Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

72۔ 1 مجاہد اور مقاتل کا قول ہے کہ ان کے ذریعے سے جہنم کی آگ بھڑکائی جائے گی یعنی یہ لوگ اس کا ایندھن بنے ہوں گے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

معارف ومسائل - يُسْحَبُوْنَ فِي الْحَمِيْمِ ڏ ثُمَّ فِي النَّارِ يُسْجَرُوْنَ ۔ حمیم کھولتا ہوا گرم پانی ہے۔ اس آیت سے یہ مفہوم ہوتا ہے کہ اہل جہنم کو پہلے حمیم میں ڈالا جائے گا۔ اس کے بعد جحیم یعنی جہنم میں اور بظاہر اس سے یہ مفہوم ہوتا ہے کہ حمیم جہنم سے باہر کسی جگہ ہے۔ سورة صفت کی آیت (آیت) ثم ان مرجعھم لا الی الجحیم سے بھی یہی مفہوم ہوتا ہے کہ حمیم جہنم سے باہر کسی جگہ ہے اہل جہنم کو اس کا پانی پلانے کے لئے لایا جائے گا۔ پھر جہنم میں لوٹا دیا جائے گا۔ اور بعض آیات قرآنی سے معلوم ہوتا ہے کہ حمیم بھی جحیم ہی میں ہے جیسے (آیت) ھذہ جہنم التی یکذب بھا المجرمون یطوفون بینھا وبین حمیم ان۔ اس میں تصریح ہے کہ حمیم بھی جہنم کے اندر ہے۔- غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان دونوں باتوں میں کوئی تضاد وتعارض نہیں۔ جہنم ہی کے بہت سے طبقات ہوں گے جن میں قسم قسم کے عذاب ہوں گے۔ انہیں میں ایک طبقہ حمیم کا بھی ہوسکتا ہے جس کو بوجہ ممتاز اور الگ ہونے کے جہنم سے خارج بھی کہا جاسکتا ہے اور چونکہ یہ بھی ایک طبقہ جہنم ہی کا ہے اس لئے اس کو جہنم بھی کہا جاسکتا ہے۔ ابن کثیر نے فرمایا کہ اہل جہنم زنجیروں میں جکڑے ہوئے کبھی کھینچ کر حمیم میں ڈال دیئے جاویں گے کبھی جحیم میں۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

فِي الْحَمِيْمِ۝ ٠ۥۙ ثُمَّ فِي النَّارِ يُسْجَرُوْنَ۝ ٧٢ۚ- حم - الحمیم : الماء الشدید الحرارة، قال تعالی: وَسُقُوا ماءً حَمِيماً [ محمد 15] ، إِلَّا حَمِيماً وَغَسَّاقاً [ عمّ 25] ، وقال تعالی: وَالَّذِينَ كَفَرُوا لَهُمْ شَرابٌ مِنْ حَمِيمٍ [ الأنعام 70] ، وقال عزّ وجل : يُصَبُّ مِنْ فَوْقِ رُؤُسِهِمُ الْحَمِيمُ [ الحج 19] ، ثُمَّ إِنَّ لَهُمْ عَلَيْها لَشَوْباً مِنْ حَمِيمٍ [ الصافات 67] ، هذا فَلْيَذُوقُوهُ حَمِيمٌ وَغَسَّاقٌ [ ص 57] ، وقیل للماء الحارّ في خروجه من منبعه :- حَمَّة، وروي : «العالم کالحمّة يأتيها البعداء ويزهد فيها القرباء» «6» ، وسمي العَرَق حمیما - علی التشبيه، واستحمّ الفرس : عرق، وسمي الحمّام حمّاما، إمّا لأنه يعرّق، وإمّا لما فيه من الماء الحارّ ، واستحمّ فلان : دخل الحمّام، وقوله عزّ وجل : فَما لَنا مِنْ شافِعِينَ وَلا صَدِيقٍ حَمِيمٍ- [ الشعراء 100- 101] ، وقوله تعالی: وَلا يَسْئَلُ حَمِيمٌ حَمِيماً [ المعارج 10] ، فهو القریب المشفق، فكأنّه الذي يحتدّ حماية لذويه، وقیل لخاصة الرّجل : حامّته، فقیل :- الحامّة والعامّة، وذلک لما قلنا، ويدلّ علی ذلك أنه قيل للمشفقین من أقارب الإنسان حزانته أي : الذین يحزنون له، واحتمّ فلان لفلان : احتدّ وذلک أبلغ من اهتمّ لما فيه من معنی الاحتمام، وأحمّ الشّحم : أذابه، وصار کالحمیم، وقوله عزّ وجل : وَظِلٍّ مِنْ يَحْمُومٍ [ الواقعة 43] ، للحمیم، فهو يفعول من ذلك، وقیل : أصله الدخان الشدید السّواد ، وتسمیته إمّا لما فيه من فرط الحرارة، كما فسّره في قوله : لا بارِدٍ وَلا كَرِيمٍ [ الواقعة 44] ، أو لما تصوّر فيه من لفظ الحممة فقد قيل للأسود يحموم، وهو من لفظ الحممة، وإليه أشير بقوله : لَهُمْ مِنْ فَوْقِهِمْ ظُلَلٌ مِنَ النَّارِ وَمِنْ تَحْتِهِمْ ظُلَلٌ [ الزمر 16] ، وعبّر عن الموت بالحمام، کقولهم : حُمَّ كذا، أي : قدّر، والحُمَّى سمّيت بذلک إمّا لما فيها من الحرارة المفرطة، وعلی ذلک قوله صلّى اللہ عليه وسلم : «الحمّى من فيح جهنّم» «4» ، وإمّا لما يعرض فيها من الحمیم، أي :- العرق، وإمّا لکونها من أمارات الحِمَام، لقولهم : «الحمّى برید الموت» «5» ، وقیل : «باب الموت» ، وسمّي حمّى البعیر حُمَاماً «6» بضمة الحاء، فجعل لفظه من لفظ الحمام لما قيل : إنه قلّما يبرأ البعیر من الحمّى. وقیل : حَمَّمَ الفرخ «7» : إذا اسودّ جلده من الریش، وحمّم - ( ح م م ) الحمیم کے معنی سخت گرم پانی کے ہیں ۔ قرآن میں ہے ۔ وَسُقُوا ماءً حَمِيماً [ محمد 15] اور ان کو کھولتا ہوا پانی پلایا جائے گا ۔ إِلَّا حَمِيماً وَغَسَّاقاً [ عمّ 25] مگر گرم پانی اور یہی پیپ ۔ وَالَّذِينَ كَفَرُوا لَهُمْ شَرابٌ مِنْ حَمِيمٍ [ الأنعام 70] اور جو کافر ہیں ان کے پینے کو نہایت گرم پانی ۔ يُصَبُّ مِنْ فَوْقِ رُؤُسِهِمُ الْحَمِيمُ [ الحج 19]( اور ) ان کے سروں پر جلتا ہوا پانی دالا جائیگا ۔ ثُمَّ إِنَّ لَهُمْ عَلَيْها لَشَوْباً مِنْ حَمِيمٍ [ الصافات 67] پھر اس ( کھانے ) کے ساتھ ان کو گرم پانی ملا کردیا جائے گا ۔ هذا فَلْيَذُوقُوهُ حَمِيمٌ وَغَسَّاقٌ [ ص 57] یہ گرم کھولتا ہوا پانی اور پیپ ( ہے ) اب اس کے مزے چکھیں ۔ اور گرم پانی کے چشمہ کو حمتہ کہا جاتا ہے ایک روایت میں ہے ۔ کہ عالم کی مثال گرم پانی کے چشمہ کی سی ہے جس ( میں نہانے ) کے لئے دور دور سے لوگ آتے ہیں ( اور شفایاب ہوکر لوٹتے ہیں ) اور قرب و جوار کے لوگ اس سے بےرغبتی کرتے ہیں ( اس لئے اس کے فیض سے محروم رہتے ہیں ) اور تشبیہ کے طور پر پسینہ کو بھی حمیم کہا جاتا ہے اسی سے استحم الفرس کا محاورہ ہے جس کے معنی گھوڑے کے پسینہ پسینہ ہونے کے ہیں اور حمام کو حمام یا تو اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ پسینہ آور ہوتا ہے اور یا اس لئے کہ اس میں گرم پانی موجود رہتا ہے ۔ استحم فلان ۔ حمام میں داخل ہونا ۔ پھر مجازا قریبی رشتہ دار کو بھی حمیم کہا جاتا ہے ۔ اس لئے کہ انسان اپنے رشتہ داروں کی حمایت میں بھٹرک اٹھتا ہے اور کسی شخص کے اپنے خاص لوگوں کو حامتہ خاص وعام کا محاورہ ہے ۔ قرآن میں ہے : فَما لَنا مِنْ شافِعِينَ وَلا صَدِيقٍ حَمِيمٍ [ الشعراء 100- 101] تو ( آج ) نہ کوئی ہمارا سفارش کرنے والا ہے اور نہ گرم جوش دوست نیز فرمایا ۔ وَلا يَسْئَلُ حَمِيمٌ حَمِيماً [ المعارج 10] اور کوئی دوست کسیز دوست کا پر سان نہ ہوگا ۔ اور اس کی دلیل یہ بھی ہوسکتی ہے کہ انسان کے قریبی مہر بانوں کو حزانتہ بھی کہا جاتا ہے کیونکہ وہ اس کے غم میں شریک رہتے ہیں ۔ کہا جاتا ہے ۔ احتم فلان لفلان فلاں اس کے لئے غمگین ہوا یا اس کی حمایت کے لئے جوش میں آگیا ۔ اس میں باعتبار معنی اھم سے زیادہ زور پایا جاتا ہے کیونکہ اس میں غم زدہ ہونے کے ساتھ ساتھ جوش اور گرمی کے معنی بھی پائے جاتے ہیں ۔ احم الشحم چربی پگھلا ۔ یہاں تک کہ وہ گرم پانی کی طرح ہوجائے اور آیت کریمہ : وَظِلٍّ مِنْ يَحْمُومٍ [ الواقعة 43] اور سیاہ دھوئیں کے سایے میں ۔ میں یحموم حمیم سے یفعول کے وزن پر ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ اس کے اصل معنی سخت سیاہ دھوآں کے ہیں اور اسے یحموم یا تو اس لئے کہا جاتا ہے کہ اس میں شیت حرارت پائی جاتی ہے جیسا کہ بعد میں سے اس کی تفسیر کی ہے اور یا اس میں حممتہ یعنی کوئلے کی سی سیاہی کا تصور موجود ہے ۔ چناچہ سیاہ کو یحموم کہا جاتا ہے اور یہ حممتہ ( کوئلہ ) کے لفظ سے مشتق ہے چناچہ اسی معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : لَهُمْ مِنْ فَوْقِهِمْ ظُلَلٌ مِنَ النَّارِ وَمِنْ تَحْتِهِمْ ظُلَلٌ [ الزمر 16] ان کے اوپر تو اگ کے سائبان ہوں گے اور نیچے ( ان ) کے فرش پونگے اور حمام بمعنی موت بھی آجاتا ہے جیسا کہ کسی امر کے مقدر ہونے پر حم کذا کا محاورہ استعمال ہوتا ہے اور بخار کو الحمی کہنا یا تو اس لئے ہے کہ اس میں حرارت تیز ہوجاتی ہے ۔ چناچہ اسی معنی میں آنحضرت نے فرمایا : کہ بخار جہنم کی شدت ست ہے اور یا بخار کو حمی اس لئے کہا جاتا ہے کہ اس میں پسینہ اترتا ہے اور یا اس لئے کہ یہ موت کی علامات میں سے ایک علامت ہے ۔ جیسا کہ عرب لوگ کہتے ہیں الحمی بریدالموت ( کہ بخار موت کا پیغام پر ہے ) اور بعض اسے باب الموت یعنی موت کا دروازہ بھی کہتے ہیں اور اونٹوں کے بخار کو حمام کہا جاتا ہے یہ بھی حمام ( موت ) سے مشتق ہے کیونکہ اونٹ کو بخار ہوجائے تو وہ شازو نادر ہی شفایاب ہوتا ہے ۔ حمم الفرخ پرندے کے بچہ نے بال وپر نکال لئے کیونکہ اس سے اس کی جلد سیاہ ہوجاتی ہے ۔ حمم وجھہ اس کے چہرہ پر سبزہ نکل آیا یہ دونوں محاورے حممتہ سے موخوز ہیں ۔ اور حمحمت الفرس جس کے معنی گھوڑے کے ہنہنانے کے ہیں یہ اس باب سے نہیں ہے ۔- نار - والنَّارُ تقال للهيب الذي يبدو للحاسّة، قال : أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ [ الواقعة 71] ، - ( ن و ر ) نار - اس شعلہ کو کہتے ہیں جو آنکھوں کے سامنے ظاہر ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ [ الواقعة 71] بھلا دیکھو کہ جو آگ تم در خت سے نکالتے ہو ۔ - سجر - السَّجْرُ : تهييج النار، يقال : سَجَرْتُ التَّنُّورَ ، ومنه : وَالْبَحْرِ الْمَسْجُورِ [ الطور 6] ، قال الشاعر :إذا شاء طالع مَسْجُورَة ... تری حولها النّبع والسّاسما وقوله : وَإِذَا الْبِحارُ سُجِّرَتْ [ التکوير 6] أي : أضرمت نارا، عن الحسن وقیل : غيضت مياهها، وإنما يكون کذلک لتسجیر النار فيه، ثُمَّ فِي النَّارِ يُسْجَرُونَ [ غافر 72] ، نحو :- وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجارَةُ [ البقرة 24] ، وسَجَرَتِ الناقة، استعارة لالتهابها في العدو، نحو : اشتعلت الناقة، والسَّجِيرُ : الخلیل الذي يسجر في مودّة خلیله، کقولهم : فلان محرق في مودّة فلان، قال الشاعر سُجَرَاءُ نفسي غير جمع أشابة- ( س ج ر ) السجر اس کے اصل معنی زور سے آگ بھڑ کانے کے ہیں ۔ اور سجرت التنور کے معنی ہیں میں نے تنور جلا دیا اسے ایندھن سے بھر دیا اسی سے فرمایا : ۔ وَالْبَحْرِ الْمَسْجُورِ [ الطور 6] اور ( نیز ) جوش مارنے والے سمندر کی ۔ شاعر نے کہا ہے ۔ ( المتقارب ) إذا شاء طالع مَسْجُورَة ... تری حولها النّبع والسّاسماجب وہ چاہتا ہے تو پانی سے پر گڑھا اسے نظر آجاتا ہے جس کے گردا گرد نبع اور سمسم کے درخت اگے ہوئے ہیں ۔ اور آیت : ۔ وَإِذَا الْبِحارُ سُجِّرَتْ [ التکوير 6] اور جس وقت دریا پاٹ دیے جائیں ۔ کے معنی حسن (رض) ( بصری ) نے یہ کئے ہیں کہ جب ان کے پانی خشک کردیئے جائیں اور یہ ان میں آگ بھڑکانے کی غرض سے ہوگا ۔ ثُمَّ فِي النَّارِ يُسْجَرُونَ [ غافر 72] پھر آگ میں جھونکے جائیں گے ۔ جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا ۔ وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجارَةُ [ البقرة 24] جس کے ایندھن آدمی اور پتھر ہوں گے ۔ اور استعارہ کے طور پر کہا جاتا ہے ۔ وسَجَرَتِ الناقة : اونٹنی دوڑ میں بھڑک اٹھی یعنی سخت دوڑی جیسے اشتعلت الناقۃ کا محاورہ ہے اور السجیر کے معنی مخلص دوست کے ہیں گویا وہ محبت کی آگ میں جلتا رہتا ہے ۔ جیسا کہ کہا جاتا ہے فلان محرق فی مودۃ : کہ فلاں سوختہ محبت ہے کسی شاعر نے کہا ہے سُجَرَاءُ نفسي غير جمع أشابة

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٧٢ فِی الْْحَمِیْمِلا ثُمَّ فِی النَّارِ یُسْجَرُوْنَ ” کھولتے پانی میں ‘ پھر انہیں آگ میں جھونک دیا جائے گا۔ “

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْمُؤْمِن حاشیہ نمبر :101 یعنی جب وہ پیاس کی شدت سے مجبور ہو کر پانی مانگیں گے تو دوزخ کے کارکن ان کو زنجیروں سے کھینچتے ہوئے ایسے چشموں کی طرف لے جائیں گے جن سے کھولتا ہوا پانی نکل رہا ہو گا ۔ اور پھر جب وہاں سے پی کر فارغ ہوں گے تو پھر وہ انہیں کھینچتے ہوئے واپس لے جائیں گے اور دوزخ کی آگ میں جھونک دیں گے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani