Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

ترمذی شریف میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ہر چیز کا دل ہوتا ہے اور قرآن شریف کا دل سورہ یاسین ہے ۔ سورہ یاسین کے پڑھنے والے کو دس قرآن ختم کرنے کا ثواب ملتا ہے ۔ یہ حدیث غریب ہے اور اس کا راوی مجہول ہے ۔ اس باب میں اور روایتیں بھی ہیں لیکن سنداً وہ بھی کچھ ایسی بہت اچھی نہیں اور حدیث میں ہے جو شخص رات کو سورہ یاسین پڑھے اسے بخش دیا جاتا ہے اور جو سورہ دخان پڑھے اسے بھی بخش دیا جاتا ہے اس کی اسناد بہت عمدہ ہے ۔ مسند کی حدیث میں ہے سورہ بقرہ قرآن کی کوہان ہے اور اس کی بلندی ہے ۔ اس کی ایک ایک آیت کے ساتھ اسی اسی فرشتے اترے ہیں ۔ اس کی ایک آیت یعنی آیت الکرسی عرش کے نیچے سے لائی گئی ہے اور اس کے ساتھ ملائی گئی ہے سورۃ یٰسین قرآن کا دل ہے اسے جو شخص نیک نیتی سے اللہ کی رضا جوئی کے لئے پڑھے اس کے گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں ۔ اسے ان لوگوں کے سامنے پڑھا کرو جو سکرات کی حالت میں ہوں ۔ بعض علماء کرام رحمتہ اللہ علیہم کا قول ہے کہ جس سخت کام کے وقت سورہ یاسین پڑھی جاتی ہے اللہ اسے آسان کر دیتا ہے ۔ مرنے والے کے سامنے جب اس کی تلاوت ہوتی ہے تو رحمت و برکت نازل ہوتی ہے اور روح آسانی سے نکلتی ہے ۔ واللہ تعالیٰ اعلم ۔ مشائخ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ ایسے وقت سورہ یاسین پڑھنے سے اللہ تعالیٰ تخفیف کر دیتا ہے اور آسانی ہو جاتی ہے ۔ بزار میں فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ میری چاہت ہے کہ میری امت کے ہر ہر فرد کو یہ سورت یاد ہو ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة یٰسٓ نام : آغاز ہی کے دو حرفوں کو اس سورے کا نام قرار دیا گیا ہے ۔ زمانۂ نزول : انداز بیان پر غور کرنے سے محسوس ہوتا ہے کہ اس سورہ کا نزول یا تو مکہ کے دور متوسط کا آخری زمانہ ہے ، یا پھر یہ زمانہ قیام مکہ کے آخری دور کی سورتوں میں سے ہے ۔ موضوع و مضمون : کلام کا مدعا کفار قریش کو نبوت محمدی پر ایمان نہ لانے اور ظلم و استہزاء سے اس کا مقابلہ کرنے کے انجام سے ڈرانا ہے ۔ اس میں انذار کا پہلو غالب اور نمایاں ہے مگر بار بار اِنذار کے ساتھ استدلال سے تفہیم بھی کی گئی ہے ۔ استدلال تین امور پر کیا گیا ہے : توحید پر آثار کائنات اور عقل عام سے ، آخرت پر آثار کائنات ، عقل عام اور خود انسان کے اپنے وجود سے ، اور رسالت محمدی کی صداقت پر اس بات سے کہ آپ تبلیغ رسالت میں یہ ساری مشقت محض بے غرضانہ برداشت کر رہے تھے ، اور اس امر سے کہ جن باتوں کی طرف آپ لوگوں کو دعوت دے رہے تھے وہ سراسر معقول تھیں اور انہیں قبول کرنے میں لوگوں کا اپنا بھلا تھا ۔ اس استدلال کی قوت پر زجر و توبیخ اور ملامت و تنبیہ کے مضامین نہایت زور دار طریقہ سے بار بار ارشاد ہوئے ہیں تاکہ دلوں کے قفل ٹوٹیں اور جن کے اندر قبول حق کی تھوڑی سی صلاحیت بھی ہو وہ متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکیں ۔ امام احمد ، ابوداؤد ، نسائی ، ابن ماجہ اور طبرانی وغیرہ نے مَعقِل بن یَسار سے روایت کیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یٰس قلب القرآن ، یعنی یہ سورہ قرآن کا دل ہے ۔ یہ اسی طرح کی تشبیہ ہے جس طرح سورہ فاتحہ کو ام القرآن فرمایا گیا ہے ۔ فاتحہ کو ام القرآن قرار دینے کی وجہ یہ ہے کہ اس میں قرآن مجید کی پوری تعلیم کا خلاصہ آگیا ہے ۔ اور یٰس کو قرآن کا دھڑکتا ہوا دل اس لیے فرمایا گیا ہے کہ وہ قرآن کی دعوت کو نہایت پر زور طریقے سے پیش کرتی ہے جس سے جمود ٹوٹتا اور روح میں حرکت پیدا ہوتی ہے ۔ انہی حضرت مَعقِل بن یسار سے امام احمد ، ابو داؤد اور ابن ماجہ نے یہ روایت بھی نقل کی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اقرءوا سُورۃ یٰس علیٰ موتاکم ۔ اپنے مرنے والوں پر سورہ یٰس پڑھا کرو ۔ اس کی مصلحت یہ ہے کہ مرتے وقت مسلمان کے ذہن میں نہ صرف یہ کہ تمام اسلامی عقائد تازہ ہو جائیں ، بلکہ خصوصیت کے ساتھ اس کے سامنے عالم آخرت کا پورا نقشہ بھی آجائے اور وہ جان لے کہ حیات دنیا کی منزل سے گزر کر اب آگے کن منزلوں سے اس کو سابقہ پیش آنے والا ہے ۔ اس مصلحت کی تکمیل کے لیے مناسب یہ معلوم ہوتا ہے کہ غیر عربی داں آدمی کو سورہ یٰس سنانے کے ساتھ اس کا ترجمہ بھی سنا دیا جائے تاکہ تذکیر کا حق پوری طرح ادا ہو جائے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

تعارفسورۃ یٰسٓ اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کاملہ اور حکمت بالغہ کی وہ نشانیاں بیان فرمائی ہیں جونہ صرف پوری کائنات میں بلکہ خود انسان کے اپنے وجود میں پائی جاتی ہیں، اللہ تعالیٰ کی قدرت کے ان مظاہر سے ایک طرف یہ بات واضح ہوتی ہے کہ جو ذات اتنی قدرت اور حکمت کی مالک ہے اس کو اپنی خدائی کا نظام چلانے کے لئے نہ کسی شریک کی ضرورت ہے نہ کسی مددگار کی، اس لئے وہ اور صرف وہ عبادت کے لائق ہے، اور دوسری طرف قدرت کی ان نشانیوں سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ جس ذات نے یہ کائنات اور اس کا محیر العقول نظام پیدا فرمایا ہے، اس کے لئے یہ بات کچھ بھی مشکل نہیں ہے کہ وہ انسانوں کے مرنے کے بعد انہیں دوسری زندگی عطا فرمائے، اس طرح قدرت کی ان نشانیوں سے توحید اور آخرت کا عقیدہ واضح طور پر ثابت ہوجاتا ہے، حضور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لوگوں کو یہی دعوت دینے کے لئے تشریف لائے ہیں کہ وہ ان نشانیوں پر غور کرکے اپنا عقیدہ اور عمل درست کریں، اس کے باوجود اگر کچھ لوگ اس دعوت کو قبول نہیں کررہے ہیں تو وہ اپنا ہی نقصان کررہے ہیں ؛ کیونکہ اس کے نتیجے میں وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے عذاب کے مستحق بن رہے ہیں، اسی سلسلے میں آیات نمبر ١٣ سے ٢٩ تک ایک ایسی قوم کا واقعہ ذکر فرمایا گیا ہے جس نے حق کی دعوت کو قبول نہ کیا ؛ بلکہ حق کے داعیوں کے ساتھ ظلم وبربریت کا معاملہ کیا جس کے نتیجے میں حق کے داعی کا انجام تو بہترین ہوا لیکن حق کے یہ منکر اللہ تعالیٰ کے عذاب کی پکڑ میں آگئے ؛ چونکہ اس سورت میں اسلام کے بنیادی عقائد کو بڑے فصیح وبلیغ اور جامع انداز میں بیان فرمایا گیا ہے، اس لئے حضور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے منقول ہے کہ آپ نے اس سورت کو قرآن کا دل قرار دیا ہے۔