Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

حروف مقطعات جو سورتوں کے شروع میں آتے ہیں ان کی پوری تفسیر سورہ بقرہ کے شروع میں گذر چکی ہے ۔ یہاں قرآن کی قسم کھائی اور اسے پند و نصیحت کرنے والا فرمایا ۔ کیونکہ اس کی باتوں پر عمل کرنے والے کی دین و دنیا دونوں سنور جاتی ہیں اور آیت میں ہے ( لَقَدْ اَنْزَلْنَآ اِلَيْكُمْ كِتٰبًا فِيْهِ ذِكْرُكُمْ ۭ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ 10۝ۧ ) 21- الأنبياء:10 ) اس قرآن میں تمہارے لئے نصیحت ہے اور یہ بھی مطلب ہے کہ قرآن شرافت میں بزرگ عزت و عظمت والا ہے ۔ اب اس قسم کا جواب بعض کے نزدیک تو ( اِنْ كُلٌّ اِلَّا كَذَّبَ الرُّسُلَ فَحَقَّ عِقَابِ 14؀ۧ ) 38-ص:14 ) ، ہے ۔ بعض کہتے ہیں ( اِنَّ ذٰلِكَ لَحَــقٌّ تَخَاصُمُ اَهْلِ النَّارِ 64؀ۧ ) 38-ص:64 ) ، ہے لیکن یہ زیادہ مناسب نہیں ملعوم ہوتا ۔ حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اس کا جواب اس کے بعد کی آیت ہے ۔ ابن جریر اسی کو مختار بتاتے ہیں ۔ بعض عربی داں کہتے ہیں اس کا جواب ص ہے اور اس لفظ کے معنی صداقت اور حقانیت کے ہیں ۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ پوری سورت کا خلاصہ اس قسم کا جواب ہے ۔ واللہ اعلم ۔ پھر فرماتا ہے یہ قرآن تو سراسر عبرت و نصیحت ہے مگر اس سے فائدہ وہی اٹھاتے ہیں جن کے دل میں ایمان ہے کافر لوگ اس فائدے سے اس لئے محروم ہیں کہ وہ متکبر ہیں اور مخالف ہیں یہ لوگ اپنے سے پہلے اور اپنے جیسے لوگوں کے انجام پر نظر ڈالیں تو اپنے انجام سے ڈریں ۔ اگلی امتیں اسی جرم پر ہم نے تہ و بالا کر دی ہیں عذاب آ پڑنے کے بعد تو بڑے روئے پیٹے خوب آہو زاری کی لیکن اس وقت کی تمام باتیں بےسود ہیں ۔ جیسے فرمایا ( فَلَمَّآ اَحَسُّوْا بَاْسَنَآ اِذَا هُمْ مِّنْهَا يَرْكُضُوْنَ 12۝ۭ ) 21- الأنبياء:12 ) ہمارے عذابوں کو معلوم کر کے ان سے بچنا اور بھاگنا چاہا ۔ لیکن یہ کیسے ہو سکتا تھا ؟ ابن عباس فرماتے ہیں کہ اب بھاگنے کا وقت نہیں نہ فریاد کا وقت ہے ، اس وقت کوئی فریاد رسی نہیں کر سکتا ۔ چاہو جتنا چیخو چلاؤ محض بےسود ہے ۔ اب توحید کی قبولیت بےنفع ، توبہ بیکار ہے ۔ یہ بےوقت کی پکار ہے ۔ لات معنی میں لا کے ہے ۔ اس میں ت زائد ہے جیسے ثم میں بھی ت زیادہ ہوتی ہے اور ربت میں بھی ۔ یہ مفصولہ ہے اور اس پر وقف ہے ۔ امام ابن جریر کا قول ہے کہ یہ ت حین سے ملی ہوئی ہے یعنی ولاتحین ہے ، لیکن مشہور اول ہی ہے ۔ جمہور نے حین کو زبر سے پڑھا ہے ۔ تو مطلب یہ ہو گا کہ یہ وقت آہو زاری کا وقت نہیں ۔ بعض نے یہاں زیر پڑھنا بھی جائز رکھا ہے لغت میں نوص کہتے ہیں پیچھے ہٹنے کو اور بوص کہتے ہیں آگے بڑھنے کو پس مقصد یہ ہے کہ یہ وقت بھاگنے اور نکل جانے کا وقت نہیں واللہ الموفق ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

1۔ 1 جس میں تمہارے لئے ہر قسم کی نصیحت اور ایسی باتیں ہیں، جن سے تمہاری دنیا سنور جائے اور آخرت بھی بعض نے ذی الذکر کا ترجمہ شان اور مرتبت والا، کیے ہیں، امام ابن کثیر فرماتے ہیں۔ دونوں معنی صحیح ہیں۔ اس لئے کہ قرآن عظمت شان کا حامل بھی ہے اور اہل ایمان وتقویٰ کے لئے نصیحت اور درس عبرت بھی، اس قسم کا جواب محذوف ہے کہ بات اس طرح نہیں ہے جس طرح کفار مکہ کہتے ہیں کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ساحر، شاعر یا جھوٹے ہیں، بلکہ وہ اللہ کے سچے رسول ہیں جن پر یہ ذی شان قرآن نازل ہوا۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

صۗ وَالْقُرْاٰنِ ذِي الذِّكْرِ : ” صۗ“ حروف مقطعات میں سے ہے، اس کی وضاحت کے لیے دیکھیے سورة بقرہ کی پہلی آیت۔- وَالْقُرْاٰنِ ذِي الذِّكْرِ :” الْقُرْاٰنِ “ میں الف لام عہد کا ہے، اس لیے ترجمہ ” اس قرآن “ کیا ہے۔ ” الذِّكْرِ “ کا معنی عزّ و شرف بھی ہوسکتا ہے، نصیحت بھی اور اللہ تعالیٰ کا اور ان تمام چیزوں کا ذکر بھی جن کی انسان کو نجات کے لیے ضرورت ہے۔ یہاں تینوں معانی بیک وقت مراد ہوسکتے ہیں، کیونکہ یہ قرآن کمال عزّو شرف والا بھی ہے، نصیحت والا بھی ہے اور اس میں ان تمام چیزوں کا ذکر بھی ہے جن کی ضرورت ہے۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے سورة انبیاء کی آیت (١٠) : (لَقَدْ اَنْزَلْنَآ اِلَيْكُمْ كِتٰبًا فِيْهِ ذِكْرُكُمْ ) کی تفسیر۔ - ” اس نصیحت والے قرآن کی قسم “ اس کا جواب قسم یہاں ذکر نہیں ہوا۔ اگلے جملے ” بَلِ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا “ سے نئی بات شروع ہوگئی ہے، جس سے قسم کا جواب سمجھ میں آ رہا ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - ص (اس کے معنی تو اللہ کو معلوم ہیں) قسم ہے قرآن کی جو نصیحت سے پر ہے (کہ کفار آپ کی رسالت کا انکار کرتے ہوئے جو کچھ کہہ رہے ہیں وہ ٹھیک نہیں) بلکہ (خود) یہ کفار (ہی) تعصب اور (حق کی) مخالفت میں (پڑے) ہیں (اور اس تعصب و مخالفت کا وبال ایک روز ان پر پڑنے والا ہے جیسا) ان سے پہلے بہت سی امتوں کو ہم (عذاب سے) ہلاک کرچکے ہیں، سو انہوں نے (ہلاکت کے وقت) بڑی ہائے پکار کی (اور بہت شور و غل مچایا) اور (اس وقت شوروغل سے کیا ہوتا ہے، کیونکہ) وہ وقت خلاصی کا نہ تھا (اس لئے کہ عذاب جب آ چکے تو یہ بھی قبول نہیں ہوتی) اور ان کفار (قریش) نے اس بات پر تعجب کیا کہ ان کے پاس ان (ہی) میں سے (یعنی جو کہ ان کی طرح بشر ہے) ایک (پیغمبر) ڈرانے والا آ گیا (تعجب کی وجہ یہ تھی کہ وہ اپنی جہالت سے بشریت کو نبوت کے منافی سمجھتے تھے) اور (اس انکار رسالت میں یہاں تک پہنچ گئے، کہ آپ کے معجزات اور دعویٰ نبوت کے بارے میں) کہنے لگے کہ (نعوذ باللہ) یہ شخص) خوارق عادت کے معاملہ میں) ساحر اور (دعویٰ نبوت کے معاملہ میں) کذاب ہے (اور) کیا (یہ شخص سچا ہوسکتا ہے جبکہ) اس نے اتنے معبودوں کی جگہ ایک ہی معبود رہنے دیا (اور سب کے معبود ہونے کی نفی کردی) واقعی یہ بہت ہی عجیب بات ہے (جس کی وجہ عنقریب آتی ہے) اور (توحید کا مضمون سن کر) ان کفار کے رئیس (مجلس سے اٹھ کر لوگوں سے) یہ کہتے ہوئے چلے کہ (یہاں سے) چلو اور اپنے معبودوں (کی عبادت) پر قائم رہو (کیونکہ اول تو) یہ (توحید کی دعوت) کوئی مطلب کی بات (معلوم ہوتی) ہے (یعنی اس بہانہ سے آپ معاذ اللہ ریاست کے خواہاں ہیں۔ دوسرے توحید کا دعویٰ بھی باطل اور عجیب ہے کیونکہ) ہم نے تو یہ بات (اپنے) پچھلے مذہب میں نہیں سنی، ہو نہ ہو یہ (اس شخص کی) من گھڑت ہے (پچھلے مذہب کا مطلب یہ ہے کہ دنیا میں بہت سے طریقہ کے لوگ ہوئے ہیں، سب سے پیچھے ہم آئے ہیں اور حق پر ہیں، سو ہم نے اس طریقہ کے بزرگوں سے کبھی یہ بات نہیں سنی۔ اور یہ شخص جو نبوت کا مدعی ہے اور توحید کو تعلیم الٰہی بتلاتا ہے، سو اول تو نبوت بشریت کے منافی ہے۔ دوسرے اگر اس سے قطع نظر کی جائے تو) کیا ہم سب میں اس شخص (کو کوئی فوقیت و فضیلت تھی کہ اسی کو نبوت ملی اور اسی) پر کلام الٰہی نازل کیا گیا (بلکہ کسی رئیس پر ہوتا تو مضائقہ نہ تھا۔ آگے حق تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ان کا یہ کہنا کہ ان پر کیوں نزول ہوا ؟ کسی رئیس پر کیوں نہ ہوا ؟ اس وجہ سے نہیں ہے کہ اگر ایسا ہوتا تو اس کا اتباع کرتے) بلکہ (اصل بات یہ ہے کہ) یہ لوگ (خود) میری وحی کی طرف سے شک (یعنی انکار) میں ہیں۔ (یعنی مسئلہ نبوت ہی کے منکر ہیں، خصوصاً بشر کو نبی ماننے کے لئے تیار نہیں۔ اور یہ انکار بھی کچھ اس لئے نہیں کہ ان کے پاس کوئی دلیل ہے) بلکہ (اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ) انہوں نے ابھی تک میرے عذاب کا مزہ نہیں چکھا (ورنہ سب عقل ٹھکانے آجاتی۔ آگے دوسرے طرز پر جواب ہے کہ) کیا ان لوگوں کے پاس آپ کے پروردگار زبردست فیاض کی رحمت کے خزانے ہیں (جس میں نبوت بھی داخل ہے، کہ جس کو چاہیں دیں جس کو چاہیں نہ دیں، یعنی اگر رحمت کے سارے خزانے ان کے قبضہ میں ہوتے تب تو ان کو یہ کہنے کی گنجائش تھی کہ ہم نے بشر کو نبوت نہیں دی، پھر وہ نبی کیسے ہوگیا ؟ ) یا (اگر سارے خزانے قبضہ میں نہیں ہیں تو) کیا ان کو آسمان اور زمین اور جو چیزیں ان کے درمیان میں ہیں ان (سب) کا اختیار حاصل ہے (کہ اگر اتنا ہی اختیار ہوتا تب بھی یہ کہنے کی گنجائش تھی کہ یہ آسمان و زمین کے مصالح سے باخبر ہیں، اس لئے جسے چاہیں اسے نبوت ملنی چاہئے۔ اور آگے تعجیز کے طور پر ارشاد ہے کہ اگر ان کو اس پر اختیار ہے) تو ان کو چاہئے کہ سیڑھیاں لگا کر (آسمان پر) چڑھ جاویں (اور ظاہر ہے کہ یہ اس پر قادر نہیں۔ پس جب انہیں اتنی بھی قدرت نہیں تو آسمان و زمین کی معلومات اور ان پر کیا اختیار ہوگا ؟ پھر ان کو ایسی بےسروپا باتیں کہنے کا کیا حق ہے ؟ مگر اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ ان کی مخالفت سے فکر نہ کریں، کیونکہ) اس مقام پر (یعنی مکہ میں) ان لوگوں کی یونہی ایک بھیڑ ہے، منجملہ (مخالفین انبیاء کے) گروہوں کے جو (عنقریب) شکست دیئے جاویں گے (چنانچہ غزوہ بدر میں یہ پیشین گوئی پوری ہوئی اور) ان سے پہلے بھی قوم نوح نے اور عاد نے اور فرعون نے جس (کی سلطنت) کے کھونٹے گڑ گئے تھے اور ثمود نے اور قوم لوط نے اور اصحاب آیکہ نے (جن کے قصے کئی جگہ آ چکے ہیں، ان سب سے) تکذیب کی تھی (اور) وہ گروہ (جس کا اوپر من الاحزاب میں ذکر آیا ہے) یہی لوگ ہیں، ان سب نے صرف رسولوں کو جھٹلایا تھا (جیسے یہ کفار قریش آپ کو جھٹلا رہے ہیں) سو میرا عذاب (ان پر) واقع ہوگیا (پس جب جرم مشترک ہے تو عذاب کے اشتراک سے یہ کیوں مطمئن ہیں ؟ ) اور یہ لوگ (جو تکذیب پر مصر ہیں تو) بس ایک زور کی چیخ (یعنی نفخہ ثانیہ) کے منتظر ہیں جس میں دم لینے کی گنجائش نہ ہوگی (اس سے مراد قیامت ہے) اور یہ لوگ (قیامت کی وعید سن کر تکذیب رسول اور استہزاء کے طور پر) کہتے ہیں کہ اے ہمارے رب (آخرت میں جو کافروں کو عذاب ہوگا، اس میں سے) ہمارا حصہ تم کو روز حساب سے پہلے ہی دے دے (مطلب یہ کہ قیامت نہیں ہے، اگر ہے تو ہم کو ابھی عذاب مطلوب ہے، جب عذاب نہیں ہوتا تو معلوم ہوا قیامت نہ آوے گی۔ نعوذ باللہ) ۔- معارف و مسائل - شان نزول :۔ اس سورت کی ابتدائی آیات کا پس منظر یہ ہے کہ آنحضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چچا ابو طالب مسلمان نہ ہونے کے باوجود آپ کی پوری نگہداشت کر رہے تھے، جب وہ ایک بیماری میں مبتلا ہوئے تو قریش کے بڑے بڑے سرداروں نے ایک مجلس مشاورت منعقد کی۔ جس میں ابو جہل، عاص ابن وائل، اسود بن مطلب، اسود بن عبدیغوث اور دوسرے روساء شریک ہوئے۔ مشورہ یہ ہوا کہ ابوطالب بیمار ہیں، اگر وہ اس دنیا سے گزر گئے اور اس کے بعد ہم نے (محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ان کے نئے دین سے باز رکھنے کے لئے کوئی سخت اقدام کیا تو عرب کے لوگ ہمیں یہ طعنہ دیں گے کہ جب تک ابوطالب زندہ تھے، اس وقت تک تو یہ لوگ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کچھ نہ بگاڑ سکے، اور جب ان کا انتقال ہوگیا تو انہوں نے آپ کو ہدف بنا لیا۔ لہٰذا ہمیں چاہئے کہ ہم ابو طالب کی زندگی ہی میں ان سے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے معاملہ کا تصفیہ کرلیں تاکہ وہ ہمارے معبودوں کو برا کہنا چھوڑ دیں۔- چنانچہ یہ لوگ ابوطالب کے پاس پہنچے، اور جا کر ان سے کہا کہ تمہارا بھتیجا ہمارے معبودوں کو برا بھلا کہتا ہے آپ انصاف سے کام لے کر ان سے کہئے کہ وہ جس خدا کی چاہیں عبادت کریں، لیکن ہمارے معبودوں کو کچھ نہ کہیں۔ حالانکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خود بھی ان کے بتوں کو اس کے سوا کچھ نہ کہتے تھے کہ بےحس اور بےجان ہیں۔ نہ تمہارے خالق ہیں نہ رازق ہیں۔ نہ تمہارا کوئی نفع نقصان ان کے قبضہ میں ہے۔ ابوطالب نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مجلس میں بلوایا، اور آپ سے کہا کہ بھتیجے یہ لوگ تمہاری شکایت کر رہے ہیں کہ تم ان کے معبودوں کو برا کہتے ہو۔ انہیں اپنے مذہب پر چھوڑ دو ، اور تم اپنے خدا کی عبادت کرتے رہو، اس پر قریش کے لوگ بھی بولتے رہے۔- بالآخر آنحضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ : ” چچا جان کیا میں انہیں اس چیز کی دعوت نہ دعوں جس میں ان کی بہتری ہے ؟ “ ابوطالب نے کہا : ” وہ کیا چیز ہے ؟ “ آپ نے فرمایا ” میں ان سے ایک ایسا کلمہ کہلوانا چاہتا ہوں جس کے ذریعہ سارا عرب ان کے آگے سرنگوں ہوجائے اور یہ پورے عجم کے مالک ہو جائیں “ اس پر ابوجہل نے کہا : ” بتاؤ وہ کلمہ کیا ہے ؟ تمہارے باپ کی قسم ہم ایک کلمہ نہیں دس کلمے پڑھنے کو تیار ہیں “ اس پر آپ نے فرمایا ” بس لا الہ الا اللہ کہہ دو “ یہ سن کر تمام لوگ کپڑے جھاڑ کر اٹھ کھڑے ہوئے اور کہنے لگے ” کیا ہم سارے معبودوں کو چھوڑ کر صرف ایک کو اختیار کرلیں ؟ یہ تو بڑی عجیب بات ہے۔ “ اس موقع پر سورة ص کی یہ آیات نازل ہوئیں۔ (تفسیر ابن کثیر ص، 27، ج ٤)

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ۝ صۗ وَالْقُرْاٰنِ ذِي الذِّكْرِ۝ ١ۭ- قرآن - والْقُرْآنُ في الأصل مصدر، نحو : کفران ورجحان . قال تعالی:إِنَّ عَلَيْنا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ فَإِذا قَرَأْناهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ [ القیامة 17- 18] قال ابن عباس : إذا جمعناه وأثبتناه في صدرک فاعمل به، وقد خصّ بالکتاب المنزّل علی محمد صلّى اللہ عليه وسلم، فصار له کالعلم کما أنّ التّوراة لما أنزل علی موسی، والإنجیل علی عيسى صلّى اللہ عليهما وسلم . قال بعض العلماء : ( تسمية هذا الکتاب قُرْآناً من بين كتب اللہ لکونه جامعا لثمرة كتبه) بل لجمعه ثمرة جمیع العلوم، كما أشار تعالیٰ إليه بقوله : وَتَفْصِيلَ كُلِّ شَيْءٍ [يوسف 111] ، وقوله : تِبْياناً لِكُلِّ شَيْءٍ [ النحل 89] ، قُرْآناً عَرَبِيًّا غَيْرَ ذِي عِوَجٍ [ الزمر 28] ، وَقُرْآناً فَرَقْناهُ لِتَقْرَأَهُ [ الإسراء 106] ، فِي هذَا الْقُرْآنِ [ الروم 58] ، وَقُرْآنَ الْفَجْرِ؂[ الإسراء 78] أي :- قراء ته، لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ [ الواقعة 77]- ( ق ر ء) قرآن - القرآن ۔ یہ اصل میں کفران ورحجان کی طرف مصدر ہے چناچہ فرمایا :إِنَّ عَلَيْنا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ فَإِذا قَرَأْناهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ [ القیامة 17- 18] اس کا جمع کرنا اور پڑھوانا ہمارے ذمہ جب ہم وحی پڑھا کریں تو تم ( اس کو سننا کرو ) اور پھر اسی طرح پڑھا کرو ۔ حضرت ابن عباس نے اس کا یہ ترجمہ کیا ہے کہ جب ہم قرآن تیرے سینہ میں جمع کردیں تو اس پر عمل کرو لیکن عرف میں یہ اس کتاب الہی کا نام ہے جو آنحضرت پر نازل ہوگئی ا وریہ اس کتاب کے لئے منزلہ علم بن چکا ہے جیسا کہ توراۃ اس کتاب الہی کو کہاجاتا ہے جو حضرت موسیٰ ٰ (علیہ السلام) پر نازل ہوئی ۔ اور انجیل اس کتاب کو کہا جاتا ہے جو حضرت عیسیٰ پر نازل کی گئی ۔ بعض علماء نے قرآن کی وجہ تسمیہ یہ بھی بیان کی ہے کہ قرآن چونکہ تمام کتب سماویہ کے ثمرہ کو اپنے اندر جمع کئے ہوئے ہے بلکہ تمام علوم کے ماحصل کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے اس لئے اس کا نام قرآن رکھا گیا ہے جیسا کہ آیت : وَتَفْصِيلَ كُلِّ شَيْءٍ [يوسف 111] اور ہر چیز کی تفصیل کرنے والا ۔ اور آیت کریمہ : تِبْياناً لِكُلِّ شَيْءٍ [ النحل 89] کہ اس میں ہر چیز کا بیان مفصل ہے ۔ میں اس کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے ۔ مزید فرمایا : قُرْآناً عَرَبِيًّا غَيْرَ ذِي عِوَجٍ [ الزمر 28] یہ قرآن عربی ہے جس میں کوئی عیب ( اور اختلاف ) نہیں ۔ وَقُرْآناً فَرَقْناهُ لِتَقْرَأَهُ [ الإسراء 106] اور ہم نے قرآن کو جزو جزو کرکے نازل کیا تاکہ تم لوگوں کو ٹھہر ٹھہر کر پڑھ کر سناؤ ۔ فِي هذَا الْقُرْآنِ [ الروم 58] اس قرآن اور آیت کریمہ : وَقُرْآنَ الْفَجْرِ [ الإسراء 78] اور صبح کو قرآن پڑھا کرو میں قرآت کے معنی تلاوت قرآن کے ہیں ۔ لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ [ الواقعة 77] یہ بڑے رتبے کا قرآن ہے ۔- ذو - ذو علی وجهين : أحدهما : يتوصّل به إلى الوصف بأسماء الأجناس والأنواع، ويضاف إلى الظاهر دون المضمر، ويثنّى ويجمع، ويقال في المؤنّث : ذات، وفي التثنية : ذواتا، وفي الجمع : ذوات، ولا يستعمل شيء منها إلّا مضافا، قال : وَلكِنَّ اللَّهَ ذُو فَضْلٍ [ البقرة 251] ، وقال : ذُو مِرَّةٍ فَاسْتَوى [ النجم 6] ، وَذِي الْقُرْبى [ البقرة 83] ، وَيُؤْتِ كُلَّ ذِي فَضْلٍ فَضْلَهُ [هود 3] ، ذَوِي الْقُرْبى وَالْيَتامی [ البقرة 177] ، إِنَّهُ عَلِيمٌ بِذاتِ الصُّدُورِ- [ الأنفال 43] ، وَنُقَلِّبُهُمْ ذاتَ الْيَمِينِ وَذاتَ الشِّمالِ [ الكهف 18] ، وَتَوَدُّونَ أَنَّ غَيْرَ ذاتِ الشَّوْكَةِ تَكُونُ لَكُمْ [ الأنفال 7] ، وقال : ذَواتا أَفْنانٍ [ الرحمن 48] ، وقد استعار أصحاب المعاني الذّات، فجعلوها عبارة عن عين الشیء، جو هرا کان أو عرضا، واستعملوها مفردة ومضافة إلى المضمر بالألف واللام، وأجروها مجری النّفس والخاصّة، فقالوا : ذاته، ونفسه وخاصّته، ولیس ذلک من کلام العرب . - والثاني في لفظ ذو :- لغة لطيّئ، يستعملونه استعمال الذي، ويجعل في الرفع، والنصب والجرّ ، والجمع، والتأنيث علی لفظ واحد نحو : وبئري ذو حفرت وذو طویت - ( ذ و ) ذو ( والا ۔ صاحب )- یہ دو طرح پر استعمال ہوتا ہے - ( 1) اول یہ کہ اسماء اجناس وانوع کے ساتھ توصیف کے لئے اسے ذریعہ بنایا جاتا ہے ۔ اس صورت میں اسم ضمیر کیطرف مضاف نہیں ہوتا بلکہ ہمیشہ اسم ظاہر کی طرف مضاف ہوتا ہے اور اس کا تنثیہ جمع بھی آتا ہے ۔ اور مونث کے لئے ذات کا صیغہ استعمال ہوتا ہے اس کا تثنیہ ذواتا اور جمع ذوات آتی ہے ۔ اور یہ تمام الفاظ مضاف ہوکر استعمال ہوتے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَلكِنَّ اللَّهَ ذُو فَضْلٍ [ البقرة 251] لیکن خدا اہل عالم پر بڑا مہرابان ہے ۔ ذُو مِرَّةٍ فَاسْتَوى [ النجم 6] ( یعنی جبرئیل ) طاقتور نے پھر وہ پورے نظر آئے ۔ وَذِي الْقُرْبى [ البقرة 83] اور رشتہ داروں ۔ وَيُؤْتِ كُلَّ ذِي فَضْلٍ فَضْلَهُ [هود 3] اور ہر ساحب فضل کو اسکی بزرگی ( کی داو ) دیگا ۔ ذَوِي الْقُرْبى وَالْيَتامی [ البقرة 177] رشتہ داروں اور یتیموں ۔ إِنَّهُ عَلِيمٌ بِذاتِ الصُّدُورِ [ الأنفال 43] تو دلوں تک کی باتوں سے آگاہ ہے ۔ وَنُقَلِّبُهُمْ ذاتَ الْيَمِينِ وَذاتَ الشِّمالِ [ الكهف 18] اور ہم ان کو دائیں اور بائیں کروٹ بدلاتے ہیں ۔ وَتَوَدُّونَ أَنَّ غَيْرَ ذاتِ الشَّوْكَةِ تَكُونُ لَكُمْ [ الأنفال 7] اور تم چاہتے تھے کہ جو قافلہ بےشان و شوکت ( یعنی بےہتھیار ) ہے وہ تمہارے ہاتھ آجائے ۔ ذَواتا أَفْنانٍ [ الرحمن 48] ان دونوں میں بہت سے شاخیں یعنی قسم قسم کے میووں کے درخت ہیں ۔ علمائے معانی ( منطق وفلسفہ ) ذات کے لفظ کو بطور استعارہ عین شے کے معنی میں استعمال کرتے ہیں اور یہ جو ہر اور عرض دونوں پر بولاجاتا ہے اور پھر کبھی یہ مفرد یعنی بدون اضافت کت استعمال ہوتا ہے ۔ اور کبھی اسم ضمیر کی طرف مضاف ہو کر اور کبھی معرف بلالم ہوکر ۔ اور یہ لفظ بمنزلہ نفس اور خاصہ کے بولا جاتا ہے ۔ اور نفسہ وخاصتہ کی طرح ذاتہ بھی کہاجاتا ہے ۔ مگر یہ عربی زبان کے محاورات سے نہیں ہے - ( 2 ) دوم بنی طیی ذوبمعنی الذی استعمال کرتے ہیں اور یہ رفعی نصبی جری جمع اور تانیث کی صورت میں ایک ہی حالت پر رہتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ہے ع ( الوافر ) یعنی کنواں جسے میں نے کھودا اور صاف کیا ہے ۔ - ذكر ( نصیحت)- وذَكَّرْتُهُ كذا، قال تعالی: وَذَكِّرْهُمْ بِأَيَّامِ اللَّهِ [إبراهيم 5] ، وقوله : فَتُذَكِّرَ إِحْداهُمَا الْأُخْرى [ البقرة 282] ، قيل : معناه تعید ذكره، وقد قيل : تجعلها ذکرا في الحکم «1» . قال بعض العلماء «2» في الفرق بين قوله : فَاذْكُرُونِي أَذْكُرْكُمْ [ البقرة 152] ، وبین قوله : اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ [ البقرة 40] : إنّ قوله : فَاذْكُرُونِي مخاطبة لأصحاب النبي صلّى اللہ عليه وسلم الذین حصل لهم فضل قوّة بمعرفته تعالی، فأمرهم بأن يذكروه بغیر واسطة، وقوله تعالی: اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ مخاطبة لبني إسرائيل الذین لم يعرفوا اللہ إلّا بآلائه، فأمرهم أن يتبصّروا نعمته، فيتوصّلوا بها إلى معرفته .- الذکریٰ ۔ کثرت سے ذکر الہی کرنا اس میں ، الذکر ، ، سے زیادہ مبالغہ ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ ذَكَّرْتُهُ كذا قرآن میں ہے :۔ وَذَكِّرْهُمْ بِأَيَّامِ اللَّهِ [إبراهيم 5] اور ان کو خدا کے دن یاد دلاؤ ۔ اور آیت کریمہ ؛فَتُذَكِّرَ إِحْداهُمَا الْأُخْرى [ البقرة 282] تو دوسری اسے یاد دلا دے گی ۔ کے بعض نے یہ معنی کئے ہیں کہ اسے دوبارہ یاد دلاوے ۔ اور بعض نے یہ معنی کئے ہیں وہ حکم لگانے میں دوسری کو ذکر بنادے گی ۔ بعض علماء نے آیت کریمہ ؛۔ فَاذْكُرُونِي أَذْكُرْكُمْ [ البقرة 152] سو تم مجھے یاد کیا کر میں تمہیں یاد کروں گا ۔ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ [ البقرة 40] اور میری وہ احسان یاد کرو ۔ میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ کے مخاطب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اصحاب ہیں جنہیں معرفت الہی میں فوقیت حاصل تھی اس لئے انہیں براہ راست اللہ تعالیٰ کو یاد کرنے کا حکم دیا گیا ہے ۔ اور دوسری آیت کے مخاطب بنی اسرائیل ہیں جو اللہ تعالیٰ کو اس نے انعامات کے ذریعہ سے پہچانتے تھے ۔ اس بنا پر انہیں حکم ہوا کہ انعامات الہی میں غور فکر کرتے رہو حتی کہ اس ذریعہ سے تم کو اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل ہوجائے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١۔ ٢) یعنی قرآن کریم کو بار بار پڑھو تاکہ ایمان کفر سے اور سنت بدعت سے اور حق باطل سے سچ جھوٹ سے حلال حرام سے اور نیکی برائی سے ممتاز ہوجائے یا یہ کہ ص سے مراد اہل مکہ یا ابوجہل کو ہدایت سے روک دیا گیا یا یہ کہ ص اللہ تعالیٰ کے اسم پاک صادق اس کا مخفف ہے۔- یا یہ کہ اس کے ذریعے سے قسم کھائی گئی ہے قسم ہے قرآن کی جو شرف وبیان والا ہے یعنی جو اس پر ایمان لائے اس کے لیے شرافت والا اور اولین و آخرین کے بیان والا ہے بلکہ یہ کفار مکہ ہی تعصب و برائی اور مخالفت و دشمنی میں پڑے ہوئے ہیں۔- شان نزول : صۗ وَالْقُرْاٰنِ ذِي الذِّكْرِ (الخ)- امام احمد، ترمذی، نسائی اور امام حاکم نے تصحیح کے ساتھ حضرت ابن عباس سے روایت کیا ہے کہ جس وقت ابوطالب یمار ہوئے تو قریش ان کے پاس آئے اور رسول اکرم بھی تشریف لائے قریش نے ابو طالب سے آپ کی شکایت کی ابو طالب نے آپ سے کہا کہ اے بھتیجے تو اپنی قوم سے کیا چاہتا ہے آپ نے فرمایا میں صرف ان سے ایک بات چاہتا ہوں جس کی وجہ سے سارا عرب ان کا فرمانبردار ہوجائے گ اور ان کو جزیہ دے گا۔ صرف ایک کلمہ ہے ابو طالب نے کہا وہ کیا، آپ نے فرمایا لا الہ الا اللہ تو سب نے کہا صرف ایک اللہ یہ تو عجیب بات ہے تو ان لوگوں کے بارے میں ص والقرآن سے بل لما یذوقوا عذاب تک یہ آیات نازل ہوئیں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١ صٓ وَالْقُرْاٰنِ ذِی الذِّکْرِ ” ص ‘ قسم ہے اس قرآن کی جو ذکر والا ہے۔ “- یہاں پر پہلے حرف یعنی صٓ پر آیت مکمل نہیں ہوئی بلکہ یہ حرف پہلی آیت کا حصہ ہے۔ اسی طرح سورة قٓ اور سورة نٓ کے آغاز میں بھی ایک ایک حرف ہے اور ان دونوں سورتوں میں بھی ایسا ہی ہے کہ اکیلا حرف پہلی آیت کا حصہ ہے نہ کہ الگ مستقل آیت۔ البتہ کئی سورتوں میں آغاز کے دو حروف پر آیت مکمل ہوجاتی ہے۔ مثلاً طٰہٰ ‘ یٰسٓ اور حٰمٓ مستقل آیات ہیں۔ اس کے علاوہ کئی ایسی سورتیں بھی ہیں جن کے آغاز میں تین تین حروف مقطعات ہیں لیکن وہ حروف الگ آیت کی حیثیت سے نہیں بلکہ پہلی آیت کا حصہ ہیں۔ مثلاً الٓــــرٰ ۔ اس کے برعکس بہت سی سورتوں کے آغاز میں تین حروف مقطعات ایک مکمل آیت کے طور پر بھی آئے ہیں ‘ مثلاً الٓـــــمّٓ۔ یہاں ان مثالوں سے دراصل یہ واضح کرنا مقصود ہے کہ قرآن کے یہ معاملات توقیفی (حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بتانے پر موقوف) ہیں ‘ کسی کے اجتہاد یا گرامر کے کسی اصول سے ان کا تعلق نہیں ہے۔ ” بیان القرآن “ کے آغاز میں تعارفِ قرآن کے عنوان کے تحت اس موضوع کی وضاحت کی جا چکی ہے۔ - جہاں تک سورة صٓ کی پہلی آیت کے مضمون کا تعلق ہے اس میں ” ذکر والے “ قرآن کی قسم کھائی گئی ہے۔ اس سے پہلے ہم کئی ایسی آیات بھی پڑھ چکے ہیں جن میں قرآن کو ” الذِّکْر “ یا ” ذِکْر “ کہا گیا ہے۔ سورة الحجر کی یہ آیت اس حوالے سے بہت اہم ہے : اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَاِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَ ۔ ” یقینا ہم نے ہی یہ ذکر نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں “۔ سورة الانبیاء میں فرمایا گیا : لَقَدْ اَنْزَلْنَآ اِلَیْکُمْ کِتٰبًا فِیْہِ ذِکْرُکُمْط اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ ۔ ” (اے لوگو ) اب ہم نے تمہاری طرف یہ کتاب نازل کی ہے ‘ اس میں تمہارا ذکر ہے ‘ تو کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے “ بہر حال ” ذکر “ کے معنی یاددہانی کے ہیں۔ اس لحاظ سے آیت زیر مطالعہ میں القرآن ذی الذکرکا مفہوم یہ ہے کہ یہ قرآن یاد دہانی ( ) کا حامل ہے ‘ یاد دہانی سے معمور ہے۔ - قرآن کی قسم کے بارے میں یہاں ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ اس قسم کا ” مقسم علیہ “ محذوف ہے۔ یعنی ذکر والے قرآن کی قسم کس بات پر کھائی گئی ہے ‘ اس کا ذکر نہیں ہے۔ اس نکتہ کی وضاحت قبل ازیں سورة یٰسٓ کی آیت ٣ کے تحت یوں کی جا چکی ہے کہ قرآن میں جہاں جہاں بھی قرآن کی قسم کے بعد اس قسم کا مقسم علیہ محذوف ہے ‘ ان تمام مقامات پر سورة یٰسٓ کی آیت ٣ ہی کو ان تمام قسموں کا مقسم علیہ تصور کیا جائے گا۔ سورة یٰسٓ کے آغاز میں قرآن کی قسم اور اس قسم کے مقسم علیہ کا ذکر یوں ہوا ہے : یٰسٓ۔ وَالْقُرْاٰنِ الْحَکِیْمِ ۔ اِنَّکَ لَمِنَ الْمُرْسَلِیْنَ ۔ ” یٰسٓ‘ قسم ہے قرآن حکیم کی (کہ اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) یقینا آپ مرسلین میں سے ہیں “۔ چناچہ آیت زیر مطالعہ کے بعد بھی اِنَّکَ لَمِنَ الْمُرْسَلِیْنَ کے کلمات کو محذوف مانتے ہوئے پورے جملے کا مفہوم یوں تصور کیا جائے گا : ” اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ ذکر والا قرآن گواہ ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں۔ “

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة صٓ حاشیہ نمبر :1 اگرچہ تمام حروف مقطعات کی طرح ص کے مفہوم کا تعین بھی مشکل ہے ، لیکن ابن عباس اور ضحاک کا یہ قول بھی کچھ دل کو لگتا ہے کہ اس سے مراد ہے صادقٌ فی قولِہٖ ، یا صَدَق محمدٌ یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم صادق ہیں ، جو کچھ کہہ رہے ہیں سچ کہہ رہے ہیں ۔ صاد کے حروف کو ہم اردو میں بھی اسی سے ملتے جلتے معنی میں استعمال کرتے ہیں ۔ مثلاً کہتے ہیں میں اس پر صادر کرتا ہوں ، یعنی اس کی تصدیق کرتا ہوں ، یا اسے صحیح قرار دیتا ہوں ۔ سورة صٓ حاشیہ نمبر :2 اصل الفاظ ہیں ذی الذکر ۔ اس کے دو معنی ہو سکتے ہیں ۔ ایک ذی شرف ، یعنی قرآن بزرگ ۔ دوسرے ذی ا لتذکیر ، یعنی نصیحت سے لبریز قرآن ، یا بھولا ہوا سبق یاد دلانے والا اور غفلت سے چونکانے والا قرآن ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

1: یہ انہی حروف مقطعات میں سے ہے جن کا صحیح مطلب اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ دیکھئے سورۂ بقرہ کی پہلی آیت پر ہمارا حاشیہ۔ اور قرآن کریم میں جو قسمیں کھائی گئیں ہیں، ان کے بارے میں پچھلی سورت (سورۂ صافات) کا پہلا حاشیہ۔