16۔ 1 اس سے مراد جنگ بدر کی گرفت ہے، جس میں ستر کافر مارے گئے اور ستر قیدی بنا لئے گئے۔ دوسری تفسیر کی رو سے یہ سخت گرفت قیامت والے دن ہوگی۔ امام شوکانی فرماتے ہیں کہ یہ اس گرفت خاص کا ذکر ہے جو جنگ بدر میں ہوئی، کیونکہ قریش کے سیاق میں ہی اس کا ذکر ہے، اگرچہ قیامت والے دن بھی اللہ تعالیٰ سخت گرفت فرمائے گا تاہم وہ گرفت عام ہوگی، ہر نافرمان اس میں شامل ہوگا۔
یوم نبطش البطشۃ الکبری انا منقمون :” ان “ علت بیان کرنے کے لئے ہے۔ یعنی یہ قحط کا عذاب تو ہم نے ہٹا لیا مگر قیامت کے دن جب ہم تمہیں بڑی گرفت میں پکڑیں گے تو وہ کسی صورت دور نہیں ہوگی، ، کیونکہ ہم انتقام لے رہے ہوں گے۔ دنیا کی گرفت تمہیں کفر سے واپس لانے کے لئے تھی، اس لئے اس کے بعد تمہیں رجوع کا موقع ملتا تھا، جیسا کہ فرمایا :(ولنذیقنھم من العذاب الادنی دون العذاب الاکبر لعلھم یرجعون) (السجدۃ : ٢١) ” اور یقینا ہم انھیں قریب ترین عذاب کا کچھ حصہ سب سے بڑے عذاب سے پہلے ضرور چکھائیں گے، تاکہ وہ پلٹ آئیں۔ “ لیکن قیامت کے دن کی بڑی گرفت انتقام کے لئے ہوگی، اس کے بعد تمہیں مہلت نہیں ملے گی۔ طبری نے اپنی سند کے ساتھ ذکر کیا ہے کہ ابن عباس (رض) نے فرمایا :(قال ابن مسعود البطشۃ الکبری “ یوم بدر، وانا اقولھی یوم القیامۃ) (الطبری : 28 21 ح :31338)” ابن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ ” البطشۃ الکبری “ (بڑی پکڑ) یوم بدر ہے اور میں کہتا ہوں کہ وہ قیامت کا دن ہے۔ “ ابن کثیر رحمتہ اللہ نے اس قول کی سند کو صحیح کہا ہے۔ ان کی تفسیر کے محقق دکتور حکمت بن بشیر نے بھی اس قول کی سند کو صحیح کہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہاں ابن عباس (رض) کی بات قوی ہے۔
يَوْمَ نَبْطِشُ الْبَطْشَۃَ الْكُبْرٰى ٠ ۚ اِنَّا مُنْتَقِمُوْنَ ١٦- بطش - البَطْشُ : تناول الشیء بصولة، قال تعالی: وَإِذا بَطَشْتُمْ بَطَشْتُمْ جَبَّارِينَ [ الشعراء 130] ، يَوْمَ نَبْطِشُ الْبَطْشَةَ الْكُبْرى[ الدخان 16] ، وَلَقَدْ أَنْذَرَهُمْ بَطْشَتَنا [ القمر 36] ، إِنَّ بَطْشَ رَبِّكَ لَشَدِيدٌ [ البروج 12] . يقال : يد بَاطِشَة .- ( ب ط ش ) البطش کے معنی کوئی چیز زبردستی لے لینا کے ہیں قرآن میں : وَإِذَا بَطَشْتُمْ بَطَشْتُمْ جَبَّارِينَ ( سورة الشعراء 130) اور جب کسی کو پکڑتے تو ظالمانہ پکڑتے ہو ۔ يَوْمَ نَبْطِشُ الْبَطْشَةَ الْكُبْرى[ الدخان 16] جس دن ہم بڑی سخت پکڑ پکڑیں گے ۔ وَلَقَدْ أَنْذَرَهُمْ بَطْشَتَنا [ القمر 36] اور لوط نے ان کو ہماری گرفت سے ڈرایا ۔ إِنَّ بَطْشَ رَبِّكَ لَشَدِيدٌ [ البروج 12] بیشک تمہاری پروردگار کی گرفت بڑی سخت ہے ید کا طشۃ سخت گیر ہاتھ ۔- تَّكْبِيرُ ، اکبر، کبار - والتَّكْبِيرُ يقال لذلک، ولتعظیم اللہ تعالیٰ بقولهم : اللہ أَكْبَرُ ، ولعبادته واستشعار تعظیمه، وعلی ذلك : وَلِتُكَبِّرُوا اللَّهَ عَلى ما هَداكُمْ [ البقرة 185] ، وَكَبِّرْهُ تَكْبِيراً [ الإسراء 111] ، وقوله : لَخَلْقُ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ أَكْبَرُ مِنْ خَلْقِ النَّاسِ وَلكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لا يَعْلَمُونَ [ غافر 57] فهي إشارة إلى ما خصّهما اللہ تعالیٰ به من عجائب صنعه، وحکمته التي لا يعلمها إلّا قلیل ممّن وصفهم بقوله : وَيَتَفَكَّرُونَ فِي خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ آل عمران 191] فأمّا عظم جثّتهما فأكثرهم يعلمونه . وقوله : يَوْمَ نَبْطِشُ الْبَطْشَةَ الْكُبْرى[ الدخان 16] فتنبيه أنّ كلّ ما ينال الکافر من العذاب قبل ذلک في الدّنيا وفي البرزخ صغیر في جنب عذاب ذلک الیوم .- والْكُبَارُ أبلغ من الْكَبِيرُ ، والْكُبَّارُ أبلغ من ذلك . قال تعالی: وَمَكَرُوا مَكْراً كُبَّاراً [ نوح 22] .- التکبیر ( تفعیل ) اس کے ) ایک معنی تو کسی کو بڑا سمجھنے کے ہیں ۔ اور دوم اللہ اکبر کہہ کر اللہ تعالیٰ کی عظمت کو ظاہر کرنے پر بولاجاتا ہے ۔ اور اللہ تعالیٰ کی عبادت اور اس کی عظمت کا احساس ر کرنے کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : وَلِتُكَبِّرُوا اللَّهَ عَلى ما هَداكُمْ [ البقرة 185] اور اس احسان کے بدلے کو خدا نے تم کو ہدایت بخشی ہے تم اس کو بزرگی سے یاد کرو ۔۔ وَكَبِّرْهُ تَكْبِيراً [ الإسراء 111] اور اس کو بڑا جان کر اس کی بڑائی کرتے رہو ۔ اور آیت : لَخَلْقُ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ أَكْبَرُ مِنْ خَلْقِ النَّاسِ وَلكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لا يَعْلَمُونَ [ غافر 57] آسمانوں اور زمینوں کا پیدا کر نا لوگوں کے پیدا کرنے کی نسبت بڑا کام ہے ۔ لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے ۔ میں اکبر کا لفظ سے قدرت الہی کی کاریگری اور حکمت کے ان عجائب کی طرف اشارہ فرمایا ہے ۔ جو آسمان اور زمین کی خلق میں پائے جاتے ہیں ۔ اور جن کو کہ وہ خاص لوگ ہی جان سکتے ہیں ۔ جن کی وصف میں فرمایا ۔ وَيَتَفَكَّرُونَ فِي خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ آل عمران 191] اور آسمان اور زمین پیدا ئش میں غور کرتے ہیں ۔ ور نہ ان کی ظاہری عظمت کو تو عوام الناس بھی سمجھتے ہیں ( اس لئے یہ معنی یہاں مراد نہیں ہیں ) اور آیت : يَوْمَ نَبْطِشُ الْبَطْشَةَ الْكُبْرى[ الدخان 16] جس دن ہم بڑی سخت پکڑ پکڑیں گے ۔ میں اس بات پر متنبہ کیا ہے کہ روز قیامت سے پہلے دنیا یا علم برزخ میں کافر کو جس قد ر بھی عذاب ہوتا ہے عذاب آخرت کے مقابلہ میں ہیچ ہے ۔ الکبار ۔ اس میں کبیر کے لفظ سے زیادہ مبالغہ پایا جاتا ہے اور کبار ( بتشدید یاء ) اس سے بھی زیادہ بلیغ ہے ۔ چناچہ فرمایا : وَمَكَرُوا مَكْراً كُبَّاراً [ نوح 22] اور وہ بڑی بڑی چالیں چلے ۔- نقم - نَقِمْتُ الشَّيْءَ ونَقَمْتُهُ : إذا أَنْكَرْتُهُ ، إِمَّا باللِّسانِ ، وإِمَّا بالعُقُوبةِ. قال تعالی: وَما نَقَمُوا إِلَّا أَنْ أَغْناهُمُ اللَّهُ [ التوبة 74] ، وَما نَقَمُوا مِنْهُمْ إِلَّا أَنْ يُؤْمِنُوا بِاللَّهِ [ البروج 8] ، هَلْ تَنْقِمُونَ مِنَّاالآية [ المائدة 59] . والنِّقْمَةُ : العقوبةُ. قال : فَانْتَقَمْنا مِنْهُمْ فَأَغْرَقْناهُمْ فِي الْيَمِ [ الأعراف 136] ، فَانْتَقَمْنا مِنَ الَّذِينَ أَجْرَمُوا[ الروم 47] ، فَانْتَقَمْنا مِنْهُمْ فَانْظُرْ كَيْفَ كانَ عاقِبَةُ الْمُكَذِّبِينَ [ الزخرف 25] .- ( ن ق م )- نقمت الشئی ونقمتہ کسی چیز کو برا سمجھنا یہ کبھی زبان کے ساتھ لگانے اور کبھی عقوبت سزا دینے پر بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَما نَقَمُوا مِنْهُمْ إِلَّا أَنْ يُؤْمِنُوا بِاللَّهِ [ البروج 8] ان کو مومنوں کی یہی بات بری لگتی تھی ۔ کہ وہ خدا پر ایمان لائے ہوئے تھے ۔ وَما نَقَمُوا إِلَّا أَنْ أَغْناهُمُ اللَّهُ [ التوبة 74] اور انہوں نے ( مسلمانوں میں عیب ہی کو کونسا دیکھا ہے سیلا س کے کہ خدا نے اپنے فضل سے ان کو دولت مند کردیا ۔ هَلْ تَنْقِمُونَ مِنَّاالآية [ المائدة 59] تم ہم میں برائی ہی کیا دیکھتے ہو ۔ اور اسی سے نقمۃ بمعنی عذاب ہے قرآن میں ہے ۔ فَانْتَقَمْنا مِنْهُمْ فَأَغْرَقْناهُمْ فِي الْيَمِ [ الأعراف 136] تو ہم نے ان سے بدلہ لے کر ہی چھوڑا گر ان کو در یا میں غرق کردیا ۔ فَانْتَقَمْنا مِنَ الَّذِينَ أَجْرَمُوا[ الروم 47] سو جو لوگ نافر مانی کرتے تھے ہم نے ان سے بدلہ لے کر چھوڑا ۔ فَانْتَقَمْنا مِنْهُمْ فَانْظُرْ كَيْفَ كانَ عاقِبَةُ الْمُكَذِّبِينَ [ الزخرف 25] تو ہم نے ان سے انتقام لیا سو دیکھ لو کہ جھٹلانے والوں کا انجام کیسا ہوا ۔
جس کی طرف اللہ تعالیٰ اگلی آیت میں اشارہ فرما رہا ہے بدر کے دن بذریعہ تلوار جب ان کی بہت سخت پکڑ کریں گے تو اس روز ہم بذریعہ عذاب ان سے پورا پورا بدلہ لیں گے۔
آیت ١٦ یَوْمَ نَبْطِشُ الْبَطْشَۃَ الْکُبْرٰیج اِنَّا مُنْتَقِمُوْنَ ” جس دن ہم پکڑیں گے بڑی پکڑ ‘ (اُس دن) یقینا ہم پورا پورا انتقام لیں گے۔ “
سورة الدُّخَان حاشیہ نمبر :13 ان آیات کے مفہوم میں مفسرین کے درمیان بڑا اختلاف واقع ہوا ہے اور یہ اختلاف صحابہ کرام کے زمانے میں بھی پایا جاتا تھا ۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے مشہور شاگرد مسروق کہتے ہیں کہ ایک روز ہم کوفے کی مسجد میں داخل ہوئے تو دیکھا کہ ایک واعظ لوگوں کے سامنے تقریر کر رہا ہے ۔ اس نے آیت : یَوْمَ تَأتِی السَّمَآءُ بِدُخَانٍ مُّبِیْنٍ پڑھی ، پھر کہنے لگا ، جانتے ہو یہ کیسا دھواں ہے ؟ یہ دھواں قیامت کے روز آئے گا اور کفار و منافقین کو اندھا بہرا کر دے گا ، مگر اہل ایمان پر اس کا اثر بس اس قدر ہوگا کہ جیسے زکام لاحق ہوگیا ہو ۔ اس کی یہ بات سن کر ہم حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس گئے اور ان سے واعظ کی یہ تفسیر بیان کی ۔ حضرت عبداللہ لیٹے ہوئے تھے ۔ یہ تفسیر سن کر گھبرا کے اٹھ بیٹھے اور کہنے لگے کہ آدمی کو علم نہ ہو تو اسے جاننے والوں سے پوچھ لینا چاہیے ۔ اصل بات یہ ہے کہ جب قریش کے لوگ اسلام قبول کرنے سے انکار اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کرتے ہی چلے گئے تو حضور نے دعا کی کہ خدایا یوسف علیہ السلام کے قحط جیسے قحط سے میری مدد فرما ۔ چنانچہ ایسا شدید کال پڑا کہ لوگ ہڈیاں اور چمڑا اور مردار تک کھا گئے ۔ اس زمانے میں حالت یہ تھی کہ جو شخص آسمان کی طرف دیکھتا تھا اسے بھوک کی شدت میں بس دھواں ہی دھواں نظر آتا تھا ۔ آخر کار ابو سفیان نے آ کر حضور سے کہا کہ آپ تو صلہ رحمی کی دعوت دیتے ہیں ۔ آپ کی قوم بھوکوں مر رہی ہے ۔ اللہ سے دعا کیجیے کہ اس مصیبت کو دور کر دے ۔ یہی زمانہ تھا جب قریش کے لوگ کہتے لگے تھے کہ خدایا ہم پر سے یہ عذاب دور کر دے تو ہم ایمان لے آئیں گے ۔ اسی واقعہ کا ذکر ان آیات میں کیا گیا ہے ۔ اور بڑی ضرب سے مراد وہ ضرب ہے جو آخر کار جنگ بدر کے روز قریش کو لگائی گئی ۔ یہ روایت امام احمد ، بخاری ، ترمذی ، نسائی ، ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے متعدد سندوں کے ساتھ مسروق سے نقل کی ہے ۔ اور مسروق کے علاوہ ابراہیم نخعی ، قتادہ ، عاصم اور عامر کا بھی یہی بیان ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے اس آیت کی یہ تفسیر ارشاد فرمائی تھی ۔ اس لیے اس امر میں کوئی شک نہیں رہتا کہ حضرت موصوف کی رائے فی الواقع یہی تھی ۔ تابعین میں سے مجاہد ، قتادہ ، ابو العالیہ ، مقاتل ، ابراہیم النخعی ، ضحاک اور عطیۃ العوفی وغیرہ حضرات نے بھی اس تفسیر میں حضرت عبداللہ بن مسعود سے اتفاق کیا ہے ۔ دوسری طرف حضرت علی ، ابن عمر ، ابن عباس ، ابو سعید خدری ، زید بن علی اور حسن بصری جیسے اکابر کہتے ہیں کہ ان آیات میں سارا ذکر قیامت کے قریب زمانے کا کیا گیا ہے اور وہ دھواں جس کی خبر دی گئی ہے ، اسی زمانے میں زمین پر چھائے گا ۔ مزید تقویت اس تفسیر کو ان روایات سے ملتی ہے جو خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہیں ۔ خذیفہ بن اَسید الغفاری کہتے ہیں کہ ایک روز ہم قیامت کے متعلق آپس میں گفتگو کر رہے تھے ۔ اتنے میں حضور برآمد ہوئے اور فرمایا قیامت قائم نہ ہو گی جب تک دس علامات یکے بعد دیگرے ظاہر نہ ہو لیں گی : سورج کا مغرب سے طلوع ہونا ۔ دھواں ۔ دابہ ۔ یاجوج و ماجوج کا خروج ، عیسی ابن مریم کا نزول ۔ زمین کا دھنسنا مشرق میں ، مغرب میں اور جزیرۃالعرب میں ۔ اور عدن سے آگ کا نکلنا جو لوگوں کو ہانکتی ہوئی لے جائے گی ( مسلم ) ۔ اسی کی تائید ابو مالک اشعری کی وہ روایت کرتی ہے جسے ابن جریر اور طبرانی نے نقل کیا ہے ، اور ابو سعید خدری کی روایت جسے ابن ابی حاتم نے نقل کیا ہے ۔ ان دونوں روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دھوئیں کو علامات قیامت میں شمار کیا ہے ، اور یہ بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ وہ دھواں جب چھائے گا تو مومن پر اس کا اثر صرف زکام جیسا ہوگا ، اور کافر کی نس نس میں وہ بھر جائے گا اور اس کے ہر منفذ سے نکلے گا ۔ ان دونوں تفسیروں کا تعارض اوپر کی آیات پر غور کرنے سے بآسانی رفع ہوسکتا ہے ۔ جہاں تک حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی تفسیر کا تعلق ہے ، یہ امر واقعہ ہے کہ مکہ معظمہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا سے سخت قحط رونما ہوا تھا جس سے کچار کے خنّے بہت کچھ ڈھیلے پڑ گئے تھے ، اور انہوں نے اسے رفع کرانے کے لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے دعا کی درخواست کی تھی ۔ اس واقعہ کی طرف قرآن مجید میں متعدد مقامات پر اشارے کیے گئے ہیں ( ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد اول ، الانعام ، حاشیہ۲۹ ، جلد دوم ، الاعراف ، حاشیہ ۷۷ ، یونس ، حواشی۱٤ ۔ ۱۵ ۔ ۲۹ ، جلد سوم ، المومنون حاشیہ۷۲ ) ۔ ان آیات میں بھی صاف محسوس ہوتا ہے کہ اشارہ اسی صورت حال کی طرف ہے ۔ کفار کا یہ کہنا کہ پروردگار ، ہم پر سے یہ عذاب ٹال دے ، ہم ایمان لاتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کا یہ فرمانا کہ ان کی غفلت کہاں دور ہوتی ہے جبکہ رسول مبین آ گیا ، پھر بھی یہ اس کی طرف ملتفت نہ ہوئے اور کہا کہ یہ تو سکھایا پڑھایا باؤلا ہے ۔ پھر یہ فرمانا کہ ہم ذرا عذاب ہٹائے دیتے ہیں ، تم لوگ پھر وہی کچھ کرو گے جو پہلے کر رہے تھے ۔ یہ ساری باتیں اسی صورت میں راست آ سکتی ہیں جبکہ واقعہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے زمانے کا ہو ۔ قیامت کے قریب ہونے والے واقعات پر ان کا اطلاق بعید از فہم ہے ۔ اس لیے اس حد تک تو ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی تفسیر ہی صحیح معلوم ہوتی ہے ۔ لیکن اس کا یہ حصہ صحیح نہیں معلوم ہوتا کہ دھواں بھی اسی زمانے میں ظاہر ہوا تھا ، اور اس شکل میں ظاہر ہوا تھا کہ بھوک کی شدت میں جب لوگ آسمان کی طرف دیکھتے تھے تو دھواں ہی دھواں نظر آتا تھا ، یہ بات قرآن مجید کے ظاہر الفاظ سے بھی مطابقت نہیں رکھتی ، اور احادیث کے بھی خلاف ہے ۔ قرآن میں یہ کہاں کہا گیا ہے کہ آسمان دھواں لیے ہوئے آگیا اور لوگوں پر چھا گیا ۔ وہاں تو کہا گیا ہے کہ اچھا تو اس دن کا انتظار کرو جب آسمان صریح دھواں لیے ہوئے آئے گا اور وہ لوگوں پر چھا جائے گا ۔ بعد کی آیات کو نگاہ میں رکھ کر دیکھا جائے تو اس ارشاد کا صاف مطلب یہ معلوم ہوتا ہے کہ جب تم نہ رسول کے سمجھانے سے مانتے ہو ، نہ قحط کی شکل میں جو تنبیہ تمہیں کی گئی ہے اس سے ہی ہوش میں آتے ہو ، تو پھر قیامت کا انتظار کرو ، اس وقت جب پوری طرح شامت آئے گی تب تمہیں پتہ چل جائے گا کہ حق کیا تھا ۔ پس جہاں تک دھوئیں کا تعلق ہے ، اس کے بارے میں صحیح بات یہی ہے کہ وہ قحط کے زمانے کی چیز نہیں ہے بلکہ علامات قیامت میں سے ہے ، اور یہی بات احادیث سے بھی معلوم ہوتی ہے ۔ تعجب ہے کہ مفسرین کبار میں سے جنہوں نے حضرت ابن مسعود کی تائید کی انہوں نے پوری بات کی تائید کر دی ، اور جنہوں نے ان کی تردید کی انہوں نے پوری بات کی تردید کر دی ، حالانکہ آیات اور احادیث پر غور کرنے سے یہ صاف معلوم ہوجاتا ہے کہ اس کا کونسا حصہ صحیح ہے اور کون سا غلط ۔
4: یعنی اس وقت تو یہ عذاب ان سے دور کردیا جائے گا، لیکن جب قیامت میں ان کی پکڑ ہوگی، اس وقت انہیں پورے عذاب کا سامنا کرنا ہوگا۔