حضرت الیاس علیہ السلام ۔ بعض کہتے ہیں الیاس نام تھا حضرت ادریس علیہ السلام کا ۔ وہب کہتے ہیں ان کا سلسلہ نسب یوں ہے الیاس بن نسی بن فحاص بن عبراز بن ہارون بن عمران علیہ السلام ۔ خرقیل علیہ السلام کے بعد یہ نبی اسرائیل میں بھیجے گئے تھے وہ لوگ بعل نامی بت کے پجاری بن گئے تھے ۔ انہوں نے دعوت اسلام دی ان کے بادشاہ نے ان سے قبول بھی کرلی لیکن پھر مرتد ہو گیا اور لوگ بھی سرکشی پر تلے رہے اور ایمان سے انکار کر دیا آپ نے ان پر بددعا کی تین سال تک بارش نہ برسی ۔ اب تو یہ سب تنگ آ گئے اور قسمیں کھا کھا کر اقرار کیا کہ آپ دعا کیجئے بارش برستے ہی ہم سب آپ کی نبوت پر ایمان لائیں گے ۔ چنانچہ آپ کی دعا سے مینہ برسا ۔ لیکن یہ کفار اپنے وعدے سے ٹل گئے اور اپنے کفر پر اڑ گئے ۔ آپ نے یہ حالت دیکھ کر اللہ سے دعا کی کہ اللہ انہیں اپنی طرف لے لے ۔ ان کے ہاتھوں تلے حضرت یسع بن اخطوب پلے تھے ۔ حضرت الیاس کی اس دعا کے بعد انہیں حکم ملا کہ وہ ایک جگہ جائیں اور وہاں انہیں جو سواری ملے اس پر سوار ہو جائیں وہاں آپ گئے ایک نوری گھوڑا دکھائی دیا جس پر سوار ہوگئے اللہ نے انہیں بھی نورانی کر دیا اور اپنے پروں سے فرشتوں کے ساتھ اڑنے لگے اور ایک انسانی فرشتہ زمینی اور آسمانی بن گئے ۔ اس کی صحت کا علم اللہ ہی کو ہے ۔ ہے یہ بات اہل کتاب کی روایت سے حضرت الیاس نے اپنی قوم سے فرمایا کہ کیا تم اللہ سے ڈرتے نہیں ہو؟ کہ اس کے سوا دوسروں کی عبادت کرتے ہو؟ اہل یمن اور قبیلہ ازوشنوہ رب کو بعل کہتے تھے ۔ بعل نامی جس بت کی یہ پوجا کرتے تھے وہ ایک عورت تھی ۔ ان کے شہر کا نام بعلبک تھا تو اللہ کے نبی حضرت الیاس علیہ السلام فرماتے ہیں کہ تعجب ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر جو خالق کل ہے اور بہترین خلاق ہے ایک بت کو پوج رہے ہو؟ اور اس کو پکارتے رہتے ہو؟ اللہ تعالیٰ تم سب کا اور تم سے اگلے تمہارے باپ دادوں کا رب ہے وہی مستحق عبادت ہے اس کے سوا کسی قسم کی عبادت کسی کے لائق نہیں ۔ لیکن ان لوگوں نے اللہ کے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس صاف اور خیر خواہانہ نصیحت کو نہ مانا تو اللہ نے بھی انہیں عذاب پر حاضر کر دیا ، کہ قیامت کے دن ان سے زبردست باز پرس اور ان پر سخت عذاب ہوں گے ۔ ہاں ان میں سے جو توحید پر قائم تھے وہ بچ رہیں گے ۔ ہم نے حضرت الیاس علیہ السلام کی ثناء جمیل اور ذکر خیر پچھلے لوگوں میں بھی باقی ہی رکھا کہ ہر مسلم کی زبان سے ان پر درود و سلام بھیجا جاتا ہے ۔ الیاس میں دوسری لغت الیاسین ہے جیسے اسماعیل میں اسماعین بنو اسد میں اسی طرح یہ لغت ہے ۔ ایک تمیمی کے شعر میں یہ لغت اس طرح لایا گیا ہے ۔ میکائیل کو میکال اور میکائین بھی کہا جاتا ہے ۔ ابراہیم کو ابراہام ، اسرائیل کو سزائیں ، طور سینا کو طور سے سینین ۔ غرض یہ لغت عرب میں مشہور و رائج ہے ۔ ابن مسعود کی قرأت میں سلام علی ال یاسین ہے ۔ بعض کہتے ہیں اس سے مراد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ۔ ہم اسی طرح نیک کاروں کو نیک بدلہ دیتے ہیں ۔ یقیناً وہ ہمارے مومن بندوں میں سے تھے ۔ اس جملہ کی تفسیر گذر چکی ہے واللہ تعالیٰ اعلم ۔
123۔ 1 یہ حضرت ہارون (علیہ السلام) کی اولاد میں سے ایک اسرائیلی نبی تھے۔ یہ جس علاقے میں بھیجے گئے تھے اس کا نام بعلبک تھا، بعض کہتے ہیں اس جگہ کا نام سامرہ ہے جو فلسطین کا مغربی وسطی علاقہ ہے۔ یہاں کے لوگ بعل نامی بت کے پجاری تھے (بعض کہتے ہیں یہ دیوی کا نام تھا
وَاِنَّ اِلْيَاسَ لَمِنَ الْمُرْسَلِيْنَ : ” اَلَا تَتَّقُوْنَ “ کی تفسیر کے لیے دیکھیے سورة شعراء کی آیت (١٠٦) ۔
خلاصہ تفسیر - اور الیاس (علیہ السلام) بھی (بنی اسرائیل کے) پیغمبروں میں سے تھے ( ان کا اس وقت کا واقعہ ذکر کیجئے) جبکہ انہوں نے اپنی قوم (بنی اسرائیل) سے (کہ وہ بت پرستی میں مبتلا تھی) فرمایا کہ کیا تم خدا سے نہیں ڈرتے ؟ کیا تم بعل کو (جو ایک بت کا نام تھا) پوجتے ہو اور اس (کی عبادت) کو چھوڑ بیٹھے ہو جو سب سے بڑھ کر بنانے والا ہے (کیونکہ اور لوگ تو صرف بعض اشیاء کی تحلیل و ترکیب پر قدرت رکھتے ہیں اور وہ بھی عارضی، اور وہ تمام اشیاء کو عدم سے وجود میں لانے پر قدرت ذاتی رکھتا ہے، پھر کوئی دوسرا جان نہیں ڈال سکتا اور وہ جان ڈالتا ہے اور وہ) معبود برحق ہے (اور) تمہارا بھی رب ہے اور تمہارے اگلے باپ دادوں کا بھی رب ہے، سو ان لوگوں نے (اس توحید کے دعوے میں) ان کو جھٹلایا، سو (اس جھٹلانے کی شامت میں) وہ لوگ (عذاب آخرت میں) پکڑے جاویں گے، مگر جو اللہ کے خاص بندے (یعنی ایمان والے) تھے (وہ ثواب واجر میں ہوں گے) اور ہم نے الیاس کے لئے پیچھے آنے والے لوگوں میں (مدتہائے دراز کے لئے) یہ بات رہنے دی کہ الیاسین پر (کہ یہ بھی الیاس (علیہ السلام) کا نام ہے) سلام ہو، ہم مخلصین کو ایسا ہی صلہ دیا کرتے ہیں (کہ ان کو ثنا اور دعا کا مستحق بناتے ہیں) بیشک وہ ہمارے (کامل) ایمان دار بندوں میں سے تھے۔- معارف ومسائل - حضرت الیاس (علیہ السلام) :- ان آیات میں چوتھا واقعہ الیاس (علیہ السلام) کا بیان کیا گیا ہے۔ آیات کی تفسیر سے قبل حضرت الیاس (علیہ السلام) سے متعلق چند معلومات درج ذیل ہیں :۔- قرآن کریم میں حضرت الیاس (علیہ السلام) کا ذکر صرف دو مقامات پر آیا ہے، ایک سورة انعام میں اور دوسرے سورة صافات کی انہی آیتوں میں۔ سورة انعام میں تو صرف انبیاء (علیہم السلام) کی فہرست میں آپ کا اسم گرامی شمار کردیا گیا ہے اور کوئی واقعہ مذکور نہیں، البتہ یہاں نہایت اختصار کے ساتھ آپ کی دعوت و تبلیغ کا واقعہ بیان فرمایا گیا ہے۔- چونکہ قرآن کریم میں حضرت الیاس (علیہ السلام) کے حالات تفصیل سے مذکور ہیں، اور نہ مستند احادیث میں آپ کے حالات آئے ہیں، اس لئے آپ کے بارے میں کتب تفسیر کے اندر مختلف اقوال اور متفرق روایات ملتی ہیں، جن میں سے بیشتر بنی اسرائیل کی روایات سے ماخوذ ہیں۔- مفسرین میں سے ایک مختصر گروہ کا کہنا یہ ہے کہ ” الیاس “ حضرت ادریس (علیہ السلام) ہی کا دوسرا نام ہے، اور ان دونوں شخصیتوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔ اور بعض حضرات نے یہ بھی کہا ہے کہ حضرت الیاس (علیہ السلام) اور حضرت خضر (علیہ السلام) میں کوئی فرق نہیں ہے (درمنثور ص ٥٨٢، ٦٨٢ ج ٥) لیکن محققین نے ان اقوال کی تردید کی ہے۔ قرآن کریم نے بھی حضرت ادریس اور حضرت الیاس (علیہما السلام) کا اس طرح جدا جدا تذکرہ فرمایا ہے، کہ دونوں کو ایک قرار دینے کی کوئی گنجائش نظر نہیں آتی، اس لئے حافظ ابن کثیر نے اپنی تاریخ میں صحیح اسی کو قرار دیا ہے کہ دونوں الگ الگ رسول ہیں۔ (الہدایہ والنہایہ، ص ٩٣٣ ج ١)- بعثت کا زمانہ اور مقام :- قرآن و حدیث سے یہ بھی پتہ نہیں چلتا کہ حضرت الیاس (علیہ السلام) کب اور کہاں مبعوث ہوئے تھے ؟ لیکن تاریخی اور اسرائیلی روایات اس بات پر تقریباً متفق ہیں کہ آپ حضرت حزقیل (علیہ السلام) کے بعد اور حضرت الیسع (علیہ السلام) سے پہلے بنی اسرائیل کی طرف مبعوث ہوئے تھے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے جانشینوں کی بدکاری کی وجہ سے بنی اسرائیل کی سلطنت دو حصوں میں بٹ گئی تھی، ایک حصہ یہوداہ یا یہودیہ کہلاتا تھا، اور اس کا مرکز بیت المقدس تھا، اور دوسرا حصہ اسرائیل کہلاتا تھا اور اس کا پایہ تخت سامرہ (موجودہ نابلس) تھا۔ حضرت الیاس (علیہ السلام) اردن کے علاقہ جلعاد میں پیدا ہوئے تھے، اس وقت اسرائیل کے ملک میں جو بادشاہ حکمران تھا اس کا نام بائبل میں اخی اب اور عربی تواریخ وتفاسیر میں اجب یا اخب مذکور ہے۔ اس کی بیوی ایزبل، بعل نامی ایک بت کی پرستار تھی، اور اسی نے اسرائیل میں بعل کے نام پر ایک بڑی قربان گاہ تعمیر کر کے تمام بنو اسرائیل کو بت پرستی کے راستہ پر لگا دیا تھا۔ حضرت الیاس (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکم ہوا کہ وہ اس خطے میں جا کر توحید کی تعلیم دیں اور اسرائیلیوں کو بت پرستی سے روکیں (ملاحظہ ہو تفسیر ابن جریر ص ٣٥، ج ٣٢ وابن کثیر ص ٩١ ج ٤ و تفسیر مظری ص ٤٣١ ج ٨ اور بائبل کی کتاب سلاطین اول ٦١۔ ٩٢ تا ٣٣، ٧١: ١)- قوم کے ساتھ کشمکش :- دوسرے انبیاء (علیہم السلام) کی طرح حضرت الیاس (علیہ السلام) کو بھی اپنی قوم کے ساتھ شدید کشمکش سے دوچار ہونا پڑا۔ قرآن کریم چونکہ کوئی تاریخ کی کتاب نہیں ہے، اس لئے اس کش مکش کا مفصل حال بیان کرنے کے بجائے صرف اتنی بات بیان فرمائی ہے جو عبرت و موعظت حاصل کرنے کے لئے ضروری تھی، یعنی یہ کہ ان کی قوم نے ان کو جھٹلایا اور چند مخلص بندوں کے سوا کسی نے حضرت الیاس (علیہ السلام) کی بات نہ مانی، اس لئے آخرت میں انہیں ہولناک انجام سے دوچار ہونا پڑے گا۔- بعض مفسرین نے یہاں اس کشمکش کے مفصل حالات بیان فرمائے ہیں، مروجہ تفاسیر میں حضرت الیاس (علیہ السلام) کا سب سے مبسوط تذکرہ تفسیر مظہری میں علامہ بغوی کے حوالہ سے کیا گیا ہے، اس میں جو واقعات مذکور ہیں وہ تقریباً تمام تر بائبل سے ماخوذ ہیں، دوسری تفسیروں میں بھی ان واقعات کے بعض اجزاء حضرت وہب بن منبہ اور کعب الاحبار وغیرہ کے حوالہ سے بیان ہوئے ہیں جو اکثر اسرائیلی روایات نقل کرتے ہیں۔- ان تمام روایات کے خلاصہ کے طور پر جو قدر مشترک نکلتی ہے وہ یہ ہے کہ حضرت الیاس (علیہ السلام) نے اسرائیل کے بادشاہ اخی اب اور اس کی رعایا کو بعل نامی بت کی پرستش سے روک کر توحید کی طرف دعوت دی، مگر دو ایک حق پسند افراد کے سوا کسی نے آپ کی بات نہیں مانی، بلکہ آپ کو طرح طرح سے پریشان کرنے کی کوشش کی، یہاں تک کہ اخی اب اور اس کی بیوی ایزبل نے آپ کو شہید کرنے کے منصوبے بنائے۔ آپ نے ایک دور افتادہ غار میں پناہ لی، اور عرصہ دراز تک وہیں مقیم رہے، اس کے بعد آپ نے دعا فرمائی، کہ اسرائیل کے لوگ قحط سالی کا شکار ہوجائیں تاکہ اس قحط سالی کو دور کرنے کے لئے آپ ان کو معجزات دکھائیں تو شاید وہ ایمان لے آئیں، چناچہ انہیں شدید قحط میں مبتلا کردیا گیا۔- اس کے بعد حضرت الیاس (علیہ السلام) اللہ تعالیٰ کے حکم سے اخی اب سے ملے، اور اس سے کہا کہ یہ عذاب اللہ کی نافرمانی کی وجہ سے ہے، اور اگر تم اب بھی باز آجاؤ تو یہ عذاب دور ہوسکتا ہے۔ میری سچائی کے امتحان کا بھی یہ بہترین موقع ہے، تم کہتے ہو کہ اسرائیل میں تمہارے معبود بعل کے ساڑھے چار سو نبی ہیں، تم ایک دن ان سب کو میرے سامنے جمع کرلو، وہ بعل کے نام پر قربانی پیش کریں گے اور میں اللہ کے نام پر قربانی کروں گا، جس کی قربانی کو آسمانی آگ بھسم کر دے گی اس کا دین سچا ہوگا، سب نے اس تجویز کو خوشی سے مان لیا۔- چنانچہ کوہ کرمل کے مقام پر یہ اجتماع ہوا۔ بعل کے جھوٹے نبیوں نے اپنی قربانی پیش کی، اور صبح سے دوپہر تک بعل سے التجائیں کرتے رہے، مگر کوئی جواب نہ آیا۔ اس کے بعد حضرت الیاس (علیہ السلام) نے اپنی قربانی پیش کی، اس پر آسمان سے آگ نازل ہوئی اور اس نے حضرت الیاس (علیہ السلام) کی قربانی کو بھسم کردیا، یہ دیکھ کر بہت سے لوگ سجدے میں گر گئے، اور ان پر حق واضح ہوگیا لیکن بعل کے جھوٹے نبی اب بھی نہ مانے، اس لئے حضرت الیاس (علیہ السلام) نے ان کو وادی قیشون میں قتل کرا دیا۔- اس واقعہ کے بعد موسلا دھار بارش بھی ہوئی، اور پورا خطہ پانی سے نہال ہوگیا، لیکن اخی اب کی بیوی ایزبل کی اب بھی آنکھ نہ کھلی، وہ حضرت الیاس (علیہ السلام) پر ایمان لانے کے بجائے الٹی ان کی دشمن ہوگئی، اور اس نے آپ کو قتل کرانے کی تیاریاں شروع کردیں۔ حضرت الیاس (علیہ السلام) یہ سن کر پھر سامریہ سے روپوش ہوگئے اور کچھ عرصہ کے بعد بنی اسرائیل کے دوسرے ملک یہودیہ میں تبلیغ شروع کردی، کیونکہ رفتہ رفتہ بعل پرستی کی وباء وہاں بھی پھیل چکی تھی۔ وہاں کے بادشاہ یہورام نے بھی آپ کی بات نہ سنی، یہاں تک کہ وہ حضرت الیاس (علیہ السلام) کی پیشنگوئی کے متعلق تباہ و برباد ہوا چند سال بعد آپ دوبارہ اسرائیل تشریف لائے اور یہاں پھر اخی اب اور اس کے بیٹے اخزیاہ کو راہ راست پر لانے کی کوشش کی، مگر وہ بدستور اپنی بداعمالیوں میں مبتلا رہے، یہاں تک کہ انہیں بیرونی حملوں اور مہلک بیماریوں کا شکار بنادیا گیا، اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو واپس بلا لیا۔- کیا حضرت الیاس (علیہ السلام) حیات ہیں ؟- مورخین اور مفسرین کے درمیان یہاں یہ مسئلہ بھی زیر بحث آیا ہے کہ حضرت الیاس (علیہ السلام) زندہ ہیں یا وفات پاچکے ؟ تفسیر مظہری میں علامہ بغوی کے حوالہ سے جو طویل روایت بیان کی گئی ہے اس میں یہ بھی مذکور ہے کہ حضرت الیاس (علیہ السلام) کو ایک آتشیں گھوڑے پر سوار کر کے آسمان کی طرف اٹھا لیا گیا تھا اور وہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی طرح زندہ ہیں (مظہری ص ١٤١ ج ٨) علامہ سیوطی نے بھی ابن عساکر اور حاکم وغیرہ کے حوالے سے کئی روایات ایسی نقل کی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ زندہ ہیں۔ کعب الاحبار سے منقول ہے کہ چار انبیاء (علیہم السلام) اب تک زندہ ہیں، دو زمین میں، حضرت خضر اور حضرت الیاس اور دو آسمان میں حضرت عیسیٰ اور حضرت ادریس (علیہم السلام) (در منثور، ص ٥٨٢، ٦٨٢، ج ٥) یہاں تک کہ بعض حضرات نے یہ بھی کہا ہے کہ حضرت خضر اور حضرت الیاس (علیہما السلام) ہر سال رمضان کے مہینہ میں بیت المقدس میں جمع ہوتے ہیں، اور روزے رکھتے ہیں۔ (تفسیر قرطبی، ص ٦١١ ج ٥١)- لیکن حافظ ابن کثیر جیسے محقق علماء نے ان روایات کو صحیح قرار نہیں دیا، وہ ان جیسی روایتوں کے بارے میں لکھتے ہیں :۔- ” یہ ان اسرائیلی روایتوں میں سے ہے جن کی نہ تصدیق کی جاتی ہے نہ تکذیب، بلکہ ظاہر یہ ہے کہ ان کی صحت بعید ہے “- نیز فرماتے ہیں :۔- ” ابن عساکر نے کئی روایتیں ان لوگوں کی نقل کی ہیں جو حضرت الیاس (علیہ السلام) سے ملے ہیں، لیکن ان میں سے کوئی بھی قابل اطمینان نہیں، یا تو اس لئے کہ ان کی سند ضعیف ہے یا اس لئے کہ جن اشخاص کی طرف یہ واقعات منسوب کئے گئے ہیں وہ مجہول ہیں “ (البدایة والنہایة، ص ٩٣٢ ج ١)- ظاہر یہی ہے کہ حضرت الیاس (علیہ السلام) کے رفع آسمانی کا نظریہ اسرائیلی روایات ہی سے ماخوذ ہے، بائبل میں لکھا ہے کہ :۔- ” اور وہ آگے چلتے اور باتیں کرتے جاتے تھے کہ دیکھو ایک آتشی رتھ اور آتشی گھوڑوں نے ان دونوں کو جدا کردیا اور ایلیاہ (واضح رہے کہ بائبل میں حضرت الیاس (علیہ السلام) کا نام ایلیاہ مذکور ہے) بگولے میں آسمان پر چلا گیا۔ “ (٢ سلاطین ٢: ١١)- اسی وجہ سے یہودیوں میں یہ عقیدہ پیدا ہوا تھا کہ حضرت الیاس (علیہ السلام) دوبارہ زمین پر تشریف لائیں گے، چناچہ جب حضرت یحییٰ (علیہ السلام) مبعوث ہوئے تو انہوں نے ان پر الیاس (علیہ السلام) ہونے کا شبہ ظاہر کیا۔ انجیل یوحنا میں ہے :- ” انہوں نے اس سے پوچھا پھر کون ہے ؟ کیا تو ایلیاہ ہے ؟ اس نے کہا میں نہیں ہوں “ (یوحنا۔ ١: ١٢)- ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کعب الاحبار اور وہب بن منبہ جیسے علماء نے جو اہل کتاب کے علوم کے ماہر تھے، یہی روایتیں مسلمانوں کے سامنے بیان کی ہوں گی، جن سے حضرت الیاس (علیہ السلام) کی زندگی کا نظریہ بعض مسلمانوں میں پھیل گیا، ورنہ قرآن یا حدیث میں ایسی کوئی دلیل نہیں ہے جس سے حضرت الیاس (علیہ السلام) کی زندگی یا آپ کا آسمان پر اٹھایا جانا ثابت ہوتا ہو، صرف ایک روایت مستدرک حاکم میں ملتی ہے، جس میں مذکور ہے کہ تبوک کے راستے میں آنحضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ملاقات حضرت الیاس (علیہ السلام) سے ہوئی۔ لیکن یہ روایت بتصریح محدثین موضوع ہے، حافظ ذہبی فرماتے ہیں :۔- ” بلکہ یہ حدیث موضوع ہے، خدا بری کرے اس شخص کا جس نے یہ حدیث وضع کی، اس سے پہلے میرے گمان میں بھی نہ تھا کہ امام حاکم کی بیخبر ی اس حد تک پہنچ سکتی ہے کہ وہ اس حدیث کو صحیح قرار دیں “- خلاصہ یہ کہ حضرت الیاس (علیہ السلام) کا زندہ ہونا کسی معتبر اسلامی روایت سے ثابت نہیں ہے۔ لہٰذا اس معاملے میں سلامتی کی راہ یہ ہے کہ اس میں سکوت اختیار کیا جائے اور اسرائیلی روایات کے سلسلے میں آنحضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تعلیم پر عمل کیا جائے کہ ” نہ ان کی تصدیق کرو نہ تکذیب “ کیونکہ قرآن کریم کی تفسیر اور عبرت و موعظت کا مقصد اس کے بغیر بھی پوری طرح حاصل ہوجاتا ہے، واللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم، اب آیات کی تفسیر ملاحظہ فرمائیے :۔
وَاِنَّ اِلْيَاسَ لَمِنَ الْمُرْسَلِيْنَ ١٢٣ۭ- رسل - وجمع الرّسول رُسُلٌ. ورُسُلُ اللہ تارة يراد بها الملائكة، وتارة يراد بها الأنبیاء، فمن الملائكة قوله تعالی: إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير 19] ، وقوله : إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود 81] ، - ( ر س ل ) الرسل - اور رسول کی جمع رسل آتہ ہے اور قرآن پاک میں رسول اور رسل اللہ سے مراد کبھی فرشتے ہوتے ہیں جیسے فرمایا : إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير 19] کہ یہ ( قرآن ) بیشک معزز فرشتے ( یعنی جبریل ) کا ( پہنچایا ہوا ) پیام ہے ۔ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود 81] ہم تمہارے پروردگار کے بھجے ہوئے ہی یہ لوگ تم تک نہیں پہنچ پائیں گے ۔
(١٢٣۔ ١٢٥) اور الیاس بھی اپنی قوم کی طرف رسول بنا کر بھیجے گئے تھے جس وقت انہوں نے اپنی قوم سے کہا کیا تم غیر اللہ کی پرستش سے نہیں ڈرتے کیا تم اللہ تعالیٰ کے سوا اس بعل بت کو پوجتے ہو یا یہ کہ اس بعل کو اور کہا گیا ہے کہ بعل نامی ان کا بت تھا۔ جس کی لمبائی تیس ہاتھ تھی اور اس کے چار منہ تھے اور اس ذات کی عبادت چھوڑ بیٹھے ہو جو سب سے بڑح کر بنانے والا ہے اس کی عبادت کیوں نہیں کرتے۔
آیت ١٢٣ وَاِنَّ اِلْیَاسَ لَمِنَ الْمُرْسَلِیْنَ ” اور یقینا الیاس ( علیہ السلام) بھی رسولوں میں سے تھا۔ “- حضرت الیاس (علیہ السلام) حضرت ہارون (علیہ السلام) کی نسل میں سے تھے۔ آپ ( علیہ السلام) بنی اسرائیل کے مشہور شہر ” بَعْلَبَک “ میں مبعوث ہوئے تھے۔ اس شہر میں سانڈھ کی شکل کا ایک بہت بڑا بت بنایا گیا تھا جس کا نام آگے آیت ١٢٥ میں ” بعل “ بتایا گیا ہے۔ اسی ُ بت کے نام پر اس شہر کا نام ” بعلبک “ (بعل کا بک) رکھا گیا تھا یعنی بعل کا شہر۔ پرانی عبرانی زبان میں شہر کو بک یا بکہ کہا جاتا تھا۔ (چنانچہ مکہ کا پرانا نام بھی بَکّہ تھا ‘ جس کا حوالہ سورة آل عمران کی آیت ٩٦ میں آیا ہے۔ ) بہر حال اس قوم کے لوگوں نے اس شہر کو اپنے معبود کے نام سے منسوب کر رکھا تھا۔
سورة الصّٰٓفّٰت حاشیہ نمبر :70 حضرت الیاس علیہ السلام انبیائے بنی اسرائیل میں سے تھے ۔ ان کا ذکر قرآن مجید میں صرف دو ہی مقامات پر آیا ہے ۔ ایک یہ مقام اور دوسرا سورہ انعام آیت 85 ۔ موجودہ زمانہ کے محققین ان کا زمانہ 875 اور 850 قبل مسیح کے درمیان متعین کرتے ہیں ۔ وہ جِلْعاد کے رہنے والے تھے ( قدیم زمانہ میں جِلْعاد اس علاقے کو کہتے تھے جو آج کل موجودہ ریاست اردن کے شمالی اضلاع پر مشتمل ہے اور دریائے یرموک کے جنوب میں واقع ہے ۔ ) بائیبل میں ان کا ذکر ایلیاہ تشبِی ( ) کے ناک سے کیا گیا ہے ۔ ان کے مختصر حالات حسب ذیل ہیں : حضرت سلیمان علیہ السلام کی وفات کے بعد ان کے بیٹے رجُبْعام ( ) کی نااہلی کے باعث بنی اسرائیل کی سلطنت کے دو ٹکڑے ہو گئے تھے ۔ ایک حصہ جو بیت المقدس اور جنوبی فلسطین پر مشتمل تھا ، آل داؤد کے قبضے میں رہا ، اور دوسرا حصہ جو شمالی فلسطین پر مشتمل تھا اس میں ایک مستقل ریاست اسرائیل کے نام سے قائم ہو گئی اور بعد میں سامریہ اس کا صدر مقام قرار پایا ۔ اگرچہ حالات دونوں ہی ریاستوں کے دگرگوں تھے ، لیکن اسرائیل کی ریاست شروع ہی سے سخت بگاڑ کی راہ پر چل پڑی تھی جس کی بدولت اس میں شرک و بت پرستی ، ظلم و ستم اور فسق و فجور کا زور بڑھتا چلا گیا ، یہاں تک کہ جب اسرائیل کے بادشاہ اخی اب ( ) نے صیدا ( موجودہ لبنان ) کے بادشاہ کی لڑکی ایزبل ( ) سے شادی کر لی تو یہ فساد اپنی انتہا کو پہنچ گیا ۔ اس مشرک شہزادی کے اثر میں آ کر اخی اب خود بھی مشرک ہو گیا ، اس نے سامریہ میں بعل کا مندر اور مذبح تعمیر کیا ، خدائے واحد کی پرستش کے بجائے بعل کی پرستش رائج کرنے کی بھر پور کوشش کی اور اسرائیل کے شہروں میں علانیہ بعل کے نام پر قربانیاں کی جانے لگیں ۔ یہی زمانہ تھا جب حضرت الیاس علیہ السلام یکایک منظر عام پر نمودار ہوئے اور انہوں نے جلعاد سے آ کر اخی اب کو نوٹس دیا کہ تیرے گناہوں کی پاداش میں اب اسرائیل کے ملک پر بارش کا ایک قطرہ بھی نہ برسے گا ، حتیٰ کہ اوس تک نہ پڑے گی ۔ خدا کے نبی کا یہ قول حرف بحرف صحیح ثابت ہوا اور ساڑھے تین سال تک بارش بالکل بند رہی ۔ آخر کار اخی اب کے ہوش کچھ ٹھکانے آئے اور اس نے حضرت الیاس کو تلاش کرا کے بلوایا ۔ انہوں نے بارش کے لیے دعا کرنے سے پہلے یہ ضروری سمجھا کہ اسرائیل کے باشندوں کو اللہ رب العالمین اور بعل کا فرق اچھی طرح بتا دیں ۔ اس غرض کے لیے انہوں نے حکم دیا کہ ایک مجمع عام میں بعل کے پوجاری بھی آ کر اپنے معبود کے نام پر قربانی کریں اور میں بھی اللہ رب العلمین کے نام پر قربانی کروں گا ۔ دونوں میں سے جس کی قربانی بھی انسان کے ہاتھوں سے آگ لگائے بغیر غیبی آگ سے بھسم ہو جائے اس کے معبود کی سچائی ثابت ہو جائے گی ۔ اخی اب نے یہ بات قبول کر لی ۔ چنانچہ کوہ کرمل ( ) _ پر بعل کے ساڑھے آٹھ سو پجاری جمع ہوئے اور اسرائیلیوں کے مجمع عام میں ان کا اور حضرت الیاس علیہ السلام کا مقابلہ ہوا ۔ اس مقابلے میں بعل پرستوں نے شکست کھائی اور حضرت الیاس نے سب کے سامنے یہ ثابت کر دیا کہ بعل ایک جھوٹا خدا ہے ، اصل خدا وہی ایک اکیلا خدا ہے جس کے نبی کی حیثیت سے وہ مامور ہو کر آئے ہیں ۔ اس کے بعد حضرت الیاس نے اسی مجمع عام میں بعل کے پجاریوں کو قتل کر ا دیا اور پھر بارش کے لیے دعا کی جو فوراً قبول ہوئی یہاں تک کہ پورا ملک اسرائیل سیراب ہو گیا ۔ لیکن معجزات کو دیکھ کر بھی زن مرید اخی اب اپنی بت پرست بیوی کے شکنجے سے نہ نکلا ۔ اس کی بیوی ایزبل حضرت الیاس کی دشمن ہو گئی اور اس نے قسم کھا لی کہ جس طرح بعل کے پجاری قتل کیے گئے ہیں اسی طرح الیاس علیہ السلام بھی قتل کیے جائیں گے ۔ ان حالات میں حضرت الیاس کو ملک چھوڑنا پڑا اور چند سال تک وہ کوہ سینا کے دامن میں پناہ گزیں رہے ۔ اس موقع پر انہوں نے اللہ تعالیٰ سے جو فریاد کی تھی اسے بائیبل ان الفاظ میں نقل کرتی ہے : بنی اسرائیل نے تیرے عہد کو ترک کیا اور تیرے مذبحوں کو ڈھا دیا اور تیرے نبیوں کو تلوار سے قتل کیا اور ایک میں ہی اکیلا بچا ہوں سو وہ میری جان لینے کے درپے ہیں ۔ ( 1 ۔ سلاطین 10:19 ) اسی زمانے میں بیت المقدس کی یہودی ریاست کے فرمانروا یہورام ( ) نے اسرائیل کے بادشاہ اخی اب کی بیٹی سے شادی کر لی اور اس مشرک شہزادی کے اثر سے وہی تمام خرابیاں جو اسرائیل میں پھیلی ہوئی تھیں ، یہودیہ کی ریاست میں بھی پھیلنے لگیں ۔ حضرت الیاس نے یہاں بھی فریضۂ نبوت ادا کیا اور یہورام کو ایک خط لکھا جس کے یہ الفاظ بائیبل میں نقل ہوئے ہیں : خداوند تیرے باپ داؤد کا خدا یوں فرماتا ہے : اس لیے کہ تو نہ اپنے باپ یہوسفط کی راہوں پر اور نہ یہوواہ کے بادشاہ آسا کی راہوں پر چلا بلکہ اسرائیل کے بادشاہوں کی راہ پر چلا ہے اور یہوواہ اور یروشلم کے باشندوں کو زنا کار بنایا جیسا اخی اب کے خاندان نے کیا تھا اور اپنے باپ کے گھرانے میں سے اپنے بھائیوں کو جو تجھ سے اچھے تھے قتل بھی کیا ، سو دیکھ خداوند تیرے لوگوں کو اور تیری بیویوں کو اور تیرے سارے مال کو بڑی آفتوں سے مارے گا اور تو انتڑیوں کے مرض سے سخت بیمار ہو جائے گا یہاں تک کہ تیری انتڑیاں اس مرض کے سبب سے روز بروز نکلتی چلی جائیں گی ( 2 ۔ تواریخ 21:12 ۔ 15 ) اس خط میں حضرت الیاس نے جو کچھ فرمایا تھا وہ پورا ہوا ۔ پہلے یہورام کی ریاست بیرونی حملہ آوروں کی تاخت سے تباہ ہوئی اور اس کی بیویوں تک کو دشمن پکڑ لے گئے ، پھر وہ خود انتڑیوں کے مرض سے ہلاک ہوا ۔ چند سال کے بعد حضرت الیاس پھر اسرائیل تشریف لے گئے اور انہوں نے اخی اب کو ، اور اس کے بعد اس کے بیٹے اَخزیاہ کو راہ راست پر لانے کی مسلسل کوشش کی ، مگر جو بدی سامریہ کے شاہی خاندان میں گھر کر چکی تھی وہ کسی طرح نہ نکلی ۔ آخر کار حضرت کی بد دعا سے اخی اب کا گھرانا ختم ہو گیا اور اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو دنیا سے اٹھا لیا ۔ ان واقعات کی تفصیل کے لیے بائیبل کے حسب ذیل ابواب ملاحظہ ہوں : 1 ۔ سالطین ، باب 17 ۔ 18 ۔ 19 ۔ 21 ۔ 2 ۔ سلاطین باب 1 ۔ 2 ۔ 3 ۔ تواریخ باب 21 ۔
23: حضرت الیاس (علیہ السلام) کے بارے میں قرآن کریم نے زیادہ تفصیلات بیان نہیں فرمائیں، تاریخی اور اسرائیلی روایتوں سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے بعد جب بنی اسرائیل میں کفر وشرک کی وبائیں پھوٹیں تو اس وقت آپ کو پیغمبر بناکر بھیجا گیا، بائبل کی کتاب سلاطین میں ہے کہ بادشاہ اخی اب کی بیوی ازابیل نے بعل نام کے ایک بت کی پرستش شروع کی تھی، حضرت الیاس (علیہ السلام) نے انہیں بت پرستی سے روکا، اور معجزے بھی دکھلائے، لیکن نافرمان قوم نے ہدایت کی بات ماننے کے بجائے حضرت الیاس (علیہ السلام) کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایا، اللہ تعالیٰ نے ان کے منصوبے کو ناکام بناکر خود انہی پر بلائیں مسلط فرمائیں اور حضرت الیاس (علیہ السلام) کو اپنے پاس بلالیا، اسرائیلی روایتوں میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ انہیں آسمان پر زندہ اٹھالیا گیا تھا، لیکن کسی مستند روایت سے اس بات کی تائید نہیں ہوتی، مزید تفصیل کے لئے اس آیت کی تشریح میں تفسیر معارف القرآن ملاحظہ فرمائیے۔