84۔ 1 یہ نہیں ہے کہ آسمانوں کا معبود کوئی اور بلکہ جس طرح ان دونوں کا خالق ایک ہی معبود بھی ایک ہی ہے۔
[٧٧] مشرکوں کے کچھ خدا آسمان میں اور کچھ زمین میں :۔ مشرکوں نے کچھ خدا تو آسمان میں بنا رکھے ہیں۔ جیسے فرشتے، شمس و قمر اور کئی دوسرے سیارے اور کچھ زمین میں جیسے بت، آستانے، شجر و حجر اور بزرگوں کے مزارات۔ پھر وہ سمجھتے بھی نہیں اور اپنی بات پر اکڑ گئے ہیں۔ اور فضول قسم کی کج بحثیوں پر اتر آئے ہیں۔ لہذا انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیجئے۔ قیامت کے دن ان کو خود بخود معلوم ہوجائے گا کہ معبود برحق صرف ایک ہی ذات ہوسکتی ہے۔ اور پوری کائنات کا وہی خالق ومالک ہے۔ صرف اسی کی حکومت ہے اس کا تصرف اور اختیار کارفرما ہے۔ باقی سب چیزیں اس کی مخلوق اور مملوک ہیں جو دوسروں کے نفع و نقصان تو کجا اپنی ذات کے لیے بھی کسی طرح کے نفع و نقصان کا اختیار نہیں رکھتیں۔
(١) وھو الذی فی السمآء الہ …: مشرکوں نے کچھ معبود آسمان میں بنا رکھے تھے، مثلاً فرشتے، سورج، چاند اورب عض ستارے اور کچھ زمین میں، جیسے ابنیائ، الویائ، ان کی قبریں اور بت ، درخت اور پتھر وغیرہ۔ فرمایا، زمین اور آسمان میں الگ الگ معبود نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ ہی دونوں کا بلاشرکت غیرے مالک ہے۔ دونوں جگہ اسی کی عبادت ہوتی ہے اور دونوں جگہ عبادت اسی کا حق ہے۔- (٢) وھو الحکیم العلیم :” الحکیم “ کمال حکمت والا، جس نے ہر چیز محکم و مضبوط اور حکمت و دانائی کے ساتھ بنائی ہے اور ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے۔ یہ معبود واحد ہونے کی دلیل ہے کہ کوئی دوسرا نہ حکیم ہے نہ علیم، تو پھر اس کی عبادت کیوں ہو ؟
وَہُوَالَّذِيْ فِي السَّمَاۗءِ اِلٰہٌ وَّفِي الْاَرْضِ اِلٰہٌ ٠ ۭ وَہُوَالْحَكِيْمُ الْعَلِيْمُ ٨٤- الله - الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم 65] . وإله جعلوه اسما لکل معبود لهم، وکذا اللات، وسمّوا الشمس إِلَاهَة «3» لاتخاذهم إياها معبودا .- وأَلَهَ فلان يَأْلُهُ الآلهة : عبد، وقیل : تَأَلَّهَ.- فالإله علی هذا هو المعبود «4» . وقیل : هو من : أَلِهَ ، أي : تحيّر، وتسمیته بذلک إشارة إلى ما قال أمير المؤمنین عليّ رضي اللہ عنه : (كلّ دون صفاته تحبیر الصفات، وضلّ هناک تصاریف اللغات) وذلک أنّ العبد إذا تفكّر في صفاته تحيّر فيها، ولهذا روي : «تفكّروا في آلاء اللہ ولا تفكّروا في الله»- وقیل : أصله : ولاه، فأبدل من الواو همزة، وتسمیته بذلک لکون کل مخلوق والها نحوه، إمّا بالتسخیر فقط کالجمادات والحیوانات، وإمّا بالتسخیر والإرادة معا کبعض الناس، ومن هذا الوجه قال بعض الحکماء : اللہ محبوب الأشياء کلها «2» ، وعليه دلّ قوله تعالی: وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلكِنْ لا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ [ الإسراء 44] .- وقیل : أصله من : لاه يلوه لياها، أي : احتجب . قالوا : وذلک إشارة إلى ما قال تعالی: لا تُدْرِكُهُ الْأَبْصارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصارَ [ الأنعام 103] ، والمشار إليه بالباطن في قوله : وَالظَّاهِرُ وَالْباطِنُ [ الحدید 3] . وإِلَهٌ حقّه ألا يجمع، إذ لا معبود سواه، لکن العرب لاعتقادهم أنّ هاهنا معبودات جمعوه، فقالوا : الآلهة . قال تعالی: أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنا [ الأنبیاء 43] ، وقال : وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ [ الأعراف 127] وقرئ :- ( وإلاهتك) أي : عبادتک . ولاه أنت، أي : لله، وحذف إحدی اللامین .«اللهم» قيل : معناه : يا الله، فأبدل من الیاء في أوله المیمان في آخره وخصّ بدعاء الله، وقیل : تقدیره : يا اللہ أمّنا بخیر «5» ، مركّب تركيب حيّهلا .- ( ا ل ہ ) اللہ - (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔ الہ کا لفظ عام ہے اور ہر معبود پر بولا جاتا ہے ( خواہ وہ معبود پر حق ہو یا معبود باطل ) اور وہ سورج کو الاھۃ کہہ کر پکارتے تھے کیونکہ انہوں نے اس کو معبود بنا رکھا تھا ۔ الہ کے اشتقاق میں مختلف اقوال ہیں بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( ف) یالہ فلاو ثالہ سے مشتق ہے جس کے معنی پر ستش کرنا کے ہیں اس بنا پر الہ کے معنی ہوں گے معبود اور بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( س) بمعنی تحیر سے مشتق ہے اور باری تعالیٰ کی ذات وصفات کے ادراک سے چونکہ عقول متحیر اور دو ماندہ ہیں اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے امیرالمومنین حضرت علی (رض) نے فرمایا ہے ۔ کل دون صفاتہ تحبیرالصفات وضل ھناک تصاریف للغات ۔ اے بروں ازوہم وقال وقیل من خاک برفرق من و تمثیل من اس لئے کہ انسان جس قدر صفات الیہ میں غور و فکر کرتا ہے اس کی حیرت میں اضافہ ہوتا ہے اس بناء پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے (11) تفکروا فی آلاء اللہ ولا تفکروا فی اللہ کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں غور و فکر کیا کرو اور اس کی ذات کے متعلق مت سوچا کرو ۔ (2) بعض نے کہا ہے کہ الہ اصل میں ولاہ ہے واؤ کو ہمزہ سے بدل کر الاہ بنالیا ہے اور ولہ ( س) کے معنی عشق و محبت میں دارفتہ اور بیخود ہونے کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ سے بھی چونکہ تمام مخلوق کو والہانہ محبت ہے اس لئے اللہ کہا جاتا ہے اگرچہ بعض چیزوں کی محبت تسخیری ہے جیسے جمادات اور حیوانات اور بعض کی تسخیری اور ارادی دونوں طرح ہے جیسے بعض انسان اسی لئے بعض حکماء نے کہا ہے ذات باری تعالیٰ تما اشیاء کو محبوب ہے اور آیت کریمہ : وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلَكِنْ لَا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ ( سورة الإسراء 44) مخلوقات میں سے کوئی چیز نہیں ہے مگر اس کی تعریف کے ساتھ تسبیح کرتی ہے ۔ بھی اسی معنی پر دلالت کرتی ہے ۔ (3) بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں لاہ یلوہ لیاھا سے ہے جس کے معنی پر وہ میں چھپ جانا کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ بھی نگاہوں سے مستور اور محجوب ہے اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا :۔ لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ ( سورة الأَنعام 103) وہ ایسا ہے کہ نگاہیں اس کا ادراک نہیں کرسکتیں اور وہ نگاہوں کا ادراک کرسکتا ہے ۔ نیز آیت کریمہ ؛ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ ( سورة الحدید 3) میں الباطن ، ، کہہ کر بھی اسی معنی کی طرف اشارہ کیا ہے ۔ الہ یعنی معبود درحقیقت ایک ہی ہے اس لئے ہونا یہ چاہیے تھا کہ اس کی جمع نہ لائی جائے ، لیکن اہل عرب نے اپنے اعتقاد کے مطابق بہت سی چیزوں کو معبود بنا رکھا تھا اس لئے الہۃ صیغہ جمع استعمال کرتے تھے ۔ قرآن میں ہے ؛۔ أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنَا ( سورة الأنبیاء 43) کیا ہمارے سوا ان کے اور معبود ہیں کہ ان کو مصائب سے بچالیں ۔ وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ ( سورة الأَعراف 127) اور آپ سے اور آپ کے معبودوں سے دست کش ہوجائیں ۔ ایک قراءت میں والاھتک ہے جس کے معنی عبادت کے ہیں الاہ انت ۔ یہ اصل میں للہ انت ہے ایک لام کو تخفیف کے لئے خذف کردیا گیا ہے ۔ اللھم بعض نے کہا ہے کہ اس کے معنی یا اللہ کے ہیں اور اس میں میم مشدد یا ( حرف ندا کے عوض میں آیا ہے اور بعض کا قول یہ ہے کہ یہ اصل میں یا اللہ امنا بخیر ( اے اللہ تو خیر کے ساری ہماری طرف توجہ فرما) ہے ( کثرت استعمال کی بنا پر ) ۔۔۔ حی ھلا کی طرح مرکب کرکے اللھم بنا لیا گیا ہے ۔ ( جیسے ھلم )- حكيم - والحِكْمَةُ : إصابة الحق بالعلم والعقل، فالحکمة من اللہ تعالی:- معرفة الأشياء وإيجادها علی غاية الإحكام، ومن الإنسان : معرفة الموجودات وفعل الخیرات . وهذا هو الذي وصف به لقمان في قوله عزّ وجلّ : وَلَقَدْ آتَيْنا لُقْمانَ الْحِكْمَةَ [ لقمان 12] ، ونبّه علی جملتها بما وصفه بها، فإذا قيل في اللہ تعالی: هو حَكِيم «2» ، فمعناه بخلاف معناه إذا وصف به غيره، ومن هذا الوجه قال اللہ تعالی: أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین 8] ، وإذا وصف به القرآن فلتضمنه الحکمة، نحو : الر تِلْكَ آياتُ الْكِتابِ الْحَكِيمِ [يونس 1] - ( ح ک م ) الحکمتہ - کے معنی علم وعقل کے ذریعہ حق بات دریافت کرلینے کے ہیں ۔ لہذا حکمت الہی کے معنی اشیاء کی معرفت اور پھر نہایت احکام کے ساتھ انکو موجود کرتا ہیں اور انسانی حکمت موجودات کی معرفت اور اچھے کو موں کو سرانجام دینے کا نام ہے چناچہ آیت کریمہ : وَلَقَدْ آتَيْنا لُقْمانَ الْحِكْمَةَ [ لقمان 12] اور ہم نے لقمان کو دانائی بخشی ۔ میں حکمت کے یہی معنی مراد ہیں جو کہ حضرت لقمان کو عطا کی گئی تھی ۔ لہزا جب اللہ تعالے کے متعلق حکیم کا لفظ بولاجاتا ہے تو اس سے وہ معنی مراد نہیں ہوتے جو کسی انسان کے حکیم ہونے کے ہوتے ہیں اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کے متعلق فرمایا ہے ۔ أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین 8] کیا سب سے بڑا حاکم نہیں ہے ؟
وہی ذات ہے جو آسمانوں میں ہر ایک چیز کا معبود ہے اور زمین میں بھی ہے اور وہ اپنے حکم و فیصلہ میں حکمت والا اور اپنی مخلوق اور اس کی تدابیر کو بخوبی جاننے والا ہے۔
آیت ٨٤ وَہُوَ الَّذِیْ فِی السَّمَآئِ اِلٰــہٌ وَّفِی الْاَرْضِ اِلٰــہٌط وَہُوَ الْحَکِیْمُ الْعَلِیْمُ ” اور وہی ہے جو آسمان میں بھی الٰہ ہے اور زمین میں بھی اِلٰہ ہے۔ اور وہ بہت حکمت والا ‘ ہرچیز کا علم رکھنے والا ہے۔ “- یعنی پوری کائنات میں ہر جگہ اسی کا اقتدار ہے۔ بائبل میں عیسائیوں کی جو ہے اس کا مفہوم اس آیت کے بہت قریب ہیـ:- - - کہ اے اللہ تیری ہی سلطنت اور تیری حاکمیت قائم ہوجائے اور تیری مرضی جیسے آسمانوں پر پوری ہو رہی ہے ویسے ہی زمین پر بھی پوری ہو۔ بہر حال الٰہ تو آسمانوں میں بھی وہی ہے اور زمین پر بھی وہی ہے۔ لیکن زمین پر انسانوں کو اس نے تھوڑی سی آزادی دے رکھی ہے کہ اگر کوئی انسان چاہے تو وہ نافرمانی اور ناشکری کی روش بھی اختیار کرسکتا ہے۔ بس زمین پر جو بھی فساد نظر آ رہا ہے وہ اس ” ذرا سی “ آزادی کا نتیجہ ہے۔ سورة الروم کی اس آیت میں یہی حقیقت بیان کی گئی ہے : ظَہَرَ الْفَسَادُ فِی الْْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا کَسَبَتْ اَیْدِی النَّاسِ (آیت ٤١) چناچہ بحر و بر میں اگر ہر جگہ فساد ہی فساد نظر آتا ہے تو وہ لوگوں کے کرتوتوں کے سبب ہے ‘ ورنہ حکومت تو زمین پر بھی اللہ ہی کی ہے۔
سورة الزُّخْرُف حاشیہ نمبر :65 یعنی آسمان اور زمین کے خدا الگ الگ نہیں ہیں ، بلکہ ساری کائنات کا ایک ہی خدا ہے ۔ اسی کی حکمت اس پورے نظام کائنات میں کار فرما ہے ، اور وہی تمام حقائق کا علم رکھتا ہے ۔