شہنشاہ تبع کی کہانی یہاں مشرکین کا انکار قیامت اور اس کی دلیل بیان فرما کر اللہ تعالیٰ اس کی تردید کرتا ہے ان کا خیال تھا کہ قیامت آنی نہیں مرنے کے بعد جینا نہیں ۔ حشر اور نشر سب غلط ہے دلیل یہ پیش کرتے تھے کہ ہمارے باپ دادا مر گئے وہ کیوں دوبارہ جی کر نہیں آئے ؟ خیال کیجئے یہ کس قدر بودی اور بےہودہ دلیل ہے دوبارہ اٹھ کھڑا ہونا مرنے کے بعد جینا قیامت کو ہوگا نہ کہ دنیا میں پھر لوٹ کر آئیں گے ۔ اس دن یہ ظالم جہنم کا ایندھن بنیں گے اس وقت یہ امت اگلی امتوں پر گواہی دے گی اور ان پر انکے نبی صلی اللہ علیہ وسلم گواہی دیں گے پھر اللہ تعالیٰ انہیں ڈرا رہا ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہمارے جو عذاب اسی جرم پر اگلی قوموں پر آئے وہ تم پر بھی آجائیں اور ان کی طرح بےنام و نشان کر دئیے جاؤ ۔ ان کے واقعات سورہ سبا میں گذر چکے ہیں وہ لوگ بھی قحطان کے عرب تھے جیسے یہ عدنان کے عرب ہیں حمیر جو سبا کے تھے وہ اپنے بادشاہ کو تبع کہتے تھے جیسے فارس کے بادشاہ کو کسریٰ اور روم کے ہر بادشاہ کو قیصر اور مصر کے ہر بادشاہ کو فرعون اور حبشہ کے ہر بادشاہ کو نجاشی کہا جاتا ہے ۔ ان میں سے ایک تبع یمن سے نکلا اور زمین پھرتا رہا سمرقند پہنچ گیا ہر جگہ کے بادشاہوں کو شکست دیتا رہا اور اپنا بہت بڑا ملک کر لیا زبردست لشکر اور بیشمار رعایا اس کے ماتحت تھی اس نے حیرہ نامی بستی بسائی یہ اپنے زمانے میں مدینے میں بھی آیا تھا اور یہاں کے باشندوں سے بھی لڑا لیکن اسے لوگوں نے اس سے روکا خود اہل مدینہ کا بھی اس سے یہ سلوک رہا کہ دن کو تو لڑتے تھے اور رات کو انکی مہمان داری کرتے تھے آخر اس کو بھی لحاظ آگیا اور لڑائی بند کر دی اس کے ساتھ یہاں کے دو یہودی عالم ہوگئے تھے جو حضرت موسیٰ کے سچے دین کے عامل بھی تھے وہ اسے ہر وقت بھلائی برائی سمجھاتے رہتے تھے انہوں نے کہا کہ آپ مدینے کو تاخت وتاراج نہیں کر سکتے کیونکہ یہ آخر زمانے کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت کی جگہ ہے ۔ پس یہاں سے لوٹ گیا اور ان دونوں عالموں کو اپنے ساتھ لیتا چلا جب یہ مکے پہنچا تو اس نے بیت اللہ کو گرانا چاہا لیکن ان دونوں عالموں نے اسے روکا اور اس پاک گھر کی عظمت و حرمت بیان کی اور کہا کہ اس کے بانی خلیل اللہ حضرت ابراہیم ہیں ۔ اور اس نبی آخر الزمان کے ہاتھوں پھر اس کی اصلی عظمت آشکارا ہو جائے گی ۔ چنانچہ یہ اپنے ارادے سے باز آیا بلکہ بیت اللہ کی بڑی تعظیم و تکریم کی طواف کیا غلاف چڑھایا اور یہاں سے یمن واپس چلا گیا ۔ خود حضرت موسیٰ کے دین میں داخل ہوا اور تمام یمن میں یہی دین پھیلایا اس وقت تک حضرت مسیح کا ظہور نہیں ہوا تھا اور اس زمانے والوں کے لئے یہی سچا دین تھا ۔ اس طرح کے واقعات بہت تفصیل سے سیرۃ ابن اسحاق میں موجود ہیں ۔ اور حافظ ابن عساکر بھی اپنی کتاب میں بہت تفصیل کے ساتھ لائے ہیں اس میں ہے کہ اس کا پائے تخت دمشق میں تھا اس کے لشکروں کی صفیں دمشق سے لے کر یمن تک پہنچتی تھیں ۔ ایک حدیث میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ۔ میں نہیں جان سکا کہ حد لگنے سے گناہ کا کفارہ ہو جاتا ہے یا نہیں ؟ اور نہ مجھے یہ معلوم ہے کہ تبع ملعون تھا یا نہیں ؟ اور نہ مجھے یہ خبر ہے کہ ذوالقرنین نبی تھے یا بادشاہ اور روایت میں ہے کہ یہ بھی فرمایا حضرت عزیر پیغمبر تھے یا نہیں ؟ ( ابن ابی حاتم ) دار قطنی فرماتے ہیں اس حدیث کی روایت صرف عبدالرزاق سے ہی ہے اور سند سے مروی ہے کہ حضرت عزیر کا نبی ہونا مجھے معلوم نہیں نہ میں یہ جانتا ہوں کہ تبع پر لعنت کروں یا نہیں ؟ اسے وارد کرنے کے بعد حافظ ابن عساکر نے وہ روایتیں درج کی ہیں جن میں تبع کو گالی دینے اور لعنت کرنے سے ممانعت آئی ہے جیسے کہ ہم بھی وارد کریں گے انشاء اللہ ۔ معلوم ایسا ہوتا ہے کہ یہ پہلے کافر تھے پھر مسلمان ہوگئے یعنی حضرت موسیٰ کلیم اللہ کے دین میں داخل ہوئے اور اس زمانے کے علماء کے ہاتھ پر ایمان قبول کیا ۔ بعثت مسیح سے پہلے کا یہ واقعہ ہے جرہم کے زمانے میں بیت اللہ کا حج بھی کیا غلاف بھی چڑھایا اور بڑی تعظیم و تکریم کی چھ ہزار اونٹ نام اللہ قربان کئے اور بھی بہت بڑا طویل واقعہ ہے جو حضرت ابی بن کعب ، حضرت عبداللہ بن عباس سے مروی ہے ۔ اور اصل قصہ کا دارومدار حضرت کعب احبار اور حضرت عبداللہ بن سلام پر ہے ۔ وہب بن منبہ نے بھی اس قصہ کو وارد کیا ہے حافظ ابن عساکر نے اس تبع کے قصے کے ساتھ دوسرے تبع کے قصے کو بھی ملا دیا ہے جو ان کے بہت بعد تھا اس کی قوم تو اس کے ہاتھ پر مسلمان ہو گئی تھی پھر ان کے انتقال کے بعد وہ کفر کیطرف لوٹ گئی ۔ اور دوبارہ آگ اور بتوں کی پرستش شروع کر دی ۔ جیسے کہ سورہ سباء میں مذکور ہے اسی کی تفسیر میں ہم نے بھی وہاں اس کی پوری تفصیل لکھ دی ہے فالحمد للہ ۔ حضرت سعید بن جبیر فرماتے ہیں اس تبع نے کعبے پر غلاف چڑھایا تھا آپ لوگوں کو منع کرتے تھے کہ اس تبع کو برا نہ کہو یہ درمیان کا تبع ہے اس کا نام اسعد ابو کرب بن ملکیرب یمانی ہے ۔ اس کی سلطنت تین سو چھبیس سال تک رہی اس سے زیادہ لمبی مدت ان بادشاہوں میں سے کسی نے نہیں پائی ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے تقریبًا سات سو سال پہلے اس کا انتقال ہوا ہے مورخین نے یہ بھی بیان کیا ہے کہ ان دونوں موسوی عالموں نے جو مدینے کے تھے انہوں نے جب تبع بادشاہ کو یقین دلایا کہ یہ شہر نبی آخر الزمان حضرت احمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ہجرت گاہ ہے تو اس نے ایک قصیدہ کہا تھا اور اہل مدینہ کو بطور امانت دے گیا تھا جو ان کے پاس ہی رہا اور بطور میراث ایک دوسرے کے ہاتھ لگتا رہا اور اس کی روایت سند کے ساتھ برابر چلی آتی رہی یہاں تک کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت کے وقت اس کے حافظ ابو ایوب خالد بن زید عضی اللہ عنہ تھے اور اتفاق سے بلکہ بہ حکم اللہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نزول اجلال بھی یہیں ہوا تھا اس قصیدے کے یہ اشعار ملاحظہ ہوں ( شھدت علی احمد انہ رسول من اللہ باری النسیم فلو مد عمری الی عمرہ لکنت وزیر الہ و ابن عم وجاھدت بالسیف اعداء ہ وفرجت عن صدرہ کل غم ) یعنی میری تہ دل سے گواہی ہے کہ حضرت احمد مجتبیٰ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اس اللہ کے سچے رسول ہیں جو تمام جانداروں کا پیدا کرنے والا ہے ۔ اگر میں اس کے زمانے تک زندہ رہا تو قسم اللہ کی آپ کا ساتھی اور آپ کا معاون بن کر رہوں گا اور آپ کے دشمنوں سے تلوار کے ساتھ جہاد کروں گا اور کسی کھٹکے اور غم کو آپ کے پاس تک پھٹکنے نہ دوں گا ۔ ابن ابی الدنیا میں ہے کہ دور اسلام میں صفا شہر میں اتفاق سے قبر کھد گئی تو دیکھا گیا کہ دو عورتیں مدفون ہیں جن کے جسم بالکل سالم ہیں اور سرہانے پر چاندی کی ایک تختی لگی ہوئی ہے جس میں سونے کے حروف سے یہ لکھا ہوا ہے کہ یہ قبر حی اور لمیس کی ہے اور ایک روایت میں ان کے نام حبی اور تماخر ہیں یہ دونوں تبع کی بہنیں ہیں یہ دونوں مرتے وقت تک اس بات کی شہادت دیتی رہیں کہ لائق عبادت صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے یہ دونوں اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتی تھیں ۔ ان سے پہلے کے تمام نیک صالح لوگ بھی اسی شہادت کے ادا کرتے ہوئے انتقال فرماتے رہے ہیں ۔ سورہ سباء میں ہم نے اس واقعہ کے متعلق سبا کے اشعار بھی نقل کر دئیے ہیں ۔ حضرت کعب فرمایا کرتے تھے کہ تبع کی تعریف قرآن سے اس طرح معلوم ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی قوم کی مذمت کی ان کی نہیں کی حضرت عائشہ سے منقول ہے کہ تبع کو برا نہ کہو وہ صالح شخص تھا ابن ابی حاتم میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تبع کو گالی نہ دو وہ مسلمان ہو چکا تھا طبرانی اور مسند احمد میں بھی یہ روایت ہے عبدالرزاق میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ مجھے معلوم نہیں تبع نبی تھا یا نہ تھا ؟ اور روایت میں اس سے پہلے گذر چکی کہ میں نہیں جانتا تبع ملعون تھا یا نہیں ؟ فاللہ اعلم ۔ یہی روایت حضرت ابن عباس سے بھی مروی ہے حضرت عطاء بن ابو رباح فرماتے ہیں تبع کو گالی نہ دو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں برا کہنا منع فرمایا ہے ۔ واللہ تعالیٰ اعلم ۔
34۔ 1 یہ اشارہ کفار مکہ کی طرف ہے۔ اس لئے کہ سلسلہ کلام ان ہی سے متعلق ہے۔ درمیان میں فرعون کا قصہ ان کی تنبیہ کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔
ان ھولاء لیقولون : یہاں موسیٰ (علیہ السلام) کا قصہ ختم ہوا جو جملہ معترضہ کے طور پر درمیان میں آگیا تھا اور دوبارہ سلسلہ کلام کفار قریش کے ساتھ جوڑ دیا یا، جوپ ہلے سے چلا آرہا تھا اور کفار سے فرمایا تھا :(لا الہ الا ھو یحی ویمیت ربکم و رب ابائکم الاولین بل ھم فی شک یلعبون) (الدخان :9 8)” اس کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ زندگی بخشتا اور موت دیتا ہے، تمہارا رب ہے اور تمہارے پہلے باپ دادا کا رب ہے۔ بلکہ وہ ایک شک میں کھیل رہے ہیں۔ “ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے اپنے زندگی بخشنے اور موت دینے کو قیامت کی دلیل کے طور پر پیش فرمایا ہے اور بتایا ہے کہ کفار شک میں ہی پڑے ہوئے ہیں۔ فرعون کی سرکشی اور غرقابی کے ذکر کے بعد کفار قریش کا ذکر ” ھولآئ “ (یہ لوگ) کہہ کر حقارت کے ساتھ فرمایا کہ فرعون جیسے قوت و شوکت اور رعب و دبدبے والے منکروں کا انجام سن چکے ، اب ان لوگوں کی بات سنو جو اس کے مقابلے میں کچھ قوت نہیں رکھتے، یہ بھی ہمارے دوبارہ زندہ کرنے کی قدرت کو ماننے کے لئے تیار نہیں بلکہ کہتے ہیں۔
خلاصہ تفسیر - یہ لوگ (قیامت کی وعیدیں سن کر قیامت کا انکار کرتے ہیں اور) کہتے ہیں کہ اخیر حالت بس یہی ہمارا دنیا کا مرنا ہے اور ہم دوبارہ زندہ نہ ہوں گے (مطلب یہ کہ اخیر حالت وہ اخروی زندگی نہیں بلکہ یہ دنیوی موت ہی اخیر حالت ہے جس کے عبد کچھ ہونا نہیں ہے) سو (اے مسلمانو ) اگر تم (آخرت کے دعوے میں) سچے ہو تو (انتظار کون کرے، ابھی) ہمارے باپ دادوں کو (زندہ کرا کے) لا موجود کرو (آگے ان کے کفریات پر تہدید ہے کہ ان کو ذرا سوچنا چاہئے کہ) یہ لوگ (قوت و شوکت میں) زیادہ بڑھے ہوئے ہیں یا تبع (بادشاہ یمن) کی قوم اور جو قومیں ان سے پہلے ہو گزر رہی ہیں (مثلاً عاد وثمود وغیرہ یعنی یہ قومیں زیادہ بڑھی ہوئی تھیں مگر) ہم نے ان کو (بھی) ہلاک کر ڈالا ( محض اس لئے کہ) وہ نافرمان تھے (سو یہ لوگ اگر نافرمانی سے باز نہ آئیں گے تو یہ کیونکر اپنے کو بچالیں گے) اور (آگے قیامت کی صحت اور حکمت کا بیان ہے کہ) ہم نے آسمانوں اور زمین کو اور جو کچھ ان کے درمیان میں ہے اس کو اس طور پر نہیں بنایا کہ ہم فعل عبث کرنے والے ہوں (بلکہ) ہم نے ان دونوں کو (ان کی دوسری مخلوقات سمیت) کسی حکمت ہی سے بنایا ہے (مثلاً ان سے ایک تو اللہ کی قدرت کاملہ پر دلالت ہوتی ہے، دوسرے جزا و سزا کا ثبوت ملتا ہے) لیکن اکثر لوگ نہیں سمجھتے (کہ جو ذات ایسے عظیم اجسام کو ابتداء پیدا کرنے پر قادر ہو وہ ان کی دوبارہ تخلیق پر بھی قادر ہے) بیشک فیصلہ کا دن (یعنی قیامت کا دن) ان سب (کے دوبارہ زندہ ہونے اور جزاء و سزا ملنے) کا وقت مقرر ہے (جس کا وقوع اپنے موقع پر ضرور ہوگا، آگے قیامت کے کچھ واقعات ہیں۔ یعنی) جس دن کوئی علاقہ والا کسی علاقہ والے کے ذرا کام نہ آوے گا اور نہ اور ہی کسی کی طرف سے، مثلاً ان کے مزعومہ خداؤں کی طرف سے) ان کی کچھ حمایت کی جاوے گی، ہاں مگر جس پر اللہ رحم فرما دے (کہ رحمت سے اس کے حق میں باری تعالیٰ کی اجازت سے کی گئی سفارش کام آوے گی اور اللہ اس کا ناصر ہوگا) وہ (اللہ) زبردست ہے (کافروں سے انتقام لے گا) مہربان ہے (مسلمانوں پر رحمت فرما دے گا۔ )
اِنَّ ہٰٓؤُلَاۗءِ لَيَقُوْلُوْنَ ٣٤ ۙ - «أَلَا»«إِلَّا»هؤلاء - «أَلَا» للاستفتاح، و «إِلَّا» للاستثناء، وأُولَاءِ في قوله تعالی: ها أَنْتُمْ أُولاءِ تُحِبُّونَهُمْ [ آل عمران 119] وقوله : أولئك : اسم مبهم موضوع للإشارة إلى جمع المذکر والمؤنث، ولا واحد له من لفظه، وقد يقصر نحو قول الأعشی: هؤلا ثم هؤلا کلّا أع طيت نوالا محذوّة بمثال - الا) الا یہ حرف استفتاح ہے ( یعنی کلام کے ابتداء میں تنبیہ کے لئے آتا ہے ) ( الا) الا یہ حرف استثناء ہے اولاء ( اولا) یہ اسم مبہم ہے جو جمع مذکر و مؤنث کی طرف اشارہ کے لئے آتا ہے اس کا مفرد من لفظہ نہیں آتا ( کبھی اس کے شروع ۔ میں ھا تنبیہ بھی آجاتا ہے ) قرآن میں ہے :۔ هَا أَنْتُمْ أُولَاءِ تُحِبُّونَهُمْ ( سورة آل عمران 119) دیکھو تم ایسے لوگ ہو کچھ ان سے دوستی رکھتے ہواولائک علیٰ ھدی (2 ۔ 5) یہی لوگ ہدایت پر ہیں اور کبھی اس میں تصرف ( یعنی بحذف ہمزہ آخر ) بھی کرلیا جاتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ہے ع (22) ھؤلا ثم ھؤلاء کلا اعطیتہ ت نوالا محذوۃ بمشال ( ان سب لوگوں کو میں نے بڑے بڑے گرانقدر عطیئے دیئے ہیں - قول - القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] ،- ( ق و ل ) القول - القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔
(٣٤۔ ٣٥) مگر محمد آپ کی قوم یہی کہتی ہے کہ ہماری زندگی بس دنیوی زندگی ہے اور یہیں کا مرنا ہے اور ہم مرنے کے بعد پھر زندہ نہیں کیے جائیں گے اور محمد اگر تم اپنے دعوے بعثت میں سچے ہو۔
آیت ٣٤ اِنَّ ہٰٓؤُلَآئِ لَیَقُوْلُوْنَ ” یہ لوگ تو یہی کہہ رہے ہیں۔ “- ہٰٓؤُلَآئِ سے یہاں اہل مکہ مراد ہیں۔ چونکہ یہ مکی سورت ہے اس لیے بنی اسرائیل کا ذکر کرنے کے بعد اب مشرکین مکہ کے اقوال و عقائد پر تبصرہ ہونے جا رہا ہے۔