئے، اپنے رزق کے لئے، اپنی زندگی کی بقاء غرض ایک ایک چیز کے لئے اللہ کے محتاج ہو تمہارے رزق اور بقائے حیات کے لئے اللہ تعالیٰ نے جن جن اشیائے کائنات کو کام پر لگا رکھا ہے۔ ان میں سے کسی ایک کو ہٹالے تو تم زندہ بھی نہیں رہ سکتے۔ دوسری ضرورتوں کی احتیاج بعد کی چیز ہے اور اللہ کی شان یہ ہے کہ اسے کسی انسان بلکہ کائنات کی کسی بھی چیز کی احتیاج نہیں۔ وہ بذات خود ازل سے لے کر ابد تک قائم و دائم ہے۔ اور کوئی اس کی حمد و ثنا نہ بھی کرے تو بھی وہ اپنی ذات میں آپ محمود ہے۔
يٰٓاَيُّهَا النَّاسُ اَنْتُمُ الْفُقَرَاۗءُ اِلَى اللّٰهِ ۚ ۔۔ : خبر ” الْفُقَرَاۗءُ “ پر الف لام آنے سے حصر اور تاکید کا معنی پیدا ہوگیا کہ لوگو تم ہی اللہ کی طرف محتاج ہو۔ اسی طرح ” وَاللّٰهُ هُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيْدُ “ میں ضمیر فصل ” هُوَ “ اور خبر ” الْغَنِيُّ “ پر الف لام سے حصر کا معنی پیدا ہوا کہ صرف اللہ ہی ہے جو سب سے بےپروا، تمام تعریفوں کے لائق ہے۔- یہ بیان کرنے کے بعد کہ آسمان و زمین کا مالک اللہ تعالیٰ ہے اور اس کے سوا جنھیں پکارا جاتا ہے وہ نہ نفع پہنچا سکتے ہیں نہ نقصان سے بچا سکتے ہیں، حتیٰ کہ وہ ایک قطمیر (کھجور کی گٹھلی پر باریک چھلکا) کے مالک بھی نہیں۔ اب پچھلے سارے بیان کے خلاصے اور نتیجے کے طور پر فرمایا، لوگو تم ہی اللہ تعالیٰ کے ہر طرح سے محتاج ہو، اپنے وجود میں، اپنی بقا اور اپنی ہر ضرورت کے لیے، لہٰذا اسی سے مانگو اور اسی کی عبادت کرو۔- وَاللّٰهُ هُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيْدُ : یعنی دوسرے سب محتاج ہیں، ایک اللہ تعالیٰ ہے جو غنی ہے، کسی کا محتاج نہیں۔ غنی کے ساتھ حمید اس لیے فرمایا کہ غنی ایسا بھی ہوسکتا ہے جو کسی کا محتاج تو نہ ہو مگر نہ اس میں کوئی خوبی ہو نہ کسی کو کوئی فائدہ پہنچاتا ہو۔ فرمایا، اللہ ایسا غنی ہے کہ وہ تمام کمالات اور خوبیوں کا مالک ہے، تمہیں اور تمام مخلوق کو حاصل ہر نعمت اسی کی عطا کردہ ہے، اس لیے وہی تمام تعریفوں اور تمام شکر کا مستحق ہے۔
خلاصہ تفسیر - اے لوگو تم (ہی) خدا کے محتاج ہو اور اللہ (تو) بےنیاز (اور خود تمام) خوبیوں والا ہے (پس تمہاری احتیاج دیکھ کر تمہارے لئے توحید وغیرہ کی تعلیم کی گئی ہے، اگر تم نہیں مانو گے تو تم اپنا ضرر کرو گے۔ باقی حق تعالیٰ کو تو بوجہ غنائے ذاتی و کمال ذاتی کے تمہاری یا تمہارے عمل کی کوئی حاجت ہی نہیں کہ اس کے ضرر کا احتمال ہو اور کفر یہ جو ضرر ہونے والا ہے خدا تعالیٰ اس کے فی الحال ایقاع پر بھی قادر ہے چنانچہ) اگر وہ چاہے تو (تمہارے کفر کی سزا میں) تم کو فنا کر دے اور ایک نئی مخلوق پیدا کر دے (جو تمہاری طرح کفر و انکار نہ کریں) اور یہ بات خدا کو کچھ مشکل نہیں (لیکن بمصلحت مہلت دے رکھی ہے۔ غرض یہاں تو وہ ضرر محض محتمل الوقوع ہے، لیکن قیامت میں وہ ضرور واقع ہوجائے گا) اور (اس وقت یہ حالت ہوگی کہ) کوئی دوسرے کا بوجھ (گناہ کا) نہ اٹھاوے گا اور (خود تو کوئی کسی کی کیا رعایت کرتا یہ حالت ہوگی کہ) اگر کوئی بوجھ کا لدا ہوا (یعنی کوئی گنہگار) کسی کو اپنا بوجھ اٹھانے کے لئے بلائے گا (بھی) تب بھی اس میں سے کچھ بھی بوجھ نہ ہٹایا جائے گا، اگرچہ وہ شخص (جس کو اس نے بلایا تھا اس کا) قرابت دار ہی (کیوں نہ) ہو (پس اس وقت پورا ضرر اس کفر و بدعملی کا خود ہی بھگتنا پڑے گا، یہ تو تحزیر منکرین کی ہوگئی۔ آگے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا تسلیہ ہے، کہ اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ ان کے انکار پر جس کی سزا یہ ایک دن ضرور بھگتیں گے اس قدر غم و افسوس کیوں کرتے ہیں) آپ تو (ایسا ڈرانا جس پر نفع مرتب ہو) صرف ایسے لوگوں کو ڈرا سکتے ہیں جو بےدیکھے اپنے رب سے ڈرتے ہیں اور نماز کی پابندی کرتے ہیں (مراد اس الذین سے مومنین ہیں، یعنی آپ کے انداز سے صرف مومنین منتفع ہوتے ہیں فی الحال ہوں یا باعتبار آئندہ کے اور امر مشترک دونوں میں طلب حق ہے۔ مطلب یہ ہے کہ طالب حق کو نفع ہوا کرتا ہے یہ لوگ طالب حق ہیں ہی نہیں، ان سے امید نہ رکھئے) اور (آپ ان کے ایمان نہ لانے سے اس قدر فکر کیوں کرتے ہیں) جو شخص (ایمان لا کر شرک و کفر سے) پاک ہوتا ہے وہ اپنے (نفع) کے لئے پاک ہوتا ہے اور (جو نہیں ایمان لاتا وہاں بھگتے گا، کیونکہ سب کو) اللہ کی طرف لوٹ کر جانا ہے (پس نفع ہے تو ان کا آپ کیوں غم کرتے ہیں) اور ( ان لوگوں سے کیا توقع رکھی جائے کہ ان کا علم و ادراک مثل ادراک مؤمنین کے ہو، اور مؤمنین کی طرح یہ بھی حق کو قبول کرلیں اور قبول حق کے ثمرات دینی میں بھی یہ لوگ شریک ہوجائیں، کیونکہ مؤمنین کی مثال حق بینی میں بین آدمی کی سی اور ان کی مثال عدم ادراک حق میں اندھے آدمی کی سی ہے اور اس طرح مومن نے ادراک کے ذریعہ سے جس طریق ہدایت کو اختیار کیا ہے اس طریقہ حق کی مثال نور کی سی ہے اور کافر نے عدم ادراک حق سے جس طریقہ کو اختیار کیا ہے اس کی مثال ظلمت کی سی ہے کما قال تعالیٰ (آیت) وجعلنا لہ نورا یمشی بہ فی الناس کمن مثلہ فی الظلمت لیس بخارج منھا اور اسی طرح جو ثمرہ جنت وغیرہ اس طریق پر مرتب ہوگا اس کی مثال ظل بار کی سی ہے اور جو ثمرہ جہنم وغیرہ طریق باطل پر مرتب ہوگا، اس کی مثال جلتی دھوپ کی سی ہے، کماقال تعالیٰ (آیت) ظلم ممدو دالی قولہ فی مسموم اور ظاہر ہے کہ) اندھا اور آنکھوں والا برابر نہیں اور نہ تاریکی اور روشنی اور چھاؤں اور دھوپ (پس نہ ان کا اور مومنین کا علم و ادراک برابر ہوگا اور نہ ان کا طریقہ اور نہ اس طریقہ کا ثمرہ اور (مومن اور کافر میں جو تفاوت بینا و نابینا کا سا کہا گیا ہے تو اس سے مقصود نفی کمی کی ہے نہ کہ زیادتی کی۔ کیونکہ ان میں تفاوت مردہ اور زندہ کا سا ہے، پس ان کی برابری کی نفی کے لئے یوں بھی کہنا صحیح ہے کہ) زندے اور مردے برابر نہیں ہو سکتے (اور جب یہ مردے ہیں تو مردوں کو زندہ کرنا تو خدا کی قدرت میں ہے بندہ کی قدرت میں نہیں۔ پس اگر خدا ہی نے ان کو ہدایت کردی تب تو اور بات ہے، کیونکہ) اللہ جس کو چاہتا ہے سنوا دیتا ہے (باقی آپ کی کوشش سے یہ لوگ حق کو قبول نہیں کریں گے، کیونکہ ان کی مثال تو مردوں کی آپ نے سن لی اور آپ ان لوگوں کو نہیں سنا سکتے جو قبروں میں (مدفون) ہیں۔ (لیکن اگر یہ نہ مانیں تو آپ غم میں نہ پڑیئے کیونکہ) آپ تو (کافروں کے حق میں) صرف ڈرانے والے ہیں (آپ کے ذمہ یہ نہیں کہ وہ کافر ڈر کر مان بھی جائیں اور یہ ڈرانا آپ کا اپنی طرف سے نہیں جیسا منکرین نبوت کہتے تھے بلکہ ہماری طرف سے ہے کیونکہ) ہم ہی نے آپ کو (دین) حق دے کر (مسلمانوں کو) خوشخبری سنانے والا اور (کافروں کو) ڈر سنانے والا بنا کر بھیجا ہے اور (یہ بھیجنا کوئی انوکھی بات نہیں جیسا کافر کہتے تھے بلکہ) کوئی ایسی امت نہیں ہوئی جس میں کوئی ڈر سنانے والا (یعنی پیغمبر نہ گذرا ہو اور اگر یہ لوگ آپ کو جھٹلا دیں تو (آپ ان گزشتہ پیغمبروں کا جن کا ابھی اجمالاً ذکر ہوا ہے اور تفصیلاً دوسری آیات میں ذکر ہے کافروں کے ساتھ معاملہ یاد کر کے اپنے دل کو سمجھا لیجئے کیونکہ) جو لوگ ان سے پہلے ہو گذرے ہیں انہوں نے بھی (اپنے وقت کے پیغمبروں کو جھٹلایا تھا (اور) ان کے پاس بھی ان کے پیغمبر معجزے اور صحیفے اور روشن کتابیں لے کر آئے تھے، (یعنی بعضے صحائف اور بعضی بڑی کتابیں اور بعضے صرف معجزات تصدیق نبوت کے لئے اور احکام انبیاء سابقین لے کر آئے) پھر (جب انہوں نے جھٹلایا تو) میں نے ان کافروں کو پکڑ لیا سو (دیکھو) میرا کیسا عذاب ہوا (اسی طرح ان کے قوت پر ان کو سزا دوں گا۔ )
يٰٓاَيُّہَا النَّاسُ اَنْتُمُ الْفُقَرَاۗءُ اِلَى اللہِ ٠ ۚ وَاللہُ ہُوَالْغَنِيُّ الْحَمِيْدُ ١٥- نوس - النَّاس قيل : أصله أُنَاس، فحذف فاؤه لمّا أدخل عليه الألف واللام، وقیل : قلب من نسي، وأصله إنسیان علی إفعلان، وقیل : أصله من : نَاسَ يَنُوس : إذا اضطرب،- قال تعالی: قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس 1] - ( ن و س ) الناس ۔- بعض نے کہا ہے کہ اس کی اصل اناس ہے ۔ ہمزہ کو حزف کر کے اس کے عوض الف لام لایا گیا ہے ۔ اور بعض کے نزدیک نسی سے مقلوب ہے اور اس کی اصل انسیان بر وزن افعلان ہے اور بعض کہتے ہیں کہ یہ اصل میں ناس ینوس سے ہے جس کے معنی مضطرب ہوتے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس 1] کہو کہ میں لوگوں کے پروردگار کی پناہ مانگنا ہوں ۔ - فقر - الفَقْرُ يستعمل علی أربعة أوجه :- الأوّل : وجود الحاجة الضّرورية، وذلک عامّ للإنسان ما دام في دار الدّنيا بل عامّ للموجودات کلّها، وعلی هذا قوله تعالی: يا أَيُّهَا النَّاسُ أَنْتُمُ الْفُقَراءُ إِلَى اللَّهِ- [ فاطر 15] ، وإلى هذا الفَقْرِ أشار بقوله في وصف الإنسان : وَما جَعَلْناهُمْ جَسَداً لا يَأْكُلُونَ الطَّعامَ [ الأنبیاء 8] .- والثاني : عدم المقتنیات، وهو المذکور في قوله : لِلْفُقَراءِ الَّذِينَ أُحْصِرُوا [ البقرة 273] ، إلى قوله : مِنَ التَّعَفُّفِ [ البقرة 273] ، إِنْ يَكُونُوا فُقَراءَ يُغْنِهِمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ- [ النور 32] . وقوله : إِنَّمَا الصَّدَقاتُ لِلْفُقَراءِ وَالْمَساكِينِ [ التوبة 60] .- الثالث : فَقْرُ النّفس، وهو الشّره المعنيّ بقوله عليه الصلاة والسلام : «كاد الفَقْرُ أن يكون کفرا» «1» وهو المقابل بقوله : «الغنی غنی النّفس» «1» والمعنيّ بقولهم : من عدم القناعة لم يفده المال غنی.- الرابع : الفَقْرُ إلى اللہ المشار إليه بقوله عليه الصلاة والسلام : ( اللهمّ أغنني بِالافْتِقَارِ إليك، ولا تُفْقِرْنِي بالاستغناء عنك) «2» ، وإيّاه عني بقوله تعالی: رَبِّ إِنِّي لِما أَنْزَلْتَ إِلَيَّ مِنْ خَيْرٍ فَقِيرٌ- [ القصص 24] ، وبهذا ألمّ الشاعر فقال :- 354-- ويعجبني فقري إليك ولم يكن ... ليعجبني لولا محبّتک الفقر ويقال : افْتَقَرَ فهو مُفْتَقِرٌ وفَقِيرٌ ، ولا يكاد يقال : فَقَرَ ، وإن کان القیاس يقتضيه . وأصل الفَقِيرِ : هو المکسورُ الْفِقَارِ ، يقال : فَقَرَتْهُ فَاقِرَةٌ ، أي داهية تکسر الفِقَارَ ، وأَفْقَرَكَ الصّيدُ فارمه، أي : أمكنک من فِقَارِهِ ، وقیل : هو من الْفُقْرَةِ أي : الحفرة، ومنه قيل لكلّ حفیرة يجتمع فيها الماء : فَقِيرٌ ، وفَقَّرْتُ للفسیل : حفرت له حفیرة غرسته فيها، قال الشاعر : ما ليلة الفقیر إلّا شيطان فقیل : هو اسم بئر، وفَقَرْتُ الخَرَزَ : ثقبته، وأَفْقَرْتُ البعیر : ثقبت خطمه .- ( ف ق ر ) الفقر کا لفظ چار طرح پر استعمال ہوتا ہے ۔ زندگی کی بنیادی ضروریات کا نہ پایا جانا اس اعتبار سے انسان کیا کائنات کی ہر شے فقیر و محتاج ہے ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا يا أَيُّهَا النَّاسُ أَنْتُمُ الْفُقَراءُ إِلَى اللَّهِ [ فاطر 15] لوگو تم سب خدا کے محتاج ہو ۔ اور الانسان میں اسی قسم کے احتیاج کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : وَما جَعَلْناهُمْ جَسَداً لا يَأْكُلُونَ الطَّعامَ [ الأنبیاء 8] اور ہم نے ان کے ایسے جسم نہیں بنائے تھے کہ کھانا نہ کھائیں ۔ ضروریات زندگی کا کما حقہ پورا نہ ہونا چناچہ اس معنی میں فرمایا : لِلْفُقَراءِ الَّذِينَ أُحْصِرُوا [ البقرة 273] ، إلى قوله : مِنَ التَّعَفُّفِ [ البقرة 273] تو ان حاجت مندوں کے لئے جو خدا کے راہ میں رے بیٹھے ہیں ۔إِنْ يَكُونُوا فُقَراءَ يُغْنِهِمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ [ النور 32] اگر وہ مفلس ہونگے تو خدا ان گو اپنے فضل سے خوشحال کردے گا ۔ إِنَّمَا الصَّدَقاتُ لِلْفُقَراءِ وَالْمَساكِينِ [ التوبة 60] صدقات ( یعنی زکوۃ و خیرات ) تو مفلسوں اور محتاجوں ۔۔۔ کا حق ہے ۔ فقرالنفس : یعنی مال کی ہوس۔ چناچہ فقر کے اس معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے آنحضرت نے فرمایا : کا دالفقر ان یکون کفرا ۔ کچھ تعجب نہیں کہ فقر کفر کی حد تک پہنچادے اس کے بلمقابل غنی کے معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا الغنیٰ عنی النفس کو غنا تو نفس کی بےنیازی کا نام ہے ۔ اور اسی معنی میں حکماء نے کہا ہے ۔ من عدم القناعۃ لم یفدہ المال غنی جو شخص قیامت کی دولت سے محروم ہوا سے مالداری کچھ فائدہ نہیں دیتی ۔ اللہ تعالیٰ کی طرف احتیاج جس کی طرف آنحضرت نے اشارہ کرتے ہوئے فرمایا (73) اللھم اغننی بالافتقار الیک ولا تفتونی بالاستغناء عنک ( اے اللہ مجھے اپنا محتاج بناکر غنی کر اور اپنی ذات سے بےنیاز کرکے فقیر نہ بنا ) اسی معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : رَبِّ إِنِّي لِما أَنْزَلْتَ إِلَيَّ مِنْ خَيْرٍ فَقِيرٌ [ القصص 24] کہ پروردگار میں اس کا محتاج ہوں کہ تو مجھ پر اپنی نعمت نازل فرمائے اسی معنی میں شاعر نے کہا ہے (342) ویعجبنی فقری الیک ولم یکن لیعجبنی لولا محبتک الفقر مجھے تمہارا محتاج رہنا اچھا لگتا ہے اگر تمہاری محبت نہ ہوتی تو یہ بھلا معلوم نہ ہوتا ) اور اس معنی میں افتقر فھو منتقر و فقیر استعمال ہوتا ہے اور فقر کا لفظ ) اگر چہ قیاس کے مطابق ہے لیکن لغت میں مستعمل نہیں ہوتا ۔- الفقیر - دراصل اس شخص کو کہتے ہیں جس کی ریڑھ ہڈی ٹوٹی ہوئی ہو چناچہ محاورہ ہے ۔ فقرتہ فاقرہ : یعنی مصیبت نے اس کی کمر توڑدی افقرک الصید فارمہ : یعنیشکار نے تجھے اپنی کمر پر قدرت دی ہے لہذا تیر ماریئے بعض نے کہا ہے کہ یہ افقر سے ہے جس کے معنی حفرۃ یعنی گڑھے کے ہیں اور اسی سے فقیر ہر اس گڑھے کو کہتے ہیں جس میں بارش کا پانی جمع ہوجاتا ہے ۔ فقرت اللفسیل : میں نے پودا لگانے کے لئے گڑھا کھودا شاعر نے کہا ہے ( الرجز) (343) مالیلۃ الفقیر الاالشیطان کہ فقیر میں رات بھی شیطان کی مثل ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہاں الفقیر ایک کنویں کا نام ہے۔ فقرت الخرز : میں نے منکوں میں سوراخ کیا ۔ افقرت البیعر اونٹ کی ناک چھید کر اس میں مہار ڈالنا ۔- غنی - الغِنَى يقال علی ضروب :- أحدها : عدم الحاجات،- ولیس ذلک إلا لله تعالی، وهو المذکور في قوله : إِنَّ اللَّهَ لَهُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيدُ [ الحج 64] ، - الثاني : قلّة الحاجات،- وهو المشار إليه بقوله : وَوَجَدَكَ عائِلًا فَأَغْنى[ الضحی 8] ، وذلک هو المذکور في قوله عليه السلام : «الغِنَى غِنَى النّفس»- والثالث : كثرة القنيّات بحسب ضروب الناس - کقوله : وَمَنْ كانَ غَنِيًّا فَلْيَسْتَعْفِفْ [ النساء 6] ،- ( غ ن ی ) الغنیٰ- ( تو نگری ) بےنیازی یہ کئی قسم پر ہے کلی طور پر بےنیاز ہوجانا اس قسم کی غناء سوائے اللہ کے کسی کو حاصل نہیں ہے چناچہ آیت کریمہ : ۔ إِنَّ اللَّهَ لَهُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيدُ [ الحج 64] اور بیشک خدا بےنیاز اور قابل ستائش ہے ۔ - 2 قدرے محتاج ہونا - اور یا تیسر پر قانع رہنا چناچہ آیت کریمہ : ۔ وَوَجَدَكَ عائِلًا فَأَغْنى[ الضحی 8] اور تنگ دست پا یا تو غنی کردیا ۔ میں اغنیٰ سے اس قسم کی غنا مراد ہے اور اس قسم کی غنا ( یعنی قناعت ) کے متعلق آنحضرت نے فرمایا ( 26 ) الغنٰی غنی النفس ۔ کہ غنی درحقیقت قناعت نفس کا نام اور - غنیٰ کے تیسرے معنی کثرت ذخائر کے ہیں - اور لوگوں کی ضروریات کئے لحاظ سے اس کے مختلف درجات ہیں جیسے فرمایا : ۔ وَمَنْ كانَ غَنِيًّا فَلْيَسْتَعْفِفْ [ النساء 6] جو شخص آسودہ حال ہو اس کو ایسے مال سے قطعی طور پر پرہیز رکھنا چاہئے ۔ - حمید - إذا حُمِدَ ، ومُحَمَّد : إذا کثرت خصاله المحمودة، ومحمد : إذا وجد محمودا «2» ، وقوله عزّ وجلّ :إِنَّهُ حَمِيدٌ مَجِيدٌ [هود 73] ، يصحّ أن يكون في معنی المحمود، وأن يكون في معنی الحامد،- ( ح م د ) حمید - اور جس کی تعریف کی جائے اسے محمود کہا جاتا ہے ۔ مگر محمد صرف اسی کو کہہ سکتے ہیں جو کثرت قابل ستائش خصلتیں رکھتا ہو نیز جب کوئی شخص محمود ثابت ہو تو اسے بھی محمود کہہ دیتے ہیں ۔ اور آیت کریمہ ؛ إِنَّهُ حَمِيدٌ مَجِيدٌ [هود 73] وہ سزاوار تعریف اور بزرگوار ہے ۔ میں حمید بمعنی محمود بھی ہوسکتا ہے اور حامد بھی ۔
اے لوگو تم ہی دنیا میں اللہ تعالیٰ کی رحمت و مغفرت اور اس کے رزق اور سلامتی کے اور آخرت میں اس کی جنت کے محتاج ہو اور اللہ تعالیٰ تو تمہارے مال و دولت سے بےنیاز اور خوبیوں والا ہے۔
آیت ١٥ یٰٓــاَیُّہَا النَّاسُ اَنْتُمُ الْفُقَرَآئُ اِلَی اللّٰہِج وَاللّٰہُ ہُوَ الْغَنِیُّ الْحَمِیْدُ ” اے لوگو تم سب اللہ کے محتاج ہو ‘ اور اللہ تو الغنی اور الحمید ہے۔ “- تمہاری بیشمار احتیاجات ہیں جو اللہ تعالیٰ پوری کرتا ہے ‘ لیکن وہ خود بےنیاز ہے ‘ اس کی کوئی حاجت نہیں جو تمہیں پوری کرنا ہو۔ اور وہ ستودہ صفات ہے ‘ اپنی ذات میں خود محمود ہے ‘ کوئی اس کی حمد کرے یا نہ کرے ‘ مگر حمد (شکر و تعریف) کا استحقاق اسی کو پہنچتا ہے۔
سورة فَاطِر حاشیہ نمبر :36 یعنی اس غلط فہمی میں نہ رہو کہ خدا تمہارا محتاج ہے ، تم اسے خدا نہ مانو گے تو اس کی خدائی نہ چلے گی ، اور تم اس کی بندگی و عبادت نہ کرو گے تو اس کا کوئی نقصان ہو جائے گا ۔ نہیں ، اصل حقیقت یہ ہے کہ تم اس کے محتاج ہو ۔ تمہاری زندگی ایک لمحہ کے لیے بھی قائم نہیں رہ سکتی اگر وہ تمہیں زندہ نہ رکھے اور وہ اسباب تمہارے لیے فراہم نہ کرے جن کی بدولت تم دنیا میں زندہ رہتے ہو اور کام کر سکتے ہو ۔ لہٰذا تمہیں اس کی اطاعت و عبادت اختیار کرنے کی جو تاکید کی جاتی ہے وہ اس لیے نہیں ہے کہ خدا کو اس کی احتیاج ہے بلکہ اس لیے ہے کہ اسی پر تمہاری اپنی دنیا اور آخرت کی فلاح کا انحصار ہے ۔ ایسا نہ کرو گے تو اپنا ہی سب کچھ بگاڑ لو گے ، خدا کا کچھ بھی نہ بگاڑ سکو گے ۔ سورة فَاطِر حاشیہ نمبر :37 غنی سے مراد یہ ہے کہ وہ ہر چیز کا مالک ہے ، ہر ایک سے مستغنی اور بے نیاز ہے ، کسی کی مدد کا محتاج نہیں ہے ۔ اور حمید سے مراد یہ ہے کہ وہ آپ سے آپ محمود ہے ، کوئی اس کی حمد کرے یا نہ کرے مگر حمد ( شکر اور تعریف ) کا استحقاق اسی کو پہنچتا ہے ۔ ان دونوں صفات کو ایک ساتھ اس لیے لایا گیا ہے کہ محض غنی تو وہ بھی ہو سکتا ہے جو اپنی دولت مندی سے کسی کو نفع نہ پہنچائے ۔ اس صورت میں وہ غنی تو ہوگا مگر حمید نہ ہوگا ۔ حمید وہ اسی صورت میں ہو سکتا ہے جبکہ وہ کسی سے خود تو کوئی فائدہ نہ اٹھائے مگر اپنی دولت کے خزانوں سے دوسروں کو ہر طرح کی نعمتیں عطا کرے ۔ اللہ تعالیٰ چونکہ ان دونوں صفات میں کامل ہے اس لیے فرمایا گیا ہے کہ وہ محض غنی نہیں ہے بلکہ ایسا غنی ہے جسے ہر تعریف اور شکر کا استحقاق پہنچتا ہے کیونکہ وہ تمہاری اور تمام موجودات عالم کی حاجتیں پوری کر رہا ہے ۔
6: یعنی اللہ تعالیٰ دوسروں کی عبادت اور ان کے تعریف کرنے سے بالکل بے نیاز ہے، کوئی اس کی تعریف کرے یا نہ کرے، وہ بذات خود قابل تعریف ہے۔