صراط مستقیم کی وضاحت ۔ حروف مقطعات جو سورتوں کے شروع میں ہوتے ہیں جیسے یہاں یاسین ہے ان کا پورا بیان ہم سورہ بقرہ کی تفسیر کے شروع میں کر چکے ہیں لہذا اب یہاں اسے دہرانے کی ضرورت نہیں ۔ بعض لوگوں نے کہا کہ یٰسین سے مراد اے انسان ہے ۔ بعض کہتے ہیں حبشی زبان میں اے انسان کے معنی میں یہ لفظ ہے ۔ کوئی کہتا ہے یہ اللہ کا نام ہے ، پھر فرماتا ہے قسم ہے محکم اور مضبوط قرآن کی جس کے آس پاس بھی باطل پھٹک نہیں سکتا ، کہ بالیقین اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم علیہ وسلم آپ اللہ کے سچے رسول ہیں ، سچے اچھے مضبوط اور عمدہ سیدھے اور صاف دین پر آپ ہیں ، یہ راہ اللہ رحمٰن و رحیم صراط مستقیم کی ہے ، اسی کا اترا ہوا یہ دین ہے جو عزت والا اور مومنوں پر خاص مہربانی کرنے والا ہے ۔ جیسے فرمان ہے ( وَاِنَّكَ لَـــتَهْدِيْٓ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيْمٍ 52ۙ ) 42- الشورى:52 ) ، تو یقیناً راہ راست کی رہبری کرتا ہے جو اس اللہ کی سیدھی راہ ہے جو آسمان و زمین کا مالک ہے اور جس کی طرف تمام امور کا انجام ہے ، تاکہ تو عربوں کو ڈرا دے جن کے بزرگ بھی آگاہی سے محروم تھے جو محض غافل ہیں ۔ ان کا تنہا ذکر کرنا اس لئے نہیں کہ دوسرے اس تنبیہہ سے الگ ہیں ۔ جیسے کہ بعض افراد کے ذکر سے عام کی نفی نہیں ہوتی ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت عام تھی ساری دنیا کی طرف تھی اس کے دلائل وضاحت و تفصیل سے آیت ( قُلْ يٰٓاَيُّھَا النَّاسُ اِنِّىْ رَسُوْلُ اللّٰهِ اِلَيْكُمْ جَمِيْعَۨا ١٥٨ ) 7- الاعراف:158 ) کی تفسیر میں بیان ہو چکے ہیں ، اکثر لوگوں پر اللہ کے عذابوں کا قول ثابت ہو چکا ہے ۔ انہیں تو ایمان نصیب نہیں ہونے کا وہ تو تجھے جھٹلاتے ہی رہیں گے ۔
2۔ 1 یا قرآن محکم کی، جو نظم و معنی کے لحاظ سے محکم یعنی پختہ ہے۔ واؤ قسم کے لئے ہے۔ آگے جواب قسم ہے۔
[ ٣] قرآن کا نزول ہی آپ کی رسالت کی سب سے بڑی دلیل ہے :۔ واؤ قسمیہ ہے اور قسم شہادت کے قائم مقام ہوا کرتی ہے۔ لعان کی صورت میں جو قسمیں اٹھائی جاتی ہیں تو وہ شہادتوں ہی کے قائم مقام ہوتی ہیں۔ ان تین مختصر سی آیات کا مطلب یہ ہے کہ یہ حکمتوں سے لبریز قرآن حکیم اس بات پر قوی شہادت ہے کہ (١) آپ فی الواقع اللہ کے رسول ہیں اور (٢) یہ کہ آپ سیدھی راہ پر گامزن ہیں اور وہ شہادت یہ ہے کہ آپ امی تھے۔ کسی استاد کے سامنے زانوئے تلمذ تہ نہیں کیا تھا۔ لکھ پڑھ بھی نہیں سکتے تھے۔ نبوت سے پہلے آپ نے کبھی کوئی ایسا کلام یا اس سے ملتا جلتا کلام بھی پیش نہیں کیا تھا جس سے یہ شبہ ہوسکے کہ شاید یہ ملکہ اس کی فطرت میں موجود تھا۔ اور وہی ملکہ ترقی کرتا رہا حتیٰ کہ آپ ایسا کلام پیش کرنے پر قادر ہوگئے اور یہ سب باتیں کفار مکہ ذاتی طور پر جانتے تھے پھر چالیس سال کی عمر میں آپ کی زبان سے یک لخت ایسے کام کا جاری ہونا جس نے تمام فصحاء و بلغائے عرب کو اپنے مقابلہ میں گنگ بنادیا تھا اور بار بار کے چیلنج کے باوجود ایسا کلام پیش کرنے سے عاجز آگئے تھے تو اس سے صاف واضح تھا کہ یہ کلام آپ کا کلام نہیں ہوسکتا بلکہ کسی ایسی ہستی کا ہی ہوسکتا ہے جو مافوق الفطرت ہو۔ حکیم ہو اور خبیر ہو۔ گویا ایسے کلام کی تنزیل ہی بیک وقت کئی ایک امور پر قوی شہادت مہیا کرتی تھا۔ مثلاً یہ کہ - (١) اللہ تعالیٰ کی ہستی موجود ہے اور یہ کلام اسی کا ہی ہوسکتا ہے۔ (٢) یہ کہ آپ بلاشبہ اس اللہ کے رسول ہیں اور (٣) ان دونوں باتوں سے لازمی نتیجہ یہ بھی نکلتا تھا کہ جو طرز زندگی آپ پیش فرما رہے ہیں۔ وہی انسانیت کے لئے سیدھی راہ ہوسکتی ہے۔ اس میں نہ افراط ہے اور نہ تفریط۔ (٤) یہ کہ قریش مکہ کے ہر قسم کے شکوک و شبہات لغو اور باطل ہیں۔ جیسے کبھی وہ کہتے تھے کہ اس نے یہ خود ہی گھڑ لیا ہے۔ کبھی کہتے تھے کہ اللہ پر جھوٹ باندھ رہا ہے۔ کبھی کہتے تھے کہ اسے کوئی دوسرا آدمی سکھا جاتا ہے وغیرہ وغیرہ۔
وَالْقُرْاٰنِ الْحَكِيْمِ : قسم سے مقصود اس بات کا یقین دلانا ہوتا ہے جس کے لیے قسم اٹھائی جائے اور قسم اس بات کی دلیل ہوتی ہے جو اس قسم کے بعد اس کے جواب کے طور پر آرہی ہوتی ہے، پھر بعض اوقات جس کی قسم اٹھائی جائے اس کی عظمت ہی کو جواب قسم کی شہادت کے طور پر پیش کیا جاتا ہے، مثلاً اللہ کی قسم، اور بعض اوقات قسم کا مفہوم جواب قسم کی دلیل ہوتا ہے اور اس کے سچے ہونے کی شہادت دے رہا ہوتا ہے۔ ” الْحَكِيْمِ “ کا ایک معنی یہ ہے کہ یہ قرآن دانائی اور حکمت سے بھرپور ہے، اس کی کوئی بات نہ خطا ہے نہ عقل کے خلاف اور نہ کم تر درجہ کی، بلکہ ہر بات ہی کمال عقل و دانش پر مبنی ہے اور ایک معنی یہ ہے کہ یہ قرآن انتہائی محکم اور مضبوط ہے، اس کی آیات میں کوئی باہمی اختلاف نہیں۔- یہاں اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مخاطب کرتے ہوئے قرآن حکیم کی قسم کھا کر تین باتیں فرمائیں، پہلی یہ کہ یقیناً تو رسولوں میں سے ہے، جنھیں ہماری طرف سے بھیجا گیا ہے، دوسری یہ کہ یقیناً تو سیدھے راستے پر ہے اور تیسری یہ کہ یہ عزیز و رحیم کا نازل کردہ ہے۔ قسم اور جواب قسم میں مناسبت بالکل واضح ہے کہ آپ کی رسالت اور دوسری دونوں باتوں کے لیے اور کوئی دلیل نہ بھی ہو تو یہ قرآن ہی ان کی دلیل کے لیے کافی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ حکمت سے بھرپور اور ہر لحاظ سے محکم یہ قرآن اس بات کا شاہد ہے کہ یقیناً آپ اللہ کے رسول ہیں، بالکل سیدھے راستے پر ہیں اور یہ قرآن اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کیا ہوا ہے، جو عزیز بھی ہے اور رحیم بھی۔ کیونکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اُمّی تھے، نہ لکھنا جانتے تھے نہ پڑھنا، نہ آپ نے کسی کی شاگردی اختیار کی تھی، نہ آپ نے نبوت سے پہلے کبھی کوئی ایسا یا اس سے ملتا جلتا کلام پیش کیا، جس سے شبہ ہو کہ کلام کا یہ ملکہ ترقی کرتا کرتا اس درجے تک پہنچ گیا۔ یہ سب باتیں کفار مکہ اچھی طرح جانتے تھے، کیونکہ وہ ذاتی طور پر آپ کو چالیس برس سے جانتے تھے، پھر چالیس برس کے بعد آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان پر یک لخت ایسے کلام کا جاری ہوجانا، جس نے عرب کے تمام فصیح و بلیغ لوگوں کو مقابلے سے عاجز کردیا اور گونگا بنادیا اور بار بار کے چیلنج کے باوجود وہ ایسا کلام پیش کرنے سے عاجز آگئے۔ اس سے یہ تین باتیں ثابت ہو رہی ہیں، ایک یہ کہ یہ عظیم الشّان حکیمانہ کلام آپ کا کلام نہیں بلکہ کسی اور کا کلام ہے جس نے آپ کو بھیجا ہے، دوسری یہ کہ وہ بھیجنے والا کوئی مخلوق نہیں بلکہ خود خالق کائنات ہے، جو عزیز و رحیم ہے، کیونکہ اگر یہ کسی اور کا کلام ہوتا تو وہ اس جیسا مزید بھی بنا کر پیش کردیتا، جب کہ پوری کائنات مل کر بھی اس جیسی ایک سورت پیش کرنے سے عاجز ہے اور تیسری یہ کہ جب آپ اللہ کی طرف سے بھیجے ہوئے ہیں تو یقیناً آپ جس راہ پر چل رہے ہیں وہ بالکل سیدھا راستہ ہے۔ اس میں قرآن کی عظمت و رفعت کا اظہار بھی ہے کہ اس کی قسم اٹھائی جا رہی ہے۔
ٓیت ١ وَالْقُرْاٰنِ الْحَکِیْمِ ” قسم ہے قرآن حکیم کی “- عربی زبان میں ” قسم “ سے گواہی مراد لی جاتی ہے۔ چناچہ اس آیت کا مفہوم یوں ہوگا کہ یہ حکمت بھرا قرآن گواہ ہے۔ اس قسم کا مقسم علیہ کیا ہے ؟ یعنی یہ قسم کس چیز پر کھائی جا رہی ہے ؟ اور یہ قرآن کس عظیم حقیقت پر گواہ ہے ؟ اس کا ذکر اگلی آیت میں ہے :
سورة یٰسٓ حاشیہ نمبر :1 ابن عباس ، عکرمہ ، ضحاک ، حسن بصری اور سفیان بن عُیَیْنہ کا قول ہے کہ اس کے معنی ہیں اے انسان یا ‘’ اے شخص ۔ اور بعض مفسرین نے اسے یا سید‘ ‘کا مخفف بھی قرار دیا ہے ۔ اس تاویل کی رو سے ان الفاظ کے مخاطب نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ۔