Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَتَرَكْنَا عَلَيْهِ فِي الْاٰخِرِيْنَ : ان آیات کی تفسیر پیچھے آیات (٧٨ تا ٨١) کے تحت گزر چکی ہے۔ ” اِلْ يَاسِيْنَ “ الیاس (علیہ السلام) ہی کا دوسرا نام ہے، جیسے ایک ہی پہاڑ کو قرآن میں ” طور سینا “ بھی کہا گیا ہے اور ” طور سینین “ بھی۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَتَرَكْنَا عَلَيْہِ فِي الْاٰخِرِيْنَ۝ ١٢٩ۙ- ترك - تَرْكُ الشیء : رفضه قصدا واختیارا، أو قهرا واضطرارا، فمن الأول : وَتَرَكْنا بَعْضَهُمْ يَوْمَئِذٍ يَمُوجُ فِي بَعْضٍ [ الكهف 99] ، وقوله :- وَاتْرُكِ الْبَحْرَ رَهْواً [ الدخان 24] ، ومن الثاني : كَمْ تَرَكُوا مِنْ جَنَّاتٍ [ الدخان 25] - ( ت ر ک) ترک - الشیئء کے معنی کسی چیز کو چھوڑ دینا کے ہیں خواہ وہ چھوڑنا ارادہ اختیار سے ہو اور خواہ مجبورا چناچہ ارادۃ اور اختیار کے ساتھ چھوڑنے کے متعلق فرمایا : ۔ وَتَرَكْنا بَعْضَهُمْ يَوْمَئِذٍ يَمُوجُ فِي بَعْضٍ [ الكهف 99] اس روز ہم ان کو چھوڑ دیں گے کہ ور وئے زمین پر پھل کر ( ایک دوسری میں گھسن جائیں وَاتْرُكِ الْبَحْرَ رَهْواً [ الدخان 24] اور دریا سے ( کہ ) خشک ( ہورہا ہوگا ) پاور ہوجاؤ ۔ اور بحالت مجبوری چھوڑ نے کے متعلق فرمایا : كَمْ تَرَكُوا مِنْ جَنَّاتٍ [ الدخان 25] وہ لوگ بہت سے جب باغ چھوڑ گئے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٢٩ وَتَرَکْنَا عَلَیْہِ فِی الْاٰخِرِیْنَ ” اور اسی (کے طریقے) پر ہم نے باقی رکھا بعد میں آنے والوں میں سے بھی (کچھ لوگوں کو) ۔ “- یعنی یہ تمام انبیاء و رسل ایک ہی ملت کے افراد تھے اور اسی ملت اور اسی طریقے کا تسلسل ہے جو ہدایت کی صورت میں نسل انسانی میں چلا آ رہا ہے۔ چناچہ یہی بات سورة الانبیاء کی آیت ٩٢ اور سورة المومنون کی آیت ٥٢ میں اس طرح بیان ہوئی ہیـ: وَاِنَّ ہٰذِہٖٓ اُمَّتُکُمْ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً ” اور یقینا یہ تمہاری امت ایک ہی امت ہے۔ “

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الصّٰٓفّٰت حاشیہ نمبر :73 حضرت الیاس علیہ السلام کو ان کی زندگی میں تو بنی اسرائیل نے جیسا کچھ ستایا اس کی داستان اوپر گزر چکی ہے ، مگر بعد میں وہ ان کے ایسے گرویدہ و شیفتہ ہوئے کہ حضرت موسیٰ کے بعد کم ہی لوگوں کو انہوں نے ان بڑھ کر جلیل القدر مانا ہو گا ۔ ان کے ہاں مشہور ہو گیا کہ الیاس علیہ السلام ایک بگولے میں آسمان پر زندہ اٹھا لیے گئے ہیں ( 2 سلاطین ، باب دوم ) اور یہ کہ وہ پھر دنیا میں تشریف لائیں گے ۔ چنانچہ بائیبل کی کتاب ملاکی میں لکھا ہے : دیکھو ، خداوند کے بزرگ اور ہولناک دن کے آنے سے پہلے میں ایلیاہ نبی کو تمہارے پاس بھیجوں گا ( 4:5 ) حضرت یحیٰی اور عیسیٰ علیہما السلام کی بعثت کے زمانہ میں یہودی بالعموم تین آنے والوں کے منتظر تھے ۔ ایک حضرت الیاس ۔ دوسرے مسیح ۔ تیسرے وہ نبی ( یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ) ۔ جب حضرت یحییٰ کی نبوت شروع ہوئی اور انہوں نے لوگوں کو اصطباغ دنیا شروع کیا تو یہودیوں کے مذہبی پیشواؤں نے ان کے پاس جاکر پوچھا کیا تم مسیح ہو؟ انہوں نے کہا نہیں ۔ پھر پوچھا کیا تم ایلیاہ ہو؟ انہوں نے کہا نہیں ۔ پھر پوچھا کیا تم وہ نبی ہو؟ انہوں نے کہا میں وہ بھی نہیں ہوں ۔ تب انہوں نے کہا اگر تم نہ مسیح ہو ، نہ ایلیاہ ، نہ وہ نبی ، تو پھر تم بپتسمہ کیوں دیتے ہو؟ ( یوحنا 1:19 ۔ 26 ) ۔ پھر کچھ مدت بعد جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا غلغلہ بلند ہوا تو یہودیوں میں یہ خیال پھیل گیا کہ شاید ایلیاہ نبی آ گئے ہیں ( مرقس 6:15 ۔ 15 ) خود حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حواریوں میں بھی یہ خیال پھیلا ہوا تھا کہ ایلیاہ نبی آنے والے ہیں ۔ مگر حضرت نے یہ فرما کر ان کی غلط فہمی کو رفع فرمایا کہ ایلیاہ تو آ چکا ، اور لوگوں نے اسے نہیں پہچانا بلکہ جو چاہا اس کے ساتھ کیا ۔ اس سے حواری خود جان گئے کہ دراصل آنے والے حضرت یحییٰ تھے نہ کہ آٹھ سو برس پہلے گزرے ہوئے حضرت الیاس ( متی 11:14 اور متی 17:10 ۔ 13 ) ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani